Tafseer-e-Mazhari - Al-Ankaboot : 7
مَا قَطَعْتُمْ مِّنْ لِّیْنَةٍ اَوْ تَرَكْتُمُوْهَا قَآئِمَةً عَلٰۤى اُصُوْلِهَا فَبِاِذْنِ اللّٰهِ وَ لِیُخْزِیَ الْفٰسِقِیْنَ
مَا قَطَعْتُمْ : جو تم نے کاٹ ڈالے مِّنْ : سے لِّيْنَةٍ : درخت کے تنے اَوْ : یا تَرَكْتُمُوْهَا : تم نے اس کو چھوڑدیا قَآئِمَةً : کھڑا عَلٰٓي : پر اُصُوْلِهَا : اس کی جڑوں فَبِاِذْنِ اللّٰهِ : تو اللہ کے حکم سے وَلِيُخْزِيَ : اور تاکہ وہ رسوا کرے الْفٰسِقِيْنَ : نافرمانوں کو
(مومنو) کھجور کے جو درخت تم نے کاٹ ڈالے یا ان کو اپنی جڑوں پر کھڑا رہنے دیا سو خدا کے حکم سے تھا اور مقصود یہ تھا کہ وہ نافرمانوں کو رسوا کرے
ما قطعتم من لینۃ او ترکتموھا قائمۃ علی اصولھا فباذن اللہ و لیخزی الفاسقین . ” جو کھجوروں کے درخت تم نے کاٹ ڈالے یا ان کو ان کی جگہ کھڑا رہنے دیا۔ سو یہ (سب) اللہ (کے حکم اور اس) کی اجازت سے ہوا اور یہ (اس لیے ہوا) کہ اللہ کافروں کو رسوا کر دے۔ “ مَا قَطَعْتُمْ مِّنْ لِّیْنَۃٍ : جو درخت تم نے کاٹے جیسے ابو لیلیٰ نے عجوہ کے درخت کاٹے یا درختوں کو نہیں کاٹا ‘ کھڑا چھوڑ دیا جیسے عبداللہ بن سلام نے عجوہ کے درخت کھڑے چھوڑ دیئے۔ لِّیْنَۃٍ : لُون سے مشتق ہے۔ اس کی جمع الوان آتی ہے ‘ بعض کے نزدیک لین سے مشتق ہے۔ (کذا فی الصحاح) بغوی نے لکھا ہے کہ علماء نے لینۃٍ کے مختلف معنی بیان کیے ہیں ‘ بعض اہل علم نے کہا : ہر قسم کے کھجور کے درختوں کو لینۃ کہتے ہیں ‘ اس میں عجوہ کے درخت شامل نہیں ہیں۔ یہ قول عکرمہ اور قتادہ کا ہے۔ زاذان کی روایت میں حضرت ابن عباس کا بھی یہی قول آیا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ عجوہ کو چھوڑ کر دوسرے کھجور کے درختوں کو کٹوا رہے تھے۔ عجوہ کے علاوہ باقی کھجوروں کے درختوں کو مدینہ والے الوان کہتے تھے۔ الوان کا واحد لینۃ اور لین ہے۔ زہری نے کہا : عجوہ اور برنیہ کے علاوہ دوسرے تمام اقسام کے کھجور کے درختوں کو الوان کہا جاتا ہے۔ مجاہد اور عطیہ نے کہا ‘ بغیر تحقیق کے ہر کھجور کے درخت کو لینۃ کہا جاتا ہے۔ سفیان نے کہا : کھجور کے اعلیٰ درختوں کو لینۃ کہتے ہیں۔ مقاتل نے کہا : لینۃ ایک قسم کا کھجور کا درخت ہوتا ہے جس کے پھل کو لون کہا جاتا ہے۔ یہ رنگ میں بہت زرد (اور اتنا شفاف) ہوتا ہے کہ اندر کی گٹھلی باہر سے دکھائی دیتی ہے اور (گودا اتنا نرم ہوتا ہے کہ) ڈاڑھ اس میں گھس جاتی ہے۔ عرب اس کو بہت پسند کرتے ہیں۔ اس کے ایک درخت کی قیمت رصیف کی قیمت کے برابر ہوتی ہے اور عرب کو رصیف سب سے زیادہ مرغوب ہے۔ فَبِاِذْنِ اللہ : یعنی ان درختوں کو کاٹنا یا نہ کاٹنا اور کھڑے رہنے دینا سب اللہ کی اجازت سے ہے۔ اس میں کوئی گناہ نہیں ہے۔ بخاری نے حضرت ابن عمر کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے بنی نضیر کے کھجور کے درخت جلوا دیئے اور کٹوا دیئے تھے ان (جلے ‘ کٹے درختوں) کو بویرہ کہا جاتا ہے (بویرۃٌ بائرۃٌ کی تصغیر ہے ‘ بائرۃ کا معنی ہے تباہ شدہ اور اس کا مادہ بور ہے) ۔ ( کذا روی اصحاب الکتب) ابو لیلیٰ نے ضعیف سند سے حضرت جابر کی روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اجازت دے کر درخت خرما کٹوائے تھے ‘ پھر بنی نضیر پر زیادہ سختی کی ( اور بہت درخت جلوائے اور کٹوائے تھے تو) صحابہ ؓ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! ﷺ ہم نے کچھ درخت کاٹ ڈالے اور کچھ چھوڑ دیئے ‘ کیا اس فعل سے ہم پر کوئی گناہ عائد ہوا ؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ لَیُخْزِیَ الْفٰسِقِیْنَ : یعنی کاٹنے کی اجازت دے کر یہودیوں کو ذلیل کرنا اللہ کا مقصود ہے۔ مسئلہ اس آیت کی روشنی میں امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا کہ اگر مسلم حاکم کافروں کے کسی قلعہ کا محاصرہ کرے تو وہاں کے درختوں کو کٹوانا اور کھیتیاں اجاڑ دینا اور ان کے مکانوں کو ڈھا دینا اور ان میں آگ لگا دینا جائز ہے۔ ابن ہمام (رح) نے کہا : یہ جواز اس وقت ہے جب اس کے بغیر کافروں کے مغلوب کرنے اور گرفتار کرنے کا غالب ظن نہ ہو لیکن اگر یہ گمان غالب ہو کہ کافر اس فعل کے بغیر مغلوب ہو ہی جائیں گے اور فتح ہو کر رہے گی تو آگ لگانا ‘ اجاڑنا اور تباہی پھیلانا جائز نہیں کیونکہ اس صورت میں یہ بےضرورت تباہ کاری ہوگی اور اجازت ضرورت کے ماتحت تھی۔ امام احمد (رح) نے فرمایا : یہ فعل دو شرطوں میں سے ایک شرط سے جائز ہے : 1) کافروں نے بھی ہمارے ساتھ یہی سلوک کیا ہو ‘ 2) ہم کو درخت کٹوا دینے اس لیے ضروری ہوں کہ لڑائی اور کافروں سے مقابلہ بغیر اس فعل کے دشوار ہو۔ امام شافعی (رح) نے فرمایا کہ کافروں کے مکانوں اور درختوں کو اجاڑنا اور تباہ کرنا جنگی ضرورت اور فتح حاصل کرنے کے لیے جائز ہے۔ اسی طرح اس صورت میں بھی عمل جائز ہے ‘ جب امید فتح نہ ہو ‘ اگر کامیابی کی امید ہو تو ایسا نہ کرنا مستحب ہے۔ آیت زیر تفسیر اور مذکورہ بالا دونوں حدیثیں قطع اشجار کو جائز قرار دے رہی ہیں۔ امام احمد (رح) نے حضرت اسامہ بن زید کا بیان نقل کیا ہے۔ حضرت اسامہ ؓ نے فرمایا : مجھے رسول اللہ ﷺ نے ایک بستی کی طرف بھیجا اور فرمایا : وہاں علی الصباح پہنچنا اور آ گ لگا دینا۔ ابن جوزی نے اپنے مسلک (یعنی امام احمد (رح) کے قول) کے استدلال میں بیان کیا ہے کہ ہمارے اصحاب کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی فوج کو کہیں بھیجتے تھے تو فرما دیتے تھے ‘ کسی چشمہ کو نہ پاٹنا اور سوائے ان درختوں کے جو قتال میں رکاوٹ پیدا کر رہے ہوں اور کسی درخت کو نہ کاٹنا۔ رہیں مذکورہ بالا دونوں حدیثیں یعنی ایک حضرت ابن عمر کی روایت کردہ حدیث اور دوسری حضرت اسامہ ؓ کی نقل کردہ حدیث تو ان کی مراد وہی ہے جو ہم نے بیان کردی ہے (یعنی صرف جنگی ضرورت کے زیر اثر ایسا کرنا جائز ہے) ہم کہتے ہیں۔ ابن جوزی نے جو جواز کی خاص صورت بیان کی ہے اس کا کوئی ثبوت نہیں۔ بنی نضیر نے مدینہ کے درخت نہیں کاٹے تھے (اس سے امام احمد کی بیان کردہ پہلی صورت کی نفی ہوجاتی ہے) ( نہ اس بات کا ثبوت ہے کہ صرف جنگی ضرورت سے قطع اشجار جائز ہے بلکہ آیت میں صراحت کردی گئی ہے کہ یہودیوں کو ذلیل کرنے اور دشمنان خدا کو خوار بنانے اور ان کے زور کو توڑنے کے لیے اللہ نے درختوں کو کاٹنے کا حکم دیا ہے کوئی اور مقصد نہیں ہے۔ ہاں ! اتنی بات ضرور ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب درختوں کو کاٹ دینے کا حکم دیا تھا ‘ اس وقت فتح یاب ہونے کا غالب خیال نہیں تھا۔ آیت : مَا ظَنَنْتُمْ اَنْ یَّخْرُجُوْا وَظَنُّوْٓا اَنَّھُمْ مَا نِعَتُھُمْ حُصُوْنُھُمْ بھی اسی پر دلالت کر رہی ہے۔ امام احمد (رح) نے قطع اشجار کی ممانعت کے سلسلہ میں جو حدیث نقل کی ہے۔ اگر اس کی صحت ثابت بھی ہوجائے تب بھی قرانی آیت کے مقابلہ میں اس کو نہیں لایا جاسکتا۔ آیت تو جواز قطع کو مستلزم ہے۔ بغوی نے لکھا ہے جب بنی نضیر اپنے گھر اور زمینیں چھوڑ کر چلے گئے تو خیبر کے مال غنیمت کی طرح مسلمانوں نے ان متروکہ گھروں اور زمینوں کی تقسیم کی بھی خواہش کی۔ اس پر آیت ذیل نازل ہوئی :
Top