Tafseer-e-Mazhari - An-Naba : 29
وَ كُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنٰهُ كِتٰبًاۙ
وَكُلَّ شَيْءٍ : اور ہر چیز کو اَحْصَيْنٰهُ : شمار کر رکھا ہے ہم نے اس کو/ گھیر رکھا ہے ہم نے اس کو كِتٰبًا : کتاب میں
اور ہم نے ہر چیز کو لکھ کر ضبط کر رکھا ہے
و کل شی ءٍ . یہ فعل محذوف کا مفعول ہے جس کی تشریح آئندہ فعل میں کی گئی ہے۔ یعنی طاغیوں کے ہر عمل اور ہر بیہودگی کو ہم نے گھیر لیا ہے (احاطۂ عددی کرلیا ہے) ۔ احصینہ کتابا . کتابًا یا تمییز ہے یا حال ہے اور کتاب (مصدر) بمعنی مکتوب ہے یا مفعول مطلق ہے جیسے ضربتھُم سوطًا میں نے ان کو ضرب تازیانہ لگائی یعنی میں نے ان کے ہر عمل کا اس طرح احصاء کرلیا ہے جیسے تحریر احصاء کرلیتی ہے یا کتاباً فعل محذوف کا مفعول ہے یعنی ہم نے ان کے اعمال کو احاطہ کرلیا ہے اور لوح محفوظ میں یا کرامًا کاتبین کے اعمال ناموں میں لکھ رکھا ہے ‘ کہا گیا ہے کہ یہ جملہ معترضہ ہے۔ میرے نزدیک وفاقًا کی علت ہے جیسے : انھم کانوا لا جرجون حسابًا۔ جزاءً ا کی علت ہے۔ مطلب یہ ہوگا کہ ہم ان کو اس لیے سزا دیں گے کہ وہ حساب کا انکار اور تکذیب کرتے تھے اور یہ سزا ان کے اعمال کے موافق ہوگی کیونکہ ان کے اعمال اور بیہودگیاں ہم نے لکھی ہیں ‘ کوئی چیز بغیر لکھے نہیں رہی ‘ اسی کے مطابق ان کو سزا ملے گی۔
Top