Mualim-ul-Irfan - Maryam : 41
وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِبْرٰهِیْمَ١ؕ۬ اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا   ۧ
وَاذْكُرْ : اور یاد کرو فِي الْكِتٰبِ : کتاب میں اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم اِنَّهٗ كَانَ : بیشک وہ تھے صِدِّيْقًا : سچے نَّبِيًّا : نبی
اور آپ ذکر کریں کتاب (قرآن) میں ابراہیم (علیہ السلام) کا بیشک تھے وہ بہت بڑے راست باز اور اللہ کے نبی ۔
ربط آیات : دوسرے رکوع کی ابتداء میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم (علیہ السلام) کا ذکر بھی اسی طرح کیا تھا (آیت) ” واذکر فی الکتب مریم “۔ وہاں پر اللہ تعالیٰ نے ان پر کی گئی اپنی خاص مہربانی کا تذکرہ فرمایا ، یہ واقعہ بطور تمہید تھا ، پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت کا ذکر کرکے مسئلہ توحید سمجھایا اور شرک کا رد کیا درمیان میں فرمایا (آیت) ” ماکان للہ ان یتخذ من والد سبحنہ “۔ (آیت 35) اللہ تعالیٰ کی ذات اپنے لیے بیٹا بنانے سے پاک ہے مسیح (علیہ السلام) نے بھی قوم کو یہی تعلیم دی (آیت) ” وان اللہ ربی وربکم فاعبدہ “۔ (آیت ۔ 36) میرا اور تمہارا پروردگار اللہ تعالیٰ ہے اسی کی عبادت کرو ، اور یہی سیدھا راستہ ہے ، اس طرح اللہ تعالیٰ نے نصاری کے عقیدہ ولدیت کی نفی فرما دی ۔ (ملت ابراہیمی میں بگاڑ) عیسیٰ (علیہ السلام) کے تذکرے کے بعد آگے بعض دیگر انبیاء کا ذکر بھی آرہا ہے جن میں سرفہرست حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہیں آپ کی عزت و توقیر نہ صرف مسلمان کرتے ہیں بلکہ یہود ونصاری بھی آپ کی عظمت کے قائل ہیں ، خاص طور پر مشرکین عرب کو تو اس بات پر فخر تھا کہ وہ ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ہیں مگر بڑے افسوس کا مقام ہے کہ یہ تمام گروہ آپ کی تعلیمات پر قائم نہ رہے بلکہ آپ کے دین اور ملت کو ہی بگاڑ دیا یہودی کہتے تھے کہ ہم حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے طریقے پر ہیں ، نصاری بھی یہی دعوی کرتے تھے اور مشرکین عرب تو خاص طور پر ملت ابراہیمی پر ہونے کے دعویدار تھے اب اسی سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر کرکے ثابت کیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی توحید کے خود بھی قائل تھے اور دوسروں کو بھی توحید کی دعوت دیتے تھے آپ شرک اور بت پرستی کے سخت خلاف تھے اور ہر موقع پر اس کی مذمت کرتے تھے حنیفیت کا دور آپ ہی سے شروع ہوا ، اس لیے آپ تمام ائمہ حنیفیت کے امام تھے آپ کی حنیفیت کی گواہی خود قرآن پاک نے جگہ جگہ دی ہے ۔ (آیت) ” ابن ابرھیم کان امۃ قانتا للہ حنیفا ، ولم یک من المشرکین “۔ (النحل ، 120) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پیشوا اور اللہ کی اطاعت کرنے والے اور ایک طرف لگنے والے تھے ، اور مشرکوں میں سے نہیں تھے سورة آل عمران میں ہے (آیت) ” ما کان ابرھیم یھودیا ولا نصرانیا ولکن کان حنیفا مسلما وما کان من المشرکین “۔ (آیت) ” 27) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نہ تو یہودی تھے اور نہ نصرانی بلکہ وہ ایک طرف لگنے والے حنیف تھے اور مشرکوں میں سے نہیں تھے ، اب یہود ، نصاری اور مشرکین کو سوچنا چاہئے کہ وہ کس بنا پر اپنی نسبت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف کرتے ہیں ، اللہ کے فرمان کے مطابق ان تینوں میں سے کوئی گروہ بھی آپ کے طریقے پر نہیں ہے ان سب نے غلط عقائد وضع کیے اور پھر شرک میں مبتلا ہوگئے ۔ (حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا تذکرہ) یہاں پر اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا تذکرہ اس طرح کیا ہے (آیت) ” واذکر فی الکتب ابرھیم “۔ اے پیغمبر ! ﷺ آپ اس کتاب یعنی قرآن پاک میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر کریں جو کہ مؤحدین کے پیشوا اور تمام حنفا کے امام تھے آپ کی حیثیت اور مرتبے کے متعلق اللہ نے فرمایا (آیت) ” انہ کان صدیقا نبیا “۔ بیشک آپ بڑے راست باز اور اللہ تعالیٰ کے نبی تھے ، اللہ نے آپ کو اپنا خلیل بنایا جیسا کہ سورة النساء میں موجود ہے (آیت) ” واتخذ اللہ ابرھیم خلیلا “۔ (آیت ، 125) اللہ نے آپ کو بہت سی آزمائشوں میں ڈالا ، اور ہر امتحان میں کامیاب ہوئے چناچہ اللہ نے آپ کو عمومی امامت بھی عطا فرمائی (آیت) ” انی جاعلک للناس امام “۔ (البقرہ ، 124) میں تمہیں لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں ۔ اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی صدیقیت کا بطور خاص ذکر کیا ہے صدیق مبالغے کا صیغہ ہے یعنی بہت زیادہ راست باز ، اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبی بھی بنایا ہے اس بات کی وضاحت اس لیے ضروری تھی کہ ہر نبی صدیق تو ہوتا ہے مگر ہر صدیق نبی نہیں ہوتا کیونکہ صدیقیت کا درجہ نبی سے کم ہے ، صدیق سے مراد وہ شخص ہے جو عقیدے ، عمل ، اخلاق ، وعدے ، اور نیت میں سچائی اختیار کرے اللہ کے نبیوں میں تو یہ صفت لازمی طور پر ہوتی ہے ، پھر آپ کے بعد آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین درجہ بدرجہ صدیقیت کے درجے پر فائز ہیں ، اگرچہ حضور ﷺ کے تمام صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین صدیق ہیں ، تاہم ان میں سے خلفائے راشدین کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے بعد سب سے بڑے صدیق ہیں ، حضرت ابوبکر صدیق کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کو حضور ﷺ نے اپنی زبان مبارک سے صدیق کا لقب عطا فرمایا آپ کی بیٹی اور حضور کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ ؓ بھی صدیقہ ہیں ، بعض روایات میں آتا ہے کہ حضرت علی ؓ نے فرمایا ” انا صدیق الاکبر لا یقولھا بعد الا کذبا “۔ یعنی میں صدیق اکبر ہوں میرے بعد جو بھی صدیق اکبر ہونے کا دعوی کرے گا وہ جھوٹا ہوگا ، ظاہر ہے کہ خلفائے راشدین کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے درجات بھی متفاوت ہیں ، پہلے نمبر پر حضرت ابوبکر ؓ صدیق اکبر ہیں ، پھر عمر فاروق ؓ پھر عثمان غنی ؓ اور چوتھے نمبر پر حضرت علی ؓ صدیق اکبر ہیں ، اس کے بعد جو شخص صدیق اکبر ہونے کا دعویدار ہوگا ہو واقعی جھوٹا ہوگا ، کیونکہ یہ مرتبہ خلفائے راشدین پر ختم ہوچکا ہے ۔ (صابیت اور حنفیت کا دور) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے پہلے صابیت کا دور تھا یہ دور آدم (علیہ السلام) کے فرزند شیث (علیہ السلام) یا ادریس (علیہ السلام) سے شروع ہوا اس دور میان بابل بڑا مشہور شہر تھا جو کہ ساٹھ مربعہ میل میں پھیلا ہوا تھا یہ شہر آشوری اور کلدانی تہذیبوں کا مرکز رہا مگر اب ٹیکسلا کی طرح کھنڈرات میں تبدیل ہوچکا ہے ، بغداد سے ساٹھ ستر میل دور اس شہر کے مکین صابی لوگ تھے ، امام جلال الدین سیوطی (رح) اپنی کتاب ” حسن المحاضرۃ فی احوال المصر والقاھرۃ “ میں لکھتے ہیں کہ صابیت کے چار اصول مسلم تھے یعنی توحید ، طہارت ، صوم اور صلوۃ مگر آہستہ آہستہ یہ اصول ختم ہوگئے ، یہ لوگ زیادہ تربت پرستی اور ستارہ پرستی میں مبتلا تھے ستاروں میں الوہیت کا کرشمہ مانتے تھے ، انہوں نے ستاروں کے نام پر عبادت خانے بنا رکھے تھے ، چناچہ رومی ، یونانی ، برصغیر کے ہندو اور پرانے چینی بدھ وغیر سب صابی تھے ، مگر انہوں نے صابی ملت کے اصل اصولوں کو بگاڑ دیا ۔ پھر مسیح (علیہ السلام) سے 2160 سال قبل حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بعثت کے ساتھ دور حنیفیت شروع ہوا ، آپ نے شرک کی بیخ کنی کی اور لوگوں کو توحید سے روشناس کرایا آپ نے 170 برس عمر پائی اور اس دوران میں بڑے بڑے انقلاب دیکھے آپ پر بڑی آزمائشیں آئیں اور آپ ہر آزمائش میں کامیاب ہوئے آپ کے ہاتھوں لگایا ہوا توحید کا پودا آہستہ آہستہ کملانے لگا حتی کے آپ کے ماننے والے خود یہود ونصارے نے حنیفیت میں خرابیاں پیدا کردیں اور ان میں توحید کی بجائے شرک در آیا پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی حضرت محمد ﷺ کو مبعوث فرمایا جنہوں نے ملت ابراہیمی کو دوبارہ زندہ کیا اور لوگوں کو ایک خدا کی طرف متوجہ کیا مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پھر خرابیاں شروع ہوگئیں مسلمانوں میں بھی گمراہ فرقے پیدا ہوگئے اور خالص توحید میں شرک کی پھر ملاوٹ ہونے لگی ۔ (حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا باپ) ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” اذ قال لابیہ “۔ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ سے کہا یہاں پر باپ کے نام کی تصریح تو نہیں ہے تاہم سورة انعام میں موجود حضرت ابراہیم (علیہ السلام) واذ قال ابرھیم لابیہ اذر “۔ (آیت ، 74) کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ آزر سے کہا کہ کیا تم بتوں کو معبود بناتے ہو میں تو تمہیں کھلی گمراہی میں دیکھ رہا ہوں ، شیعہ اور بعض دوسرے حضرات کہتے ہیں آزر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا باپ نہیں بلکہ چچا تھا اور آپ کے باپ کا نام تارخ تھا ، ان کا استدلال یہ ہے کہ آزر تو بہت بڑا مشرک تھا جب کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے تمام آباؤ و اجداد مومن تھے ، لہذا آزر آپ کا باپ نہیں ہے ان حضرات کا یہ نظریہ بلادلیل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے (آیت) ” یخرج الحی من المیت و مخرج المیت من الحی “۔ (الانعام ، 95) یعنی اللہ تعالیٰ مردوں سے زندہ اور زندوں سے مردہ نکالتا ہے ، مقصد یہی ہے کافروں سے مؤحد اور مومنوں سے کافر پیدا ہوتے ہیں ، لہذا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جیسے عظیم پیغمبر کا مشرک باپ سے پیدا ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے حقیقت یہ ہے کہ آزر اور تارخ ایک ہی شخص کے دو نام ہیں اصل تارخ ہی ہے مگر بت پرستوں کے پروہت ہونے کی بنا پر آزر لقب تھا ۔ (باپ سے خطاب) تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ سے کہا ” یابت “ اے میرے باپ عربی محاورے میں یہ لفظ محبت کے انداز میں استعمال ہوتا ہے جیسے ” یبنی “ یعنی اے میرے بیٹے ، حضرت لقمان (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے کو اسی لفظ سے خطاب کرکے کہا کہ اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا کہ یہ ظلم عظیم ہے ، خود حضور ﷺ حضرت انس ؓ کو ” یبنی “ کہہ کر خطاب فرماتے تھے حضرت مغیرہ ابن شعبہ ؓ حضور سے بار بار پوچھتے کہ حضور ! دجال کے فتنے میں کیا بنے گا تو آپ نے فرمایا ” یبنی “ اے میرے بیٹے خوف نہ کھاؤ دجال تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکے گا غرضیکہ ” یبنی “ کی طرح ” یابت “ میں بھی محبت والفت پائی جاتی ہے ، یہ بالکل ایسے ہی جیسے اردو میں ” ابا جی “ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ سے یوں کہا (آیت) ” لم تعبد مالا یسمع ولا یبصر ولا یغنی عنک شیئا “۔ آپ ان کی کیوں عبادت کرتے ہیں جو نہ دیکھتے ہیں ، نہ سنتے ہیں اور نہ آپ کے کسی کام آسکتے ہیں ؟ ان بتوں کو تو خود آپ ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ رکھتے ہیں ، یہ تو اپنے آپ چل پھر بھی نہیں سکتے بھلا یہ آپ کے کسی کام آئیں گے ، یہ تو بڑی بےعقل کی بات ہے کہ خود اپنے ہاتھوں سے تراش کر انہیں کو معبود بنا لیں اور ان سے حاجتیں طلب کرنے لگیں حقیقت یہ ہے کہ کوئی سننے اور دیکھنے والا بھی معبود نہیں بن سکتا ، فرشتے اللہ کی مقرب مخلوق ہیں ، جو دیکھتے اور سنتے ہیں اور اللہ نے انہیں کسی حد تک اختیار بھی دے رکھا ہے مگر معبود وہ بھی نہیں بن سکتے کیونکہ معبود ہونے کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ خالق ہو ، ازلی اور ابدی ہو اور کسی کا محتاج نہ ہو ۔ (ساری مخلوق محتاج ہے) مگر امر واقع یہ ہے کہ ساری کی ساری مخلوق اللہ تعالیٰ کی محتاج ہے (آیت) ” یسئلہ من فی السموت والارض “ (الرحمن ، 29) آسمان و زمین کی ہر چیز اسی مالک الملک کے در کی سوالی ہے سب محتاج ہیں اور اسی سے اپنی حاجتیں طلب کرتے ہیں کوئی زبان حال سے مانگ رہا ہے اور کوئی زبان قال سے ، درختوں کی زبان حال سرسبزی اور شادابی طلب کر رہی ہے ، پھتر ہوا اور پانی سب اپنی ضروریات طلب کر رہے ہیں ، جانور ، چرند اور پرند سب اسی کے سامنے دامن پھیلائے ہوئے ہیں اور انسان تو ہیں ہی محتاج ، دینے والا صرف ایک ہے اور وہی بہتر جانتا ہے کہ کس کو کس چیز کی ضرورت ہے اور کتنی ضرورت ہے اس کا فرمان ہے (آیت) ” ولو بسط اللہ الرزق لعبادہ لبغوا فی الارض ولکن ینزل بقدر ما یشآء “۔ (الشوری ، 27) اگر اللہ تعالیٰ رزق کے دروازے سب پر یکساں کھول دے تو سب سرکش ہوجائیں ، وہ ایک خاص اندازے کے مطابق رزق نازل فرماتا ہے ، اس کی مصلحت کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا (آیت) ” یدبر الامر من السمآء الی الارض “۔ (السجدۃ ، 5) آسمان کی بلندیوں سے لے کر زمین کی پستیوں تک ہر کام کی تدبیر وہ خود کرتا ہے ، اس نے کسی کو اختیار نہیں دیا کہ فلاں کام تم کرلیا کرو اور فلاں میں انجام دے لوں گا ، ہمیں تو یہی دعا سکھلائی گئی ہے ” یا مصرف القلوب صرف قلوبنا الی طاعتک “۔ اے دلوں کے پھیرنے والے ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت کی طرف پھیر دے ، ایمان اور اخلاص کی طرف پھیرنا بھی تیرا ہی کام ہے (1) (حصن حصین ص 473) (فیاض) لہذا تو اپنی رحمت سے ہمیں نیکی پر مستحکم رکھ ۔ (صنم اور وثن) اس آیت کریمہ میں ابراہیم نے اپنے باپ کو ان بتوں کی پوجا سے منع کیا جو نہ دیکھتے ہیں ، نہ سنتے ہیں اور کسی کام آسکتے ہیں ، یہ بت دو قسم کے ہوتے تھے ، ایک قسم کے بت صنم کہلاتے تھے ، یہ جو پتھروں یا لکڑی کو تراش کر کسی خاص شکل میں بنائے جاتے تھے اور وثن ان بتوں کو کہتے تھے جو ان گھڑے ہوتے ہوتے تھے اور کسی خاص شکل پر متشکل نہیں ہوتے تھے کسی وضع قطع کے پتھر یا لکڑی کو معبود تسلیم کرکے اس کی پوجا شروع کردی ، پھر ان کی نذر ونیاز بھی کرتے تھے ، ان کے آگے کھانا مٹھائی اور دودھ وغیرہ رکھتے تھے اور ان کی تعظیم کرتے تھے انہی بتوں کی پوجا سے ابراہیم (علیہ السلام) نے روکا ۔ حدیث شریف میں صلیب کے نشان کو بھی وثن سے تعبیر کیا گیا ہے جب عدی ؓ بن حاتم طائی حضور کی خدمت میں پہلی دفعہ پیش ہوئے تو ان کے گلے میں صلیب لٹک رہی تھی ، آپ نے فرمایا ” الق عنک ھذا الوثن “ یہ وثن یعنی بت اپنے گلے سے اتار دو ، عیسائی صلیب کی تعظیم کرتے ہیں ۔ جب مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان جنگ ہوتی ہے تو مسلمان اللہ تعالیٰ کی عظمت کی خاطر لڑتے ہیں جب کہ عیسائیوں کے ہاں فتح کا میعار صلیب ہوتا ہے ، وہ صلیب کی بلندی چاہتے ہیں لہذا یہ ان کا معبود ہے اور یہ صریح شرک ہے ۔ بعض لوگ زندہ ہستیوں کی پرستش کرتے ہیں اور بعض اصحاب قبول کو پوجتے ہیں لوگوں میں خدا کے انبیاء ، ملائکہ ، جنات اور شیاطین کے پجاری بھی موجود ہیں ، بہرحال یہاں پر شرک کی جس قسم کو ذکر ہے وہ پتھر یا لکڑی کے مجسمے ہیں ، (قطعی علم بذریعہ وحی) ابراہیم (علیہ السلام) نے پہلی بات تو یہ کی کہ باپ کو بتوں کی پوجا سے منع کیا اور دوسری بات یہ کہ ” یابت “ اے میرے باپ (آیت) ” انی قد جآءنی من العلم مالم یا تک “۔ تحقیق میرے پاس ایک ایسا علم آیا ہے جو تیرے پاس نہیں ہے لہذا میں تجھے کہتا ہوں (آیت) ” فاتبعنی اھدک صراط سویا “۔ کہ میری اطاعت کر میں تجھے سیدھا راستہ دکھاؤں گا اس سے پہلی بات یہ معلوم ہوئی کہ تبلیغ دین کے لیے نہایت ہی نرم رویہ بلکہ محبت کا سا انداز اختیار کرنا چاہئے تمام انبیاء (علیہ السلام) نے یہی طریقہ اختیار کیا ، اور اگر کہیں سخت رویہ اختیار کیا ہے تو بالکل ناگریز حالات میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کے واقعہ میں بھی ہے کہ اللہ نے دونوں کو فرعون کے پاس تبلیغ کے لیے بھیجا اور ساتھ نصیحت کی (آیت) ” فقولا لہ قولا لینا “۔ (طہ ، 44) اور اس سے نرم لہجے میں بات کرنا بہرحال تبلیغ دین کے لیے نرم رویے کی ضرورت ہے ، دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے پاس قطعی اور یقینی علم ہوتا ہے جو باقی مخلوق کے پاس نہیں ہوتا ، اس سے مراد وحی الہی ہے چناچہ امام بخاری (رح) نے اپنی صحیح بخاری کی ابتداء ہی وحی الہی سے کر کے باپ ہی اس طرح باندھا (1) (بخاری ص 1 ج 1) (فیاض) ہے ” کیف کان بدء الوحی الی رسول اللہ ﷺ “ یعنی حضور ﷺ پر وحی کی ابتدا کیسے ہوئی ، مقصد یہ کہ وحی الہی ہی قطعی ذریعہ علم ہے ، اس کے علاوہ باقی تمام ذرائع ظنی ہیں ، علم سائنس مشاہدات پر مبنی ہونے کے باوجود خطا سے خالی نہیں ، کوئی چیز ایک شخص کے مشاہدے میں کچھ آتی ہے جب کہ دوسرا شخص کچھ اور ہی سمجھتا ہے ، اسی طرح کشف میں بھی غلطی کا امکان ہے غلطی سے مبرا صرف وحی الہی ہے ، اس کو سمجھنے میں نبی کوئی غلطی نہیں کرتا اور نہ ہی اسے آگے بیان کرنے میں کوئی غلطی سرزد ہوتی ہے اسی لیے ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ سے کہا میرے پاس ایک ایسا علم ہے جو تمہارے پاس نہیں ہے لہذا آپ میری بات مانیں ، میں آپ کو سیدھا راستہ دکھاؤں گا ۔ (اہل علم کا اتباع) اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ اہل علم کا اتباع ضروری ہے سورة النحل میں اللہ تعالیٰ ارشاد ہے (آیت) ” فسئلوا اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون “۔ (آیت 43) جو چیز تم خود نہیں جانتے اسے جاننے والوں سے پوچھ لو ، لہذا عوام کا فرض ہے کہ وہ اہل علم کا اتباع کریں اس زمانے میں نام نہاد علماء گمراہی کا ذریعہ بن رہے ہیں ۔ بی اے میں تھوڑی سی عربی پڑھ لی تو پرویز کی طرح عالم بن بیٹھے ان کو تو علم کی ہوا بھی نہیں لگی ، سلف نے حصول علم کے لیے مشقتیں برداشت کیں ، ہزاروں اساتذہ سے فیض حاصل کیا ، عمروں کے طویل حصے علم حاصل کرنے میں لگا دیے ابو قاری کا حال دیکھ لیں ، صرف کے ایک صیغہ میں غلطی کر بیٹھے استاد صاحب نے کہا بڑے افسوس کی بات ہے کہ اتنی سخت غلطی کی اٹھ کر چلے گئے اور زندگی کے مزید چالی سال فن میں صرف پر لگا دیے جب بالکل کامل ہوگئے تو پھر پڑھانے کے بیٹھے امام شافعی (رح) کا قول ہے کہ میں نے دوران تعلیم سولہ سال تک رات بھر ایک گلاس پانی تک نہیں پیا کہ کہیں مطالعہ میں خلل نہ آجائے ۔ ّشیطان کی عبادت) ابراہیم (علیہ السلام) نے مزید فرمایا (آیت) ” لاتعبد الشیطن “ اے میرے باپ ، شیطان کی عبادت نہ کریں عبادت صرف رکوع و سجدہ کا نام ہی نہیں بلکہ شیطان کا حکم ماننا اس کی عبادت کرنے کے مترادف ہے ، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے بار بار فرمایا ہے (آیت) ” لا تتبعوا خطوت الشیطن “۔ (البقرہ : 168) شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو ، جو شخص خدا تعالیٰ کے قانون کو چھوڑ کر اپنی عقل یا خواہش پر چلتا ہے وہ حقیقت میں شیطان کے نقش قدم پر ہی چلتا ہے ، رسومات کی اتباع بھی شیطان کی پیروی ہے ، اللہ تعالیٰ نے تجارت ، سیاست اور معیشت کے تمام قوانین واضح کردیے ہیں جو بھی ان کی خلاف ورزی کرے گا وہ شیطان کا متبع ہوگا ۔ فرمایا اے باپ ! شیطان کی عبادت نہ کرنا کیونکہ (آیت) ” ان الشیطن کان للرحمن عصیا “۔ شیطان تو رحمان کا نافرمان ہے ، اس نے تو روز اول سے کہہ دیا تھا (آیت) ” فبما اغویتنی لاقعدن لھم صراطک المستقیم “۔ (الاعراف ، 16) تو نے مجھے گمراہ ٹھہرا ہی دیا ہے تو اب میں بھی تیرے سیدھے راستے میں بیٹھ کر ان کو گمراہ کروں گا شیطان تو پہلے دن سے مرد وقرار دیا جا چکا ہے ، بقول حضرت یحی منیری (رح) شیطان نے سات لاکھ سال عبادت کی مگر ایک انکار کر کے راندہ درگاہ ٹھہرا اللہ نے فرمایا (آیت) ” فاخرج فانک رجیم “۔ (ص 77) یہاں سے نکل جاؤ تم مردود ہو ، شیطان کے متعلق سورة الکہف میں بھی گزر چکا ہے ۔ (آیت) ” افتتخذونہ وذریتہ اولیآء من دونی وھم لکم عدو “۔ (ایت ، 150) کیا تم شیطان اور اس کی اولاد کو اپنا دوست سمجھتے ہو ، حالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں ، وہ ہر مقام پر وسوسہ انداز کرکے تمہیں پھسلانا چاہتے ہیں ، اسی لیے فرمایا کہ شیطان تو رحمان کا نافرمان ہے اس کی عبادت نہ کرو ۔ (عذاب الہی کا خوف) پھر فرمایا (آیت) ” یابت انی اخاف ان یمسک عذاب من الرحمن “۔ اے میرے باپ ، مجھے ڈر ہے کہ تمہیں خدائے رحمان کی طرف سے عذاب نہ پہنچ جائے (آیت) ” فتکون للشیطن ولیا “۔ پس تم شیطان کے دوست بن کر رہ جاؤ گے اور خدائے رحمان سے کٹ جاؤ گے ، یہاں پر اللہ تعالیٰ کے اسم رحمان کا ذکر کیا ہے جبار اور قہار کا نہیں کیا ، اللہ تعالیٰ بلاشبہ بڑا رحم کرنے والا ہے ، مگر جب کوئی شخص اس کی حکم عدولی کرکے توحید کو چھوڑ دیتا ہے ، اور شیطان کا اتباع کرنے لگتا ہے ، تو پھر رحمان سزا بھی دیتا ہے ، اسی لیے فرمایا کہ اے باپ مجھے خطرہ ہے کہ تم کہیں شیطان کے دوست نہ بن جاؤ ۔ اب باپ کا جواب اور اس کی کارگزاری کا بیان اگلی آیات میں آرہا ہے ۔
Top