Al-Qurtubi - An-Naba : 28
لَقَدْ جِئْنٰكُمْ بِالْحَقِّ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَكُمْ لِلْحَقِّ كٰرِهُوْنَ
لَقَدْ جِئْنٰكُمْ : البتہ تحقیق لائے ہم تمہارے پاس بِالْحَقِّ : حق وَلٰكِنَّ اَكْثَرَكُمْ : لیکن اکثر تمہارے لِلْحَقِّ : حق کے لیے كٰرِهُوْنَ : ناگوار تھے
اور جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے سب اسی کا ہے اور اسی کی عبادت لازم ہے۔ تو تم خدا کے سوا اوروں سے کیوں ڈرتے ہو ؟
آیت نمبر 52 قولہ تعالیٰ : ولہ ما فی السموت والارض ولہ الدین واصبا اس میں الدین کا معنی طاعت اور اخلاص ہے۔ اور واصبا اس کا معنی ہے دائما (ہمیشہ) یہ فراء نے کہا ہے، اسے جوہری نے بیان کیا ہے۔ وصب الشئ یصب وصوبا، یعنی شے دائمی ہے۔ اور وصب الرجل علی الامر (کہا جاتا ہے) جب کوئی آدمی کسی کام پر مواظبت اختیار کرے اور اس کا معنی ہے : اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہمیشہ واجب ہے۔ اور جنہوں نے واصبا کا معنی دائما بیان کیا ہے وہ حضرت حسن، مجاہد، قتادہ اور ضحاک ہیں۔ اور اسی معنی میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد بھی ہے : ولھم عذاب واصب۔ یعنی ان کے لیے دائمی عذاب ہے۔ اور دؤلی نے کہا ہے : لا أبتغی الحمد القلیل بقاؤہ بذم یکون الدھر أجمع واصبا اور غزنوی اور ثعلبی ہما نے کہا ہے : ما أبتغی الحمد القلیل بقاؤہ یوم بذم الدھر أجمع واصبا ان میں واصبا دائما کے معنی میں ہی واقع ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : الوصب کا معنی التعب والاعیاء (تھک جانا اور تھکا دینا) ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت واجب رہتی ہے اگرچہ بندہ اس میں تھک جائے۔ اور اس معنی میں شاعر کا قول ہے : لا یمسک الساق من أین ولا وصب ولا یعض علی شرسوفہ الصفر اور حضرت ابن عباس ؓ نے بیان فرمایا ہے : واصبا بمعنی واجبا ہے۔ اور فراء (رح) اور کلبی (رح) نے کہا ہے : بمعنی خالصا ہے۔ افغیر اللہ تتقون یعنی یہ نہیں چاہیے کہ تم غیر اللہ سے ڈرو، پس ” غیر “ تتقون کے سبب منصوب ہے۔
Top