Mualim-ul-Irfan - Maryam : 96
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے وَعَمِلُوا : اور انہوں نے عمل کیے الصّٰلِحٰتِ : نیک سَيَجْعَلُ : پیدا کردے گا لَهُمُ : ان کے لیے الرَّحْمٰنُ : رحمن وُدًّا : محبت
بیشک وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے اچھے اعمال کیے ، عنقریب بنا دے گا ان کے لیے خدائے رحمان محب کا سامان ۔
ربط آیات : گذشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے اولاد تجویز کرنے والوں کا رد فرمایا کفر کی یہ بدترین صورت ہے جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور غضب کا ذریعہ ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس قسم کا غلط عقیدہ رکھنے والوں کو ہم نے شمار کر رکھا ہے پھر قیامت کے دن جب تن تنہا اللہ کی بارگاہ میں پیش ہوں گے تو انہیں اس باطل عقیدے کی قباحت کا احساس ہوگا ، اب آگے اللہ نے اہل ایمان کی فضیلت ، مرتبہ اور ان کا انجام بیان فرمایا ہے اس کے ساتھ ساتھ بعض انعامات کا ذکر بھی کیا ہے جو اہل ایمان کی نصیب ہوتے ہیں ۔ (ایمان اصطلاح قرآن) ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” ان الذین امنوا “۔ بیشک وہ لوگ جو ایمان لائے جس طرح کفر ، شرک ، الحاد ، نفاق وغیرہ قرآن پاک کی اصطلاحات ہیں اسی طرح ایمان بھی قرآن وسنت کی ایک اصطلاح ہے ان سب اصطلاحات کے نیچے خاص معانی اور حقائق پائے جاتے ہیں متکلمین ، محدثین اور علماء کرام فرماتے ہیں کہ ایمان کسی ایسی چیز کی دل سے تصدیق کرنے کا نام ہے جو قرآن وسنت سے قطعی طور پر ثابت ہے جو چیز اجمالی طور پر ثابت ہے اس پر اجمالی طور پر ہی ایمان لانا ضروری ہے اور جو تفصیل کے ساتھ معلوم ہے اس کی تفصیلی تصدیق ضروری ہے اسی کا نام ایمان ہے اور اس کے ارکان کا ذکر قرآن وحدیث میں موجود ہے ۔ (ارکان ایمان (1) توحید) ارکان ایمان میں سے اولین رکن اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان لانا ہے زبان سے اس کا اقرار اور دل سے تصدیق ضروری ہے بعض ایسے گمراہ لوگ بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی ذات کو ہی تسلیم نہیں کرتے ، ان میں پرویز بھی شامل ہے ایسے لوگ لفظ اللہ کا معنی قانون کرتے ہیں حالانکہ یہ اسم ذاتی ہے اور اللہ کی ذات بےمثال ہے جس طرح اللہ کی ذات پر ایمان لانا ضروری ہے اسی طرح اسکی صفات پر ایمان لانا بھی ضروری ہے بعض لوگ اور فرقے اسی نقطہ پر آکر گمراہ ہوئے ہیں وہ کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ تو موجود ہے مگر اس کی صفت کوئی نہیں ہے مگر ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے تمام صفات کمال کو ثابت کیا جائے ، اللہ تعالیٰ کو تمام اچھی صفات سے متصف کرنا جزو ایمان ہے جب کہ وہ ذات تمام بری صفات سے پاک ہے ۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے میں یہ بات بھی شامل ہے کہ وہ وحدہ لاشریک ہے نہ تو اس کی ذات میں کوئی شریک ہے نہ اس کی عبادت میں اور نہ اس کی صفات میں کوئی دوسرا شریک ہے ، اگر کوئی شخص خدا تعالیٰ کے علاوہ کسی دوسری ہستی کو بھی اس کا ہم پلہ سمجھے یا اس کی صفات اور عبادت میں کسی کو شریک سمجھے تو وہ ایمان سے خالی ہوگیا اس نے گویا ایمان کی اولین شرط کو ہی پورا نہیں کیا ۔ ّ (2) (رسالت) ایمان کا دوسرا رکن رسالت پر ایمان لانا ہے اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کی ہدایت و راہنمائی کے لیے آدم (علیہ السلام) سے لے کر حضور خاتم النبیین ﷺ تک بہت سے نبی اور رسول مبعوث فرمائے ہیں یہ انسان ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کو معصوم بناتا ہے ، ان سے کوئی گناہ سرزد نہیں ہونے دیتا ، ان پر وحی کا نزول بہت بڑا اعزاز ہے ہمارا ایمان یہ ہے کہ (آیت) ” لانفرق بین احد من رسلہ “۔ (البقرہ : 285) ہم ان میں سے کسی میں بھی تفریق نہیں کرتے ، ہمارا سب پر ایمان ہے البتہ تفصیلی طور پر حضور نبی کریم ﷺ پر ایمان ہے کہ جن پر سلسلہ نبوت ختم ہوچکا ہے آپ ﷺ نے فرمایا میں قصر نبوت کی آخری اینٹ ہوں جس کے رکھنے سے قصر نبوت مکمل ہوگیا آپ نے فرمایا ” انقطعت النبوۃ ولا رسول بعدی “۔ نبوت ختم ہوچکی ہے اب میرے بعد اور کوئی رسول نہیں آئے گا ، قرآن پاک میں بھی آپ کو کو (آیت) ” خاتم النبین “۔ (الاحزاب ، 40) کا خطاب دیا گیا ہے تو رسالت پر ایمان لانا بھی ارکان ایمان میں سے ہے ۔ (3) (ملائکہ) ملائکہ خدا تعالیٰ کی مجرد اور معصوم مخلوق ہے ، خدا تعالیٰ اور مخلوق کے درمیان ملائکہ کا توسط ہے ، ان میں سے بعض کا مادہ تخلیق بہت لطیف نور ہے اور بعض اس سے کم تر ہیں ، فرشتوں کے مختلف طبقات ہیں ، جیسے ملاء اعلی کے فرشتے علیین کے فرشتے ، حاملین عرش حافین حول العرش ، پھر آسمانوں کے فرشتے اور پھر بحر وبر کے فرشتے ، اس دنیا میں فرشتے نظر نہیں آتے ، البتہ قیامت کو نظر آئیں گے ، ان پر ایمان لانا بھی ضروری ہے ۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں (1) (حجۃ اللہ لابالغہ ص 23 ، ج 1) (فیاض) کہ اللہ نے ملائکہ کو بنی نوع انسان کی مصلحت کے لیے انسان کی پیدائش سے کروڑوں اور اربوں سال پہلے پیدا کیا ، جبرائیل ، میکائیل وغیرہ فرشتوں کی پیدائش کے متعلق تو ہم تحدید نہیں کرسکتے کہ یہ کب پیدا ہوئے خدا تعالیٰ ازل میں جانتا تھا کہ نوع انسانی کی مصلحت فرشتوں پر موقوف ہے ، فرشتے وجود رکھتے ہیں ان میں روح بھی پائی جاتی ہے ان میں کمائی درجے کی عقل ہوتی ہے ، سرسید ، علامہ مشرقی ، اسی نکتے پر آکر گمراہ ہوئے انہوں نے فرشتوں کے وجود کو ہی تسلیم نہیں کیا کہتے ہیں کہ اچھی صفت کا نام فرشتہ اور بری صفت کا نام شیطان ہے ۔ فرشتے ہمہ وقت اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور عبادت میں مصروف رہتے ہیں اور ایک لمحہ کے لیے بھی فرائض و عبادت سے غافل نہیں ہوتے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بیان کیا ہے (آیت) ” یسبحون الیل والنھار لا یفترون “۔ (الانبیاء ، 20) وہ رات دن اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں مگر تھکتے نہیں ، ان کے مقابلے میں اللہ نے انسان کو کمزور اور تھک جانے والا بنایا ہے سورة النساء میں موجود ہے (آیت) ” وخلق الانسان ضعیفا “۔ (آیت ۔ 28) بہرحال فرشتے اللہ کی معصوم مخلوق ہیں جن میں نہ معصیت کا مادہ ہے اور نہ شہوت کا انسانوں کی طرح فرشتے بھی اللہ تعالیٰ کے انعام واکرام کے طالب ہوتے ہیں ان پر ایمان نہ لانے والا کافر شمار ہوگا ۔ (4) (کتب سماویہ) اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں اور رسولوں پر چھوٹے صحیفے اور بڑی کتابیں نازل فرمائی ہیں ، امام شافعی (رح) کے قول کے حوالے سے مفسرین بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کل چار بڑی کتابیں اور سو صحیفے نازل فرمائے ہیں کتابوں میں زبور ، تورات ، انجیل اور قرآن حکیم ہیں جب کہ قرآن میں ابراہیم (علیہ السلام) ، موسیٰ (علیہ السلام) سلیمان (علیہ السلام) اور ادریس (علیہ السلام) کے صحائف کا ذکر ملتا ہے بہرحال اللہ نے ابتداء سے لیکر حضور خاتم النبیین تک جتنی بھی کتب اور صحائف نازل فرمائے ہیں سب پر ایمان لانا ضروری کہے وہ برحق ہیں اور اللہ نے انہیں انسانوں کی ہدایت کے لیے نازل فرمایا ہے قرآن پاک کے علاوہ باقی کتب وصحائف پر اجمالی ایمان لانا کافی ہے جب کہ قرآن پاک کے ہر ہر لفظ اور ہر ہر کلمے کو ماننا ضروری ہے ان میں سے کسی ایک لفظ یا کسی ایک حکم کا انکار کرنے سے ایمان سلب ہوجائے گا ۔ (5) (یوم اخرت) اس کے بعد قیامت کے دن پر ایمان لانا بھی ارکان ایمان میں سے ہے ، قرآن پاک میں اس کا ذکر (آیت) ” بالیوم الاخر “۔ کے نام سے بار بار آیا ہے ، قیامت کا دن اس جہاں کا آخری دن (LAST DAY لاسٹ ڈے) ہوگا ، جب ہم قیامت کے دن کا ذکر کرتے ہیں تو اس میں بہت سی چیزیں آجاتی ہیں ، مثلا مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھنا ، پل صراط پر سے گزرنا ، حساب کتاب کی منزل ، میزان کا قیام وغیرہ ، حدیث میں آتا ہے کہ ہر انسان کو محاسبے کے عمل سے گزرنا ہوگا ، اس کو نیکی اور بدی کا پھل ملے گا جزا اور سزا کی جگہیں جنت اور دوزخ برحق ہیں ۔ اگرچہ آخرت کا دن بحیثیت مجموعی قیامت کا دن ہی ہے مگر انفرادی طور پر آخرت کا سلسلہ انسان کی موت کے ساتھ ہی شروع ہوجاتا ہے ، حضور ﷺ کا فرمان ہے (1) (مرقاۃ شرح مشکوۃ ص 234 ج 1) (فیاض) ” من مات فقد قامت قیمتہ “۔ جو شخص مر گیا ، اس کی قیامت تو برپا ہوگئی ، عالم برزخ میں قبر عقبی کی پہلی منزل ہے آدمی کی موت کے ساتھ ہی مادی جہاں ختم ہو کر دوسرا جہاں شروع ہوگیا چناچہ قبر کا عذاب بھی برحق ہے مسلمہ عقیدے کی کتاب فقہ اکبر میں موجود ہے ” عذاب القبر حق “ ۔ یعنی قبر کا عذاب برحق ہے جو گنہگاروں کو ہوگا ان سب چیزوں پر ایمان لانا ضروری ہے ، عذاب قبر کا انکار کرنے والے معتزلہ اور دوسرے فرقے گمراہ ہیں۔ (خلاصہ ایمان ) خلاصہ ایمان یہ ہے کہ قرآن وسنت سے یقینی طور پر ثابت چیزوں پر ایمان لانا ضروری ہے گویا توحید ، رسالت ، ملائکہ ، کتب سماویہ ، یوم آخرت ، تمام فرائض اور شریعت پر ایمان لانا ضروری ہے ، ایمان زبان سے اقرار اور دل سے تصدیق کا نام ہے کوئی شخص محض علم سے مومن نہیں ہوسکتا ، اس وقت دنیا میں بڑے بڑے سکالر موجود ہیں جو بیشمار چیزوں کو جانتے ہیں مگر وہ مومن نہیں کیونکہ وہ انکی تصدیق نہیں کرتے اسی طرح محض پہچاننے سے بھی آدمی مومن نہیں ہوسکتا ، یہودی اللہ کے آخری نبی کو اس کی نشانیوں سے پہچانتے ہیں جو انکی کتابوں میں موجود ہیں ، وہ قرآن کو بھی پہچانتے ہیں کہ یہ اللہ کی آخری کتاب ہے مگر ان کی تصدق نہیں کرتے لہذا یہ بھی مومن نہیں تو ایمان قرآن کی اصطلاح ہے جو ان تمام چیزوں پر حاوی ہے جن کا میں نے اجمالا ذکر کردیا ہے ۔ (اعمال صالحہ) فرمایا بیشک وہ لوگ جو ایمان لائے (آیت) ” وعملوالصلحت “ اور انہوں نے نیک اعمال انجام دے ، نیک اور اچھے اعمال وہ ہیں جن کو قرآن اور شریعت اچھا کہتی ہے اور عقل سلیم جن کو مانتی ہے ، مثلا عبادات میں نماز ، روزہ ، حج زکوۃ ، اچھے اعمال ہیں اس کے علاوہ جہاد فی سبیل اللہ اسلام کی تبلیغ ، بنی نوع انسان کے ساتھ ہمدردی صدقہ خیرات وغیرہ اچھے امور ہیں اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ان لوگوں کی بڑی تعریف فرمائی ہے جو غرباء مساکین کی مشکلات حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں (آیت) ” الذین ینفقون فی السرآء والضرآء “۔ (ال عمران ، 134) جو خوشحالی اور تنگدستی میں بھی خرچ کرتے رہتے ہیں ، علاوہ ازیں غلاموں کی آزادی بنی نوع انسان کو بداخلاقی اور بدعقیدگی سے بچانا وغیرہ سب نیک کام ہیں تاہم بنیادی طور پر عبادات اربعہ یعنی نماز ، روزہ زکوۃ ، اور حج اعمال صالحہ ہیں ، حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ ایمان کے بعد جو شخص یہ اعمال انجام دے گا وہ جنت میں داخلہ کا مستحق ہے (آیت) ” فمن یعمل من الصلحت وھو مومن فلا کفران لسعیہ “۔ الانبیاء 94) جو شخص نیک اعمال انجام دے گا بشرطیکہ وہ ایمان دار ہو ، عقیدہ فاسد نہ ہو ، کفر ، شرک نفاق ، الحاد میں ملوث نہ ہو تو اس کے اعمال کی قدر کی جائے گی ۔ (محبت کا انعام) فرمایا جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال انجام دیے ، ان کا انعام یہ ہے (آیت) ” سیجعل لھم الرحمن ودا “۔ ان کے لیے خدائے رحمان عنقریب محبت کا سامان بنا دے گا ، ود کا معنی محبت ہے اور اسی لحاظ سے ودود خدا تعالیٰ کا صفاتی نام ہے یعنی محبت کرنے والا اس کی تفسیر میں مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ اپنے بندوں کو ایسی چیزیں عطا کرے گا جن سے وہ محبت کرتے ہیں یعنی جو چیزیں انہیں پسند ہیں ، اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نیک لوگوں کے لیے دوسروں کے دلوں میں محبت ڈال دے گا ، حدیث شریف میں آتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی محبت ڈال دے گا ، حدیث شریف میں آتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبرائیل سے فرماتا ہے کہ میں فلاں بندے سے محبت کرتا ہوں ، تم بھی اس سے محبت کرو ، چناچہ جبرائیل (علیہ السلام) بھی اس شخص سے محبت کرنے لگتے ہیں ، پھر وہ دوسرے فرشتوں کے سامنے اعلان کرتے ہیں تو وہ بھی ایسے شخص سے محبت کرنے لگتے ہیں ۔ پھر وہی جذبہ زمین پر آتا ہے تو زمین پر موجود تمام باصلاحیت لوگ بھی ایسے شخص سے محبت کرنے لگتے ہیں ، بعض کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے جب اللہ تعالیٰ کسی نافرمانی کو مبغوض سمجھتا ہے تو جبرائیل (علیہ السلام) سے فرماتا ہے کہ میں اس شخص سے بغض رکھتا ہوں لہذا تم بھی اس سے بغض رکھو پھر یہی چیز نیچے زمین پر آتی ہے تو تمام باصلاحیت لوگ بھی ایسے نافرمان سے بغض رکھتے ہیں ۔ بہرحال محبت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کے دلوں میں محبت ڈال دیتا ہے اللہ کریم نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی محبت کس طرح لوگوں کے دلوں میں ڈالی ہے ، صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین جب بیرونی سفر پر جاتے تھے تو عیسائی قومیں ان کے لیے اپنے شہروں کے دروازے کھول دیتی تھیں مسلمانوں کی عبادت کا طور طریقہ اور ان کا عدل و انصاف دیکھ کر غیر مسلم بھی ان سے محبت کرتے تھے جب مصر پر مسلمانوں کا حملہ ہوا تو انہوں نے آگے بڑھ کر استقبال کیا اور مسلمانوں سے کہ ہم تم سے جنگ نہیں کریں گے جب مسلمان کسی جگہ قیام کے بعد وہاں سے جاتے تو تو وہاں کے لوگ روتے تھے کہ ایسے اچھے لوگ ہم سے جدا ہو رہے ہیں غرضیکہ اللہ نے ان کے دل میں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی محبت ڈال دی تھی اور جن کے دلوں میں خدا کی محبت پڑجاتی ہے وہ بھی کمال درجے کے لوگ ہوتے ہیں ، حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت میں آتا ہے کہ میں اور میری والدہ مسلمان ہونے کے بعد چار سال تک حضور ﷺ کی خدمت میں رہ کر تحصیل علم کرتے رہے ، پھر آپ سے عرض کیا حضور ﷺ ہمارے حق میں دعا فرمائیں ، آپ نے دعا فرمائی اے اللہ مومنین کے دل میں ابوہریرہ ؓ کے لیے محبت ڈال دے ابوہریرہ ؓ کا اپنا بیان ہے کہ حضور ﷺ کی دعا کی برکت سے جو مومن مجھے دیکھتا مجھ سے محبت کرتا ، ہمارے لیے بھی حکم ہے کہ جب کسی بستی میں جائیں تو یوں دعا کریں ، ” اللھم حبب صالحیھا الینا وحببنا الیھم “۔ اے اللہ ! اس بستی کے نیک لوگوں کے لیے ہمارے دلوں میں محبت ڈال دے اور ان کے دلوں میں ہمارے لیے محبت پیدا کر دے ، اور محبت کا معیار یہ ہے کہ جن لوگوں کے دلوں میں خدا تعالیٰ کی محبت ہوگی وہ ضرور نیک لوگوں سے محبت کریں گے ، اور جو خدا کی محبت سے خالی ہوں گے وہ نیک لوگوں سے بغض رکھیں گے ، کافر چونکہ خدا کی محبت سے محروم ہوتے ہیں اس لیے وہ انبیاء اور صالحین سے بغض رکھتے ہیں ، بہرحال نیک لوگوں کے لیے محبت خدا تعالیٰ کی طرف سے انعام ہے ۔ (قرآن عربی زبان میں) اگلی آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے (آیت) ” فانما یسرنہ بلسانک “۔ بیشک ہم نے اس قرآن پاک کو آپ کی زبان میں آسان کردیا ہے حضور ﷺ عربوں میں پیدا ہوئے اور آپ کی مادری زبان عربی تھی حضور ﷺ کی ولادت سے تقریبا ڈیڑھ ہزار سال پہلے عربی زبان اپنے عروج پر تھی ، یہ انتہائی مختصر مگر فصیح زبان ہے جس میں دقیق سے دقیق مضمون بھی ادا کرنے کی صلاحیت موجود ہے اس میں بلند درجے کی شاعری پائی جاتی ہے ، اللہ تعالیٰ بھی اس زبان کو فوقیت عطا فرمائی ہے ، یہ زبان ہمارے لیے بڑی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن کریم اپنے آخری نبی کی مادری زبان عربی میں نازل فرمائی جس کو ہم صبح وشام پڑھتے ہیں ، حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ عربوں سے محبت کیا کرو کیونکہ میں بھی رسول عربی ہوں اور قرآن پاک بھی عربی زبان میں ہے ۔ (تبشیر وانذار) فرمایا قرآن پاک کو عربی زبان میں آسان کرنے کا مقصد یہ ہے (آیت) ” لتبشربہ المتقین “۔ تاکہ آپ اس کے ذریعے متقین کو بشارت سنا دیں (آیت) ” وتنذر بہ قوما لدا “ اور آپ اس کے ذریعے جھگڑالو قوم کو ڈرا دین حضور ﷺ کے اولین مخاطبین عرب کے کفار ومشرکین جو سخت جھگڑالو قسم کے لوگ تھے تاہم جھگڑالو قوم میں یہودی اور عیسائی بھی داخل ہیں یہ بھی گذشتہ چودہ سو سال سے جھگڑا ہی کرتے چلے آرہے ہیں جو مسیح (علیہ السلام) کے نزول تک جاری رہے گا ، بہرحال دنیا کی ہر جھگڑالو قوم کی قرآنی تعلیمات کے ذریعے انذار کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ (سابقہ اقوام کی ہلاکت) فرمایا یہ لوگ کس خیال میں پڑے ہوئے ہیں ، جب اللہ تعالیٰ کی گرفت آتی ہے تو پھر نافرمان بچ نہیں سکتے ، ذراز پر نی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں (آیت) ” وکم اھلکنا قبلھم من قرن “۔ ان سے پہلے ہم نے کتنی ہی قوموں کو ہلاک کردیا یہ لوگ کفر وشرک میں پڑے ہوئے تھے اور غرور وتکبر میں مبتلا تھے لہذا ہماری گرفت سے بچ نہ سکے اور ہلاک ہوئے (آیت) ” ھل تحس منھم من احد “۔ کیا تم ان میں سے کسی ایک کو بھی محسوس کرتے ہو ؟ ان نے صرف کھنڈرات باقی ہیں یا تاریخ میں ان کا نام آتا ہے وگرنہ ان میں سے کوئی فرد واحد بھی باقی نہیں رہا اللہ نے سب کو ملیا میٹ کردیا ، سورة سبا میں ہے (آیت) ” فجعلنھم احادیث ومزقنھم کل ممزق “۔ (آیت ۔ 19) ہم نے ان کے افسانے بنا دیے ، قصے کہانیوں میں ان کا ذکر ملتا ہے اور بالکل ریزہ ریزہ کردیا کہ ان کا نام ونشان تک باقی نہ رہا ، یہ کلدانی ، بابلی ، قدیم مصری ، قدیم چینی ہڑپہ موہنجوڈرو اور ٹیکسلا والے الورا اور ایجنٹا کی تہذیبوں والے سب تباہ وبرباد ہوئے ، فرمایا کہ آپ ایسے لوگوں کو ذرا بھی محسوس کرتے ہیں (آیت) ” اوتسمع لھم رکزا یا ان کی کوئی معمولی سی بھنک یا اواز بھی سنتے ہیں ؟ ہم نے اس طرح فنا کردیا ہے کہ ان کی کوئی چیز باقی نہیں رہی ، جب ان اقوام کا یہ حال ہوا تو عرب کے کافر ومشرکین کس کھاتے میں ہیں اگر یہ بھی انکار پر اصرار کرتے رہے اور اہل ایمان کو ستاتے رہے ، تبلیغ دین کے راستے میں روڑے اٹکاتے رہے تو ان کا حشر بھی سابقہ اقوام سے مختلف نہیں ہوگا ۔
Top