Mufradat-ul-Quran - Az-Zukhruf : 36
عِنْدَهَا جَنَّةُ الْمَاْوٰىؕ
عِنْدَهَا : اس کے پاس جَنَّةُ الْمَاْوٰى : جنت الماویٰ ہے
اور جو کوئی خدا کی یاد سے آنکھیں بند کرلے (یعنی تغافل کرے) ہم اس پر ایک شیطان مقرر کردیتے ہیں تو وہ اس کا ساتھی ہوجاتا ہے۔
وَمَنْ يَّعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمٰنِ نُـقَيِّضْ لَہٗ شَيْطٰنًا فَہُوَلَہٗ قَرِيْنٌ۝ 36 عيش العَيْشُ : الحیاة المختصّة بالحیوان، وهو أخصّ من الحیاة، لأنّ الحیاة تقال في الحیوان، وفي الباري تعالی، وفي الملک، ويشتقّ منه المَعِيشَةُ لما يُتَعَيَّشُ منه . قال تعالی: نَحْنُ قَسَمْنا بَيْنَهُمْ مَعِيشَتَهُمْ فِي الْحَياةِ الدُّنْيا[ الزخرف/ 32] ، مَعِيشَةً ضَنْكاً [ طه/ 124] ، لَكُمْ فِيها مَعايِشَ [ الأعراف/ 10] ، وَجَعَلْنا لَكُمْ فِيها مَعايِشَ [ الحجر/ 20] . وقال في أهل الجنّة : فَهُوَ فِي عِيشَةٍ راضِيَةٍ [ القارعة/ 7] ، وقال عليه السلام : «لا عَيْشَ إلّا عَيْشُ الآخرة ( ع ی ش ) العیش خاص کر اس زندگی کو کہتے ہیں جو حیوان میں پائی جاتی ہے اور یہ لفظ الحیاۃ سے اض ہے کیونکہ الحیاۃ کا لفظ حیوان باری تعالیٰ اور ملائکہ سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور العیش سے لفظ المعیشۃ ہے جس کے معنی ہیں سامان زیست کھانے پینے کی وہ تمام چیزیں جن زندگی بسر کی جاتی ہے قرآن میں ہے : ۔ نَحْنُ قَسَمْنا بَيْنَهُمْ مَعِيشَتَهُمْ فِي الْحَياةِ الدُّنْيا[ الزخرف/ 32] ہم نے ان میں ان کی معیشت کو دنیا کی زندگی میں تقسیم کردیا ۔ مَعِيشَةً ضَنْكاً [ طه/ 124] اس کی زندگی تنگ ہوجائے گی ۔ وَجَعَلْنا لَكُمْ فِيها مَعايِشَ [ الحجر/ 20] اور ہم ہی نے تمہارے لئے اس میں زیست کے سامان پیدا کردیئے ۔ لَكُمْ فِيها مَعايِشَ [ الأعراف/ 10] تمہارے لئے اس میں سامان زیست ۔ اور اہل جنت کے متعلق فرمایا : ۔ فَهُوَ فِي عِيشَةٍ راضِيَةٍ [ القارعة/ 7] وہ دل پسند عیش میں ہوگا ۔ اور (علیہ السلام) نے فرمایا ( 55 ) الا عیش الا عیش الاخرۃ کہ حقیقی زندگی تو آخرت کی زندگی ہی ہے ۔ ذكر الذِّكْرُ : تارة يقال ويراد به هيئة للنّفس بها يمكن للإنسان أن يحفظ ما يقتنيه من المعرفة، وهو کالحفظ إلّا أنّ الحفظ يقال اعتبارا بإحرازه، والذِّكْرُ يقال اعتبارا باستحضاره، وتارة يقال لحضور الشیء القلب أو القول، ولذلک قيل : الذّكر ذکران : ذكر بالقلب . وذکر باللّسان . وكلّ واحد منهما ضربان : ذكر عن نسیان . وذکر لا عن نسیان بل عن إدامة الحفظ . وكلّ قول يقال له ذكر، فمن الذّكر باللّسان قوله تعالی: لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء/ 10] ، وقوله تعالی: وَهذا ذِكْرٌ مُبارَكٌ أَنْزَلْناهُ [ الأنبیاء/ 50] ، وقوله : هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِي [ الأنبیاء/ 24] ، وقوله : أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص/ 8] ، أي : القرآن، وقوله تعالی: ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ [ ص/ 1] ، وقوله : وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ [ الزخرف/ 44] ، أي : شرف لک ولقومک، وقوله : فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ [ النحل/ 43] ، أي : الکتب المتقدّمة . وقوله قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُمْ ذِكْراً رَسُولًا [ الطلاق/ 10- 11] ، فقد قيل : الذکر هاهنا وصف للنبيّ صلّى اللہ عليه وسلم «2» ، كما أنّ الکلمة وصف لعیسی عليه السلام من حيث إنه بشّر به في الکتب المتقدّمة، فيكون قوله : ( رسولا) بدلا منه . وقیل : ( رسولا) منتصب بقوله ( ذکرا) «3» كأنه قال : قد أنزلنا إليكم کتابا ذکرا رسولا يتلو، نحو قوله : أَوْ إِطْعامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ يَتِيماً [ البلد/ 14- 15] ،(يتيما) نصب بقوله (إطعام) . ومن الذّكر عن النسیان قوله : فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ أَنْ أَذْكُرَهُ [ الكهف/ 63] ، ومن الذّكر بالقلب واللّسان معا قوله تعالی: فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آباءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْراً [ البقرة/ 200] ، وقوله : فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرامِ وَاذْكُرُوهُ كَما هَداكُمْ [ البقرة/ 198] ، وقوله : وَلَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء/ 105] ، أي : من بعد الکتاب المتقدم . وقوله هَلْ أَتى عَلَى الْإِنْسانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئاً مَذْكُوراً [ الدهر/ 1] ، أي : لم يكن شيئا موجودا بذاته، ( ذک ر ) الذکر ۔ یہ کبھی تو اس ہیت نفسانیہ پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ سے انسان اپنے علم کو محفوظ رکھتا ہے ۔ یہ قریبا حفظ کے ہم معنی ہے مگر حفظ کا لفظ احراز کے لحاظ سے بولا جاتا ہے اور ذکر کا لفظ استحضار کے لحاظ سے اور کبھی ، ، ذکر، ، کا لفظ دل یاز بان پر کسی چیز کے حاضر ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اس بنا پر بعض نے کہا ہے کہ ، ، ذکر ، ، دو قسم پر ہے ۔ ذکر قلبی اور ذکر لسانی ۔ پھر ان میں کسے ہر ایک دو قسم پر ہے لسیان کے بعد کسی چیز کو یاد کرنا یا بغیر نسیان کے کسی کو ہمیشہ یاد رکھنا اور ہر قول کو ذکر کر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ ذکر لسانی کے بارے میں فرمایا۔ لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء/ 10] ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا تذکرہ ہے ۔ وَهذا ذِكْرٌ مُبارَكٌ أَنْزَلْناهُ [ الأنبیاء/ 50] اور یہ مبارک نصیحت ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے ؛هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِي [ الأنبیاء/ 24] یہ میری اور میرے ساتھ والوں کی کتاب ہے اور مجھ سے پہلے ( پیغمبر ) ہوئے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص/ 8] کیا ہم سب میں سے اسی پر نصیحت ( کی کتاب ) اتری ہے ۔ میں ذکر سے مراد قرآن پاک ہے ۔ نیز فرمایا :۔ ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ [ ص/ 1] اور ایت کریمہ :۔ وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ [ الزخرف/ 44] اور یہ ( قرآن ) تمہارے لئے اور تمہاری قوم کے لئے نصیحت ہے ۔ میں ذکر بمعنی شرف ہے یعنی یہ قرآن تیرے اور تیرے قوم کیلئے باعث شرف ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ [ النحل/ 43] تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ میں اہل ذکر سے اہل کتاب مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُمْ ذِكْراً رَسُولًا [ الطلاق/ 10- 11] خدا نے تمہارے پاس نصیحت ( کی کتاب ) اور اپنے پیغمبر ( بھی بھیجے ) ہیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں الذکر آنحضرت ﷺ کی وصف ہے ۔ جیسا کہ عیسیٰ کی وصف میں کلمۃ قسم ہے اس قرآن کی جو نصیحت دینے والا ہے ۔ کا لفظ وارد ہوا ہے ۔ اور آنحضرت ﷺ کو الذکر اس لحاظ سے کہا گیا ہے ۔ کہ کتب سابقہ میں آپ کے متعلق خوش خبردی پائی جاتی تھی ۔ اس قول کی بنا پر رسولا ذکرا سے بدل واقع ہوگا ۔ بعض کے نزدیک رسولا پر نصب ذکر کی وجہ سے ہے گویا آیت یوں ہے ۔ قد أنزلنا إليكم کتابا ذکرا رسولا يتلوجیسا کہ آیت کریمہ ؛ أَوْ إِطْعامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ يَتِيماً [ البلد/ 14- 15] میں کی وجہ سے منصوب ہے اور نسیان کے بعد ذکر کے متعلق فرمایا :َفَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ أَنْ أَذْكُرَهُ [ الكهف/ 63] قو میں مچھلی ( وہیں ) بھول گیا اور مجھے ( آپ سے ) اس کا ذکر کرنا شیطان نے بھلا دیا ۔ اور ذکر قلبی اور لسانی دونوں کے متعلق فرمایا :۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آباءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْراً [ البقرة/ 200] تو ( مبی میں ) خدا کو یاد کرو جسطرح اپنے پاب دادا کیا کرتے تھے بلکہ اس سے بھی زیادہ ۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرامِ وَاذْكُرُوهُ كَما هَداكُمْ [ البقرة/ 198] تو مشعر حرام ( یعنی مزدلفہ ) میں خدا کا ذکر کرو اور اسطرح ذکر کرو جس طرح تم کو سکھایا ۔ اور آیت کریمہ :۔ لَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء/ 105] اور ہم نے نصیحت ( کی کتاب یعنی تورات ) کے بعد زبور میں لکھ دیا تھا ۔ میں الذکر سے کتب سابقہ مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛هَلْ أَتى عَلَى الْإِنْسانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئاً مَذْكُوراً [ الدهر/ 1] انسان پر زمانے میں ایک ایسا وقت بھی آچکا ہے کہ وہ کوئی چیز قابل ذکر نہ تھی ۔ قيض قال تعالی: وَقَيَّضْنا لَهُمْ قُرَناءَ [ فصلت/ 25] ، وقوله : وَمَنْ يَعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمنِ نُقَيِّضْ لَهُ شَيْطاناً [ الزخرف/ 36] أي : نُتِحْ ، ليستولي عليه استیلاء القیض علی البیض، وهو القشر الأعلی ( ق ی ض ) القیض کے معنی انڈے کے اوپر کا چھلکا کے ہیں اور چھلکا چونکہ اس کے باقی منادہ اجزار پر محیط اور مستولی ہوتا ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَقَيَّضْنا لَهُمْ قُرَناءَ [ فصلت/ 25] اور ہم نے شیطانوں کو ہم نشین مقرر کردیا ہے اسی طرح ایت کریمہ : ۔ وَمَنْ يَعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمنِ نُقَيِّضْ لَهُ شَيْطاناً [ الزخرف/ 36] اور جو کوئی خدا کی یاد سے آنکھیں بند کرلے ( یعنی تغافل کرے ) ہم اس پر ایک شیطان مقرر کردیتے ہیں ۔ میں نقیض لہ شیطان کے معنی یہ ہیں کہ ہم اس سے الگ ہوجاتے ہیں تاکہ شیطان اس پر اس طرح مسلط ہوجائے جیسے انڈے کا اوپر کا چھلکا اپنے مافیھا پر مستولی رہتا ہے ۔. شطن الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] ( ش ط ن ) الشیطان اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو قرین الِاقْتِرَانُ کالازدواج في كونه اجتماع شيئين، أو أشياء في معنی من المعاني . قال تعالی: أَوْ جاءَ مَعَهُ الْمَلائِكَةُ مُقْتَرِنِينَ [ الزخرف/ 53] . يقال : قَرَنْتُ البعیر بالبعیر : جمعت بينهما، ويسمّى الحبل الذي يشدّ به قَرَناً ، وقَرَّنْتُهُ علی التّكثير قال : وَآخَرِينَ مُقَرَّنِينَ فِي الْأَصْفادِ [ ص/ 38] وفلان قِرْنُ فلان في الولادة، وقَرِينُهُ وقِرْنُهُ في الجلادة «1» ، وفي القوّة، وفي غيرها من الأحوال . قال تعالی: إِنِّي كانَ لِي قَرِينٌ [ الصافات/ 51] ، وَقالَ قَرِينُهُ هذا ما لَدَيَّ [ ق/ 23] إشارة إلى شهيده . قالَ قَرِينُهُ رَبَّنا ما أَطْغَيْتُهُ [ ق/ 27] ، فَهُوَ لَهُ قَرِينٌ [ الزخرف/ 36] وجمعه : قُرَنَاءُ. قال : وَقَيَّضْنا لَهُمْ قُرَناءَ [ فصلت/ 25] . ( ق ر ن ) الا قتران ازداواج کی طرح اقتران کے معنی بھی دو یا دو سے زیادہ چیزوں کے کسی معنی میں باہم مجتمع ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَوْ جاءَ مَعَهُ الْمَلائِكَةُ مُقْتَرِنِينَ [ الزخرف/ 53] یا یہ ہوتا کہ فر شتے جمع کر اس کے ساتھ آتے دو اونٹوں کو ایک رسی کے ساتھ باندھ دینا اور جس رسی کے ساتھ ان کو باندھا جاتا ہے اسے قرن کہا جاتا ہے اور قرنتہ ( تفعیل ) میں مبالغہ کے معنی پائے جاتے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَآخَرِينَ مُقَرَّنِينَ فِي الْأَصْفادِ [ ص/ 38] اور اور روں کو بھی جو زنجروں میں جکڑ ی ہوئی تھے ۔ اور آدمی جو دوسرے کا ہم عمر ہو یا بہادری قوت اور دیگر اوصاف میں اس کا ہم پلہ ہوا سے اس کا قرن کہا جاتا ہے اور ہم پلہ یا ہم سر کون قرین بھی کہتے ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ فلان قرن فلان او قرینہ فلاں اس کا ہم عمر ہم سر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنِّي كانَ لِي قَرِينٌ [ الصافات/ 51] کہ میرا ایک ہم نشین تھا ۔ وَقالَ قَرِينُهُ هذا ما لَدَيَّ [ ق/ 23] اور اس کا ہم نشین ( فرشتہ ) کہے گا یہ ( اعمال مانہ ) میرے پاس تیار ہے ۔ یہاں قرین سے مراد وہ فرشتہ ہے جسے دوسری جگہ شہید ( گواہ ) کہا ہے ۔ قالَ قَرِينُهُ رَبَّنا ما أَطْغَيْتُهُ [ ق/ 27] ، اس کا ساتھی ( شیطان ) کہے گا کہ اے ہمارے پروردگار میں نے اس کو گمراہ نہیں کیا ۔ فَهُوَ لَهُ قَرِينٌ [ الزخرف/ 36] تو وہ اس کا ساتھی ہوجا تا ہے ۔ قرین کی جمع قرنآء ہے قرآن میں ہے : ۔ وَقَيَّضْنا لَهُمْ قُرَناءَ [ فصلت/ 25] اور ہم نے شیبان کو ان کا ہم نشین مقرر کردیا ۔
Top