Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 108
اَمْ تُرِیْدُوْنَ اَنْ تَسْئَلُوْا رَسُوْلَكُمْ كَمَا سُئِلَ مُوْسٰى مِنْ قَبْلُ١ؕ وَ مَنْ یَّتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْاِیْمَانِ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِیْلِ
اَمْ تُرِیْدُوْنَ : کیا تم چاہتے ہو اَنْ تَسْاَلُوْا : کہ سوال کرو رَسُوْلَكُمْ : اپنا رسول کَمَا : جیسے سُئِلَ : سوال کئے گئے مُوْسٰى : موسیٰ مِنْ قَبْلُ : اس سے پہلے وَمَنْ : اور جو يَتَبَدَّلِ : اختیار کرلے الْكُفْرَ : کفر بِالْاِیْمَانِ : ایمان کے بدلے فَقَدْ ضَلَّ : سو وہ بھٹک گیا سَوَآءَ : سیدھا السَّبِیْلِ : راستہ
کیا تم یہ ارادہ کرتے ہو کہ اپنے رسول سے اس طرح سوال کرو ، جس طرح اس سے پہلے موسیٰ (علیہ السلام) سے سوال کیا گیا ، اور جو شخص ایمان کے بدلے میں کفر اختیار کرے گا وہ سیدھے راستے سے گمراہ ہوگیا ۔
ربط آیات : بنی اسرائیل کی خرابیوں کا ذکر چلا آرہا ہے ، گذشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو ” راعنا “ کا لفظ استعمال کرنے سے منع فرمایا تھا ، اس کی بجائے (آیت) ” انظرنا “۔ استعمال کرنے کا حکم دیا تھا کیونکہ یہودی دیدہ دانستہ ” راعنا “۔ کا لفظ بولتے تھے جس سے معاذ اللہ پیغمبر (علیہ السلام) کی توہین کا پہلو نکلتا تھا ، گذشتہ درس میں اس بات کا انکشاف بھی کیا گیا تھا کہ اہل کتاب اور مشرکین میں سے کوئی نہیں چاہتا کہ اللہ تعالیٰ اہل ایمان پر کوئی بہتر چیز نازل فرمائے یہ لوگ نبی کے ساتھ حسد کرتے تھے ، پھر انہوں نے نسخ آیات کا مسئلہ بھی اٹھایا کہ اللہ تعالیٰ ایک حکم جاری کرنے کے بعد اسے منسوخ کیوں کردیتا ہے ، اللہ تعالیٰ نے اس کی وضاحت فرماتی کہ ایسا کسی لاعلمی یا جہالت کی بنا پر نہیں ہوتا ، بلکہ اللہ تعالیٰ کی حکمت کے مطابق ہوتا ہے وہ جس طریقے پر نوع انسانی کی بھلائی چاہتا ہے ، اس کے مطابق شریعت نازل فرماتا ہے ، اس کی مثال ایسے ہی ہے ، جیسے ایک ڈاکٹر کسی مریض کو مختلف اوقات میں مختلف دوائیں دیتا ہے ، کسی کو منسوخ کردیتا ہے ، کسی کو تبدیل کرتا ہے اور کسی کو جاری رکھتا ہے ، یہ مریض کے حالات پر منحصر ہوتا ہے ، اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی لوگوں کے حالات کے مطابق شریعت میں ردوبدل فرماتے ہیں ، وہ مالک الملک جس طرح چاہتا ہے حکم نازل فرماتا ہے ، اس کے کسی حکم پر اعتراض کرنا اس کے قادر مطلق ہونے پر اعتراض کرنے کی مترادف ہے ۔ ّ (یہودیوں کے سوالات) ان آیات میں یہودیوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ تم نبی آخر الزمان سے ایسے سوالات کرتے ہو ، جیسے تمہارے آباؤ اجداد نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کیے ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” ام تریدون ان تسئلوا رسولکم کما سئل موسیٰ من قبل “۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں (1) (معالم التنزیل ص 15۔ 30 ، تفسیر کبیر ص 235۔ ج 3) کہ اس آیت میں روئے سخن اہل کتاب کی طرف ہی ہے ، یہی لوگ حضور ﷺ سے طرح طرح کے بیہودہ سوالات کرتے تھے ، جیسا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم ان سے سوال کرتی ہے ، آگے سورة نساء میں اس کی تفصیل آئے گی (آیت) ” یسئلک اھل الکتب ان تنزل علیھم کتبا من السمآئ “۔ اہل کتاب آپ سے سوال کرتے ہیں کہ آپ اللہ تعالیٰ کی کتاب بیک وقت اکٹھی کیوں نہیں لاتے ، جیسا کہ توراۃ مکمل طور پر نازل ہوئی ، اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں حضور نبی کریم ﷺ کو تسلی دی کہ آپ ان کے سوالات کو خاطر میں نہ لائیں (آیت) ” فقد سالوا موسیٰ اکبر من ذلک “۔ ان بدنصیبوں نے تو موسیٰ (علیہ السلام) سے اس سے بھی بڑا سوال کیا کہنے لگے (آیت) ” ارنا اللہ جھرۃ “۔ آپ اللہ تعالیٰ سے ہماری بالمشافہ ملاقات کرائیں ، تب ہم مانیں گے ، اللہ تعالیٰ نے آپ پر کتاب اتاری ہے سورة بقرہ میں بھی اس قسم کے سوالات گذر چکے ہیں ۔ (مشرکین کے سوالات) بعض مفسرین فرماتے ہیں (1) (معالم التنزیل ص 45 ج 1 ، ابن کثیر ص 152 ، ج 1 ، تفسیر کبیر ص 235 ، ج 3) کہ اس آیت کے مخاطبین اہل کتاب کے علاوہ مشرکین بھی ہیں ، ان کے بیہودہ سوالات کا تذکرہ بھی قرآن پاک کے مختلف مقامات میں موجود ہے سورة بنی اسرائیل کے مطابق انہوں نے نبی کریم ﷺ سے فرمائش کی کہ آپ سیڑھی لگا کر آسمان پر چڑھ جائیں ، اور پھر وہاں سے کتاب لائیں ، مکہ کی سرزمین کو باغات میں تبدیل کردیں ، آپ کے اردگرد فرشتوں کی جماعت ہونی چاہئے ، اللہ تعالیٰ خود ہمارے سامنے آکر آپ کی رسالت کی تصدیق کرے وغیرہ وغیرہ ، اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے تمام سوالات کا ایک ہی جواب دیا ۔ (آیت) ” قل سبحان رب ھل کنت الا بشرا رسولا “۔ یعنی میں انسان ہوں اور اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں ، میں نے یہ کبھی دعوی نہیں کیا ، کہ میں قادر مطلق ہوں اور جو چاہوں کرسکتا ہوں ، یہ تو اللہ تعالیٰ کی مشیت اور ارادہ ہے ، وہ جو چاہے کرتا ہے ، مقصد یہ کہ یہود کی طرح مشرکین بھی طرح طرح کے سوال کرتے تھے اس قسم کے سوالات کا مقصد محض نکتہ چینی ہوتا ہے اور کسی بات کو تسلیم نہ کرنے کا ایک بہانہ ہوتا ہے ۔ ّ (صریح گمراہی) فرمایا اس طرح کے بےمعنی سوالات نہ کیا کرو ، کیونکہ اس کا نتیجہ بہت ہی برا ہوگا ، (آیت) ” ومن یتبدل الکفر بالایمان “۔ جو کوئی ایمان کے بدلے میں کفر اختیار کریگا ۔ (آیت) ” فقدضل سوآء السبیل “۔ وہ سیدھے راستے سے بھٹک گیا گمراہ ہوگیا ، کیونکہ اعتراض برائے اعتراض اور وہ بھی ایذا رسانی کے لیے کھلی گمراہی اور کفر ہے ، یہاں پر اگرچہ روئے سخن اہل کتاب اور مشرکین کی طرف ہے ، تاہم بات اہل ایمان کو بھی سمجھائی جارہی ہے کہ جو بھی اس قسم کے بیہودہ سوالات کرے گا ، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے احکام کو تسلیم نہیں کرے گا وہ بہرحال راستے سے بھٹک جائے گا ۔ (کثرت سوالات کی ممانعت) بعض مفسرین فرماتے ہیں (1) (تفسیر ابن کثیر ص 152 ج 1۔ تفسیر کبیر ص 235 ، ج 3) کہ (آیت) ” ام تریدون “۔ کے مخاطب اہل ایمان میں اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو یہود اور مشرکین کی روش سے خبردار کیا ہے کہ تم ان کے طریقوں کو نہ اپنانا یعنی تم بھی اپنے آخر الزمان (علیہ السلام) سے بلاوجہ سوالات نہ کرنا جس طرح اس سے پہلے اہل کتاب نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کیے اور اس سوالات کی وجہ سے انہیں طرح طرح کی تکالیف برداشت کرنا پڑیں۔ حدیث شریف میں آتا ہے (2) (ترمذی 317 ، تفسیر کبیر ص 235 ج 3 ، تفسیر ابی السعود ص 113 ج 1) کہ غزوہ حنین کے موقع پر حضور ﷺ نے دیکھا کہ مشرکین ایک خاص قسم کے درخت کو متبرک خیال کرتے ہیں ، اس درخت کے ساتھ اپنے اسلحہ جات لٹکاتے تھے ، اس کو ذات انواط کہتے تھے ، یہ دیکھ کر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے حضور ﷺ سے عرض کیا ، حضرت ! ” اجعل لنا ذات انواط “۔ آپ ہمارے لیے بھی کسی درخت کو ذات انواط مقرر فرما دیں جس پر ہم اپنے ہتھیار لٹکایا کریں ، جیسا کہ مشرک کرتے ہیں ، آپ یہ سن کر سخت ناراض ہوئے اور فرمایا ” سبحان اللہ “۔ یہ تو اس قسم والی بات ہوگئی ، جب بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی معیت میں بحیرہ قلزم عبور کیا تو وہاں ایک قوم کو پایا (آیت) ” یعکفون علی اصنام لھم “۔ جو اپنے معبودوں پر جھکے ہوئے تھے ان کی پوجا کر رہے تھے ، یہ دیکھ کر بنی اسرائیل نے بھی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے عرض کیا (آیت) ” یموسی اجعل لنا الھا کما لھم الھۃ “۔ جس طرح ان لوگوں نے اپنے معبود بنا رکھے ہیں ، اسی طرح ہمارے لیے بھی معبود مقرر کردیں ، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ان سے ناراض ہوئے اور کہا اے بیوقوف قوم ! یہ لوگ تو کفر میں مبتلا ہیں کیا تم بھی اسی ہلاکت میں پڑنا چاہتے ہو ابھی ابھی اللہ تعالیٰ نے تمہیں طاقتور دشمن سے آزادی دلائی ہے تو پھر کفر وشرک میں مبتلا ہونا چاہتے ہو ، بلاوجہ ناجائز سوال نہ کیا کرو ۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے ۔ (3) (تفسیر ابن کثیر 152۔ ج 1) کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین بہت کم سوال کیا کرتے تھے ، کیونکہ سورة مائدہ میں اللہ تعالیٰ نے کثرت سوال سے منع فرما دیا ۔ (آیت) ” لا تسئلو عن اشیآء ان تبدلکم تسؤکم وان تسئلوا عنھا حین ینزل القران تبدلکم “۔ یعنی نزول وحی کے زمانے میں سوال نہ کیا کرو اگر بعض چیزوں کے متعلق سوال کرو گے تو وہ ظاہر کردیا جائے گا اور تم کو ناگوار گزرے گا تمہارے لیے بدنامی کا باعث ہوگا ، اس لیے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کثرت سوال سے اجتناب کرتے تھے ۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ ہی کا بیان ہے وہ فرماتے ہیں کہ (1) (تفسیر ابن کثیر ص 30) کہ میں نے اصحاب محمد ﷺ سے بہتر کوئی قوم نہیں دیکھی ، وہ حضور ﷺ سے سوال نہیں کیا کرتے تھے ، ایسا کرنے سے ڈرتے تھے ، ان کی خواہش ہوتی تھی کہ باہر کا کوئی اعرابی سوال کرے تو وہ بھی مستفید ہوں ، خود سوال کرنے میں بہت محتاط ہوتے تھے ، قرآن پاک میں کل بارہ (12) سوالات کا ذکر آتا ہے ، جو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے حضور ﷺ سے کیے ، ان میں (آیت) ” یسئلونک عن الخمر “۔ اور یسئلونک عن الیتمی ۔ یسئلونک عن المحیض “۔ وغیرہ ایسے سوالات شامل ہیں ، حضور نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے (2) (مسلم ص 262۔ ج 2) اے لوگو فضول اور بےمقصد سوال نہ کیا کرو ، کیونکہ پہلی امتیں بھی اسی وجہ سے ہلاک ہوئیں ” کثرۃ مسائلھم واختلافھم علی الانبیائ “۔ کثرت سوال کی وجہ سے انہوں نے انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام سے اختلاف کیا اور ہلاک ہوئے ، لہذا کثرت سوال سے بچو ہاں ! کسی مسئلہ کی تحقیق کے لیے یا کسی کام کے جواز یا عدم جواز کے لیے سوال کرنے کی ممانعت نہیں ، زیادہ سوال کرنے میں قباحت یہ ہے کہ ہوسکتا ہے کہ اس سوال کا جواب تمہیں ناگوار گذرے یا بدنامی کا باعث ہو ، اکثر سوال محض نکتہ چینی یا ایذا رسانی کے لیے کیے جاتے ہیں اس لیے منع کیا کہ اے اہل ایمان ! تم یہود کی روش پر نہ چلنا اور کثرت سوال سے اپنے آپ کو بچانا۔ مسلمانوں کو سوالات کی ممانعت کی ایک وجہ تھی کہ اہل کتاب مسلمانوں کو اکساتے تھے کہ اپنے نبی سے یہ سوال پوچھو ! اور اس سے ان کا مقصد فتنہ پردازی ہوتا تھا اہل ایمان کو یہ بھی نصیحت ہے ، کہ وہ یہودیوں کی باتوں پر اعتماد نہ کریں ، پہلے گذر چکا ہے کہ لوگ سحر کرتے تھے ، اس کے علاوہ اور بھی فضول باتیں کرتے تھے جس سے مسلمانوں کے دلوں میں شبہ ڈالنا مقصود تھا ، تاکہ اہل ایمان اسلام سے دستبردار ہوجائیں ، ان کی سازشوں سے محفوظ رہنے کے لیے فرمایا کہ ان پر اعتماد کرتے ہوئے بےمعنی سوال نہ پوچھا کرو ۔ (اہل کتاب کے باطنی ارادے) مسلمانوں کو خبردار کیا گیا ہے کہ یہودیوں کے ارادے بڑے خطرناک ہیں (آیت) ” ودکثیر من اھل الکتب لویردونکم من بعد ایمانکم کفار “۔ بہت سے اہل کتاب چاہتے ہیں کہ تمہیں پھر ایمان سے کفر کی طرف لوٹا دیں ، وہ ہر وقت اسی کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ کسی طرح مسلمان کمزور ہوجائیں ، جو لوگ ایمان لا چکے ہیں وہ بھی اپنے سابقہ دین پر پلٹ جائیں ، یہ تو نزول قرآن کے زمانہ کی بات ہے ، کہ اہل کتاب مسلمانوں کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھ سکتے تھے ، ان کی یہ کوشش آج تک جاری ہے کہ کسی طرح مسلمانوں کو دوبارہ کفر کی طرف لوٹا دیا جائے ، دنیا میں جتنی مشنریاں کام کر رہی ہیں یہ سب اسی کام کے لیے ہیں دوسرے مقام پر آتا ہے (آیت) ” فتکونون سوآئ “۔ سب برابر سرابر ہوجائیں جس طرح وہ خود گمراہ ہیں ، اسی طرح مسلمان بھی ان کی روش پر چل نکلیں جس طرح انہوں نے اللہ تعالیٰ کی کتاب اور انبیاء علیہم الصلوۃ و السلام کا انکار کیا ، اسی طرح مسلمان بھی کرنے لگیں ، اہل کتاب کی دلی خواہش یہی ہے ۔ فرمایا اہل کتاب کی اس گندی ذہنیت کے پیچھے ان کی ایک اور خباثت کار فرما ہے یعنی (آیت) ” حسدا من عند انفسھم “۔ ان کے نفسوں میں چھپا ہوا حسد ہے جو انہیں مسلمانوں کے خلاف ابھار رہا ہے ، اور پھر یہ بھی ہے کہ وہ ایسا کسی غلط فہمی یا لاعلمی کی بنا پر نہیں کرتے بلکہ (آیت) ” من بعد ما تبین لھم الحق “۔ یہ سب کچھ حق کے اظہار کے بعد کر رہے ہیں ، انہیں حق اور باطل میں تمیز ہوچکی ہے ، مگر حسد اس بات پر کرتے ہیں کہ نبی آخر الزمان ﷺ بنو اسمعیل کی بجائے بنو اسحاق میں کیوں نہیں آیا ۔ (حسد بدترین بیماری ہے) مفسرین کرام فرماتے ہیں (1) (تفسیر عزیزی فارسی ص 403 پارہ 1) کہ حسد دو وجوہ کی بنا پر ہوتا ہے اولا یہ کہ فلاں نعمت فلاں کو کیوں ملی ہے اور پھر اس کے زوال کی تمنا کی جاتی ہے ، دوسری وجہ یہ ہے کہ فلاں نعمت اس کی بجائے مجھے ملنی چاہئے ایسی خواہش کرنا حرام ہے ، یہ اخلاقی بیماری ہے ، ابن ماجہ شریف کی روایت میں یہ الفاظ آتے ہیں (1) (ابن ماجہ ص 310) ” ان الحسد یا کل الحسنات کما تاکل النار الحطب “۔ یعنی حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح خشک لکڑی کو آگ کھا جاتی ہے ، حسد اتنی بری چیز ہے ۔ امیہ ابن ابی صلت عرب کا عظیم شاعر اور حکیم تھا خدا کو مانتا تھا ، قیامت کا تصور ذہن میں موجود تھا ، اسی لیے سچے مذہب کا متلاشی تھا کبھی تورات کا مطالعہ کرتا کبھی انجیل پڑھتا کبھی اہل کتاب سے گفتگو کرتا ، تاکہ حق کو پا سکے مگر جب اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو نبوت سے سرفراز فرمایا تو یہ شخص حسد کی آگ میں جلنے جلنے لگا ، یہ چاہتا تھا کہ وحی اس پر نازل ہوتی ، محض حسد کی وجہ سے دین خالص کا مخالف ہوگیا ، اور اسی حالت میں اس کی موت واقع ہوئی ، حسد تو قطعا حرام ہے ، البتہ غبط یا رشک جائز ہے ، غبط کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص کسی کے پاس نعمت دیکھ کر تمنا کرے کہ اللہ تعالیٰ اسے بھی ایسی نعمت سے سرفراز فرمائے حسد کا معنی تو یہ ہے کہ جس کو کوئی بہتری ملی ہے وہ اس سے محروم ہوجائے مگر غبط میں کسی کے زوال کی تمنا نہیں ہوتی بلکہ اس کے حصول کی خواہش ہوتی ہے ۔ بزرگان دین فرماتے ہیں ” ماخلا جسد عن حسد “۔ عام طور پر کوئی جسم حسد سے خالی نہیں ہوتا ، اسی لیے تعوذ کی تلقین کی گئی ہے ، (آیت) ” ومن شر حاسد اذا حسد “۔ اے اللہ میں حاسد کے حسد سے تیری پناہ چاہتا ہوں ، بہرحال حسد ایک بہت بری بیماری ہے اللہ تعالیٰ اس سے محفوظ رکھے ۔ (غیر مسلم حاسد اقوام) جیسا کہ عرض کیا ، غیر مسلم اقوام میں مسلمانوں کے خلاف حسد کی آگ نزول قرآن کے زمانے سے لے کر آج تک برابر بھڑک رہی ہے آپ کو معلوم ہے کہ اس وقت امریکہ ، برطانیہ جرمنی اور فرانس ، وغیرہ کی عیسائی طاقتیں اربوں روپیہ اس مقصد کے لیے خرچ کر رہی ہیں کہ کسی طرح مسلمان قوم کا تعلق قرآن پاک سے منقطع کردیا جائے ، مستشرقین کا فتنہ اسی مقصد کے لیے کام کر رہا ہے ، امیر شکیب ارسلان (رح) نے ” الحاضر العالم الاسلامی “ جو ان کی مشہور کتاب ہے ، اس میں لکھا ہے کہ یورپی عیسائیوں اور یہودیوں نے اور یہودیوں نے پیغمبر خدا ﷺ کی سیرت طیبہ کو مسخ کرنے اور قرآن پاک کی تردید میں چھ لاکھ کی تعداد میں کتابیں شائع کی ہیں تاکہ مسلمان اسلام سے بدظن ہوجائیں ان کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان اگر عیسائیت نہ بھی قبول کریں ، تو کم از کم مسلمان کی حیثیت میں باقی نہ رہیں ، مشنری سکول ہسپتال وغیرہ سب اسی مقصد کے لیے چل رہے ہیں ، لوگوں کو لالچ دیکر عیسائیت کی طرف مائل کیا جا رہا ہے یہ اسی حسد کی بنا پر چاہتے ہیں ، کہ مسلمانوں کا تعلق اپنے نبی سے کٹ جائے ، اور یہ قرآن پاک کی تعلیمات کو چھوڑ دیں ۔ (حد رجم پر اعتراضات) حد رجم کا انکار بھی یہودیت کا شاخسانہ ہے ، اس شخص کی خباثت کی داد دو جس نے فیڈرل شریعت کورٹ میں دعوی دائر کیا ہے کہ رجم کی سزا کو کالعدم قرار دیا جائے کیونکہ بقول اس کے یہ شرعی حد نہیں ہے مقصد یہ کہ لوگ شکوک و شبہات میں مبتلا ہو کر دین سے بیزار ہوجائیں گے ، خارجیوں نے بھی یہی اعتراض کیا تھا اور آج کے زمانے کے پرویزی اور چکڑالوی بھی اسی قماش سے ہیں کہتے ہیں کہ قرآن پاک میں رجم کی سزا نہیں ہے بھئی ! صحیح سنت میں تو موجود ہے ، حضور ﷺ کے زمانہ میں رجم کے متعدد کیس ہوئے ، صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے زمانے میں رجم کی سزا دی گئی ، اگرچہ عام طور پر رجم کی سزا اقرار جرم پر ہی دی گئی ، تاہم ا کے د کے ایسے واقعات بھی پیش آئے جن میں گواہی کی بنیاد پر رجم کی سزا دی گئی ، اس زمانے میں کسی کو رجم کی سزا ملی ہو یا نہ یہ الگ بات ہے ، مگر اس کے شرعی حد ہونے سے مجال انکار نہیں ہو سکتا ۔ (قرآن پاک کے خلاف سازش) مستشرقین جنہیں محقق اور ریسرچ سکالر کا نام دیا جاتا ہے ، انہوں نے قرآن پاک اور حدیث نبوی ﷺ پر بھی نکتہ چینی کی ہے ان کا مقصد یہ ہے کہ کسی طرح مسلمان اپنے دین سے بدظن ہوجائیں ، گلیڈ سٹون نے برطانیہ کی پارلیمنٹ میں برملا کہا تھا کہ محمد کی کتاب قرآن اور ان کی تلوار انسانیت کی دشمن ہیں (العیاذ باللہ) اس نے قرآن پاک ہاتھ میں لیکر کہا تھا جب تک یہ کتاب دنیا میں موجود ہے یہ دنیا مہذرضی اللہ تعالیٰ عنہ نہیں بن سکتی ، لہذا اس کی عزت و توقیر لوگوں کے دلوں سے مٹانا ہوگی ، اس کا مطلب یہی تھا کہ قرآن پاک ایک ایسی کتاب ہے جو فحاشی سے روکتی ہے ، اور فحاشی اور عیاشی کے بغیر تہذیب نہیں آسکتی ان کے نزدیک انسان مہذب نہیں کہلا سکتا ، لہذا ان کی ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے ، کہ کسی طرح قرآن پاک کو دنیا سے محو کردیا جائے ، فرمایا بہت سے اہل کتاب یہ پسند کرتے ہیں کہ تمہیں کفر کی طرف پلٹا دیں ، ایمان کے بعد ، حسد کرتے ہوئے ، بعد اس کے کہ حق واضح ہوچکا ہے ، اس کے باوجود مسلمانوں کو تلقین کی جا رہی ہے کہ اہل کتاب کے خلاف کسی قسم کا انتقامی جذبہ ذہن میں نہیں رکھنا بلکہ (آیت) ” فاعفوا “۔ پس معاف کر دو ، (آیت) ” واصفحوا “۔ اور در گذر کر دو (آیت) ” حتی یاتی اللہ بامرہ “۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا حکم لے آئے ، گویا مسلمانوں کو انتقامی کارروائی کی بجائے حکم الہی کا انتظار کرنے کو کہا گیا تھا ، آخر اللہ تعالیٰ کا حکم آگیا ، اور مدینہ طیبہ بلکہ پورے عرب کو یہودیوں اور نصرانیوں سے پاک کردیا گیا ، فرمایا (آیت) ” ان اللہ علی کل شیء قدیر “۔ بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ، وقت آنے پر وہ ان بدبختوں سے مواخذہ کرے گا ۔ (نماز اور زکوۃ) اہل کتاب کی طرف سے چوکس رہنے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اپنے فرائض پر کار بند رہنے کی تلقین بھی فرمائی (آیت) ” واقیموالصلوۃ واتوا الزکوۃ “۔ نماز کو قائم رکھو اور زکوۃ ادا کرتے رہو ، تمہاری طاقت کا منبع یہی دو چیزیں ہیں ، انہیں مضبوطی سے تھام لو ، تمہاری تمام تر قوت کا دارومدار تعلق باللہ پر ہے ، اور نماز زکوۃ اس کا مظہر ہے نماز کسی حالت میں بھی معاف نہیں ، اسے وقت پر ادا کرتے رہو ، اور اگر صاحب نصاب ہو تو زکوۃ ادا کرو ، بخل جیسی ، قبیح بیماری کا یہ بہترین علاج ہے ، اسے کبھی نظر انداز نہ کرو ، غیر مسلم اقوام مادی ترقی میں پیش پیش ہیں اس معاملہ میں وہ تمہیں اپنے برابر نہیں آنے دیں گی ، اگر تم یہ ہدف قائم کرو کہ پچاس برس میں امریکہ کے برابر مادی ترقی حاصل کرلو گے تو ممکن نہیں کیونکہ اس وقت امریکہ تم سے پچاس سال مزید آگے نکل چکا ہوگا ، لہذا تمہاری طاقت کا سرچشمہ مادی وسائل کی بجائے صلوۃ وزکوۃ ہے ، انہیں کے ذریعے ، اندر ایمان اور روحانیت پیدا ہوگی تعلق باللہ قائم ہوگا جو طاقت کا اصل سرچشمہ ہے ۔ (نیکی کا بدلہ نیکی) فرمایا یاد رکھو (آیت) ” وما تقدمو لانفسکم من خیر تجدوہ عند اللہ “۔ تم اپنے نفسوں کے لیے جو بھی بھلائی آگے بھیجو گے ، کوئی نیکی ، کوئی عمل ، صدقہ خیرات کرو گے نماز ادا کرو گے ، اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ وہ کسی کا عمل ضائع نہیں کرتا ، اس کا واضح اعلان ہے (آیت) ” من یعمل مثقال ذرۃ “۔ ایک ذرے کے برابر کیا ہوا عمل بھی ضائع نہیں ہوگا بلکہ انسان اپنا اچھا یا برا عمل قیامت کے دن دیکھ لے گا ، یہاں بھی فرمایا کہ جو کچھ تم اعمال کے ذریعے آگے بھیجو گے (آیت) ” تجدوہ عند اللہ “۔ اسے اللہ کے ہاں پالو گے ہر چیز کا نتیجہ سامنے آجائے گا ، (آیت) ” ان اللہ بما تعملون بصیر “۔ اللہ تعالیٰ تمہارے ہر فعل کو دیکھ رہا ہے کوئی چیز اس کی نظروں سے مخفی نہیں ہے ، وہ جانتا ہے کہ تم کوئی کام کس نیت اور ارادے سے انجام دے رہے ہو ۔
Top