Tafseer-e-Mazhari - An-Naba : 28
وَّ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا كِذَّابًاؕ
وَّكَذَّبُوْا : اور انہوں نے جھٹلایا بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیات کو كِذَّابًا : جھٹلانا
اور ہماری آیتوں کو جھوٹ سمجھ کر جھٹلاتے رہتے تھے
و کذبوا بایتنا کذابا . اور ہماری آیات کی وہ پوری پوری تکذیب کرتے تھے۔ تمام بدعتیوں میں یہ وصف موجود ہے۔ جیسا کہ ہم المرسلات میں ذکر کرچکے ہیں۔ دیکھو رافضی تمام مناقب صحابہ کے منکر ہیں اور سب کو مرتد یا منافق قرار دیتے ہیں۔ ہاں تین صحابیوں کو اس حکم (ارتداد و نفاق) سے مستثنیٰ کہتے ہیں ‘ ان کا خیال ہے کہ حضرت عمر ؓ بن خطاب اور دوسرے خلفاء کے ہاتھ میں جب اقتدار اعلیٰ آیا تو انہوں نے زمین پر فساد بپا کردیا ‘ ان کا یہ بھی گمان ہے کہ صحابہ کا دور بدترین دور تھا اور صحابہ ؓ کی جماعت بدترین جماعت تھی حالانکہ (صحابہ کو خطاب کرتے ہوئے) اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ : کنتم خیر امۃ اور الذین ان مکنّاھم فی الارض اقاموا الصلٰوۃ ... اور (اصحاب حدیبیہ کے متعلق فرمایا) لقد ؓ عن المؤمنین اور (اصحاب حدیبیہ کے متعلق فرمایا) اذیبایعونک تحت الشجرۃ فعلم مافی قلوبھم اور السابقون الاولون من المھاجرین و الانصار اور ان کے علاوہ بکثرت آیات ہیں (جن میں صحابہ کی مدح ہے) ۔ کِذابًا مصدر ہے ‘ تکذیب کا ہم معنی۔ یہ استعمال عمومی ہے یا کذابًا باب مفاعلت کا مصدر ہے یعنی مکاذبۃ یعنی وہ کافروں کی نظر میں جھوٹے ہیں اور ان کی نظر میں مسلمان جھوٹے ہیں یا کذابًا مبالغہ کا صیغہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ وہ دوسرے کذابوں کی طرح بڑے جھوٹے ہیں۔ مسئلہ ہماری تفسیر کے موافق آیت سے اہل بدعت کے عذاب پر روشنی پڑتی ہے ‘ رہے مسلمان اہل کبائر ‘ تو ان کے قیام جہنم کی انتہائی مدت میعاد دنیا کے برابر ہوگی یعنی سات ہزار برس اور ان کو حمیم نہیں پلایا جائے گا ‘ نہ اس طرح کا کوئی دوسرے عذاب ہوگا۔ ابن ابی حاتم اور ابن شاہین نے حضرت علی ؓ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمام امتوں کے (مؤمن) اہل کبائر اگر بغیر توبہ کے مرگئے تو ان میں سے جو لوگ جہنم میں داخل ہوں گے۔ ان کی آنکھیں نیلی نہ ہوں گی ‘ چہرے کالے نہ ہوں گے۔ شیطانوں کے ساتھ زنجیروں سے ان کو باندھا نہ جائے گا۔ نہ ان کے گلے میں زنجیروں کے طوق ڈالے جائیں گے ‘ نہ ان کو حمیم پلایا جائے گا ‘ نہ ان کو قطران کا لباس پہنایا جائے گا۔ اللہ نے ان کے اجسام کے لیے دوام جہنم حرام کردیا ہے اور سجدہ کی وجہ سے ان کے چہروں کو آگ پر حرام کردیا ہے ‘ ان میں سے بعض لوگوں کو آگ صرف قدموں تک ہی پکڑے گی ‘ بعض کو (صرف) ایڑیوں تک ‘ بعض کو کمر تک ‘ بعض کو گلے تک گناہوں اور عملوں کی مقدار کے بقدر آگ گرفت کرے گی۔ بعض اس میں سال بھر رہ کر نکل آئیں گے ‘ سب سے لمبی مدت قیام جہنم کی ان کے لیے دنیا کی عمر کے برابر ہوگی۔ یعنی ابتداء آفرنیش دنیا سے لے کر فناء دنیا تک (جتنی مدت ہوگی اتنی ہی ان کے جہنم میں رہنے کی مدت ہوگی) ۔ (الحدیث) حاکم نے نوادر الاصول میں حضرت ابوہریرہ کی روایت سے ایسی ہی حدیث نقل کی ہے۔ اس میں یہ بھی ہے کہ ان کو گرزوں سے نہیں مارا جائے گا اور طبقۂ جہنم میں نہیں پھینکا جائے گا ‘ ان میں سے کچھ لوگ ایک ساعت جہنم میں رہ کر نکل آئیں گے ‘ کچھ ایک دن رہ کر نکل آئیں گے ‘ کچھ سال بھر رہیں گے۔ ان کی سب سے لمبی مدت قیام اتنی ہوگی جتنی دنیا کے روز آفرنیش سے فناء دنیا تک ہوگی اور یہ سات ہزار (برس کی) ہوگی۔ میں کہتا ہوں حدیث میں سال سے مراد یہی دنیوی سال ہے کیونکہ اسی سے ان کا قیام جہنم مدت دنیا کے مساوی ہوگا۔ بعض روایات میں یہ بھی مرفوعاً آیا ہے جس کے راوی ابن سعید ہیں کہ بعض ایماندار اہل کباہر کو گناہوں کی سزا میں آگ دکھ پہنچائے گی اور اللہ ان پر موت طاری کر دے گا ‘ لیکن جب اذن شفاعت ہوگا اور ان کی معافی ہوجائے گی تو اللہ ان کو پھر زندہ کر دے گا۔ مگر کافروں کی حالت اس کے خلاف ہوگی وہ دوزخ کے اندر نہ مریں گے ‘ نہ جئیں گے۔
Top