Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Mazhari - Al-Anfaal : 42
اِذْ اَنْتُمْ بِالْعُدْوَةِ الدُّنْیَا وَ هُمْ بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوٰى وَ الرَّكْبُ اَسْفَلَ مِنْكُمْ١ؕ وَ لَوْ تَوَاعَدْتُّمْ لَاخْتَلَفْتُمْ فِی الْمِیْعٰدِ١ۙ وَ لٰكِنْ لِّیَقْضِیَ اللّٰهُ اَمْرًا كَانَ مَفْعُوْلًا١ۙ۬ لِّیَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْۢ بَیِّنَةٍ وَّ یَحْیٰى مَنْ حَیَّ عَنْۢ بَیِّنَةٍ١ؕ وَ اِنَّ اللّٰهَ لَسَمِیْعٌ عَلِیْمٌۙ
اِذْ
: جب
اَنْتُمْ
: تم
بِالْعُدْوَةِ
: کنارہ پر
الدُّنْيَا
: ادھر والا
وَهُمْ
: اور وہ
بِالْعُدْوَةِ
: کنارہ پر
الْقُصْوٰي
: پرلا
وَالرَّكْبُ
: اور قافلہ
اَسْفَلَ
: نیچے
مِنْكُمْ
: تم سے
وَلَوْ
: اور اگر
تَوَاعَدْتُّمْ
: تم باہم وعدہ کرتے
لَاخْتَلَفْتُمْ
: البتہ تم اختلاف کرتے
فِي الْمِيْعٰدِ
: وعدہ میں
وَلٰكِنْ
: اور لیکن
لِّيَقْضِيَ
: تاکہ پورا کردے
اللّٰهُ
: اللہ
اَمْرًا
: جو کام
كَانَ
: تھا
مَفْعُوْلًا
: ہو کر رہنے والا
لِّيَهْلِكَ
: تاکہ ہلاک ہو
مَنْ
: جو
هَلَكَ
: ہلاک ہو
عَنْ
: سے
بَيِّنَةٍ
: دلیل
وَّيَحْيٰي
: اور زندہ رہے
مَنْ
: جس
حَيَّ
: زندہ رہنا ہے
عَنْ
: سے
بَيِّنَةٍ
: دلیل
وَاِنَّ
: اور بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
لَسَمِيْعٌ
: سننے والا
عَلِيْمٌ
: جاننے والا
جس وقت تم (مدینے سے) قریب کے ناکے پر تھے اور کافر بعید کے ناکے پر اور قافلہ تم سے نیچے (اتر گیا) تھا۔ اور اگر تم (جنگ کے لیے) آپس میں قرارداد کرلیتے تو وقت معین (پر جمع ہونے) میں تقدیم وتاخیر ہو جاتی۔ لیکن خدا کو منظور تھا کہ جو کام ہو کر رہنے والا تھا اسے کر ہی ڈالے تاکہ جو مرے بصیرت پر (یعنی یقین جان کر) مرے اور جو جیتا رہے وہ بھی بصیرت پر (یعنی حق پہچان کر) جیتا رہے۔ اور کچھ شک نہیں کہ خدا سنتا جانتا ہے
(حاشیہ سابقہ آیت) امام ابوحنیفہ کے قول کا ثبوت مجمع بن جاریہ انصاری کے بیان سے ملتا ہے ‘ مجمع نے کہا : خیبر کا مال غنیمت حدیبیہ والوں کو تقسیم کیا گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے کل مال کے اٹھارہ سو حصے کئے۔ کل لشکر کی تعداد پندرہ سو تھی جن میں تین سو سوار تھے۔ حضور ﷺ نے سوار کو دو حصے اور پیادہ کو ایک حصہ عطا فرمایا (بارہ سو پیدلوں کے بارہ سو حصے اور تین سو سواروں کے چھ سو حصے ‘ کل اٹھارہ سو) رواہ ابو داؤد۔ ابو داؤد نے کہا : یہ (راوی کا) وہم ہے ‘ صرف دو سو سوار تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے گھوڑے کے دو حصے اور آدمی کا یعنی سوار کا ایک حصہ دیا تھا۔ شافعی کا یہی قول ہے۔ ہم نے بھی سورة الفتح میں خیبر کے مال غنیمت کے تذکرہ کے ذیل میں یہی بیان کیا ہے۔ حضرت مقداد بن عمر کی حدیث ہے کہ آپ بدر کے دن اپنے گھوڑے پر سوار تھے جس کو سبحہ کہا جاتا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے آپ کو دو حصے عطا فرمائے ‘ ایک حصہ گھوڑے کا اور ایک حصہ آپ کی ذات کا۔ رواہ الطبرانی۔ اس حدیث کی روایت میں واقدی ضعیف راوی ہے۔ واقدی نے مغازی میں حضرت جعفر بن خارجہ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ حضرت زبیر بن عوام نے فرمایا : بنی قریظہ کی جنگ میں میں موجود تھا اور سوار تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک حصہ میرا اور ایک حصہ میرے گھوڑے کا دیا۔ ابن مردویہ نے اپنی تفسیر میں حضرت عروہ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ حضرت عائشہ نے فرمایا کہ بنی مصطلق کے کچھ قیدی باندی غلام رسول اللہ ﷺ کے قبضے میں آئے۔ آپ نے ان میں سے پانچواں حصہ نکالنے کے بعد باقی مسلمانوں کو بانٹ دئیے ‘ سوار کو دوہرا حصہ دیا اور پیادہ کو اکہرا۔ اس حدیث کی سند اس طرح ہے : محمد بن محمد سری از منذر بن محمد از محمد پدر منذر از یحییٰ بن محمد بن ہانی از محمد بن اسحاق از محمد بن جعفر بن زبیر از عروہ۔ ابن ابی شیبہ نے مصنف میں بروایت ابو اسامہ وابن نمیر از عبیدا اللہ از نافع حضرت ابن عمر کا بیان نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سوار کا دوہرا حصہ اور پیدل کا اکہرا حصہ مقرر کیا۔ دارقطنی نے بھی اس سند سے یہ حدیث نقل کر کے کہا کہ ابوبکر نیشاپوری کہتے تھے کہ میرے نزدیک یہ ابن ابی شیبہ کی چوک ہے کیونکہ احمد بن حنبل اور عبدالرحمن بن بشیر وغیرہ نے ابن نمیر کی روایت سے یہ حدیث ابن ابی شیبہ کی نقل کے خلاف بیان کی ہے ‘ اس میں سوار کے تین حصے اور پیدل کا ایک حصہ ہونے کی صراحت ہے۔ اس کے بعد دارقطنی نے ابن ابی شیبہ کی حدیث کی طرح حدیث نقل کی ہے جس کی سند یہ ہے : نعیم از ابن مبارک از عبیدا اللہ بن عمر از نافع از عبد اللہ بن عمر۔ ابن جوزی نے کہا : اس روایت میں شاید چوک نعیم کی ہے کیونکہ ابن مبارک تو بڑے صحیح الحافظہ لوگوں میں سے تھے مگر ابن ہمام نے نعیم کو قابل اعتماد کہا ہے۔ دارقطنی نے یونس بن عبدالاعلیٰ کی روایت سے بسلسلۂ ابن وہب از عبیدا اللہ بن عمر از نافع از عبد اللہ بن عمر بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ گھوڑوں کا بھی حصہ دیتے تھے ‘ سوار کے دو حصے اور پیادہ کا ایک حصہ۔ ابن ابی مریم اور خالد بن عبدالرحمن نے بروایت عبد اللہ بن عمر عمری روایت مذکورہ کی متابعت کی ہے۔ قعنبی نے بھی عمری کا یہ بیان نقل کیا ہے مگر اس میں شک ظاہر کیا ہے کہ حدیث میں فارس (سوار) کا لفظ ہے یا فرس (گھوڑے) کا۔ دارقطنی نے بروایت حجاج بن منہال از حماد بن سلمہ از عبیدا اللہ بن عمر از نافع از عبد اللہ بن عمر بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سوار کو دو حصے اور پیدل کو ایک حصہ تقسیم کر کے دیا۔ نضر بن محمد بن حماد نے اس کی مخالفت کی ہے۔ ابن ہمام نے لکھا ہے کہ عبیدا اللہ کی روایت کو جن لوگوں نے تعارض کے ساتھ بیان کیا ہے ‘ ان میں سے کرخی بھی ہیں لیکن بیہقی کی روایت زیادہ مضبوط ہے۔ ابن جوزی نے عبیدا اللہ بن عمر کو ضعیف کہا ہے۔ دارقطنی نے اپنی سند سے بروایت عبدالرحمن بن امین حضرت ابن عمر کا بیان نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سوار کے دو حصے اور پیادہ کا ایک حصہ بانٹ کردیا کرتے تھے۔ امام ابویوسف نے بحوالۂ حسن بن عمارہ از حکم بن عیسنبہ از مقسم حضرت ابن عباس کا بیان نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بدر کا مال غنیمت اس طرح تقسیم کیا کہ سوار کو دو حصے اور پیدل کو ایک حصہ دیا۔ امام ابو یوسف نے کتاب الخراج میں لکھا ہے کہ فقیہ اعظم ابوحنیفہ (ا اللہ ان کو اپنی رحمت میں چھپالے) فرماتے تھے کہ پیدل کا ایک حصہ ہے اور سوار (یا گھوڑے) کا بھی ایک حصہ ہے اور فرماتے تھے : میں چوپائے کو مردمسلم پر فضیلت نہیں دے سکتا (کہ گھوڑے کو دو حصے دوں ‘ غالباً اس قول میں لفظ فارس سے امام کی مراد گھوڑا ہے) ۔ امام اعظم مندرجۂ ذیل اثر کی روشنی میں ایک حصہ گھوڑے کا اور ایک حصہ آدمی کا قرار دیتے تھے۔ زکریا بن حارث نے منذر بن ابی حمصہ ہمدانی کا بیان نقل کیا کہ حضرت عمر کے کسی غلام نے (جو مجاہدین کے کسی دستہ کا سردار تھا) شام کے کسی جہاد میں مال غنیمت کی تقسیم اس طرح کی کہ گھوڑے کا ایک حصہ اور آدمی کا ایک حصہ دیا۔ اس کی اپیل حضرت عمر سے کی گئی ‘ آپ نے یہ تقسیم جاری رکھی۔ لیکن جن آثار و احادیث میں گھوڑے کے دو حصے اور آدمی کا ایک حصہ آیا ہے ‘ ان کی تعداد بھی زیادہ ہے اور مذکورہ اثر سے زیادہ وہ قابل اعتماد بھی ہیں اور عموماً جمہور کا معمول مختار بھی یہی ہے۔ رہی یہ بات کہ اس صورت میں گھوڑے کا درجہ آدمی کے برابر یا بڑھ کر ہوجائے گا تو واقعہ ایسا نہیں ہے بلکہ اس میں سامان جہاد کے بیش از بیش فراہم کرنے کی ترغیب ہے کہ ہر شخص زیادہ تیاری کی کوشش کرے اور لوگ جہاد کیلئے گھوڑوں کی پرورش و پرداخت کریں۔ دیکھو ! گھوڑے کے حصہ سے گھوڑے کو کیا فائدہ پہنچتا ہے ؟ اس کا حصہ تو مالک کے پاس چلا جاتا ہے ‘ گھوڑے کو کچھ نہیں ملتا۔ ابن ہمام نے کہا : قاعدہ یہ ہے کہ جب روایات میں اختلاف ہو تو نفی کو ترجیح دی جاتی ہے ‘ اسلئے تین حصوں والی روایت کو ہم تنفیل (مقررہ حصہ سے زائد یعنی مزید انعام) پر محمول کریں گے۔ اور حضرت جابر کے بیان میں جو آیا ہے کہ ہمارے سوار کو تین سہام عطا فرمائے اور اسی طرح کی دوسری روایات تو ان سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی مقررہ ضابطہ نہ تھا ورنہ حدیث کے الفاظ اس طرح ہوتے : ” رسول اللہ ﷺ ہمارے سوار کو تین سہام دیا کرتے تھے ‘ تین حصے دینے کا حکم دیا کرتے تھے ‘ حضور ﷺ نے ایسا حکم جاری کردیا تھا “۔ باقی ابو کبشہ والی مندرجۂ بالا حدیث تو وہ روایۃً صحیح نہیں ہے۔ مسئلہ : اگر کسی کے پاس دو گھوڑے ہوں تو امام مالک ‘ امام ابوحنیفہ اور امام شافعی کے نزدیک اس کو صرف ایک گھوڑے کا حصہ ملے گا۔ امام مالک نے مؤطأ میں لکھا ہے کہ ایک گھوڑے سے زائد کا حصہ میں نے نہیں سنا۔ امام ابو یوسف اور امام احمد کے نزدیک دو گھوڑوں کا حصہ دیا جائے گا ‘ دو سے زائد کا باتفاق علماء نہیں دیا جائے گا۔ امام ابو یوسف کے قول کی تائید مندرجۂ ذیل روایات سے ہوتی ہے۔ دارقطنی نے بشیر بن عمر بن محصن کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے میرے دو گھوڑوں کے چار حصے اور ایک حصہ میرا عنایت فرمایا۔ عبدالرزاق نے مکحول کی روایت سے بیان کیا ہے کہ غزوۂ خیبر میں حضرت زبیر دو گھوڑوں کے ساتھ شریک ہوئے تھے ‘ رسول اللہ ﷺ نے حضرت زبیر کو پانچ حصے عطا فرمائے۔ یہ روایت منقطع ہے۔ مغازی میں واقدی نے عبدالملک بن یحییٰ کی روایت سے لکھا ہے کہ عیسیٰ بن عمر نے بیان کیا کہ خیبر کی جنگ میں حضرت زبیر کے پاس دو گھوڑے تھے ‘ رسول اللہ ﷺ نے ان کو پانچ حصے دئیے۔ واقدی نے حارث بن عبد اللہ بن کعب کی روایت سے بیان کیا ہے کہ خیبر میں رسول اللہ ﷺ تین گھوڑے لے کر آئے تھے : لزاز ‘ ضرب ‘ سکب اور حضرت زبیر بن عوام چند گھوڑے ہمراہ لائے تھے اور حراس بن صمت دو گھوڑے لائے تھے اور براء بن اوس اور ابو عمرہ انصاری بھی دو دو گھوڑے لائے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے دو دو گھوڑوں والوں کو چار چار حصے اور ایک ایک حصہ ان کی ذات کا ‘ کل پانچ پانچ حصے دئیے اور دو گھوڑوں سے زائد کا حصہ نہیں دیا۔ ابن جوزی نے اپنی سند سے بروایت سعید بن منصور بوساطت ابن عیاش اوزاعی کا بیان نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ گھوڑوں کا حصہ دیا کرتے تھے اور کسی کو دو گھوڑوں سے زائد کا حصہ نہیں دیتے تھے ‘ خواہ اس کے ساتھ دس گھوڑے ہوتے۔ سعید بن منصور نے بروایت فرج بن فضالہ بحوالۂ محمد بن ولید ‘ زہری کا یہ بیان نقل کیا ہے کہ حضرت عمر نے حضرت ابو عبیدہ بن جراح کو لکھا کہ ایک گھوڑے کے دو حصے اور دو گھوڑوں کے چار حصے اور ان کے مالک کا ایک حصہ دو ‘ یہ پانچ حصے ہوئے۔ دو گھوڑوں سے زائد (کا حصہ نہ دو ) وہ کو تل ہیں۔ امام ابو یوسف نے کتاب الخراج میں لکھا ہے کہ ہم سے ابن یحییٰ بن سعید نے حسن کا قول بیان کیا کہ اگر جہاد میں کسی کے پاس چند گھوڑے ہوں تو مال غنیمت میں سے دو گھوڑوں سے زائد کا حصہ نہ دیا جائے۔ محمد بن اسحاق نے بروایت یزید بن یزید بن جابر ‘ مکحول کا قول بیان کیا ہے کہ دو گھوڑوں سے زائد کا حصہ نہ دیا جائے۔ صاحب ہدایہ نے لکھا ہے کہ امام ابو یوسف اور امام احمد کے قول کی تائید میں جو روایات پیش کی گئی ہیں ‘ ان سب میں (مال غنیمت کا مقررہ حصہ مراد نہیں ہے بلکہ) انعامی حصہ مراد ہے۔ جیسے حضرت سلمہ بن اکوع کو رسول اللہ ﷺ نے دوہرا حصہ دیا تھا باوجودیکہ آپ پیدل تھے (سوار نہ تھے) ۔ میں کہتا ہوں : ایک گھوڑے کے دو حصے اور دو گھوڑوں کے چار حصے بطور انعام قرار دینا اسی صورت میں صحیح ہوسکتا ہے کہ امام کو یہ اختیار ہو کہ بغیر سابق اعلان کے لڑائی کے بعد بعض مجاہدین کو (ان کی کوشش کی قدر کرتے ہوئے) ان کے حصہ سے زائد (بطور انعام) دے سکے اور لڑائی سے پہلے ایسا اعلان رسول اللہ ﷺ نے کیا ہو ‘ یہ بات مذکورہ احادیث میں سے کسی میں مروی نہیں۔ مسئلہ : دارالاسلام میں مال غنیمت پہنچنے سے پہلے اگر لڑائی ختم ہونے کے بعد مجاہدین کو کمک پہنچ جائے اور امدادی فوج دارالحرب میں مجاہدین سے جا ملے (لیکن جنگ میں شریک نہ ہونے پائے) تو تینوں اماموں کے نزدیک مال غنیمت میں ان کا حصہ نہیں لگایا جائے گا اور امام اعظم کے نزدیک ان کو بھی حصہ دیا جائے گا۔ جمہور کے مسلک کی تائید مندرجۂ ذیل روایات سے ہوتی ہے۔ ابن ابی شیبہ اور طحاوی نے صحیح سند کے ساتھ طارق بن شہاب اخمسی کا بیان نقل کیا ہے کہ اہل بصرہ نے نہاوند میں جہاد کیا۔ کوفہ والے حضرت عمار بن یاسر کی زیر قیادت اہل بصرہ کی کمک کو پہنچے لیکن اہل بصرہ غالب آ چکے تھے۔ ان کا ارادہ ہوا کہ کمک والوں کو مال غنیمت سے حصہ نہ دیں۔ ایک تمیمی اور بقول طحاوی ‘ بنی عطارد کا ایک شخص (حضرت عمار سے) کہنے لگا : کن کٹے غلام ! تو ہمارے مال غنیمت میں ہمارا ساجھی بننا چاہتا ہے ؟ حضرت عمار نے حضرت عمر کو واقعہ لکھا ‘ حضرت عمر نے لکھ کر بھیجا کہ مال غنیمت اس کا ہے جو لڑائی میں شریک ہوا۔ حضرت عمار کا ایک کان اس وقت کٹ گیا تھا جب آپ رسول اللہ ﷺ کے ہمرکاب کسی جہاد میں شریک ہوئے تھے۔ حضرت عمار نے فرمایا : میرا بہترین کان وہ تھا جو کام آگیا۔ طبرانی نے مرفوعاً اور موقوفاً بیان کیا ہے : مال غنیمت اس کا ہے جو جنگ میں شریک ہوا۔ یہ روایت موقوفاً صحیح ہے ‘ مرفوعاً غیرصحیح ہے۔ ابن عدی نے بطریق بختری بن مختار بروایت عبدالرحمن بن مسعود قول مذکور کا قائل حضرت علی کو قرار دیا ہے ‘ یعنی یہ حدیث موقوف ہے (فرمان رسول اللہ ﷺ نہیں ہے) امام شافعی نے زید بن عبد اللہ بن قسیط کے طریق سند سے بیان کیا ہے کہ حضرت ابوبکر نے حضرت عکرمہ بن ابی جہل کی قیادت میں پانچ سو مسلمانوں کی فوج دے کر زیاد بن لبید کی مدد کیلئے بھیجا۔ اس روایت کے آخر میں ہے کہ حضرت ابوبکر نے لکھا بھیجا کہ مال غنیمت اس کا ہے جو جنگ میں حاضر ہوا۔ یہ روایت منقطع ہے۔ حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابان بن سعید بن عاص کو ایک فوجی دستہ کے ساتھ نجد کی جانب بھیجا۔ حضرت ابان فتح خیبر کے بعد (واپس) پہنچے تو رسول اللہ ﷺ نے (خیبر کی غنیمت میں سے) ان کو حصہ نہیں دیا۔ رواہ ابو داؤد و ابو نعیم موصولاً والبخاری تعلیقاً ۔ حنفیہ کی طرف سے اس حدیث کا جواب اس طرح دیا گیا کہ فتح کے بعد خیبر دارالسلام ہوگیا تھا ‘ پس خیبر کا مال غنیمت خیبر میں موجود ہوتے ہوئے بھی دارالسلام میں آگیا اور محفوظ ہوگیا۔ اس کے بعد حضرت ابان اپنے دستہ کے ساتھ پہنچے تو ظاہر ہے کہ دارالسلام میں مال پہنچنے اور جمع ہونے کے بعد جو کمک پہنچے گی ‘ وہ مال غنیمت میں حصہ پانے کی مستحق نہ ہوگی۔ صحیحین میں ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری نے فرمایا کہ جب خیبر فتح ہوگیا تو ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچے۔ حضور ﷺ نے ہم کو بھی حصہ دیا اور ہماری کشتی والوں کے علاوہ اور کسی ایسے شخص کو حصہ نہیں دیا جو فتح خیبر کے وقت وہاں موجود نہ تھا۔ ابن حبان نے کہا : حضرت ابو موسیٰ کے ساتھیوں کو رسول اللہ ﷺ نے خمس کے خمس (یعنی اپنے حصہ) میں سے (بطور عنایت و انعام) عطا فرمایا تھا (مجاہدین کے 5؍4 حصوں میں سے نہیں دیا تھا) ۔ مسئلہ : لشکر کے ساتھ جانے والے تاجروں اور گھوڑوں کے سائیسوں کیلئے مال غنیمت میں امام اعظم کے نزدیک کوئی حصہ نہیں ‘ جب تک وہ مار دھاڑ میں حصہ نہ لیں۔ امام شافعی کے نزدیک سب کا حصہ ہوگا کیونکہ حدیث نبوی ان الغنیمۃ لمن شھد الواقعۃ عام ہے۔ یہ لوگ موقع جنگ پر موجود ہوتے ہیں ‘ اسلئے ان کا بھی مال غنیمت میں حصہ ہے۔ شافعی کا استدلال دو وجہوں سے غلط ہے ‘ اوّل تو یہ کہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان نہیں بلکہ صحابی کا قول ہے ‘ مرفوع ہونا اس کا صحیح نہیں ‘ موقوف ہونا صحیح ہے۔ دوسرے مطلب سمجھنے میں غلطی ہے۔ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جو بارادۂ قتال شریک ہوا ہو ‘ اس کو مال غنیمت دیا جائے۔ ارادۂ قتال کا ظہور دو طرح سے ہوتا ہے : یا تو پہلے سے تیاری کرے اور جہاد کیلئے روانہ ہونے کا اظہار کرے ‘ یا مار دھاڑ میں شریک ہو (خواہ پہلے سے اظہار نہ کیا ہو ‘ نہ تیاری کی ہو) اگر حدیث کو عموم پر رکھا جائے گا تو فوج کے ساتھ جو عورتیں بچے اور خدمتگار ہوں ‘ ان کو بھی مال غنیمت میں حصہ دار بنانا چاہئے جس کا قائل کوئی بھی نہیں۔ مسلم اور ابو داؤد نے نقل کیا ہے کہ حضرت ابن عباس سے دریافت کیا گیا : رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جو عورتیں جہاد پر جاتی تھیں ‘ کیا ان کو مال غنیمت سے حصہ دیا جاتا تھا ؟ حضرت ابن عباس نے فرمایا : موقع جہاد پر جاتی ضرور تھیں لیکن مال غنیمت میں ان کا کوئی حصہ نہیں لگایا جاتا تھا۔ ابو داؤد کی روایت میں اتنا زائد ہے کہ ان کو کچھ چھینٹا دے دیا جاتا تھا (یعنی بغیر حصہ مقرر کئے کوئی چیز دے دی جاتی تھی) یہ روایت بظاہر اس روایت کے خلاف نظر آتی ہے جو ابو داؤد اور نسائی نے بیان کی ہے۔ حشرج بن زیاد نے اپنی دادی کا قول نقل کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے عورتوں کو بھی اسی طرح حصہ دیا جس طرح مردوں کو دیا (لیکن یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ) حشرج راوی مجہول ہے۔ مسئلہ : اگر لڑکے میں جنگ کی سکت ہو اور امام اس کو جہاد میں شریک ہونے کی اجازت دے دے تو امام مالک کے نزدیک مال غنیمت میں اس کا بھی حصہ لگایا جائے گا۔ جمہور کے نزدیک اس کا حصہ نہیں لگایا جائے گا ‘ البتہ چھینٹے کے طور پر اس کو کچھ دے دیا جائے گا۔ لیکن ابو داؤد نے بروایت مکحول بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عورتوں ‘ لڑکوں اور گھوڑوں کا حصہ دیا۔ یہ روایت مرسل ہے اور بالفرض صحیح بھی ہو تو (چونکہ عام احادیث سے اس کا تعارض ہے ‘ اسلئے) اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کو بھی کچھ حصہ چھینٹے کے طور پردے دیا۔ مسئلہ : غیر منقولہ جائداد (زمین ‘ باغ وغیرہ) پر اگر مسلمان بزور شمشیر قابض ہوجائیں گے ‘ یعنی فتح کرلیں گے تو امام شافعی کہتے ہیں کہ منقولہ املاک کی طرح پہلے اس کا پانچواں حصہ نکالا جائے گا ‘ پھر بقیہ چار حصے مجاہدین کو تقسیم کر دئیے جائیں گے۔ خیبر کی جائیداد رسول اللہ ﷺ نے اسی طرح تقسیم کی تھی۔ ایک روایت میں امام احمد کی طرف بھی اس قول کی نسبت کی گئی ہے ‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ ماغَنِمْتُمْ کا لفظ آیت میں عام ہے ( منقولہ اور غیرمنقولہ کی کوئی قید نہیں) ہاں اگر مجاہدین خود اپنی خوشی سے اپنا حق چھوڑ دیں اور اپنا حضہ نہ لیں تو وہ جائیداد عام مسلمانوں کیلئے امام وقف کر دے گا ‘ جس طرح حضرت عمر نے عراق کی زمینوں کے متعلق کیا تھا۔ امام مالک کہتے ہیں کہ غیر منقولہ جائیداد کو مجاہدین میں تقسیم کرنے کا امام کو کوئی حق نہیں بلکہ قبضہ ہوتے ہی وہ ساری جائیداد وقف ہوجائے گی۔ ایک روایت میں امام احمد کا بھی یہی قول ہے۔ دوسری روایت میں اس کے خلاف امام احمد کا قول آیا ہے جس کو ایک روایت میں امام مالک کی طرف بھی منسوب کیا گیا ہے کہ امام کو اختیار ہے خواہ خمس نکالنے کے بعد مجاہدین کو تقسیم کر دے یا عام مسلمانوں کیلئے وقف کر دے۔ امام ابوحنیفہ نے فرمایا : امام کو اختیار ہے کہ خمس نکالنے کے بعد مجاہدین کو تقسیم کر دے ‘ یا خراج پر انہی لوگوں کے قبضہ میں رہنے دے جن کے پاس وہ زمینیں ہوں ‘ یا ان سے نکال کر دوسرے لوگوں کو خراج پردے دے۔ وقف کرنے کا امام کو اختیار نہیں ہے۔ امام احمد نے اپنے قول کے استدلال میں مندرجۂ ذیل احادیث پیش کی ہیں۔ حضرت سہل بن حثمہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر کو برابر برابر کے دو حصوں میں تقسیم کردیا ‘ ایک حصہ اپنی ضروریات و حوائج کیلئے اور دوسرا حصہ مسلمانوں کیلئے۔ مسلمانوں کے حصے کے اٹھارہ سو سہام کر دئیے (بارہ سو سہام بارہ سو پیادوں کے اور چھ سو سہام تین سو سواروں کے) رواہ ابن جوزی۔ طحاوی نے حضرت ابن عباس کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر کو ادھیا کی شرط پر دیا تھا ‘ پھر حضرت ابن رواحہ کو بھیجا ‘ ْ حضرت ابن رواحہ نے جا کر اہل خیبر سے (پیداوار کی) بٹائی کرلی۔ حضرت ابن عمر کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اہل خیبر سے پیداوار کی آدھی آدھی بٹائی کی شرط پر معاملہ کیا تھا۔ حضرت جابر کا بیان ہے کہ اللہ نے جب خیبر کی زمینیں اور باغات وغیرہ عنایت کئے تو رسول اللہ ﷺ نے سابق کی طرح انہی لوگوں کو برقرار رکھا اور (نصف نصف پیداوار کا) ان سے معاہدہ کرلیا۔ پھر حضرت عبد اللہ بن رواحہ کو (پیداوار وصول کرنے کیلئے) ان پر نگراں بنا کر بھیجا۔ اس کے بعد طحاوی نے لکھا ہے : اس سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پورے خیبر کو تقسیم نہیں کیا تھا بلکہ ایک ٹکڑے کو تقسیم کیا تھا اور ایک ٹکڑے کو تقسیم نہیں کیا تھا۔ میں کہتا ہوں : سورة الفتح میں فتح خیبر کے قصہ کے ذیل میں ابن اسحاق کا قول ہم نے ذکر کردیا ہے کہ مال خیبر کی تقسیم تین طرح پر کی گئی تھی : شق ‘ نطاۃ ‘ کثیبہ۔ کثیبہ وہ حصے تھے جو خمس کے کئے گئے تھے اور شق و نطاۃ وہ اٹھارہ سو حصے تھے (جو مجاہدین کے تھے) نطاۃ کے پانچ سو حصے اور شق کے تیرہ سو حصے رہے۔ فطیح اور سلالیم یہ مسلمانوں کی ضروریات کیلئے رکھے گئے تھے۔ ان کا معاملہ نصف بٹائی پر یہودیوں سے کرلیا گیا تھا۔ حضرت ابن رواحہ ہر سال جا کر (فصل پر مقدار پیداوار کا) تخمینہ کرلیا کرتے تھے۔ حضرت عمر نے خیبر کے یہودیوں کو نکال دیا کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے (آغاز معاہدہ کے وقت) ہی فرما دیا تھا کہ ہم جب تک چاہیں گے تم کو رکھیں گے۔ حضرت عمر کی خلافت میں فتح عراق کے بعد (عراق کی زمینوں کے متعلق) صحابہ کی آراء مختلف تھیں۔ امام ابو یوسف نے کتاب الخراج میں لکھا ہے کہ مجھ سے متعدد علماء مدینہ نے بیان کیا کہ جب حضرت سعد بن ابی وقاص کی طرف سے عراق کا لشکر آیا تو حضرت عمر نے عراق اور شام کی خداداد زمینوں کی تقسیم کے متعلق صحابہ سے مشورہ لیا۔ کچھ لوگوں نے خواہش کی کہ مجاہدین نے جو کچھ فتح کیا ہے ‘ وہ سب انہی کو دے دیا جائے۔ حضرت عمر نے کہا : جب زمین اور اس کے غیر مسلم باشندے مجاہدین کو تقسیم کر دئیے جائیں گے اور ہر ایک کا حصہ محفوظ ہوجائے گا اور پھر ان کی نسل کو وہ جائیداد وراثت میں پہنچ جائے گی تو آئندہ آنے والے مسلمان کیا کریں گے ‘ اسلئے میری یہ رائے نہیں ہے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف نے فرمایا : زمین اور اس کے باشندوں کی تقسیم کے متعلق رائے تو وہی ہونی چاہئے جو خداداد مال کے متعلق ہو۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا : بات تو یہ ہے جو آپ فرما رہے ہیں ‘ لیکن میں اس کو مناسب نہیں سمجھتا۔ خدا کی قسم ! میرے بعد کوئی ایسا ملک تو فتح ہوگا نہیں جس سے کوئی بڑا حصول ہو بلکہ ممکن ہے وہ مسلمانوں پر بار ہی ثابت ہو۔ اگر عراق اور شام کی زمینیں غیر مسلم باشندوں سمیت مجاہدین کو بانٹ دی گئیں تو پھر سرحدوں کا انتظام اور اس ملک اور دوسرے ملکوں کے غریبوں اور ناداروں کی اعانت کس مال سے ہوگی ؟ اہل شام و عراق نے حضرت عمر پر ہجوم کرلیا اور کہنے لگے : جو چیز اللہ نے ہم کو ہماری تلواروں کے ذریعہ سے عنایت کی ‘ وہ آپ ایسے لوگوں کیلئے اور ان کے بیٹوں پوتوں کیلئے وقف کر رہے ہیں جو نہ خود جہاد میں حاضر ہوئے نہ ان کے بیٹے پوتے۔ حضرت عمر اس کے جواب میں صرف اتنا فرماتے تھے : یہ میری رائے ہے۔ مجاہدین نے کہا : تو مشورہ کرلیجئے۔ حضرت عمر نے مجاہدین سابقین سے مشورہ طلب کیا تو مختلف لوگوں کی رائے مختلف ہوگئی۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف کی رائے تھی کہ مجاہدین کو ان کے حقوق (یعنی زمینیں) بانٹ دی جائیں۔ حضرت علی ‘ حضرت طلحہ اور حضرت عثمان کی رائے حضرت عمر کی رائے سے موافق تھی۔ حضرت عمر نے کئی بڑے بڑے انصاریوں کو طلب فرمایا ‘ دس قبیلۂ اوس کے اور دس خزرج کے۔ جب سب لوگ اکٹھے ہوگئے تو آپ نے حمد وثناء کے بعد فرمایا : میں نے آپ لوگوں کو صرف اسلئے تکلیف دی ہے کہ جس امانت کا بار میں اٹھائے ہوئے ہوں اور مجھ پر آپ لوگوں کے معاملات کا جو بوجھ ڈالا گیا ہے ‘ اس کے اٹھانے میں آپ بھی میرا ساتھ دیں۔ میں بھی آپ میں سے ایک فرد کی طرح (معمولی) فرد ہوں۔ کچھ لوگوں نے میری (رائے کی) مخالفت کی ‘ کچھ نے موافقت کی ‘ آپ کو حق قائم کرنا چاہئے۔ میں نہیں چاہتا کہ آپ خواہ مخواہ میری رائے پر چلیں۔ آپ کے پاس اللہ کی کتاب ہے جو حق کی تعلیم دے رہی ہے۔ خدا کی قسم ! اگر میں کسی معاملہ کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں تو میرا مقصد اظہار حق ہی ہوتا ہے اور کوئی غرض نہیں ہوتی۔ حاضرین نے کہا : امیر المؤمنین ! (فرمائیے کیا بات ہے) ہم سن رہے ہیں۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا : آپ نے ان لوگوں کا کلام سنا جن کا خیال ہے کہ میں ان کی حق تلفی کر رہا ہوں ‘ میں حق تلفی کرنے سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں۔ اگر میں ان کا واقعی حق ان کو نہ دے دوں اور دوسروں کو ان کا حق دے دوں تو یہ میری بدبختی ہوگی۔ بات اتنی ہے کہ میرے خیال میں کسریٰ کے ملک کے بعد کوئی ملک قابل فتح نہیں رہا اور اللہ نے ہم کو ان کا مال ‘ ان کی زمینیں اور ان کی غیرمسلم بستیاں عنایت فرما دیں۔ جو (منقول) مال غنیمت تھا ‘ خمس نکالنے کے بعد میں نے مجاہدین کو تقسیم کردیا اور خمس کا بھی جو مصرف ہے ‘ اسی مصرف میں میں اس کو لا رہا ہوں لیکن زمینیں اور ان کی غیر مسلم بستیاں میں روکنا چاہتا اور زمینوں کو خراج پر انہی کے پاس رکھنا چاہتا ہوں تاکہ جس طرح ان کی ذات پر (فی کس) جزیہ لاگو ہے ‘ اسی طرح زمین کا خراج بھی ان پر قائم ہوجائے اور وہ (دونوں قسم کی رقمیں) ادا کرتے رہیں اور مسلمانوں کیلئے کچھ ہوجائے ‘ مجاہدین کیلئے بھی ‘ ان کی نسل کیلئے بھی اور آئندہ آنے والے لوگوں کیلئے بھی۔ دیکھو ! سرحدوں کی حفاظت کیلئے بھی آدمی ہونا ضروری ہیں جو سرحدوں پر ہی رہیں۔ ان بڑے بڑے شہروں شام ‘ جزیرۂ کوفہ ‘ بصرہ اور مصر میں بھی فوجوں کی بھرتی ضروری ہے اور محافظین کی تنخواہیں دینی بھی لازم ہیں ‘ اگر میں (ساری) زمینیں اور غیر مسلم بستیاں ان مجاہدین کو بانٹ دوں گا تو ان محافظین کو تنخواہیں کہاں سے دی جائیں گی۔ حاضرین نے بالاتفاق کہا : آپ کی رائے ہی ٹھیک ہے۔ سرحدوں اور ان شہروں کیلئے آدمیوں کی بھرتی ضروری ہے اور ان کی تنخواہیں جاری کرنا بھی لازم ہے تاکہ ان کو قوت حاصل رہے۔ غیر مسلموں کو ان کی بستیوں میں لوٹا دیجئے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا : میرے سامنے حقیقت آگئی ‘ اب مجھے ایک ایسے دانشمند سمجھدار آدمی کی ضرورت ہے جو ہر (قسم کی) زمین کو اس کے مقام پر رکھے اور غیرمسلموں پر اتنا خراج مقرر کرے جو ان کیلئے قابل برداشت ہو۔ لوگوں نے باتفاق عثمان بن حنیف کا نام پیش کیا اور کہا : آپ ان کو اس سے بھی زیادہ اہم کام پر مامور کرسکتے ہیں۔ وہ بڑے صاحب بصیرت ‘ ہوشمند ‘ تجربہ کار شخص ہیں۔ حضرت عمر نے ان کو فوراً طلب کیا اور اراضی عراق کے سروے پر مامور کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ حضرت عمر ؓ کی وفات سے ایک سال پہلے تک صرف علاقۂ کوفہ کا لگان ایک کروڑ درہم تک پہنچ گیا اور اس زمانہ میں درہم کا وزن ایک مثقال (_1 2 4 ماشہ) تھا۔ امام ابو یوسف نے لکھا ہے : مجھ سے محمد بن اسحاق نے زہری کے حوالہ سے بیان کیا کہ حضرت عمر بن خطاب نے فتح عراق کے بعد وہاں کی زمینوں کے متعلق لوگوں سے مشورہ طلب کیا۔ عمومی رائے یہ تھی کہ (مجاہدین کو) اراضی عراق تقسیم کردی جائیں۔ حضرت بلال بن رباح اس خیال میں بہت ہی سخت تھے۔ حضرت عمر کا خیال تھا کہ بغیر تقسیم کے جوں کی توں رہنے دی جائے۔ حضرت عمر نے دعا کی : اے اللہ ! بلال کے مقابلہ میں میری مدد کر۔ غرض دو تین روز یہی جھگڑا رہا ‘ آخر میں حضرت عمر نے فرمایا : میرے پاس میری رائے کی ایک (قطعی) دلیل ہے ‘ اللہ نے سورة الحشر میں فرمایا ہے : مَا اَفَاء اللّٰہُ عَلٰی رَسُولِہٖ مِنْھُمْ .... سے .... وَالَّذِیْنَ جَآءُ وَا من بعدھم .... تک ان آیات کا حکم عمومی ہے جو بعد کو آنے والے لوگ ہیں ‘ ان کو بھی یہ حکم شامل ہے۔ پس یہ سب کا مال ہے ‘ یہ کیسے ممکن ہے کہ ان (مجاہدین) کو (ساری) زمینیں تقسیم کردی جائیں اور پیچھے آنے والوں کو بغیر حصہ دئیے چھوڑ دیا جائے۔ غرض زمینوں کو علی حالہا باقی رکھنے اور لگان وصول کرنے پر حضرت عمر ؓ کی رائے پختہ ہوگئی۔ امام ابو یوسف نے لکھا ہے : مجھ سے لیث بن لیث بن سعد نے بحوالۂ حبیب بن ابی ثابت بیان کیا کہ صحابہ اور جمہور اہل اسلام نے حضرت عمر ؓ سے کہا کہ جس طرح رسول اللہ ﷺ نے خیبر کی زمینیں تقسیم کردی تھیں ‘ اسی طرح آپ بھی شام (کی زمینوں) کی تقسیم کر دیجئے۔ حضرت زبیر بن عوام اور حضرت بلال بن ابی رباح اس خیال کے سخت ترین حامی تھے۔ حضرت عمر ؓ نے کہا : اس صورت میں تو جو مسلمان تم لوگوں کے بعد آنے والے ہیں ‘ ان کو مجھے یونہی چھوڑ دینا پڑے گا۔ پھر دعاء کی : اے اللہ ! بلال کے مقابلہ میں میری مدد کر۔ مسلمانوں کا خیال ہے کہ شام والوں پر جو عمواس کا طاعون آیا ‘ وہ حضرت عمر کی بددعاء کا ہی نتیجہ تھا۔ امام ابو یوسف نے کہا : حضرت عمر نے وہ زمینیں ذمیوں ہی کے ہاتھ میں رہنے دیں ‘ وہ خراج ادا کرتے تھے۔ میں کہتا ہوں : یہ بات ثابت شدہ ہے کہ زمینیں جن کے ہاتھ میں ہوں ‘ انہی کے قبضہ میں ادائے خراج کی شرط پر چھوڑ دینا اجماعی مسئلہ ہے ‘ اس پر اجماع ہوچکا ہے۔ ایک شبہ : اس صورت میں تو لازم آئے گا کہ اجماع سے آیت (وَاعْلَمُوْٓااَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْءٍالخ) کا عمومی حکم منسوخ ہوجائے حالانکہ اجماع سے آیت کا حکم منسوخ نہیں ہوسکتا ‘ نہ اجماع منسوخ ہوتا ہے۔ پھر حضرت عمر کا آیت مَا اَفَاء اللّٰہُ عَلٰی رَسُولِہٖ مِنْ اَھْلِ الْقُرٰیالخ سے استدلال بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ اس آیت میں تو اس مال کا حکم مذکور ہے جس کیلئے مسلمانوں نے لشکر کشی نہ کی ہو اور ہمارا کلام اس اراضی کے سلسلہ میں ہے جس کیلئے مسلمانوں نے لشکرکشی کی ہو۔ شبہ کا ازالہ : امت محمدیہ کا اتفاق گمراہی پر تو ہو نہیں سکتا اور مذکورۂ بالا مسئلہ پر اجماع ہے ‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ (بالاتفاق) آیت مَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ کا حکم عمومی نہیں (بلکہ مخصوص البعض ہے) دیکھو ! رسول اللہ ﷺ کیلئے بعض مال کو اپنے لئے چن لینے کا اختیار تھا۔ قاتل کیلئے مقتول سے چھینا ہوا مال بھی آپ نے مخصوص کردیا تھا اور اس میں خمس جاری نہیں کیا۔ پھر دارالحرب میں مسلمانوں کا لشکر جو کچھ پاتا تھا ‘ کھا سکتا تھا (کھانے کا نہ خمس نکالا جاتا تھا ‘ نہ تقسیم مساویانہ کی جاتی تھی) ۔ محمد بن ابی المجالد نے جب حضرت عبد اللہ بن ابی اوفیٰ سے دریافت کیا کہ آپ لوگ کیا رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں کھانے ( یعنی غلہ ‘ پھل ‘ تیار کھانوں وغیرہ) کا خمس نکالا کرتے تھے ؟ تو فرمایا : خیبر کے دن ہم کو کچھ طعام (غلہ وغیرہ) ہاتھ لگا تھا ‘ ہر شخص اپنی ضرورت کے لائق آ کرلے جاتا تھا (یعنی خمس نہیں نکالا گیا تھا) حضرت ابن عمر کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ایک لشکر کو مال غنیمت میں کچھ طعام اور شہد ملا ‘ اس میں سے خمس نہیں نکالا گیا۔ عبیدالرحمن کے آزاد کردہ غلام قاسم نے بعض صحابیوں کا قول نقل کیا ہے کہ جہاد میں ہم اونٹ کا گوشت کھاتے تھے ‘ تقسیم نہیں کرتے تھے یہاں تک کہ جب اپنے پڑاؤ پر آتے تھے تو ہماری خورجیاں گوشت سے بھری ہوتی تھیں۔ یہ تینوں احادیث ابو داؤد نے نقل کی ہیں۔ فائدہ : شوافع کہتے ہیں کہ حضرت عمر نے جو عراق اور شام کی زمینیں وقف قرار دی تھیں ‘ وہ مستحقین غنیمت کی رضامندی سے کی تھیں ‘ مجاہدین اپنے حقوق سے خود دست بردار ہوگئے تھے۔ ہم کہتے ہیں : اگر ایسا ہوتا تو سب سے پہلے خمس ضرور نکالا جاتا کیونکہ خمس نہ خلیفہ کا ہوتا ہے ‘ نہ مجاہدین کا ‘ نہ کسی کے ساقط کرنے سے ساقط ہوسکتا ہے۔ پھر حضرت عمر ؓ نے ایک جریب انگور اور ایک جریب گندم پر الگ الگ لگان مقرر کیا تھا۔ اب اگر زمین کو عام مسلمانوں کی ملک اور وقف مانا جائے گا اور ایک جریب میں جو کچھ پیدا ہو ‘ اس کے عوض ایک مخصوص رقم کی وصول یابی کو بطور معاوضہ تسلیم کرلیا جائے تو معدوم کی بیع لازم آئے گی (کیونکہ پیداوار تو آئندہ ہوگی اور پیداوار کا عوض ابھی مقرر کردیا گیا) اور ایک خرابی یہ ہوگی کہ جو چیز اپنے پاس اور اپنے قبضہ میں نہ ہو اس کی بیع کو درست قرار دینا ضروری ہوجائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ حضرت عمر ؓ نے عراق و شام کی زمینوں کو مسلمانوں کی ملکیت میں دیا ہی نہ تھا ‘ ملک کافروں ہی کی تسلیم کی تھی اور زمین کا خراج مقرر کردیا تھا جیسے کافروں کی آزادی کو تسلیم کر کے ان پر جزیہ باندھ دیا تھا۔ جزیہ بندی کا یہ معنی تو نہیں کہ کافر ‘ مسلمانوں کا مملوک ہوجاتا ہے اور بحق ملکیت مسلمان ‘ کافروں پر ٹیکس لگا دیتے ہیں کیونکہ جزیہ کا قانون کافر عورتوں ‘ بوڑھے مردوں اور بچوں پر لاگو نہیں ہوتا خواہ بچے اور بوڑھے بعض جوانوں سے زیادہ کمائی کرنے کی طاقت رکھتے ہوں۔ اگر ملکیت کی بناء پر جزیہ کو ٹیکس مانا جائے تو ملکیت کے اندر تو عورتیں ‘ بوڑھے ‘ مرد اور بچے بھی داخل ہیں ‘ ان پر بھی جزیہ لاگو ہونا چاہئے۔ ان کنتم امنتم باللہ وما انزلنا علی عبدنا اگر تم اللہ پر یقین رکھتے ہو اور اس چیز پر جس کو ہم نے اپنے بندہ (محمد ﷺ پر نازل کیا تھا۔ یعنی ملائکہ کے نزول پر ‘ اللہ کی طرف سے غیبی امداد پر اور معجزات پر ایمان رکھتے ہو۔ بدر کے موقع پر متعدد معجزات و آیات کا ظہور ہوا تھا۔ (1) اللہ نے وعدہ کیا تھا کہ دو گروہوں میں سے ایک گروہ پر قابو عنایت کر دے گا ‘ پھر یہ بھی بتادیا کہ مسلمانوں کا میلان خاطر قافلہ کی طرف تھا ‘ قریش کے لشکر کی طرف نہ تھا۔ (2) غیبی بارش آئی جو مسلمانوں کیلئے باعث رحمت اور کافروں کیلئے موجب زحمت تھی۔ (3) اللہ نے مدد کیلئے فرشتوں کو بھیجا کہ مسلمانوں نے ان کی آوازیں سنیں اور یہ صدا ان کے کانوں میں آئی کہ کوئی (گھوڑے کا نام لے کر) کہہ رہا ہے حیزومآگے بڑھ۔ لوگوں نے یہ بھی دیکھا کہ کسی انسان کی تلوار لگنے کے بغیر بعض کافروں کے سر دھڑ سے جدا ہو کر گر رہے ہیں۔ ابوجہل کی لاش پر غیبی کوڑوں کی ضرب کے نشان بھی تھے۔ (4) رسول اللہ ﷺ نے مٹھی بھر کنکریاں کافروں کی طرف پھینکیں جس کی وجہ سے سب کے سب نابینا ہوگئے ‘ سب کی آنکھوں میں کنکریاں پڑگئیں۔ (5) مسلمانوں کو دلیر بنانے کیلئے کافروں کی کثیر تعداد کو مسلمانوں کی نظر میں قلیل بنا کر دکھایا گیا (یعنی مسلمانوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ دشمن کی تعداد ہم سے کم ہے) ۔ (6) رسول اللہ ﷺ نے مشرکوں کی قتل گاہیں مسلمانوں کو پہلے سے تفصیل کے ساتھ بتادیں اور فرما دیا : اس جگہ فلاں آدمی مارا جائے گا ‘ اس جگہ فلاں۔ چناچہ مسلمانوں نے دیکھ لیا کہ رسول اللہ ﷺ نے جو فرمایا تھا ‘ وہ صحیح نکلا۔ (7) رسول اللہ ﷺ نے عقبہ بن ابی معیط سے فرمایا تھا کہ اگر مکہ کے پہاڑوں سے باہر میں نے تجھے پا لیا تو پکڑوا کر ‘ بندھوا کر مار ڈالوں گا۔ چناچہ یہ بات پوری ہوئی۔ (8) رسول اللہ ﷺ نے اپنے چچا حضرت عباس کو بتادیا کہ تم فلاں چیز اپنی بیوی اُمّ الفضل کے پاس رکھ کر آئے ہو۔ اس اطلاع سے حضرت عباس کے دل سے وہ شبہ جاتا رہا جو اس سے پہلے حضور ﷺ کی نبوت کے متعلق ان کو تھا۔ (9) اللہ نے مسلمانوں سے وعدہ کیا تھا کہ اگر اللہ کو تمہارے دلوں کے اندر بھلائی معلوم ہوئی (اور تمہارا اخلاص ثابت ہوگیا) تو جو مال تم سے لے لیا گیا ہے ‘ اس سے بہتر اللہ تم کو عنایت فرما دے گا۔ چناچہ اللہ کا یہ وعدہ پورا ہوا۔ حضرت عباس کو بیس اوقیہ (سونے یا چاندی) کے عوض اللہ نے بیس غلام عطا فرمائے جو آپ کے روپیہ سے تجارت کرتے تھے (اور نفع لا کر حضرت عباس کو دیتے تھے) ۔ (10) اللہ نے اپنے پیغمبر ﷺ کو مطلع فرما دیا کہ آپ کو قتل کرنے کا مشورہ مکہ میں عمیر بن وہب اور صفوان بن امیہ نے کیا ہے (اور آپ کو قتل کرنے کے ارادہ سے دونوں آئیں گے) اس اطلاع کے بعد اللہ نے اپنے پیغمبر کی حفاظت کردی۔ اسی بنیاد پر عمیر بن وہب مسلمان ہوگئے اور پھر اسلام کے داعی بن گئے۔ (11) کھجور کی ایک خشک شاخ تلوار بن گئی۔ حضرت ابن سعد نے حضرت زید بن اسلم اور حضرت یزید بن رومان وغیرہ کی روایت سے لکھا ہے اور بیہقی و ابن عساکر نے بھی یہ واقعہ حضرت عمر ؓ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ بدر کی لڑائی میں حضرت عکاشہ بن محصن کی تلوار لڑتے لڑتے ٹوٹ گئی۔ وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ‘ آپ نے ان کو ایندھن کی ایک لکڑی اٹھا کر دے دی اور فرمایا : عکاشہ ! اس سے لڑو۔ جونہی حضرت عکاشہ نے وہ لکڑی ہاتھ میں لے کر ذرا اس کو حرکت دی تو وہ لکڑی فوراً ایک لمبی چوڑی سفید تلوار بن گئی۔ حضرت عکاشہ اسی تلوار سے لڑے یہاں تک کہ مسلمان فتحیاب ہوگئے۔ اس تلوار کا نام عیون تھا۔ حضرت عکاشہ رسول اللہ ﷺ کے ہمرکاب مختلف معرکوں میں اسی سے لڑتے تھے۔ آخر ارتداد کے زمانہ میں طلحہ بن خویلد اسدی (مدعی نبوت) کے ہاتھ سے شہید ہوگئے۔ بیہقی نے بروایت داؤد بن حصین بنی اشہل کے چند آدمیوں کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ بدر کے دن حضرت سلمہ بن اسلم بن حرش کی تلوار ٹوٹ گئی اور وہ خالی ہاتھ ہو کر رہ گئے۔ رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ میں بنی طابہ کے نخلستان کے کسی درخت کی ایک چھڑی تھی ‘ آپ نے وہی چھڑی حضرت سلمہ کو دے کر فرمایا : اس سے مارو۔ جونہی حضرت سلمہ کے ہاتھ میں وہ چھڑی آئی ‘ فوراً عمدہ تلوار بن گئی اور برابر ان کے پاس رہی۔ آخر خیبر میں آپ شہید ہوگئے۔ (12) بیہقی نے بیان کیا ہے کہ بدر کے دن حضرت حبیب بن عدی کے چوٹ لگ گئی جس سے ان کا ایک پہلو ٹیڑھا ہوگیا (وہ خدمت گرامی میں حاضر ہوئے) حضور ﷺ نے اس پر لعاب دہن لگا دیا اور سیدھا کر کے جوڑ دیا ‘ پہلو جڑ گیا۔ (13) بیہقی نے بیان کیا ہے کہ جنگ بدر میں حضرت قتادہ بن نعمان کی آنکھ پر چوٹ لگی ‘ آنکھ نکل کر رخسار پر آگئی۔ لوگوں نے اس کو کاٹ کر علیحدہ کردینا چاہا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نہیں ‘ ایسا نہ کرو۔ پھر حضرت قتادہ کو طلب فرما کر آنکھ کے حدقہ کو ہاتھ سے دبایا (آنکھ چڑھ کر اپنے حلقہ میں پیوست ہوگئی) معلوم بھی نہ ہوتا تھا کہ کس آنکھ میں چوٹ لگی ہے۔ (14) بیہقی نے حضرت رفاعہ بن رافع کا بیان نقل کیا ہے ‘ حضرت رفاعہ نے بیان کیا کہ بدر کے دن میری آنکھ میں تیر لگ گیا اور آنکھ پھوٹ گئی۔ رسول اللہ ﷺ نے اس پر تھتکار دیا اور میرے لئے دعا فرما دی ‘ پھر میرا دکھ جاتا رہا۔ (15) حضرت ابن سعد نے بروایت اسحاق از عبد اللہ بن نوفل بیان کیا ہے کہ بدر کے دن نوفل گرفتار ہوگئے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ جو برچھے تمہارے جدہ میں ہیں ‘ اگر وہ فدیہ کے طور پردے دو تو تم کو رہا کردیا جائے گا۔ نوفل نے کہا : اللہ کے اور میرے سوا کوئی نہیں جانتا تھا کہ میرے برچھے جدہ میں ہیں (یقیناً یہ اطلاع آپ کو اللہ نے دی ہے ‘ اسلئے میں مسلمان ہوتا ہوں) میں شہادت دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ یہ نیزے ایک ہزار تھے۔ یوم الفرقان فیصلہ کے دن۔ یعنی بدر کے دن جس میں حق و باطل کا فیصلہ کردیا گیا ‘ اسلام کو اللہ نے غلبہ عطا فرمایا اور کفر و اہل کفر کو دفع کردیا۔ یوم التقی الجمعن ط جس روز کہ دونوں گروہوں کا مقابلہ ہوا۔ ایک گروہ اللہ کا تھا ‘ دوسرا گروہ شیطان کا۔ ہجرت کے سولہ مہینے کے بعد 17؍ رمضان المبارک کو جمعہ کے دن بدر کی لڑائی ہوئی۔ وا اللہ علی کل شیء قدیر۔ اور اللہ ہر چیز پر قابو رکھتا ہے۔ اذ انتم بالعدوۃ الدنیا وھم بالعدوۃ القصویٰ اور یہ وہ وقت تھا جبکہ تم میدان کے ادھر والے کنارے پر تھے اور وہ (کفار) میدان کے ادھر والے کنارہ پر تھے۔ العدوۃ الدنیاوادی کے قریب ترین کنارہ ‘ یعنی شام کی طرف والا کنارہ جو مدینہ کی جانب ہے۔ العدوۃ القصویوادی کا بعید ترین کنارہ ‘ یعنی یمن کی طرف والا کنارہ جو مدینہ سے بعید ترین ہے۔ قصویٰ ‘ اقصٰی کا مؤنث ہے جیسے دنیا ‘ ادنی کا۔ قیاس عرفی کے لحاظ سے اقصیٰ کا مؤنث قصیا ہونا چاہئے لیکن قصویٰ کا استعمال قصیا سے زیادہ ہے۔ والرکب اسفل منکمط اور قافلہ یعنی ابو سفیان والا قافلہ تم سے نشیب میں تھا۔ یعنی تین میل کے فاصلہ پر سمندر کی طرف تھا۔ مطلب یہ ہے کہ دشمن طاقتور تھا ‘ اس کی کمک قریب ہی تھی ‘ وہ قافلہ والوں سے مدد لے سکتا تھا ‘ اس کو اطمینان تھا کہ وہ اپنے مرکز پر جما رہے گا اور وہ لڑنے کا حریص بھی تھا ‘ اپنی کوشش سے دریغ کرنے والا نہ تھا۔ اور مسلمانوں کی حالت کمزور تھی ‘ ان کا غالب آنا بظاہر حال بعید تھا۔ وادی کا کنارہ ریتلا نرم تھا ‘ قدم اس میں دھنس رہے تھے ‘ چلنا دشوار تھا اور وہاں پانی بھی نہ تھا اور پرلا کنارہ اس کے خلاف تھا۔ ولو تواعدتھم لاختلفتم فی المیعادلا اور اگر تم اور وہ (پہلے سے) باہم ٹھہرا لیتے تو ضرور اس سے تم میں اختلاف ہوتا۔ یعنی مسلمانو ! اگر تم کافروں سے مل کر لڑنے اور مقابلہ کرنے کی کوئی تاریخ پہلے سے مقرر کرلیتے تو دشمنوں کی کثرت اور قوت کو دیکھ کر ڈر جاتے اور فتحیابی سے ناامید ہو کر مقررہ تاریخ پر لڑنے کیلئے جمع نہ ہوتے۔ ولکن لیقضی اللہ امرًا کان مفعولا۔ مگر اسلئے (ایسا کیا) کہ اللہ کو جو بات کرنی منظور تھی ‘ اس کو پورا کر دے۔ مگر اللہ تم کو دشمن کے مقابلہ پر بغیر پیشگی تاریخ کے تقرر کے لے آیا۔ تم نکلے تھے قافلہ کی تاک میں اور دشمن نکلے تھے اپنے قافلہ کو بچانے کیلئے ‘ اسی طرح دونوں گروہوں کا مقابلہ ہوگیا ار جو طے شدہ امر تھا ‘ وہ اس طرح پورا ہوگیا۔ یعنی اللہ نے اپنے دوستوں کی مدد کی ‘ ان کے دین کو سربلند کیا اور دشمنوں کو ذلیل کردیا۔ لیھلک من ھلک عن بینہۃ ویحیی من حي عن بینۃ ط تاکہ جس کو برباد (گمراہ) ہونا ہے ‘ وہ بھی نشان آنے کے بعد برباد ہوا اور جس کو زندہ (یعنی ہدایت یاب) ہونا ہے ‘ وہ بھی نشان آنے کے بعد زندہ ہو۔ یعنی جو مرنے والا ہے ‘ وہ صداقت کا ثبوت دیکھ کر اور سبق آفریں حقیقت کا معائنہ کر کے اور واضح دلیل کا مشاہدہ کر کے مرے اور جو زندہ رہے ‘ وہ بھی مشاہدۂ حقانیت و صداقت کر کے زندہ رہے تاکہ کسی (ہلاک ہونے والے) کو کوئی عذر و معذرت کا موقع باقی نہ رہے کیونکہ بدر کا واقعہ صداقت رسول ﷺ کی کھلی واضح نشانیوں میں سے ایک ہے۔ محمد بن اسحاق نے کہا : بطور استعارہ ہلاکت سے مراد کفر اور حیات سے مراد ایمان ہے (کیونکہ حقیقت میں کفر انسانیت کی موت اور ایمان انسانیت کی زندگی ہے) مطلب یہ کہ دلائل واضحہ کے بعد بھی جس کی تقدیر میں کافر رہنا لکھا ہے ‘ وہ کافر رہے گا اور علم الٰہی میں جس کا مؤمن ہونا لکھا ہے ‘ وہ ایمان لے آئے گا۔ وان اللہ لسمیع علیم۔ اور یہ یقینی حقیقت ہے کہ اللہ (کفر و ایمان کے کلام کو) خوب سننے والا اور (کفر و ایمان کے عقائد کو) خوب جاننے والا ہے۔ یعنی کافروں کے کفر اور کفر کی سزا سے اور مؤمنوں کے ایمان اور ایمان کی جزا سے بخوبی واقف ہے۔
Top