Mazhar-ul-Quran - Al-Ahzaab : 18
قَدْ یَعْلَمُ اللّٰهُ الْمُعَوِّقِیْنَ مِنْكُمْ وَ الْقَآئِلِیْنَ لِاِخْوَانِهِمْ هَلُمَّ اِلَیْنَا١ۚ وَ لَا یَاْتُوْنَ الْبَاْسَ اِلَّا قَلِیْلًاۙ
قَدْ يَعْلَمُ : خوب جانتا ہے اللّٰهُ : اللہ الْمُعَوِّقِيْنَ : روکنے والے مِنْكُمْ : تم میں سے وَالْقَآئِلِيْنَ : اور کہنے والے لِاِخْوَانِهِمْ : اپنے بھائیوں سے هَلُمَّ : آجاؤ اِلَيْنَا ۚ : ہماری طرف وَلَا يَاْتُوْنَ : اور نہیں آتے الْبَاْسَ : لڑائی اِلَّا : مگر قَلِيْلًا : بہت کم
بیشک1 اللہ جانتا ہے تم میں سے ان کو جو اوروں کو جہاد سے روکتے ہیں اور اپنے (وطنی) بھائیوں سے کہتے ہیں کہ تم ہمارے پاس چلے آؤ اور وہ جہاد میں نہیں آتے مگر تھوڑے۔
منافقین کا ذکر اور ان کا کردار۔ (ف 1) ان آیتوں میں اللہ نے ان منافقین کا حال اپنے محبوب کو ظاہر کردیا اور فرمایا کہ مسلمانوں کے ہاتھ سے اپنی جان اپنامال بچانے کے لیے یہ لوگ تھوڑی سی دیر کے لیے لڑائی میں شریک ہوئے ہیں اس لیے یہ خود بھی لشکر اسلام کا ساتھ دینے میں دریغ کرے ہیں اور دوسروں کو بھی طرح طرح سے بہکار ہے ہیں اور نبی کا ساتھ دینے میں انکویہ سب حال معلوم ہے ، پھر مسلمانوں کو منافقوں کی نشانی بتلادی کہ جو جہاد کے وقت ایسی نامردی کی باتیں کرتے ہیں وہ آپ کے حق میں بخیلی کرتے ہیں پھر جب خوف کا وقت آئے تو تم نہیں دیکھوگے کہ تمہاری طرف یوں نظر کرتے ہیں کہ ان کی آنکھیں اس شخص کی طرح پھر رہی ہیں کہ جس پر سکرات موت طاری ہو، اور پھر استکلیف کے جانے کے بعد لوٹ کا مال تقسیم ہونے کے وقت بہت بڑھ چڑھ کر باتیں کرتے ہیں اور اپنی بہادری جتلاتے ہیں وہی منافق ہیں کیونکہ جو لوگ خالص مسلمان ہیں اور محض آخرت کے اجر کی غرض سے لڑتے ہیں نہ وہ دشمن کے غلبہ کے وقت گھبراکر اس طرح نامردی کی باتیں کرتے ہیں اور نہ وہ دنیا میں کسی کو اپنی بہادری جتلانا چاہتے ہیں ان کا تو جو معاملہ ہے خالص اللہ کے ساتھ ہے ایسے لوگوں کو اللہ آخرت میں اجر دے گا یہ اوپردل سے جو لوگ مسلمانوں کے ساتھ ہیں ان کو اللہ کی درگاہ سے اجر کی توقع نہ رکھنا چاہیے، ایسے اوپری دل کے عملوں کا حال جان لینا اور ان کو بلا اجر ٹھہرادینا اس کے نزدیک کچھ مشکل نہیں ، البتہ انسان کے نزدیک یہ بات مشکل اور اس کے اختیار سے خارج ہے پھر فرمایا کہ جو فوجیں مدینہ پر چڑھ کر آئی تھیں اگرچہ وہ پلٹ کرچلی گئیں لیکن ان لوگوں کو اس کا یقین نہیں ہے بلکہ یہ جانتے ہیں کہ وہ پھر آجائیں گی پھر فرمایا کہ اگر وہ فوجیں پھر کر آجائیں تو یہ لوگ آرزو کریں گے کہ ہم اسوق مسلمانوں کے لشکر میں نہ ہوتے بلکہ کہیں اور پرلے گاؤں میں ہوتے اور دور سے ہی اس لڑائی کی خبر سن لیتے ، پھر فرمایا اگر فوجیں پھر کر آجائیں اور لڑائی کا موقع پیش آجائے تو لشکر اسلام کو ایسے لوگوں کے موجود ہونے سے کچھ فائدہ نہیں پہنچ سکتا، کیونکہ ان لوگوں کے دل میں عقبی کے اجر یقین نہیں ہے اس واسطے یہ لوگ برائے نام لشکر اسلام کا کچھ ساتھ دے کر لڑائی میں زیادہ دیر تک ہرگز نہ ٹھہرتے، جو لوگ اس لڑائی میں شریک نہیں ہوئے تھے بلکہ مدینہ میں رہ گئے تھے اب آگے نصیحت ان کو فرمائی کہ جن لوگوں کو عقبی کے اجر کی توقع ہے انہیں ہر حال میں اللہ کے رسول کی پیروی بہتر ہے، آگے فرمایا کہ ایماندار لوگ فوجوں کو دیکھ کر گھبراتے نہیں بلکہ ک انہوں نے یہی کہا کہ اللہ اور رسول ﷺ کے وعدہ میں جس آزمائش کا ذکر تھا یہ وہی آزمائش ہے یہ کہہ کر انہوں نے اپنے انجام کو اللہ اور اللہ کے رسول پر سونپ دیا ، اور آخر کار فتح اسلام کے وعدہ پر یقین اور بڑھ گیا اور سمجھ گئے کہ وعدہ کے ایک ٹکڑے کا جب ظہور ہوگیا تو اب دوسرے ٹکڑے کا ظہور بھی ہوگا اللہ سچا ہے اللہ کا وعدہ سچا ہے۔
Top