Mualim-ul-Irfan - Maryam : 66
وَ یَقُوْلُ الْاِنْسَانُ ءَاِذَا مَا مِتُّ لَسَوْفَ اُخْرَجُ حَیًّا
وَيَقُوْلُ : اور کہتا ہے الْاِنْسَانُ : انسان ءَ اِذَا : کیا جب مَا مِتُّ : میں مرگیا لَسَوْفَ : تو پھر اُخْرَجُ : میں نکالا جاؤں گا حَيًّا : زندہ
اور کہتا ہے انسان کیا جب میں مرجاؤں گا تو کیا پھر دوبارہ زندہ نکالا جاؤں گا۔
ربط آیات : گذشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے نافرمانوں کا ذکر کرنے کے بعد ایمان لانے اور نیک اعمال انجام دینے والوں کے انعام کا ذکر کیا کہ وہ بہشتوں میں رہیں گے ، اللہ تعالیٰ نے ان بہشتوں کی خوبی اور فضیلت بھی بیان فرمائی ، یہ بہشت ان لوگوں کو ملے گی جو متقی یعنی کفر ، شرک ، نفاق ، بداعتقادی ، اور گناہوں سے بچنے والے ہوں گے ، پھر اللہ نے فرشتوں کے متعلق فرمایا کہ وہ یوں کہتے ہیں کہ ہم اپنی مرضی سے نازل نہیں ہوتے بلکہ پروردگار کے حکم کے مطابق ہی ہمارا نزول ہوتا ہے اور ہم اللہ کی طرف سے مفوضہ کام پورا کرتے ہیں وہی پروردگار جو ارض وسما اور تمام چیزوں کا رب ہے اسی کی عبادت پر قائم رہنا چاہئے ، وہ بےمثل اور بےمثال ہے ۔ (بعث بعد الموت) آگے اللہ تعالیٰ نے نافرمان لوگوں کے نظریہ بعث بعد الموت کو بیان فرمایا ارشاد ہوتا ہے ۔ (آیت) ” ویقول الانسان “۔ اور انسان کہتا ہے ، یہاں پر انسان سے مراد کافر اور مشرک انسان ہیں وہ کہتے (آیت) ” ء اذا ما مت لسوف اخرج حیا “۔ کیا جب میں مرجاؤں گا تو پھر دوبارہ زندہ نکالا جاؤں گا ؟ یہ تو ناممکن ہے ، دراصل ایسا شخص وقوع قیامت کا انکار کرتا ہے اور محاسبے کے عمل پر یقین نہیں رکھتا ، سورة السجدۃ میں اس مضمون کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ ایسے لوگ کہتے ہیں (آیت) ” ء اضللنا فی الارضء انا لفی خلق جدید “۔ (آیت ، 10) کیا جب ہم مر کر مٹی میں رل مل جائیں گے تو کیا پھر دوبارہ زندہ ہوں گے ؟ یہ بات تو عقل سے بعید معلوم ہوتی ہے ، جب کوئی شخص محاسبے پر یقین نہیں رکھتا تو پھر وہ آزاد ہو کر کفر اور شرک کرنے لگتا ہے اللہ نے ایسے لوگوں کا رد فرمایا ہے اور پھر بعث بعدالموت ، کو ایک دلیل کے ذریعے سمجھایا ہے (آیت) ” اولا یذکر الانسان “۔ کیا انسان اس بات کو یاد نہیں رکھتا (آیت) ” انا خلقنہ من قبل “۔ کہ ہم نے اس سے پہلے بھی اسے پیدا کیا (آیت) ” ولم یک شیئا “۔ اور وہ کوئی (قابل ذکر) چیز نہ تھا ۔ کیا انسان اس حقیقت پر غور نہیں کرتا کہ جس اللہ نے اسے نیستی سے ہستی میں وجود بخشا جب کہ اس سے پہلے وہ کچھ نہیں تھا تو اس کے لیے دوبارہ پیدا کرنا کونسا امر محال ہے اگر اللہ تعالیٰ کے لیے تخلیق کرنا مشکل ہوتا تو پہلی دفعہ ہوتا وہ تو قادر مطلق ہے اس کے لیے نہ پہلی دفعہ پیدا کرنا مشکل تھا اور نہ اس کا اعادہ کرنا ، مطلب یہ ہے کہ جب تم اپنی تخلیق کو تسلیم کرتے ہو تو اب دوبارہ پیدا کرنا کیسے محال ہوگا جب کہ اس کا نقش پہلے سے موجود ہے ۔ اس میں مادے کو ابدی ماننے والوں کا رد بھی ہوگیا ، ان کا یہ نظریہ غلط ثابت ہوگیا ہے کہ وہ مادہ ازل سے موجود ہے اور اس کے ساتھ تصویر آکر مل جاتی ہے تو انسان بن جاتا ہے حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محض اپنی قدرت تامہ اور حکم بالغہ سے انسان کو پیدا کیا ہے وہ جب چاہے گا اس کا اعادہ بھی کرے گا ۔ (محاسبہ اعمال) اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے وقوع قیامت اور محاسبہ اعمال کی بات کی ہے ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” فوربک لنحشرنھم والشیطین “۔ تیرے پروردگار کی قسم ہم ضرور ان کو یعنی انسانوں اور شیطانوں کو اکٹھا کریں گے ، شیطان ہی انسانوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتا تھا کہ جب ہم مر کر مٹی ہوجائیں گے ، ہماری ہڈیاں بوسیدہ ہوجائیں گی تو پھر کون ہمیں دوبارہ زندہ کرے گا ، اس لیے فرمایا کہ ہم انسانوں اور شیاطین دونوں گروہوں کو جمع کرلیں گے ، (آیت) ” ثم لنحضرنھم “ پھر ہم ان کو حاضر کریں گے (آیت) ” حول جھنم جثیا “۔ جہنم کے گرد اس حالت میں کہ وہ گھنٹے ٹیکنے والے ہوں گے ، مطلب یہ کہ وہ ذلیل و خوار ہو کر مجرموں کی حیثیت میں پیش ہوں گے ۔ (آیت) ” ثم لننزعن من کل شیعۃ “۔ پھر ہم ہر گروہ میں سے ایسے لوگوں کو الگ کرلیں گے (آیت) ” ایھم اشد علی الرحمن عتیا “۔ جو خدائے رحمان کے سامنے زیادہ سرکشی اور اکڑ دکھاتے تھے ، مجرموں کی درجہ بندی ہوگی اور ہر ہر قسم کے مجرمین کو الگ الگ گروہوں میں پیش کیا جائے گا پھر جو بدترین مجرم ہوں گے ، ان کی سزا بھی سخت ترین ہوگی ۔ (آیت) ” ثم لنحن اعلم بالذین ھم اولی بھا صلیا “۔ پھر ہم خوب جانتے ہیں ان لوگوں کو جو جہنم میں داخل ہونے کے زیادہ لائق ہیں چناچہ ہم ان کے ساتھ حسب حال سلوک کریں گے ۔ (جہنم میں ورود) درمیان میں اللہ تعالیٰ نے ایک خاص منزل کا ذکر بھی فرمایا ہے (آیت) ” وان منکم الا واردھا “۔ اور تم میں کوئی بھی نہیں مگر وہ جہنم میں داخل ہونے والا ہے یعنی ہر شخص کو ایک دفعہ جہنم میں ضرور جانا ہوگا آج کی پہلی آیت (آیت) ” ویقول الانسان “۔ میں انسان سے مراد صرف نافرمان انسان ہیں مگر یہاں پر (آیت) ” ان منکم “۔ یعنی نفی اور اثبات لا کر ہر نیک وبدانسان کا احاطہ کیا گیا ہے سب کے سب جہنم میں وارد ہونے والے ہیں ، فرمایا یہ کوئی کچی بات نہیں ہے بلکہ (آیت) ” کان علی ربک حتما مقضیا “۔ یہ بات تیرے پروردگار پر قطعی طور پر فیصلہ کی ہوئی ہے ، مفسرین کرام تمام لوگوں کے ورود جہنم کی تفسیر دو طریقے سے کرتے ہیں ایک تفسیر تو یہ ہے کہ سب لوگ بعینہ جہنم میں داخل ہوں گے ، کافر ، مشرک ، اور نافرمان تو وہاں سزا پائیں گے لیکن اہل ایمان جہنم کے شر سے محفوظ رہیں گے ، اس کی مثال حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ہے کہ جب وہ آگ میں ڈالے گئے تو اللہ نے ان کے لیے آگ کو ٹھنڈا اور سلامتی والا بنا دیا ، اسی طرح مومن بھی جہنم میں جائیں گے تو ضرور مگر آگ انہیں کوئی ضرر نہ پہنچائے گی اور پھر وہ اس سے نکل جائینگے ۔ (پل صراط کی منزل) دوسری تفسیر کی مطابق مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اس ورود سے مراد داخلہ نہیں بلکہ اس پر سے گزر جانا ہے ، اور جملے کا پورا مطلب یہ ہے کہ جنت میں جانے والے دوزخ پر سے گزر کر جنت میں جائیں گے ، اور یہ بات اللہ تعالیٰ کی حکمت میں طے ہوچکی ہے ، اس بات کی تفصیل پل صراط ولی احادیث میں موجود ہے پل صراط کا ذکر تو مرفوع حدیث میں موجود ہے مگر اس کی تفصیلات مرفوع روایات میں نہیں ملتیں مسلم شریف میں حضرت ابوسعید خدری ؓ کا قول ہے کہ پلصراط تلوار سے تیز اور بال سے باریک ہوگی ۔ حضور ﷺ نے اس پر سے گزرنے والوں کی کیفیت بھی بیان کی ہے کہ بعض لوگ بجلی کی چمک کی سی تیزی سے گزر جائیں گے بعض تیز ہوں کی طرح جائیں گے ، بعض تیز گھڑ سوار کی طرح ، بعض اونٹ سوار کی مانند بعض کم تیز سواریوں کی رفتار سے اور بعض پیدال کی چال چل کر پل صراط کو عبور کریں گے ، تفصیلات میں یہ بھی آتا ہے کہ پل صراط کے نیچے جہنم کے کناروں پر الٹے سیدھے چمٹے لگے ہوں گے جو گزرنے والوں کو اپنی طرف کھینچیں گے پھر ان میں سے جو لوگ اپنے عقیدے اور عمل میں کمزور ہوں گے وہ نیچے گرپڑیں گے اور ابدی سزا پائیں گے اور جو اہل ایمان گنہگار ہوں گے وہ گریں گے تو ضرور مگر پاک ہو کر نکل آئیں گے ، اور بعض ایسے بھی ہوں گے جو گرتے پڑتے زخمی ہو کر پل صراط کو عبور کرلیں گے ، یہ سارا عمل ہر شخص کے عقیدہ ایمان اور عمل کی کیفیت وکمیت کے مطابق ہوگا غرضیکہ اس آیت میں مذکورہ ورود سے جہنم کا داخلہ مراد نہیں بلکہ اس پر سے گزر جانا مقصود ہے یہ بڑی تشویشناک منزل ہے جس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ نے قطعی طور پر کر رکھا ہے ۔ (جہنم سے خروج) حدیث میں یہ بھی آتا ہے کہ جو اہل ایمان جہنم میں گر جائیں گے ان کے حق میں مومن لوگ سفارش کریں گے پہلے درجے میں تو حضور ﷺ کی شفاعت ہوگی پھر تمام انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام اپنی اپنی امتوں کے لیے سفارش کریں گے ، شہدا اور پھر ان کے بعد عام اہل ایمان بھی اللہ کے حضور سفارش کریں گے ، اللہ تعالیٰ ہر سفارش کنندہ کو اجازت دیں گے کہ اتنی تعداد میں وہاں سے لوگوں کو نکال لاؤ یہ ایسے لوگ ہوں گے جو جہنم کی آگ سے محفوظ ہوں گے پھر سب سفارشی اپنے اپنے بھائیوں ، دوستوں اور عزیز و اقارب کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکال لیں گے ، حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ قرب قیامت میں دین پر قائم رہنا اتنا مشکل ہوگا جتنا جلتے ہوئے کوئلوں کو ہاتھ میں پکڑنا ، پورا ماحول خراب ہوجائے گا ہر طرف خرابی ہی خرابی ہوگی اور صراط مستقیم پر چلنا دشوار ہوجائے گا البتہ گمراہی کے اسباب عام ہوں گے بعض لوگ بعض کے ساتھ تعلقات کی بناء پر گمراہ ہوجائیں گے اور بعض حرص لالچ اور اقتدار کی وجہ سے گمراہ ہوں گے اور کوئی بہکانے کی وجہ سے دین سے دور ہوجائیں گے غرضیکہ ہر طرف کانٹے ہی کانٹے بچھے ہوں گے ، کفر ، شرک ، بدعات ، اور معاصی عام ہوں گے ، ترغیب گناہ کی چیزیں قدم قدم پر ملیں گی ، جو ان تمام چیزوں سے بچ کر نکل جائے گا ، وہ پل صراط سے بھی آسانی کے ساتھ گزر جائے گا ۔ (آخرت کی فکرمندی) حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ اکابر صحابہ میں سے ہیں آپ کا تعلق انصار مدینہ سے تھا شاعر بھی تھے آپ غزوہ موتہ میں شہید ہوئے ان کے متعلق آتا ہے کہ جب سونے کے لیے چارپائی پر آتے تو رونے لگتے ، بیوی نے رونے کی وجہ پوچھی تو کہا کہ مجھے اس بات کی فکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ اطلاع دے دی ہے کہ تم میں سے ہر ایک جہنم میں وارد ہوگا ، مگر وہاں سے نکلنے کے متعلق کچھ پتہ نہیں مفسر قرآن قاضی ثناء اللہ پانی پتی (رح) نے ایک بزرگ ابو میسرہ (رح) کا ذکر کیا کہ وہ بھی سخت متفکر رہتے تھے ، کہا کرتے تھے لیت امی لم تلد ‘ کاش کہ میری ماں نے مجھے جنا ہی نہ ہوتا بیوی نے پوچھا اس طرح کیوں کہتے ہو تو کہنے لگے کہ جہنم میں وارد ہونے کا ذکر تو مجھے مل گیا ہے مگر وہاں سے نکلنے کا ذکر کہاں ہے ؟ اسی قسم کی فکر مندی حضرت ابوذر غفاری ؓ سے منقول ہے حضرت ابوبکر صدیق ؓ اسی فکر کی وجہ سے کہا کرتے تھے کاش میں گھاس کا ایک تنکا ہوتا ، جسے جانور کھا کر ختم کر ڈالتے ، پتہ نہیں میں آخرت کی منزل میں کامیاب ہوتا ہوں یا نہیں حضرت عمر ؓ جب سورة الدھر کی ابتدائی آیت تلاوت فرماتے (آیت) ” ھل اتی علی الانسان حین من الدھر لم یکن شیئا مذکورا “۔ تو کہتے ” لی تھا تمت “ مطلب یہ کہ جب وہ اللہ کے اس فرمان پر غور کرتے تھے کہ انسان پر ایک ایسا وقت بھی گزرا ہے جب وہ کوئی چیز نہ تھا ، تو حضرت عمر یوں کہتے کاش یہ بات پوری ہوجاتی اور میری کوئی حیثیت نہ ہوتی اور میں معدوم ہی رہتا ، اب جب کہ اللہ نے وجود بخش دیا ہے تو پتہ نہیں ہم اس زندگی کی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہو سکیں گے یا نہیں ، میر تقی میر نے اس بات کو اس طرح بیان کیا ہے ۔ خوشا حال اس کا جو معدوم ہے کہ احوال اپنا تو معلوم ہے : نامعلوم ہمارا کیا حال ہوگا ، اور ہم کس منزل میں ہوں گے کتنا اچھا ہوتا کہ ہم عدم سے وجود میں نہ آتے اور معدوم ہی رہتے ۔ اللہ نے فرمایا (آیت) ” ثم ننجی الذین اتقوا پھر ہم نجات دیں گے ان لوگوں کو جو خدا سے ڈرتے رہے اور کفر ، شرک ، بدعات اور معاصی سے بچتے رہے (آیت) ” ونذرالظلمین فیھا جثیا “۔ اور ظالموں کو اسی دوزخ میں چھوڑ دیں گے اوندھے منہ گرنے والے اگر کفر وشرک کی وجہ سے ظالم بنے ہیں تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دوزخ میں ہی رہیں گے اور اس سے کم تر گناہ میں ملوث رہے تو پاک ہو کر جہنم سے نکال لیے جائیں گے ، انہیں بہت سی منزلیں طے کر کے ہی اللہ کی رحمت کے مقام میں پہنچنا ہوگا ۔
Top