Tafseer-e-Mazhari - An-Naml : 47
فَبَعَثَ اللّٰهُ غُرَابًا یَّبْحَثُ فِی الْاَرْضِ لِیُرِیَهٗ كَیْفَ یُوَارِیْ سَوْءَةَ اَخِیْهِ١ؕ قَالَ یٰوَیْلَتٰۤى اَعَجَزْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِثْلَ هٰذَا الْغُرَابِ فَاُوَارِیَ سَوْءَةَ اَخِیْ١ۚ فَاَصْبَحَ مِنَ النّٰدِمِیْنَ٤ۚۛۙ
فَبَعَثَ : پھر بھیجا اللّٰهُ : اللہ غُرَابًا : ایک کوا يَّبْحَثُ : کریدتا تھا فِي الْاَرْضِ : زمین میں لِيُرِيَهٗ : تاکہ اسے دکھائے كَيْفَ : کیسے يُوَارِيْ : وہ چھپائے سَوْءَةَ : لاش اَخِيْهِ : اپنا بھائی قَالَ : اس نے کہا يٰوَيْلَتٰٓى : ہائے افسوس مجھ پر اَعَجَزْتُ : مجھ سے نہ ہوسکا اَنْ اَكُوْنَ : کہ میں ہوجاؤں مِثْلَ : جیسا هٰذَا : اس۔ یہ الْغُرَابِ : کوا فَاُوَارِيَ : پھر چھپاؤں سَوْءَةَ : لاش اَخِيْ : اپنا بھائی فَاَصْبَحَ : پس وہ ہوگیا مِنَ : سے النّٰدِمِيْنَ : نادم ہونے والے
اب خدا نے ایک کوّا بھیجا جو زمین کریدنے لگا تاکہ اسے دکھائے کہ اپنے بھائی کی لاش کو کیونکر چھپائے کہنے لگا اے ہے مجھ سے اتنا بھی نہ ہو سکا کہ اس کوے کے برابر ہوتا کہ اپنے بھائی کی لاش چھپا دیتا پھر وہ پشیمان ہوا
فبعث اللہ غرابا یبحث فی الارض لیریہ کیف یورای سواۃ اخیہ اس کے بعد اللہ نے ایک کوا بھیجا کہ وہ زمین کھودتا تھا تاکہ وہ (اللہ یا کوا) قابیل کو بتادے کہ بھائی کی لاش کو کس طرح چھپائے۔ اس جگہ اراء تکا معنی ہے بتادینا تعلیم دینا۔ دکھانا مراد نہیں ہے کیونکہ دیکھنے میں کوے کا دفن کرنا آیا تھا۔ ہابیل کی لاش کو دفن کرنا اور چھپانا تو نہیں دکھایا گیا۔ سواۃ سے مراد ہے مردہ لاش۔ مردہ لاش کو دیکھنا برا معلوم ہوتا ہے (سوۃ کا لغوی ترجمہ برائی ہے) بعض کے نزدیک جسم کا قابل ستر حصہ مراد ہے جس کی بےپردگی جائز نہیں۔ کوے کو دفن کرنے کی تدبیر بتائی اور براہ راست قابیل کو نہیں بتائی بلکہ کوے کو رہنما بنایا یہ تنبیہ ہے۔ اس امر پر کہ اللہ کی نظر میں قابیل کوے سے بھی زیادہ حقیر تھا اسی لئے تو کوے کو اس کا معلم اور اس کو کوے کا شاگرد بنایا۔ قال یویلتی اعجزت ان اکون مثل ہذا الغراب فاواری سواۃ اخی قابیل نے کہا ہائے افسوس کیا میں اس کوے کی طرح ہونے سے بھی گیا گزرا کہ اپنے بھائی کی لاش کو چھپا دیتا۔ ویلتی میں آخری الف بجائے یاء متکلم کے آیا ہے اصل میں وَیْلَتِیتھا ویلۃ (اور ویلٌ) حسرت و افسوس کا کلمہ ہے اس کا معنی ہے ہلاکت۔ یا کلمہ ندبہ (نوحہ) ہے جیسے یاحَسْرَتَا۔ اَعَجَزْتُمیں استفہام سے مراد ہے اظہار تعجب۔ فاواریکا عطف اکون پر ہے۔ یہ استفہام کا جواب نہیں ہے ورنہ مطلب اس طرح ہوجائے گا کہ اگر میں عاجز ہوتا تو بھائی کی لاش کو چھپا دیتا (گویا اصل مطلب الٹ جائے گا) فاصبح من الندمین پھر (سال بھر تک پشت پر لادے پھرنے پر) پشیمان ہوگیا۔ بعض نے کہا بھائی کی جدائی پر پشیمان ہوا اور بعض نے قتل پر پشیمان ہونا مراد لیا ہے قتل پر پشیمان ہونے سے یہ مراد نہیں کہ اس کو اپنے اس جرم پر ندامت ہوئی اور خیال ہوا کہ میں نے گناہ کا کام کیا بلکہ ندامت اس بات پر ہوئی کہ قتل کرنے کی وجہ سے ماں باپ کو بھی ناراض کیا اور فائدہ بھی کچھ نہ ہوا۔ مطلب بن عبداللہ بن حنطب کا بیان ہے کہ جب آدم ( علیہ السلام) کے بیٹے نے اپنے بھائی کو قتل کردیا تو زمین میں لرزہ آگیا۔ پھر پانی کی طرح مقتول کا خون زمین نے پی لیا (سطح زمین پر خون کا کوئی نشان نہیں رہا) اور اللہ نے قابیل کو ندا کی تیرا بھائی کہاں ہے۔ قابیل نے کہا مجھے نہیں معلوم۔ میں اس کا نگراں نہیں تھا۔ اللہ نے فرمایا تیرے بھائی کا خون مجھے زمین سے پکار رہا ہے تو نے کس وجہ سے اپنے بھائی کو قتل کیا۔ قابیل نے کہا اگر میں نے اس کو قتل کیا ہے تو اس کا خون کہاں ہے (اللہ نے کوئی جواب نہیں دیا) اسی دن سے اللہ نے خون کو زمین میں جذب ہونے کی ممانعت کردی۔ روایت میں آیا ہے کہ قتل کے بعد قابیل کا بدن کالا پڑگیا۔ حضرت آدم ( علیہ السلام) نے قابیل سے بھائی کے متعلق دریافت کیا تو قابیل نے کہا میں اس کا ذمہ دار نہ تھا۔ حضرت آدم ( علیہ السلام) نے فرمایا یہ بات نہیں بلکہ تو نے اس کو قتل کیا ہے اسی وجہ سے تیرا بدن کالا ہوگیا۔ حضرت آدم قابیل سے بیزار ہوگئے اور اس کے بعد سو برس تک کبھی نہیں ہنسے۔ مقاتل بن سلیمان نے بروایت ضحاک حضرت ابن عباس ؓ کا بیان نقل کیا ہے کہ قابیل نے ہابیل کو قتل کیا تو اس زمانہ میں حضرت آدم مکہ میں تھے قتل ہونے کے بعد درخت خاردار ہوگئے۔ کھانے سڑنے لگے ‘ پھلوں میں ترشی پیدا ہوگئی۔ پانی شور ہوگیا ‘ اور زمین غبار آلود بن گئی (یعنی ہابیل کی شہادت سے پہلے ایسی کوئی بات نہ تھی ‘ نہ درختوں میں کانٹے ہوتے تھے نہ کھانا سڑتا تھا نہ پھلوں میں ترشی اور پانی میں نمکینی تھی نہ زمین پر غبار ہوتا تھا) حضرت آدم ( علیہ السلام) نے فرمایا زمین پر ضرور کوئی نیا واقعہ ہوا ہے۔ چناچہ آپ ہندوستان آگئے۔ یہاں آکر دیکھا کہ قابیل نے ہابیل کو قتل کردیا ہے۔ آپ فوراً یہ شعر پڑھنے لگے۔ سب سے پہلے آپ نے ہی شعر کہے۔ (ترجمہ) بستیاں اور بستیوں کے رہنے والے بدل گئے۔ روئے زمین غبار آلود اور بدنما ہوگیا۔ ہر مزہ دار چیز کا مزہ اور رنگدار چیز کا رنگ بگڑ گیا اور خوبصورت چہروں کی شگفتگی معدوم ہوگئی۔ میمون بن مہران کی روایت میں حضرت ابن عباس ؓ کا قول آیا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا جو شخص کہتا ہے کہ حضرت آدم ( علیہ السلام) نے یہ شعر کہے ہیں وہ جھوٹا ہے۔ اللہ اور اللہ کے رسول پر دروغ بندی کرتا ہے محمد ﷺ اور تمام انبیاء شعر (نہ کہنے) میں برابر ہیں۔ ہاں جب قابیل نے ہابیل کو قتل کردیا تو حضرت آدم نے کچھ دردناک کلام کہا جو سریانی زبان میں تھا اور حضرت شیث ( علیہ السلام) سے فرمایا بیٹے تو میرا وصی ہے اس کلام کو یاد کرلے تاکہ آئندہ لوگوں میں یہ منتقل ہوتا رہے اور لوگ اس کو سن کر ہابیل پر رقت کا اظہار کرتے رہیں چناچہ آپ کا وہ دردناک کلام برابر منتقل ہوتا رہا ‘ یہاں تک کہ یعرب بن قحطان کو پہنچا۔ یعرب عربی بھی بولتا تھا اور سریانی بھی اور شعر بھی کہتا تھا اسی نے سب سے پہلے تحریر عربی ایجاد کی۔ یعرب نے حضرت آدم کے کلام کو (ترجمہ میں) کچھ پیچھے آگے کر کے موزوں کردیا۔ مذکورۂ بالا اشعار میں کچھ شعر اور بھی ہیں جن میں سے دو شعر مندرجہ ذیل ہیں (ترجمہ) کیا وجہ کہ میں آنسو بہانے میں بخل سے کام لوں حالانکہ ہابیل کو قبر نے اپنے اندر سما لیا۔ میں پوری زندگی اپنے اوپر غم دیکھتا رہوں گا۔ کاش میں اپنی زندگی سے راحت پاسکتا۔ ہابیل کی شہادت کے پانچ سال بعد جب حضرت آدم ( علیہ السلام) کی عمر ایک سو تیس برس کی ہوگئی تو حضرت حوا کے بطن سے شیث ( علیہ السلام) پیدا ہوئے آپ کا نام ہبۃ اللہ تھا یعنی آپ ہابیل کے قائم مقام ہوئے۔ اللہ نے آپ کو رات دن کی ساعتوں کا علم دیا اور ہر ساعت کی ایک عبادت کی تعلیم دے دی۔ اللہ نے آپ پر پچاس صحیفے نازل فرمائے اور آپ حضرت آدم ( علیہ السلام) کے وصی اور جانشین قرار پائے۔ قابیل کا قصہ یہ ہوا کہ اس سے کہہ دیا گیا جا مردود مارا مارا پھر ‘ تجھے امن نصیب نہ ہو ‘ تو جس کو دیکھے اس کی طرف مطمئن نہ رہے ‘ قابیل اپنی بہن اقلیما کا ہاتھ پکڑ کر عدن علاقہ یمن کو بھاگ گیا۔ وہاں اس سے ابلیس نے آکر کہا ہابیل چونکہ آگ کو پوجتا تھا اس لئے آگ نے اس کی قربانی کھالی تو بھی آگ (کے لئے آتشکدہ) قائم کرتا کہ آگ تیرے اور تیری نسل کے لئے ہوجائے قابیل نے حسب مشورہ آتشکدہ بنا دیا اور سب سے پہلے اسی نے آگ کی پوجا کی۔ قابیل کی اولاد نے آلات لہو بانسری ‘ ڈھول ‘ باجے ‘ عود اور طنبورے بنائے اور لہو و لعب ‘ شراب خواری ‘ زنا ‘ عیاشی اور آتش پرستی میں منہمک ہوگئے آخر حضرت نوح کے زمانہ میں اللہ نے سب کو طوفان بھیج کر غرق کردیا اور حضرت شیث کی نسل باقی رہ گئی۔ حضرت ابن مسعود ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص ظلم سے قتل کیا جاتا ہے اس کی خون کا ایک حصہ آدم کے پہلے بیٹے کی گردن پر ہوتا ہے کیونکہ قتل کا دستور سب سے پہلے اسی نے ایجاد کیا ہے۔ رواہ البخاری۔ بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت ابن عمرو ؓ کا قول لکھا ہے کہ آدم ( علیہ السلام) کا قاتل بیٹا (دوسرے) دوزخیوں کے عذاب کا آدھا حصہ صحیح طور پر تقسیم کر کے اپنے لئے لے لے گا (یعنی سارے دوزخیوں کا آدھا عذاب اس پر ہوگا) ابن عساکر نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ‘ جو شخص اپنے بھائی کو سال بھر چھوڑے رکھے گا (یعنی قطع تعلق رکھے گا) وہ اللہ کے سامنے قابیل کے گناہ کا حامل ہوجائے گا۔ سوائے دوزخ میں داخلہ کے اس کو قابیل سے کوئی چیز جدا نہیں کرے گی (یعنی قیامت کے دن وہ قابیل کا ساتھی ہوگا۔ مگر دوزخ میں قابیل سے الگ ہوگا کیونکہ قابیل کا عذاب سخت اور طویل ہوگا)
Top