Tafseer-e-Mazhari - Adh-Dhaariyat : 54
فَتَوَلَّ عَنْهُمْ فَمَاۤ اَنْتَ بِمَلُوْمٍ٢ۗ٘
فَتَوَلَّ عَنْهُمْ : پس منہ موڑ لو ان سے فَمَآ اَنْتَ : پس نہیں آپ بِمَلُوْمٍ : جن پر ملامت کی جائے
تو ان سے اعراض کرو۔ تم کو (ہماری) طرف سے ملامت نہ ہوگی
فتول عنھم فما انت بملوم سو آپ انکی طرف التفات نہ کیجئے اپ پر کسی طرح کا الزام نہیں فَتَوَلَّ عَنْھُمْ : یعنی جب آپ بار بار ان کو دعوت اسلام دے چکے اور انہوں نے بغض وعناد کی وجہ سے اس کو قبول نہیں کیا تو اب ان سے جھگڑا نہ کیجئے ‘ ان کی طرف توجہ نہ کیجئے۔ فَمَا اَنْتَ بِمَلُوْمٍ : جب آپ ﷺ ان کو بقدر امکان دعوت دے چکے اور اپنی طاقت کے موافق کوشش کرچکے تو اب ان کی طرف سے روگردانی اور اعراض سے آپ قابل ملامت نہیں قرار دیئے جاسکتے۔ ابن جریر ‘ ابن ابی حاتم ‘ ابن منیع ‘ ابن راہویہ ‘ ابن ہیثم بن کلیب نے بروایت مجاہد حضرت علی کا قول نقل کیا ہے کہ جب آیت : فَتَوَلَّ عَنْھُمْ فَمَا اَنْتَ بِمَلُوْمٍ نازل ہوئی تو ہم میں سے ہر شخص کو ہلاک ہونے کا یقین ہوگیا کیونکہ اللہ نے اپنے پیغمبر کو لوگوں کی طرف سے بےرخی اختیار کرنے کا حکم دے دیا ‘ اسکے بعد جب وَ ذَکِّرْ فَاِنَّ الذِّکْرٰی تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَ نازل ہوئی تو ہم سب خوش اور مطمئن ہوگئے۔ ابن جریر نے لکھا ہے کہ قتادہ نے کہا ہم سے ذکر کیا گیا کہ جب آیت : فَتَوَلَّ عَنْھُمْ نازل ہوئی تو صحابہ کو اس کا نزول بڑا شاق ہوا اور انہوں نے کہا : اب وحی منقطع ہوگئی اور عذاب کا آنا یقینی ہوگیا۔ اس پر اللہ نے آیت : وَذَکِّرْ فَاِنَّ الذِّکْرٰی ..... نازل فرمائی۔ کذا ذکر البغوی قول المفسرین .
Top