Mazhar-ul-Quran - Al-Kahf : 83
وَ یَسْئَلُوْنَكَ عَنْ ذِی الْقَرْنَیْنِ١ؕ قُلْ سَاَتْلُوْا عَلَیْكُمْ مِّنْهُ ذِكْرًاؕ
وَيَسْئَلُوْنَكَ : اور آپ سے پوچھتے ہیں عَنْ : سے (بابت) ذِي الْقَرْنَيْنِ : ذوالقرنین قُلْ : فرمادیں سَاَتْلُوْا : ابھی پڑھتا ہوں عَلَيْكُمْ : تم پر۔ سامنے مِّنْهُ : اس سے۔ کا ذِكْرًا : کچھ حال
اور (یہ لوگ) تم سے ذوالقرنین کا حال پوچھتے ہیں تم فرماؤ کہ میں اس کا حال تمہارے سامنے بیان کرتا ہوں
حضرت ذوالقرنین (علیہ السلام) کا قصہ : شروع سورة کی تفسیر میں گزر چکا ہے کہ یہود کے سکھانے سے مشرکین مکہ نے روح، اصحاب کہف اور سکندر ذالقرنین کا حال اللہ کے رسول ﷺ سے پوچھا تھا۔ روح اور اصحان کہف کا حال تو بیان ہوچکا۔ یہ سکندر ذوالقرنین کا حال شروع ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو روئے زمین پر صاحب قدرت بنایا، اور ہر قسم کا سامان اس کو دیا۔ اور جب ان کو معلوم ہوا کہ اولاد سام میں سے ایک شخص چشم حیات سے پانی پئے گا اور اس کو موت نہ آئے گی، تو وہ چشمہ حیات کی طلب میں مغرب و مشرق کی طرف روانہ ہوئے۔ اور آپ کے ساتھ حضرت خضر (علیہ السلام) بھی تھے، وہ چشمہ حیات تک پہنچ گئے اور انہوں نے پی بھی لیا۔ مگر ذوالقرنین کے مقدر میں نہ تھا، انہوں نے نہ پایا۔ اس سفر میں جانب مغرب روانہ ہوئے تو جہاں تک آبادی ہے وہ سب جگہ پہنچ گئے اور سمت مغرب میں وہاں پہنچے جہاں آبادی کا نام ونشان باقی رہا۔ وہاں انہیں آفتاب وقت غروب ایسا نظر آیا گویا کہ سیاہ دلدل کے چشمہ میں ڈوبتا ہے۔ اور اس چشمہ کے قریب ایک بت پرست قوم کو اس نے دیکھا۔ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ اے ذوالقرنین ! تجھے اختیار ہے خواہ ان کو سزادے اور خواہ ان سے نیک سلوک کر۔ اس پر اس نے کہا :'' جو کوئی ظالم ہوگا پس اس کو ہم جلدی سزا دیں گے، اور پھر وہ اللہ کے پاس روانہ کردیا جائے گا۔ وہاں بھی اسے سخت عذاب ہوگا اور جو ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا پس اس کو نیک بدلہ ملے گا، اور اس سے اپنے معاملہ میں بھی ہم آسانی کریں گے ''۔
Top