Tafseer-e-Mazhari - At-Tawba : 28
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ فَلَا یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هٰذَا١ۚ وَ اِنْ خِفْتُمْ عَیْلَةً فَسَوْفَ یُغْنِیْكُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖۤ اِنْ شَآءَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : جو لوگ ایمان لائے (مومن) اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں الْمُشْرِكُوْنَ : مشرک (جمع) نَجَسٌ : پلید فَلَا يَقْرَبُوا : لہٰذا وہ قریب نہ جائیں الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ : مسجد حرام بَعْدَ : بعد عَامِهِمْ : سال هٰذَا : اس وَاِنْ : اور اگر خِفْتُمْ : تمہیں ڈر ہو عَيْلَةً : محتاجی فَسَوْفَ : تو جلد يُغْنِيْكُمُ : تمہیں غنی کردے گا اللّٰهُ : اللہ مِنْ : سے فَضْلِهٖٓ : اپنا فضل اِنْ : بیشک شَآءَ : اللہ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا حَكِيْمٌ : حکمت والا
مومنو! مشرک تو پلید ہیں تو اس برس کے بعد وہ خانہٴ کعبہ کا پاس نہ جانے پائیں اور اگر تم کو مفلسی کا خوف ہو تو خدا چاہے گا تو تم کو اپنے فضل سے غنی کر دے گا۔ بےشک خدا سب کچھ جانتا (اور) حکمت والا ہے
یایھا الذین امنوا انما المشرکون نجس اے ایمان والو ! مشرک تو ناپاک ہی ہیں۔ نجَسٌ باب سَمِعَ اور کَرُمَ سے مصدر ہے ‘ اسی لئے اس کا تثنیہ آتا ہے نہ جمع۔ مذکر اور مؤنث دونوں کیلئے ایک ہی لفظ مستعمل ہے (مصدر ‘ غیر مصدر پر محمول نہیں ہوتا اور خبر کا ثبوت مبتداء کیلئے ہوتا ہے اور خبر ہونے کی وجہ سے اس جگہ باوجود مصدر ہونے کے نجسٌ کا ثبوت المشرکون کیلئے ہو رہا ہے تو یہ حمل) یا بطور مبالغہ کے ہے (یعنی مشرک اتنے ناپاک ہیں کہ بعینہٖ نجاست بن گئے ہیں کہ جو ان کو چھوئے ‘ اس کا ہاتھ بھی ناپاک ہوجائے ‘ یا مصدر سے مراد ہے صفت (یعنی نجاست سے مراد ہے نجاست والے) ۔ نَجْسٌ‘ نِجْسٌ‘ نَجِسٌ‘ نَجُسٌ سب کے معنی ہیں ناپاک (قاموس) میں کہتا ہوں : نجس وہ چیز ہے جس کو سلیم الطبع آدمی گندگی سمجھتے ہیں ‘ جیسے پیشاب ‘ خون ‘ پاخانہ۔ یہی حقیقی نجاست ہے ‘ شریعت نے اسی کے حکم میں حکمی نجاست کو بھی داخل کردیا ہے : بےوضو ہوجانا ‘ جنابت ‘ حیض اور نفاس کا خاتمہ۔ گویا نجاست حکمی وہ ہے جو شریعت کے نزدیک نجاست ہے (اور نجاست حقیقی وہ ہے جس کو سلیم الطبع غیرمسلم بھی گندگی سمجھتے ہیں) چونکہ کافر کا باطن ناپاک ہے ‘ اسلئے شرعاً وہ ناپاک ہے ‘ اس سے اجتناب لازم ہے۔ جس طرح حقیقی نجاست سے اجتناب نمازی کیلئے ضروری ہے ‘ اسی طرح کافر سے اجتناب لازم ہے ‘ اسی لئے کفار سے گہرا دلی تعاون درست نہیں۔ ضحاک اور ابوعبیدہ نے نجسٌ کا ترجمہ کیا ہے قذر ‘ یعنی نجاست غلیظہ۔ بغوی نے لکھا ہے : یہاں بدن کی نجاست مراد نہیں بلکہ نجاست حکمی مراد ہے ‘ بطور مذمت کافروں کو نجس فرمایا ہے۔ قتادہ نے کہا : مشرک اسلئے نجس ہیں کہ وہ جنابت کا غسل نہیں کرتے ‘ وضو نہیں کرتے ‘ نجاستوں سے اجتناب نہیں کرتے۔ ایک روایت میں حضرت ابن عباس کا قول آیا ہے کہ کتوں کی طرح کافروں کی نجاست جسمانی ہے ‘ ان کے بدن نجس ہیں۔ ابو الشیخ اور ابن مردویہ نے حضرت ابن عباس کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر مشرک سے کوئی مصافحہ کرلے تو وضو کرلے۔ یا فرمایا : اپنے دونوں ہاتھ دھو لے۔ یہ قول باجماع علماء متروک ہے (گویا باجماع علماء یہ روایت ہی صحیح نہیں ہے) ۔ فلایقربوا المسجد الحرام لہٰذا یہ مسجد حرام کے پاس بھی نہ آئیں۔ احناف کا قول ہے کہ مسجد حرام کے قریب آنے سے ممانعت کا مطلب یہ ہے کہ حج وعمرہ نہ کریں ‘ ویسے مسجد حرام میں داخلہ کی ممانعت نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی کو موسم حج میں اعلان کرنے کیلئے بھیجا تھا کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے۔ اس اعلان سے مراد ہے حج وعمرہ کی ممانعت کرنا ‘ مسجد حرام میں کافر کے داخلہ کی ممانعت مقصود نہیں۔ لہٰذا دوسری مساجد میں کافروں کا داخلہ تو بدرجۂ اولیٰ جائز ہے۔ قریب جانے کی ممانعت صرف کلام میں زور پیدا کرنے (اور حج وعمرہ کی سختی کے ساتھ ممانعت کرنے) کیلئے کی گئی ہے۔ امام شافعی کے نزدیک حرم میں داخل ہونے کی ممانعت مقصود ہے کیونکہ حرم میں داخل ہونے کے بعد مسجد حرام کے قریب پہنچنا ضروری ہے۔ مسجد حرام سے حرم اس جگہ اسی طرح مراد ہے جس طرح آیت سُبْحَانَ الَّذِیْ اَسْرٰی بعبَدِہٖ لَیْلاَ مِّنَ الْمَسْجِدَ الْحَرَام میں مسجد حرام سے حرم مراد ہے کیونکہ (شب معراج میں) رسول اللہ ﷺ کو حضرت ام ہانی کے مکان سے (جو حرم میں تھا) لے جایا گیا تھا (کعبہ سے نہیں لے جایا گیا تھا) ۔ بغوی نے لکھا ہے : (1) حرم کے اندر کسی کافر کا داخلہ جائز نہیں ‘ ذمی ہو ‘ حربی ہو یا مستامن۔ اس آیت کا بظاہر یہی مطلب ہے۔ اگر امام (امیر المسلمین) حرم کے اندر ہو اور کافروں کی طرف سے دارالکفر سے کوئی (غیرمسلم) قاصد آئے تو حرم کے اندر داخل ہونے کی اجازت اس کو نہیں دی جاسکتی۔ امیر المسلمین اپنے کسی آدمی کو حرم کے باہر بھیج کر اس کا پیام معلوم کرا لے۔ (2) حجاز کے اندر تجارت وغیرہ کی غرض سے کافروں کا داخلہ تو ہوسکتا ہے مگر تین روز ‘ یعنی مدت سفر سے زائد قیام نہیں ہوسکتا۔ حضرت عمر کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا : اگر میں زندہ رہا تو انشاء اللہ جزیرۂ عرب سے یہودیوں اور عیسائیوں کو نکال دوں گا ‘ کسی کو سوائے مسلمان کے یہاں نہیں چھوڑوں گا۔ مگر اس کام کی تکمیل سے پہلے حضور ﷺ کی وفات ہوگئی لیکن آپ نے اس کی وصیت فرما دی۔ آپ کے بعد حضرت ابوبکر کو بھی اس کا موقع نہیں ملا۔ آخر حضرت عمر نے سب غیرمسلموں کو جزیرۂ عرب سے باہر نکال دیا۔ البتہ تاجروں کو تجارت کیلئے حجاز میں آنے اور تین دن ٹھہرنے کی اجازت دے دی۔ جزیرۂ عرب کی حدود اربعہ اس طرح ہیں : طول میں عدن کے آخری کنارہ سے عراق کے سبزہ زار تک اور عرض میں جدہ اور ساحل سمندر سے شام تک۔ (3) باقی تمام بلاد اسلام میں غیرمسلم ذمی بن کر یا ویزا لے کر رہ سکتے ہیں ‘ مگر مسجدوں کے اندر مسلمانوں کی اجازت کے بغیر داخل نہیں ہوسکتے۔ حافظ ابن حجر نے لکھا ہے : امام شافعی کا جو قول روایت میں آیا ہے ‘ اس میں کعبہ اور دوسری مساجد کے حکم میں فرق منقول ہے ‘ مسجد حرام کے اندر تو داخلہ ممنوع ہے اور دوسری مساجد میں جائز ہے۔ فقہاء مالکیہ اور مزنی کے نزدیک مسجد حرام اور دوسری مساجد کا ایک ہی حکم ہے۔ جس طرح مسجد حرام میں کافروں کا داخلہ ممنوع ہے ‘ اسی طرح دوسری مسجدوں میں بھی ناجائز ہے۔ امام بخاری نے مسجد میں مشرکوں کے داخلہ کے جواز کیلئے ایک مستقل باب قائم کیا ہے ‘ اس میں حضرت ابوہریرہ کی یہ روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کچھ سوار نجد کی طرف بھیجے۔ وہاں سے وہ بنی حنیفہ کے ایک شخص کو جس کا نام ثمامہ بن اثال تھا ‘ پکڑ کر لائے اور مسجد کے ستون سے لا کر باندھ دیا۔ ہم نے ثمامہ کا پورا قصہ سورة انفال میں ذکر کردیا ہے ‘ لیکن اس قصہ سے مسجد میں داخل ہونے کے جواز پر دلیل قائم کرنا ضعیف ہے ‘ کیونکہ ثمامہ کا واقعہ تو فتح مکہ سے پہلے ہوا تھا اور کافروں کو حج کرنے اور مسجد حرام میں داخل ہونے سے بازداشت 9 ھ ؁ میں ہوئی۔ بعد عامھم ھذاج ان کے اس سال کے بعد۔ یعنی اس سال کے بعد جس میں سورة توبہ اتری تھی اور حضرت ابوبکر نے سب کو حج کرایا تھا اور حضرت علی نے کافروں سے برأت کا اعلان کیا تھا۔ یہ واقعہ 9 ھ ؁ کا ہے۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ اہل کتاب کو خصوصیت کے ساتھ مسجد (حرام) میں داخل ہونے کی اجازت دی جاسکتی ہے۔ حافظ ابن حجر نے بخاری کی شرح میں ” باب دخول المشرک المسجد “ میں لکھا ہے کہ اس باب میں جو حدیث مذکور ہے ‘ وہ خیال مذکور کی تردید کر رہی ہے کیونکہ ثمامہ اہل کتاب میں سے نہ تھا۔ بیضاوی نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ اسلام کے فروعی احکام کے مخاطب کفار بھی ہیں ‘ کیونکہ مسجد حرام کے قریب جانے کی ممانعت کافروں کیلئے ہوئی ہے۔ مگر بیضاوی کا یہ استدلال غلط ہے ‘ کیونکہ آیت میں اگرچہ ممانعت کا تعلق کافروں سے ہے مگر مخاطب مؤمن ہی ہیں ‘ انہی کو خطاب کر کے فرمایا : یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا۔ اگر کفار کو فروع کا مخاطب قرار دیا جائے گا تو چونکہ حج بھی فروع میں داخل ہے (کیونکہ اصل بنیاد توحید و رسالت کا اقرار ہے) اسلئے کفار حج پر مامور ہوں گے اور اس آیت میں ان کو حج کی ممانعت کی گئی ہے۔ اس طرح دونوں حکموں میں تضاد پیدا ہوجائے گا۔ پھر اگر کفار کعبہ کو نہ جائیں اور حج نہ کریں تو فلاَ یَقْرَبُوا کے حکم کی تعمیل ہوجائے گی اور حکم خداوندی کی تعمیل موجب ثواب و اجر ہے ‘ لہٰذا کافروں کو ترک حج کا ثواب ملنا چاہئے ‘ جو سراسر باطل ہے۔ ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس کا قول اور ابن جریر اور ابو الشیخ نے سعید بن جبیر ‘ عکرمہ ‘ عطیہ ‘ عوفی ‘ ضحاک اور قتادہ وغیرہم کا بیان نقل کیا ہے کہ مشرک کعبہ کو آتے تو (اطراف ملک سے) اپنے ساتھ غلہ ‘ پھل وغیرہ بھی لاتے تھے ( اور مکہ میں لا کر فروخت کرتے تھے) جب ان کو حج کی ممانعت کردی گئی اور آیت اِنَّمَا الْمُشْرِکُوْنُ نَجَسٌ فَلاَ یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِھِمْ ھٰذَا نازل ہوگئی تو مسلمانوں پر بڑی دشواری آپڑی ‘ کہنے لگے : اب غلہ اور سامان (خوراک) ہم کو کون لا کر دے گا۔ اس پر آیت ذیل نازل ہوئی اور اللہ نے فرمایا : وان خفتم عیلۃً (اے مکہ کے مسلمانو ! ) اگر تم کو فقر و فاقہ کا اندیشہ ہے۔ عَیْلَۃً (بَاعَ یَبِیْعُکے باب سے) مصدر ہے ‘ عَالَ یَعِیْلُکہا جاتا ہے۔ فسوف یغنیکم اللہ من فضلہ ان شائط تو (اندیشہ نہ کرو) اگر اللہ نے چاہا تو وہ اپنے فضل سے تم کو ضرور غنی بنا دے گا۔ مشیت سے غنا کو وابستہ کرنے کی غرض یہ ہے کہ اللہ کی مشیت کو امید گاہ سمجھا جائے اور یہ یقین رکھا جائے کہ اللہ کی طرف سے غنی بنانا محض اس کا فضل ہے (جو عمومی حیثیت رکھتا ہے) اور موجودہ غنا (عمومی نہیں) کسی کو حاصل ہے ‘ کسی کو حاصل نہیں۔ کسی سال ہوتی ہے ‘ کسی سال نہیں ہوتی۔ ان اللہ علیم حکیم۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ (اپنے بندوں کے احوال کو) جاننے والا اور حکمت والا ہے (جس کسی کو جتنا دیتا ہے ‘ مصلحت و حکمت کے زیر اثر دیتا ہے) ۔ عکرمہ نے کہا : (بموجب وعدہ) اللہ نے ان کو غنی کردیا ‘ جس کی صورت یہ ہوئی کہ بارش خوب ہوئی اور پیداوار کی کثرت ہوگئی۔ مقاتل نے کہا : جدہ اور صنعاء اور جرش والے مسلمان ہوگئے اور بکثرت بقدر ضرورت غلہ اپنے ملک سے مکہ میں لے آئے جس سے اہل مکہ کو فقر و فاقہ کا خوف نہیں رہا۔ ضحاک اور قتادہ نے کہا : اللہ نے کافروں سے ان کا جزیہ دلوا دیا اور اس طرح مکہ کے مسلمانوں کو غنی کردیا۔
Top