Mazhar-ul-Quran - Az-Zumar : 59
بَلٰى قَدْ جَآءَتْكَ اٰیٰتِیْ فَكَذَّبْتَ بِهَا وَ اسْتَكْبَرْتَ وَ كُنْتَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ
بَلٰى : ہاں قَدْ جَآءَتْكَ : تحقیق تیرے پاس آئیں اٰيٰتِيْ : میری آیات فَكَذَّبْتَ : تو تو نے جھٹلایا بِهَا : انہیں وَاسْتَكْبَرْتَ : اور تو نے تکبر کیا وَكُنْتَ : اور تو تھا مِنَ : سے الْكٰفِرِيْنَ : کافروں
1 اللہ فرمائے گا : ہاں کیوں نہیں بیشک تیرے پاس میری آیتیں آئیں پس تو نے ان کو جھٹلایا اور تو نے غرور کیا اور تو کافروں میں سے ہوا
(ف 1) جب کافر کو مصیبت، شدت بلا پہنچتی ہے تو ہم کو یاد کرتا ہے عاجزی سے پکارتا ہے یہ بات ان لوگوں کے دلوں میں اچھی طرح سے بسی ہوئی ہے کہ تکلیف کے وقت سو اللہ کے ان کے بت کچھ کام نہیں آتے، اس واسطے تکلیف کے وقت خالص اللہ ہی سے یہ لوگ رفع تکلیف کی التجا کرتے ہیں لیکن یہ ان لوگوں کی ناشکری ہیے کہ جب اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے ان کی وہ تکلیف رفع کردیتا ہے تو کبھی اس رفع تکلیف کو اپنی تدبیروں کے اثر سے اور کبھی اپنی عزت اور شرافت سے سمجھنے لگتے ہیں ، اور اللہ تعالیٰ کے احسان کو بالکل بھول جاتے ہیں یہ نہیں جانتے کہ دنیا میں اللہ کے احسانات اس آزمائش کے لیے ہیں کون شخص اس کے احسانات کا شکر ادا کرتا ہے اور کون شخص ناشکری کرتا ہے اور یہ خوب یاد رہے کہ ان سے پہلے بھی ایسے ناشکرے لوگ گذرچکے ہیں جنہوں نے اپنی ناشکری کی سزا بھگت لی ، قارون، وغیرہ اب بھی وہی عادت الٰہی جاری ہے اس عادت الٰہی کے موافق جب ان لوگوں کی سزا کا وقت آجائے گا تو یہ لوگ کہیں بھاگ کر اللہ کو تھکا نہیں سکتے، یہ تو ان لوگوں کی آنکھوں کے سامنے کی بات ہے کہ دنیا میں بہت سے نافرمان لوگوں کو اللہ نے خوشحالی دے رکھی ہے اور بہت سے فرمانبردار لوگوں کو تنگ دستی، ان لوگوں کا یہ خیال غلط ہے کہ ان کی عزت و شرافت کے سبب سے اللہ ان کی ہر ایک تکلیف کو راحت سے بدل دیتا ہے آخر کو فرمایا ایسی باتوں کو وہی سمجھتے ہیں جو اللہ کی قدرت کے قائل ہیں یہ قدرت الٰہی کے منکر لوگ ایسی باتوں کو کیا سمجھ سکتے ہیں نبی ﷺ نے فرمایا مجھ کو اپنی امت کے لوگوں کی تنگ دستی کا کچھ اندیشہ نہیں ہے تو اندیشہ یہ ہے کہ خوشحالی کی ناشکری میں پہلی امتوں کی طرح کہیں یہ لوگ ہلاک نہ ہوجائیں۔
Top