Tafseer-e-Mazhari - At-Tawba : 27
ثُمَّ یَتُوْبُ اللّٰهُ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ عَلٰى مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
ثُمَّ : پھر يَتُوْبُ : توبہ قبول کرے گا اللّٰهُ : اللہ مِنْۢ بَعْدِ : بعد ذٰلِكَ : اس عَلٰي : پر مَنْ يَّشَآءُ : جس کی چاہے وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
پھر خدا اس کے بعد جس پر چاہے مہربانی سے توجہ فرمائے اور خدا بخشنے والا مہربان ہے
ثم یتوب اللہ من بعد ذلک علی من یشائط پھر اس کے بعد اللہ جس کو (اسلام کی ہدایت دینی) چاہے گا اس کو توبہ کی توفیق دے دے گا۔ وا اللہ غفور رحیم۔ اور اللہ بڑا معاف کرنے والا ‘ مہربان ہے۔ ابن اسحاق نے یونس بن بکر کی وساطت سے حضرت ابن عمر کا بیان نقل کیا ہے ‘ حضرت ابن عمر نے فرمایا : میں حنین میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا۔ جب ہوازن پر مال اور اہل و عیال کی گرفتاری کی مصیبت جو پڑنی تھی ‘ وہ پڑگئی تو پھر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بمقام جعرانہ ‘ ہوازن کا ایک وفد آیا جس میں چودہ آدمی تھے ‘ جن میں رسول اللہ ﷺ کا رضاعی چچا بویرقان بھی شامل تھا۔ اس وفد کا سرگردہ زہیر بن صرر تھا۔ یہ سب لوگ مسلمان ہوگئے تھے۔ بویرقان نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! ہم سب کی جڑ ایک اور کنبہ ایک ہے اور جو مصیبت ہم پر پڑی ہے ‘ وہ آپ سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اب آپ ہم پر کرم کریں ‘ اللہ آپ پر کرم کرے گا۔ زہیر نے کھڑے ہو کر اپنے خطاب میں کہا : یا رسول اللہ ﷺ ! ان باڑوں کے اندر جو قیدی عورتیں ہیں ‘ وہ آپ کی پھوپھیاں اور خالائیں ہیں ( یعنی رضاعی) اور وہ عورتیں ہیں جنہوں نے آپ کو گود میں کھلایا ہے اور جو آپ کی خدمت ذمہ داری کے ساتھ کرتی رہی ہیں۔ اگر ہمارا ٹکراؤ حارث بن ابی شمر (غانی) شاہ شام یا نعمان بن منذر شاہ عراق سے ہوتا اور ان کی طرف سے ہم پر ایسی مصیبت پڑتی جیسی آپ کے حملے سے پڑی ہے تو ہمیں امید تھی کہ (آخر میں) وہ ہم پر مہربانی اور رحم کرتے ‘ اور یا رسول اللہ ﷺ ! آپ تو سب سے بڑھ کر کفیل ہیں۔ پھر اس نے حضور ﷺ کو کچھ شعر پڑھ کر سنائے۔ صالحی کا بیان ہے کہ زہیر بن صرد جثمی کہتے تھے : جب حنین اور ہوازن کے دن رسول اللہ ﷺ نے ہم کو قید کرلیا اور پھر (لشکر میں) قیدیوں کی اور بھیڑ بکریوں کی تقسیم کرنے لگے تو میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا : یا رسول اللہ ﷺ ! ہم پر کرم و احسان کیجئے ‘ آپ ہی ایسے شخص ہیں جس سے ہم (کرم کے) امیدوار اور منتظر احسان ہیں۔ میں نے کچھ اشعار پڑھے ‘ حضور ﷺ نے اشعار سن کر فرمایا : میرا اور اولاد عبدالمطلب کا (اس مال غنیمت اور قیدیوں میں) جو حصہ ہے ‘ وہ تمہارے لئے ہے (یعنی تم واپس لے لو ‘ میں دست بردار ہوتا ہوں) قریش نے جو یہ بات سنی تو وہ بولے : ہمارا جو حصہ ہے ‘ وہ اللہ اور اس کے رسول کا ہے (اور رسول نے اپنا حصہ واپس کردیا ‘ لہٰذا ہم بھی اپنے حصے واپس کرتے ہیں) اور انصار نے بھی یہی کہہ دیا۔ صالحی نے کہا : اس حدیث کی سند بہت بڑھیا اور کھری ہے۔ مقدسی نے بھی اس کو اپنی صحیح میں لکھا ہے اور ابن حجر نے اس کے حسن ہونے کو ترجیح دی ہے۔ بخاری نے صحیح میں مروان اور مسور بن مخرمہ کی روایت سے یہ قصہ اس طرح نقل کیا ہے کہ جب ہوازن والے مسلمان ہو کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے مال اور اہل و عیال کی واپسی کیلئے درخواست کی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے ساتھ جو لوگ ہیں ‘ ان کو تم دیکھ رہے ہو اور مجھے سب سے اچھی بات وہی لگتی ہے جو سچی ہو (پس سچی اور صاف بات یہ ہے کہ) تم دونوں میں سے ایک چیز واپس لے لو ‘ یا قیدی یا مال۔ بنی ہوازن نے کہا : ہم قیدیوں کی واپسی پسند کرتے ہیں۔ اس گفتگو کے بعد رسول اللہ ﷺ (خطاب کرنے) کھڑے ہوئے اور مناسب حمد وثناء کے بعد فرمایا : اما بعد ! اب تمہارے بھائی توبہ کر کے تمہارے پاس آئے ہیں۔ میں ان کے قیدیوں کو واپس کرنا چاہتا ہوں۔ تم میں سے جو شخص بخوشی خاطر ایسا کرنا چاہے ‘ کرے اور جو شخص اپنے حصہ پر قائم رہنا پسند کرے ‘ اس کو ہم (اس کے حصہ کا معاوضہ) اس مال میں سے جو اللہ سب سے پہلے بطور غنیمت عطا فرمائے گا ‘ دے دیں گے۔ لوگوں نے عرض کیا : ہم نے بخوشی خاطر ایسا کیا (یعنی بلاشرط معاوضہ قیدیوں کو واپس کرنے پر رضامند ہیں) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجھے یہ نہیں معلوم ہوا کہ تم میں سے کس نے اجازت دے دی اور کس نے نہیں دی ‘ لہٰذا لوٹ کر جاؤ اور جو تمہارے نمائندے ہیں ‘ وہ آکر مجھے تمہاری رائے بتائیں۔ لوگ واپس چلے گئے اور ان کے سرداروں نے ان سے گفتگو کی ‘ پھر حضور ﷺ کی خدمت میں واپس آئے اور عرض کیا کہ سب نے بخوشی خاطر اجازت دے دی۔ ابو داؤد ‘ بیہقی اور ابو یعلی نے بیان کیا کہ حضرت ابو الطفیل نے کہا : میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ جعرانہ میں گوشت تقسیم کر رہے ہیں (شاید گوشت سے مراد بھیڑ بکریاں ہوں) اتنے میں ایک بدوی عورت آکر رسول اللہ ﷺ کے قریب پہنچ گئی۔ حضور ﷺ نے اس کیلئے اپنی چادر بچھا دی ‘ وہ چادر پر بیٹھ گئی۔ میں نے لوگوں سے پوچھا : یہ کون عورت ہے ؟ لوگوں نے بتایا : یہ رسول اللہ ﷺ کی رضاعی ماں ہے (دو دھ پلانے والی) ابو داؤد نے مراسیل میں حضرت عمرو بن سائب کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک روز بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں آپ کا رضاعی باپ آیا۔ آپ نے اس کیلئے اپنے کپڑے کا کچھ حصہ بچھا دیا ‘ وہ اس پر بیٹھ گیا۔ پھر آپ کی رضاعی ماں آئیں۔ آپ نے ان کیلئے اسی کپڑے کا دوسرا حصہ بچھا دیا ‘ وہ اس پر بیٹھ گئیں۔ پھر آپ کا رضاعی بھائی آیا۔ آپ کھڑے ہوگئے اور اس کو اپنے سامنے بٹھا لیا۔ محمد بن عمر کا بیان ہے : جب حنین کے دن مشرکوں کو شکست ہوگئی تو رسول اللہ ﷺ نے ان کا تعاقب کرنے کا حکم دیا اور فرمایا : اگر قبیلۂ بنی سعد کا بجاد تمہارے ہاتھ لگ جائے تو اس کو نہ چھوڑنا۔ اس شخص نے ایک بڑا جرم کیا تھا ‘ ایک مسلمان کو پکڑ کر اس کا ایک ایک عضو کاٹ کر ٹکڑے ٹکڑے کیا تھا ‘ پھر اس کو آگ میں جلایا تھا۔ وہ بھی اپنے جرم سے واقف تھا ‘ اسلئے بھاگ گیا تھا مگر سواروں نے اس کو پکڑ لیا اور حارث بن عبدالعزّٰی کی بیٹی شیما کے ساتھ جو رسول اللہ ﷺ کی رضاعی بہن تھی ‘ لا کر قید کردیا تھا۔ شیما کہنے لگی : وا اللہ ! میں تو تمہارے سردار کی بہن ہوں۔ مگر لوگوں نے اس کی بات سچ نہیں سمجھی اور پکڑ کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لے آئے۔ شیما نے حضور ﷺ سے کہا : محمد ﷺ میں تو تمہاری بہن ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نشانی کیا ہے ؟ شیما نے اپنا انگوٹھا دکھایا جس پر کاٹنے کا نشان تھا اور کہنے لگی : یہ نشان تمہارے کاٹنے کا ہے۔ ہم تمہارے اور اپنے ماں باپ کے جانور وادئ سرب میں چراتے تھے۔ میں تم کو کو لھے پر بٹھائے ہوئے تھے کہ تم نے میرے انگوٹھے میں کاٹا تھا ‘ ماں کا دودھ پینے پر میرا تمہارا نزاع ہوتا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے نشانی پہچان لی اور کود کر فوراً کھڑے ہوگئے۔ شیما کیلئے اپنی چادر بچھا دی اور فرمایا : اس پر بیٹھ جاؤ۔ حضور ﷺ نے اس کو مرحبا کہا ‘ آپ کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور رضاعی ماں باپ کی خبر دریافت کی۔ شیما نے کہا : ان کا انتقال ہوگیا۔ حضور ﷺ نے فرمایا : اگر تم یہاں رہنا چاہو تو عزت و تکریم کے ساتھ تم کو رکھا جائے گا اور واپس اپنی قوم میں جانا چاہتی ہو تو حفاظت کے ساتھ تم کو واپس پہنچا دیا جائے گا۔ شیما نے کہا : میں اپنی قوم کے پاس واپس جانا چاہتی ہوں۔ پھر شیما مسلمان ہوگئی اور رسول اللہ ﷺ نے اس کو تین باندی غلام دئیے اور ایک یا دو اونٹ دینے کا حکم دیا۔ اور فرمایا : تم جعرانہ کو جا کر اپنی قوم کے ساتھ رہو ‘ میں اب طائف کو جا رہا ہوں۔ شیما جعرانہ کو لوٹ گئی۔ پھر (طائف سے واپس آ کر) جعرانہ میں رسول اللہ ﷺ نے اس سے ملاقات کی اور اس کو ‘ اس کے بقیہ گھر والوں کو اونٹ اور بکریاں عطا فرمائیں۔ شیما نے بجاد کو معاف کردینے کی درخوست کی ‘ رسول اللہ ﷺ نے درخواست قبول کرلی (اور جیسا شیما نے کہا ‘ ویسا ہی کردیا) ۔ ابن اسحاق نے یونس بن عمر کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب ہوازن کے قیدیوں کو واپس کرچکے تو اونٹ پر سوار ہو کر چل دئیے۔ لوگ آپ کے پیچھے پڑگئے اور کہنے لگے : یا رسول اللہ ﷺ ! مال غنیمت ہم کو (بھی) تقسیم کیجئے۔ لوگوں نے آپ کا پیچھا اتنا کیا کہ لوگوں کے ریلے سے مجبور ہو کر آپ ایک درخت سے لگ کر کھڑے ہوگئے۔ لوگوں نے حضور ﷺ کی چادر بھی کھینچ لی۔ آپ نے فرمایا : لوگو ! میری چادر واپس دے دو ۔ قسم ہے اس کی جس کے دست تصرف میں میری جان ہے ! اگر تہامہ کے درختوں کے برابر بھی میرے پاس اونٹ ہوتے تو وہ بھی میں تم کو بانٹ دیتا ‘ پھر تم مجھے نہ بخیل پاتے نہ دروغ گو (اگر اس جگہ عبارت میں شرطیہ جملہ ہونے کی وجہ سے ماضی کے صیغوں کا مضارع سے ترجمہ کیا جائے تو اس طرح ہوگا کہ اگر تہامہ کے درختوں کے برابر بھی میرے پاس اونٹ ہوں گے تو میں تم کو بانٹ دوں گا) ۔ ابن اسحاق کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مؤلفۃ القلوب کو بھی حصہ دیا۔ مؤلفۃ القلوب عرب کے کچھ سردار تھے جن کی تالیف قلب (برقول محمد بن عمر مال دے کر) رسول اللہ ﷺ کو مقصود تھی۔ آپ نے ان کو تقسیم مال کے وقت سب لوگوں سے پہلے حصہ دیا۔ صالحی کا قول ہے : ان میں سے بعض آدمیوں کو سو اور بعض کو پچاس اونٹ دئیے۔ ان کی مجموعی تعداد پچاس سے زائد تھی۔ صالحی نے ان کے نام بھی ذکر کئے ہیں اور 57 نام بیان کئے ہیں۔ شیخین نے صحیحین میں لکھا ہے کہ حضرت حکیم بن حزام نے بیان کیا : میں نے حنین میں رسول اللہ ﷺ سے سو اونٹ مانگے ‘ آپ نے عنایت فرما دئیے۔ میں نے پھر سو اونٹ مانگے ‘ آپ نے وہ بھی دے دئیے اور دینے کے بعد فرمایا : حکیم ! یہ مال شیریں ہے۔ جو شخص سخاوت نفس کے ساتھ اس کو لے گا ‘ اس کو مال میں برکت حاصل ہوگی اور جو دل کی حرص سے لے گا ‘ اس کو برکت حاصل نہ ہوگی ‘۔ جیسے کوئی کھائے اور (کتنا ہی کھائے) پیٹ نہ بھرے۔ اوپر والا ہاتھ نچلے ہاتھ سے بہتر ہوتا ہے اور (دینا) ان لوگوں سے شروع کرو جن کے تم سرپرست ہو۔ حکیم نے عرض کیا : قسم ہے اس کی جس نے آپ کو نبی برحق بنا کر بھیجا ہے ! آپ کے بعد میں کسی سے کچھ مانگ کر اپنی ذلت نہیں کروں گا۔ چناچہ حضرت عمر (اپنے عہد خلافت میں) حضرت حکیم کو ان کا حصہ دینے کیلئے طلب فرماتے تھے اور حضرت حکیم لینے سے انکار کردیتے تھے۔ حضرت عمر فرماتے تھے : لوگو ! میں تم کو گواہ بناتا ہوں کہ میں حکیم کو ان کا حصہ دے رہا ہوں اور وہ لینے سے انکار کر رہے ہیں۔ ابن ابی الزیاد کی روایت ہے کہ حضرت حکیم نے پہلی مرتبہ کے سو اونٹ تو لے لئے تھے اور باقی (دوسری مرتبہ کے اونٹ) چھوڑ دئیے۔ رسول اللہ ﷺ نے سہیل بن عمرو کو سو اونٹ دئیے تھے اور ابو سفیان بن حرب کو سو اونٹ اور چالیس اوقیہ چاندی اور معاویہ بن ابوسفیان کو سو اونٹ اور چالیس اوقیہ چاندی اور یزید بن ابو سفیان کو سو اونٹ اور چالیس اوقیہ چاندی۔ بخاری کی روایت ہے کہ صفوان (بن امیہ) نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ سے مجھے ہر مخلوق سے زیادہ نفرت تھی لیکن حنین کا مال غنیمت آپ نے پیہم مجھے اتنا دیا کہ میری نظر میں اللہ کی کوئی مخلوق آپ سے زیادہ پیاری نہیں رہی۔ صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صفوان کو سو اونٹ عطا فرمائے ‘ پھر سو دئیے ‘ پھر سو دئیے۔ محمد بن عمر کا بیان ہے کہ صفوان ‘ رسول اللہ ﷺ کے ہمرکاب مال غنیمت کی تلاش (جنگل میں ہر طرف) کرتے پھر رہے تھے۔ ایک گھاٹی کی طرف سے گذر ہوا۔ گھاٹی میں بکریاں ‘ اونٹ اور ان کے چرواہے بھرے پڑے تھے۔ یہ مال غنیمت تھا جو اللہ نے اپنے رسول کو (بغیر مقابلہ اور جنگ کے) عطا کیا تھا۔ صفوان کو وہ مال مویشی بہت پسند آئے اور گھاٹی کی طرف دیکھنے لگے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ابو وہب ! کیا تم کو یہ گھاٹی پسند ہے ؟ صفوان نے جواب دیا : جی ہاں۔ فرمایا : وہ مع ان چیزوں کے جو اس کے اندر ہیں ‘ تمہاری ہوگئی۔ صفوان نے عرض کیا : میں شہادت دیتا ہوں کہ آپ بلاشبہ اللہ کے رسول ہیں۔ نبی کے سوا کسی اور کا دل بخوشی خاطر کبھی اس کو دینا پسند نہیں کرسکتا۔ امام احمد ‘ مسلم اور بیہقی نے حضرت رافع بن خدیج کا بیان ذکر کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے مؤلفۃ القلوب میں سے ہر ایک مرد کو حنین کے مال غنیمت سے سو سو اونٹ عطا کئے۔ اسی بیان میں آیا ہے کہ عباس بن مرداس کو سو سے کم دیئے ‘ اس پر عباس نے یہ شعر کہے : کیا آپ میرا مال غنیمت میں حصہ عیینہ (بن حصن فزاری) اوراقرع (بن حابس) کے حصے کے برابر قرار دے رہے ہیں حالانکہ حصن اور حابس کے کارنامے تو (میرے باپ) مرداس کے ہم پلہ نہ تھے الخ۔ یہ اشعار سن کر رسول اللہ ﷺ نے عباس کو بھی پورے سو اونٹ دے دئیے۔ عثمان بن وہب ‘ عدی بن قیس ‘ عمیر بن وہب ‘ علاء بن جاریہ اور مخرمہ بن نوفل میں سے ہر ایک کو پچاس پچاس اونٹ دئیے۔ پھر حضرت زید بن ثابت کو حکم دیا کہ مردم شماری کریں اور مال غنیمت کی مقدار بھی معلوم کریں۔ اس کے بعد لوگوں کو حصہ وار مال تقسیم کیا گیا۔ ہر پیدل کو چار اونٹ یا چالیس بکریاں ملیں۔ گھوڑے کے سوار کو بارہ اونٹ یا ایک سو بیس بکریاں دی گئیں (یعنی سوار کا حصہ پیدل سے تین گنا لگایا گیا) اگر کسی سوار کے پاس ایک گھوڑے سے زیادہ گھوڑے نکلے تو مزید گھوڑے کا حصہ نہیں لگایا گیا۔ پہلے لکھا جا چکا ہے کہ مال غنیمت کے کل اونٹ چوبیس ہزار تھے اور کل بکریاں چالیس ہزار یا اس سے زائد تھیں اور یہ بھی ثابت ہے کہ ایک اونٹ کو دس بکریوں کے برابر قرار دیا گیا ہے ‘ اس طرح چار ہزار اونٹ ‘ چالیس ہزار بکریوں کے برابر ہوئے اور اونٹوں کی کل تعداد اٹھائیس ہزار ہوگئی اور مؤلفۃ القلوب کو چار ہزار اونٹوں کے لگ بھگ دئیے گئے ‘ اس صورت میں کل اونٹوں کا خمس الخمس یعنی پچیسواں حصہ یا اس سے کچھ زائد تو مؤلفۃ القلوب کو دیا نہیں گیا بلکہ کل مال کا لگ بھگ ساتواں حصہ دیا گیا۔ ایسی حالت میں دو باتوں میں سے ایک بات کا اقرار کرنا ہوگا : یا تو بغیر سابقہ اعلان اور پیشگی شرط کے رسول اللہ ﷺ نے کل مال غنیمت میں سے تقسیم سے پہلے جتنا چاہا ‘ بطور انعام مؤلفۃ القلوب کو دے دیا ‘ یا 5؍1 یعنی کل مال کا تقریباً پانچواں حصہ مستحقین کے صرف ایک گروہ کو رسول اللہ ﷺ نے عطا فرما دیا اور مؤلفۃ القلوب کو حاجتمندوں کے گروہ میں شمار کر کے تقریباً خمس ان کو دے دیا۔ کل لشکر بارہ ہزار یا سولہ ہزار تھا ‘ اس میں کچھ سوار بھی تھے۔ پیادہ کے حصہ میں فی کس چار اونٹ آئے اور سوار کو فی کس بارہ اونٹ ملے ‘ اس طرح کل غنیمت کے اونٹ لگ بھگ ساٹھ ہزار ہوتے ہیں اور تھے چوبیس ہزار یا اٹھائیس ہزار ‘ پھر یہ کہاں سے آئے۔ اس کی تصحیح کیلئے کہا جاسکتا ہے کہ سامان کی قیمت اور نقد روپیہ کو جانوروں کے ساتھ ملا کر ساٹھ ہزار اونٹوں کی تعداد شاید قائم کرلی گئی (اس کے بغیر کوئی تاویل ممکن نہیں) ۔ محمد بن اسحاق نے بروایت محمد بن حارث تیمی بیان کیا ہے کہ کسی صحابی نے جن کا نام محمد بن عمر نے حضرت سعد بن ابی وقاص بتایا ہے ‘ رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! آپ نے عیینہ بن حصن اوراقرع بن حابس کو تو سو سو اونٹ عطا فرما دئیے اور جعیل بن سراقہ ضمری کو نظر انداز کردیا۔ حضور ﷺ نے فرمایا : قسم ہے اس کی جس کے دست قدرت میں میری جان ہے ! جعیل بن سراقہ تو عیینہ بن حصن اوراقرع بن حابس جیسے تمام اہل ارض سے کہیں بہتر ہے ‘ لیکن میری غرض ان دونوں کو جوڑے رکھنا ہے تاکہ یہ مسلمان رہیں اور جعیل بن سراقہ کو تو میں نے اس کے اسلام کے سپرد کردیا ہے (اس کا اسلام اتنا مضبوط ہے کہ وہ اپنی جگہ سے نہیں ہلے گا) ۔ بخاری نے حضرت عمرو بن ثعلب کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کچھ لوگوں کو (مال) دیا اور کچھ کو نہیں دیا۔ معلوم ایسا ہوتا تھا کہ جن کو کچھ نہیں دیا ‘ وہ ناراض ہوگئے۔ اس پر حضور ﷺ نے فرمایا : مجھے جن لوگوں کی حرص اور بھوک سے (ان کے ضعیف الاسلام ہوجانے یا اسلام سے پھرجانے کا) اندیشہ ہوتا ہے تو میں ان کو (مال) دیتا ہوں اور کچھ لوگوں کو ان کے قلبی (مضبوط) اسلام اور بےنیازی کے سپرد کردیتا ہوں (ان کو کچھ نہیں دیتا) انہی میں سے عمرو بن ثعلب بھی ہے۔ حضرت عمرو کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا یہ لفظ مجھے اپنے لئے سرخ اونٹوں کے ملنے سے بھی زیادہ پیارا ہوگیا۔ اسی جگہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا : باوجودیکہ بعض لوگ مجھے زیادہ عزیز ہوتے ہیں ‘ لیکن ان کو چھوڑ کر میں بعض ایسے لوگوں کو دیتا ہوں کہ (مال نہ پہنچنے کی صورت میں) ان کے اوندھے منہ دوزخ میں گر جانے کا مجھے اندیشہ ہوتا ہے (یعنی مجھے اندیشہ ہوتا ہے کہ اگر ان کو نہ دوں گا تو یہ مرتد ہو کر جہنم میں گرپڑیں گے) رواہ البخاری عن سعد بن ابی وقاص۔ محمد بن اسحاق اور امام احمد نے حضرت ابو سعید خدری کی روایت سے اور امام احمد و شیخین نے حضرت انس بن مالک کی روایت سے نیز شیخین نے حضرت عبد اللہ بن یزید بن عاصم کے حوالہ سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حنین کا مال غنیمت حاصل کرنے کے بعد قریش کے مؤلفۃ القلوب اور دوسرے عربوں کو حسب مرضی تقسیم کردیا۔ دوسری روایت میں آیا ہے کہ ایک ایک کو سو سو اونٹ دئیے مگر انصار کیلئے کچھ نہ ہوا ‘ نہ تھوڑا دیا نہ بہت۔ اس پر انصاریوں کے دلوں میں کچھ احساس ہوا اور چہ میگوئیاں خوب ہونے لگیں۔ بعض لوگ یہاں تک کہنے لگے کہ اللہ اپنے رسول کو معاف کرے ‘ یہ عجیب بات ہے۔ وہ قریش کو دے رہے ہیں اور ہم کو چھوڑ رہے ہیں حالانکہ ہماری تلواروں سے دشمنوں کا خون ٹپک رہا ہے۔ اگر کوئی سخت مصیبت آتی ہے تو ہم کو بلایا جاتا ہے اور مال غنیمت ہم کو چھوڑ کر دوسروں کو دیا جاتا ہے۔ یہ تقسیم کس کے حکم سے ہو رہی ہے ؟ اگر اللہ کے حکم سے ہو رہی ہے تو ہم صبر کریں گے اور اگر خود رسول اللہ ﷺ کی طرف سے ہو رہی ہے تو ہم آپ کی ناراضگی دور کرنے کی کوشش کریں گے۔ ایک انصاری نے کہا : میں تو تم سے پہلے ہی کہتا تھا کہ جب سب کام ٹھیک ہوجائیں گے تو یہ (رسول اللہ ﷺ دوسروں کو تم پر ترجیح دیں گے۔ دوسرے لوگوں نے اس انصاری کو سختی کے ساتھ ڈانٹ دیا۔ حضرت انس کا بیان ہے : ان باتوں کی اطلاع رسول اللہ ﷺ تک پہنچ گئی۔ حضرت ابو سعید کا بیان ہے کہ اس کے بعد حضرت سعد بن عبادہ نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! انصاریوں کا یہ قبیلہ اپنے دلوں میں آپ سے ناراض ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا وجہ ہے ؟ حضرت سعد نے کہا : مال غنیمت کی تقسیم کی وجہ سے۔ آپ نے اپنی قوم کو اور دوسرے عربوں کو تو دیا اور انصاریوں کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہوا۔ حضور ﷺ نے فرمایا : سعد ! تمہارا کیا خیال ہے ؟ حضرت سعد نے کہا : میں بھی اپنی قوم کا ایک فرد ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تو پھر اپنی قوم والوں کو اس احاطہ کے اندر یکجا جمع کرلو۔ حضرت سعد نے باہر آکر لوگوں کو چیخ کر پکارنا شروع کردیا اور سب کو جمع کرلیا۔ ایک مہاجر بھی آگیا۔ حضرت سعد نے اس کو بھی انصار کے ساتھ بیٹھنے کی اجازت دے دی ‘ لیکن دوسرے مہاجرین نے درخواست کی تو حضرت سعد نے ان کی استدعا رد کردی ‘ اجازت نہیں دی۔ جب سب انصار آگئے تو رسول اللہ ﷺ برآمد ہوئے اور اللہ کی حمدوثناء کے بعد فرمایا : اے گروہ انصار ! کیا تم گمراہ نہ تھے ‘ پھر (میرے ذریعہ سے) اللہ نے تم کو ہدایت فرمائی۔ کیا تم نادار نہ تھے ‘ پھر اللہ نے تم کو مالدار کردیا۔ کیا تم آپس میں دشمن نہ تھے ‘ پھر اللہ نے تمہارے دلوں کو ملا دیا۔ انصار نے عرض کیا : بیشک ایسا ہی ہوا ‘ اللہ اور اس کے رسول کا ہم پر بڑا احسان اور کرم ہے۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے جو کچھ فرمایا ‘ انصار نے اس کے جواب میں یہی کہا کہ اللہ اور اس کے رسول کا ہم پر بڑا احسان اور کرم ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا : اے گروہ انصار ! تم (دوسرے طور پر) جواب کیوں نہیں دیتے ؟ انصار نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! ہم اور کیا کہیں اور آپ کو کیا جواب دیں ؟ حضور ﷺ نے فرمایا : اگر تم چاہتے تو یوں کہہ سکتے تھے اور یہ بات سچی بھی ہوتی اور تمہاری تصدیق بھی کی جاتی کہ آپ ہمارے پاس (وطن اور قوم سے) بھاگ کر آئے تھے ‘ ہم نے آپ کو ٹھکانا دیا۔ آپ نادار تھے ‘ ہم نے آپ کی ہمدردی کی۔ آپ خوف زدہ تھے ‘ ہم نے آپ کو بےخوف بنایا۔ آپ کی کسی نے مدد نہیں کی تھی ‘ ہم نے آپ کی مدد کی۔ سب نے آپ کو جھوٹا قرار دیا تھا ‘ ہم نے آپ کی تصدیق کی۔ انصار نے جواب دیا : اللہ اور اس کے رسول کا ہم پر بڑا احسان ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا : پھر یہ کیا بات ہے ‘ جو مجھے تمہاری طرف سے پہنچی ہے ؟ انصار خاموش رہے۔ حضور ﷺ نے پھر یہی فرمایا ‘ اس پر کچھ سمجھدار انصاریوں نے عرض کیا : (یا رسول اللہ ﷺ ! ) ہمارے دانشمند طبقہ نے تو کچھ کہا نہیں ‘ البتہ کچھ نوجوانوں نے کہا تھا کہ اللہ اپنے رسول کو معاف کرے ‘ وہ قریش کو دیتے ہیں اور ہم کو نہیں دیتے حالانکہ ان کا خون ہماری تلواروں سے ٹپک رہا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں ایسے لوگوں کو دیتا ہوں جن کے کفر کا زمانہ ابھی حال ہی میں گذرا ہے (اور ایمان ابھی پختہ نہیں ہوا) مجھے ان کو ملائے رکھنا ہے۔ دوسری روایت کے یہ الفاظ ہیں : میں قریش کو دیتا ہوں ‘ اسلئے کہ ان کا دور جاہلیت حال ہی میں گذرا ہے اور وہ دکھی ہیں ‘ میں ان کے زخموں پر پٹی باندھ رہا ہوں۔ اس روایت میں لفظ اجبرھم ‘ جبر سے مشتق ہے۔ جبر کا مفہوم کسر کی ضد ہے ‘ یعنی جوڑنا جو توڑنے کی ضد ہے۔ بعض روایات میں اجیزھم بھی آیا ہے۔ اجیز اجازت سے مشتق ہے ‘ یعنی جائزہ (انعام) دیتا ہوں۔ اے گروہ انصار ! کیا تم کو اپنے دلوں میں دنیا کے حقیر مال کا احساس ہوا جو ان (نئے) مسلمانوں کو جوڑے رکھنے کیلئے میں نے دے دیا اور تم کو تمہارے اسلام کے اعتماد پر چھوڑے رکھا جو اللہ نے تم کو نصیب کیا ہے۔ اے گروہ انصار ! کیا تم اس سے خوش نہیں کہ لوگ تو بکریاں اور اونٹ لے کر گھروں کو جائیں۔ دوسری روایت میں لفظ دنیا آیا ہے۔ دنیا لے کر گھروں کو جائیں اور تم اللہ کے رسول کو لے کر اپنے گھروں کو لوٹو اور اللہ کے رسول کو اپنے گھروں میں رکھو۔ قسم ہے اس کی جس کے دست قدرت میں میری جان ہے کہ اگر سب لوگ ایک گھاٹی پرچلیں اور انصار دوسری گھاٹی پر تو میں انصار کی راہ پر چلوں گا۔ اور لوگ میرا ظاہر ہیں اور تم میرا باطن ہو۔ انصار میرا جگر ہیں ‘ میرے محل اسرار ہیں۔ اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں بھی انصار ہی کا ایک فرد ہوتا۔ اے اللہ ! انصار پر ‘ انصار کی اولاد پر اور ان کی اولاد کی اولاد پر رحمت نازل فرما۔ انصار یہ تقریر سن کر رونے لگے ‘ ان کی ڈاڑھیاں تر ہوگئیں اور کہنے لگے : ہم اللہ اور اللہ کے رسول کو اپنے نصیب اور حصہ میں پا کر خوش ہیں (ہم کو ان کے مقابلہ میں دنیا کا مال درکار نہیں) محمد بن عمر کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بحرین کو بطور جاگیر انصار کیلئے لکھ دینے کا ارادہ کیا تاکہ آپ کے بعد بحرین انہی کے پاس رہے۔ بحرین اس زمانہ کے مفتوحہ علاقوں میں سب سے بڑھیا علاقہ تھا۔ لیکن انصار نے انکار کردیا اور عرض کیا : آپ کے بعد ہم کو دنیا کی ضرورت نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے انصار سے فرمایا : تم میرے بعد دوسروں کی اپنے اوپر بہت زیادہ ترجیح پاؤ گے (یعنی حکومت اور دولت پر لوگ خود قابض ہوجائیں گے ‘ تم کو نہیں دیں گے) تو صبر کرنا یہاں تک کہ حوض (کوثر) پر تمہاری مجھ سے ملاقات ہوجائے۔ اہل مغازی نے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قبیلۂ ہوازن کے وفد سے فرمایا : مالک بن عوف کا کیا ہوا ؟ انہوں نے عرض کیا : وہ قبیلۂ ثقیف کے ساتھ طائف کے قلعہ میں جا کر حصار بند ہوگیا۔ فرمایا : اس سے کہہ دو کہ اگر وہ مسلمان ہو کر میرے پاس آگیا تو میں اس کا مال متاع اور بیوی بچے واپس کر دوں گا اور سو اونٹ بھی دوں گا۔ رسول اللہ ﷺ نے مالک کے بیوی بچوں کو مکہ میں ان کی پھوپھی ام عبد اللہ بنت ابو امیہ کے گھر قید کردینے کا حکم دے دیا تھا۔ مالک کو جب رسول اللہ ﷺ کے اس سلوک کی اطلاع پہنچی اور معلوم ہوا کہ اس کے بیوی بچے محفوظ ہیں تو اس نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے کا ارادہ کرلیا ‘ لیکن اس کو اندیشہ ہوا کہ اگر قوم والوں کو یہ اطلاع مل گئی کہ رسول اللہ ﷺ نے مالک کے متعلق یہ الفاظ فرمائے ہیں تو وہ اسے گرفتار کرلیں گے ‘ اسلئے اس نے (خفیہ طور پر) ایک اونٹنی کسی بندھی مقام وحناء میں بھیج دی اور خود رات کو قلعہ سے نکل کر گھوڑے پر بیٹھ کر وحناء میں پہنچ گیا اور وہاں سے اونٹ پر سوار ہو کر مقام جعرانہ میں یا مکہ میں حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوگیا۔ حضور ﷺ نے اس کے بیوی بچے اور مال متاع واپس کر دئیے اور سو اونٹ بھی عنایت فرما دئیے۔ مالک مسلمان ہوگیا اور سچا مسلمان ثابت ہوا۔ قبائل دوس ‘ ہوازن ‘ ثقیف اور ثمالہ کے جو لوگ مسلمان ہوگئے تھے ‘ رسول اللہ ﷺ نے مالک کو ان کا سردار بنا دیا اور کچھ دوسرے مسلمان بھی اس کے پاس سمٹ آئے۔ حضور ﷺ نے سب کی کمانڈ مالک کے سپرد کردی۔ مالک اپنی جماعت کو لے کر مشرکوں سے لڑنے لگا بلکہ ثقیف کے خلاف اس نے جنگ شروع کردی۔ ثقیف کے جو مویشی جنگل میں چرنے کیلئے نکلتے تھے ‘ مالک ان کو لوٹ لیتا تھا اور اکا دکا جو آدمی ہاتھ لگتا تھا ‘ اس کو قتل کردیتا تھا اور مال غنیمت کا پانچواں حصہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھیج دیتا تھا۔ ایک بار سو اونٹ بھیجے اور ایک بار ہزار بکریاں بھیڑیں۔ اہل طائف کے مویشی بھی مالک نے پکڑ لئے اور ایک دن میں ہزار بھیڑ بکریاں ہنکا لایا۔ ابن اسحاق نے بروایت یونس بیان کیا ہے کہ رمضان 9 ھ ؁ میں قبیلہ ثقیف کا وفد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر مسلمان ہوگیا۔ یہ واقعہ غزوۂ تبوک کے بعد کا ہے۔
Top