Mutaliya-e-Quran - Az-Zumar : 43
اَمْ تُرِیْدُوْنَ اَنْ تَسْئَلُوْا رَسُوْلَكُمْ كَمَا سُئِلَ مُوْسٰى مِنْ قَبْلُ١ؕ وَ مَنْ یَّتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْاِیْمَانِ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِیْلِ
اَمْ تُرِیْدُوْنَ : کیا تم چاہتے ہو اَنْ تَسْاَلُوْا : کہ سوال کرو رَسُوْلَكُمْ : اپنا رسول کَمَا : جیسے سُئِلَ : سوال کئے گئے مُوْسٰى : موسیٰ مِنْ قَبْلُ : اس سے پہلے وَمَنْ : اور جو يَتَبَدَّلِ : اختیار کرلے الْكُفْرَ : کفر بِالْاِیْمَانِ : ایمان کے بدلے فَقَدْ ضَلَّ : سو وہ بھٹک گیا سَوَآءَ : سیدھا السَّبِیْلِ : راستہ
پھر کیا تم اپنے رسول سے اس قسم کے سوالات اور مطالبہ کرنا چاہتے ہو، جیسے اس سے پہلے موسیٰؑ سے کیے جا چکے ہیں؟ حالانکہ جس شخص نے ایمان کی روش کو کفر کی روش سے بدل لیا وہ راہ راست سے بھٹک گیا
[ اَمْ تُرِيْدُوْنَ : یا تم لوگ چاہتے ہو ] [ اَنْ تَسْـــَٔـلُوْا : کہ تم لوگ پوچھو ] [ رَسُوْلَكُمْ : اپنے رسول سے ] [ كَمَا : اس کی مانند ] [ سُىِٕلَ : پوچھا گیا ] [ مُوْسٰى: موسیٰ سے ] [ مِنْ قَبْلُ : اس سے پہلے ] [ ۭ وَمَنْ يَّتَـبَدَّلِ : اور جو بدلہ میں لیتا ہے ] [ الْكُفْرَ : کفر کو ] [ بِالْاِيْمَانِ : ایمان کے عوض ] [ فَقَدْ ضَلَّ : تو وہ بھٹک گیا ہے ] [ سَوَاۗءَ السَّبِيْلِ : راہ کے وسط سے ] 1 اللغۃ اس آیت میں بھی بالکل نیا اور بلحاظ مادہ پہلی دفعہ آنے والا لفظ تو صرف ” السبیل “ ہے۔ باقی تمام کلمات براہ راست (اپنی اسی موجودہ شکل میں) یا بالواسطہ (یعنی) اصل مادہ کے لحاظ سے) پہلے گزر چکے ہیں۔ اس لیے ہم عبارت کو چھوٹ چھوٹے جملوں (یا جملوں سے ملتے جلتے حصوں) میں تقسیم کر کے ہر ایک جزء کے کلمات کی وضاحت کریں گے یا حسب ضرورت گزشتہ حوالہ دیتے جائیں گے۔ 2: 65: 1 (1) [ اَمْ تُرِیْدُوْنَ اَنْ تَسْئَلُوْا رَسُوْلَکُمْ …] A ” اَمْ “ (آیا : کیا ؟: بلکہ : شاید) اس کی دو اقسام یعنی ” اَمْ متّصلہ “ اور ” اَمْ منقطعہ “ پر بات البقرہ : 6 [ 2: 5: 1 (4)] میں ہوچکی ہے۔ B ” تُرِیدُونَ “ (تم ارادہ کرتے ہو) اس کا مادہ ” ر و د “ اور وزن ” تُفْعِلُونَ “ ہے۔ یہ در اصل ” تُرْوِدُوْنَ “ تھا۔ پھر ”-ُ -ْ وِ = -ْ -ِ یْ “ کے مطابق ” وِ “ کی حرکت (-ِ ) ما قبل ساکن (رْ ) کو منتقل ہوئی اور پھر خود ” وْ “ بوجہ ما قبل مکسور کے ” یْ “ میں بدل گئی یعنی تُرْوِدُوْنَ - تُرِوْدُوْن = تُرِیْدُوْنَ ۔ گویا یہ اس مادہ سے باب افعال کا فعل مضارع معروف صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔ ۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد (جو قرآن کریم میں نہیں آیا) اور اس سے باب افعال کے فعل ” اَرادَ یُرِیدُ “ کی اصل صورت ‘ اس کی تعلیل اور معنی (قصد کرنا ‘ چاہنا ‘ ارادہ کرنا) پر البقرہ : 26 [ 2: 19: 1 (8)] میں مفصل بات ہوچکی ہے۔ اس طرح اس صیغہ (تُرِیدُون) کا لفظی ترجمہ تو وہی ہے جو اوپر لکھا گیا ہے۔ تاہم اکثر مترجمین نے اس کا ترجمہ ” کیا تم یہ چاہتے ہو “ سے کیا ہے۔ بعض نے ضمیر مخاطب کے بغیر ترجمہ بصورت ” کیا یہ چاہتے ہو “ کیا ہے جس میں اردو محاورے کے مطابق ” تم “ کا مفہوم مووجد ہے۔ بعض نے اس کا ترجمہ ” کیا تم مسلمان بھی چاہتے ہو “ کیا ہے جو تفسیری ترجمہ ہے۔ اس میں ” بھی “ کا استعمال آگے آنے والی عبارت ” کَمَا سُئِلَ…“ کی وجہ سے کیا گیا ہے۔ C ” اَنْ “ (یہ کہ : کہ) کے استعمال اور معانی پر البقرہ : 26 [ 2: 19: 1 (2)] میں پہلی دفعہ مفصل بات ہوئی تھی۔ اس کے بعد اب تک یہ لفظ تو دفعہ گزر چکا ہے۔ یہاں یہ مصدریہ ناصبہ ہے۔ اس کی وجہ سے ترجمے میں (یہ کہ) آتا ہے جسے اردو محاورے کے مطابق جملے میں جدا کر کے استعمال کیا گیا ہے۔ یعنی ” کیا تم یہ چاہتے ہو کہ “ کی صورت میں۔ D ” تَسْئَلُوْا “ (” کہ “: تم پوچھو ‘ سوال کرو) اس کا مادہ ” س ء ل “ اور وزن ” تَفْعَلُوا “ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ” سَأَلَ یَسْأَلُ “ (= مانگنا ‘ پوچھنا ‘ سوال کرنا) کے باب اور استعمالات کے متعلق البقرہ : 61 [ 2: 39: 1 (13)] میں وضاحت کی جا چکی ہے۔ ” تسألوا “ اس فعل سے صیغہ مضارع منصوب (جمع حاضر) ہے ‘ علامت نصب آخری نون کا گرنا ہے (در اصل تَسأَلونَ تھا) واو الجمع کے بعد الف لکھنا ضروری ہوتا ہے۔ اس طرح ” اَنْ تسألوا “ کا مجموعی ترجمہ کرنا پڑتا ہے۔ یعنی ”… کہ سوال کرو “۔ اس کے مصدری ترجمہ پر ” الاعراب “ میں مزید بات ہوگی۔ ۔ ” رَسُولَکُمْ “ (تمہارے (اپنے) رسول کو) ۔ اس کا آخری حصہ (کُمْ ) تو ضمیر مجرور ہے بمعنی ” تمہارا “۔ پہلا لفظ ” رَسُول “ اس سے پہلے البقرہ : 87 [ 2: 53: 1 (1 - 4)] میں گزرا ہے اور وہاں اس کی لغوی وضاحت بھی ہوئی تھی جس کا یہاں دوبارہ مختصراً ذکر کیا جاتا ہے۔ اس کا مادہ ” ر س ل “ اور وزن ” فَعُوْلٌ“ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ” بالوں کا لمبا ہونا اور اونٹ کا نرم رفتار ہونا “ کے لیے آتا ہے ‘ تاہم یہ فعل قرآن مجید میں استعمال نہیں ہوا ‘ بلکہ قرآن کریم میں یہ مادہ بصورتِ فعل صرف باب افعال سے استعمال ہوا ہے۔ لفظ ” رَسُول “ اس مادہ سے کسی متروک الاستعمال فعل کا مصدر بمعنی ” رِسَالۃ “ (پیغام) ہے اور مصدر بمعنی اسم الفاعل بھی استعمال ہوتا ہے یعنی ” پیغام والا : پیغمبر “۔ اصل میں مصدر ہونے اور ” فَعُول “ کے وزن پر ہونے کی وجہ سے ہی یہ لفظ (رسول) مذکر مؤنث واحد جمع کے لیے یکساں رہتا ہے۔ مثلاً ھُوَ رسولٌ۔ ھی رسولٌ۔ ھُم رسولٌ اور ھُنَّ رسولٌ کہہ سکتے ہیں اور اسی لیے قرآن کریم میں ایک جگہ (الشعرائ : 16) یہ لفظ مبتدأ (جمع) کے لیے خبر (بلفظ واحد) آیا ہے یعنی ” اِنَّا رَسُولُ رَبِّ الْعَالَمِینَ “ اردو میں اس کے لیے فارسی لفظ ” پیغمبر “ بھی استعمال ہوتا ہے اور خود لفظ ” رسول “ اپنے اصطلاحی معنی (اللہ کے پیغام لانے والا) کے ساتھ عام رائج ہے۔ اور اسی لیے اکثر مترجمین نے اس کا ترجمہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ 2: 65ـ: 1 (2) [ کَمَا سُئِلَ مُوْسٰی مِنْ قَبْلُ ] A ” کَمَا “ (جیسے : جیسا کہ : جس طرح) یہ کاف الجر اور ” مَا “ موصولہ کا مرکب ہے ” کَ “ بمعنی ” مثل “ بطور اسم بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس پر مفصل بحث البقرہ : 13 [ 2: 10: 1 (1)] میں گزری ہے جہاں یہ لفظ دو دفعہ وارد ہوا ہے۔ B ” سُئِلَ “ (سوال کیا گیا : پوچھا گیا : سوال کیے جا چکے : ہوچکے) کا مادہ ” س ء ل “ اور وزن ” فُعِل “ ہے۔ یعنی یہ اس مادہ سے فعل مجرد کا صیغہ ماضی مجہول ہے۔ اس فعل مجرد پر ابھی اوپر ” اَنْ تَسْئَلُوا “ میں اور اس سے پہلے البقرہ : 61 [ 2: 39: 1 (13)] میں بات ہوچکی ہے۔ یہاں جمع کے ساتھ ترجمہ (سوال کیے گئے : جا چکے) ایک طرح سے تفسیری ترجمہ ہے کیونکہ ان لوگوں ( قوم موسیٰ ( علیہ السلام) ) نے کئی بار اور متعدد ناروا سوال پوچھے تھے اور ماضی مجہول کا صیغہ دوسرے محذوف مفعول مطلق کی بناء پر واحد جمع دونوں معنی کا متحمل ہوسکتا ہے۔ قرآن، کریم میں اس مجہول فعل کے مختلف صیغے تین جگہ آئے ہیں۔ اس کے یہاں مصدری معنی پر آگے ” الاعراب “ میں مزید بات ہوگی۔ C ” مُوْسٰی “ مشہور پیغمبر کا نام ہے۔ یہ لفظ پہلی دفعہ البقرہ : 15 [ 2: 33: 1 (2)] میں آیا تھا اور وہاں اس کے اشتقاق اور معنی پر بھی بات ہوئی تھی۔ اس کے بعد سے اب تک یہ لفظ نو دفعہ گزر چکا ہے۔ D ” مِنْ قَبلُ “ (پہلے بھی : اس سے پہلے) یہ ترکیب جاری سب سے پہلے البقرہ : 25 [ 2: 18: 1 (7)] میں زیر بحث آچکی ہے اور پھر البقرہ؛ 89 [ 2: 54: 1 (3)] میں بھی گزر چکی ہے۔ ” مِنْ “ الجارہ اور ظرف ” قبل “ کے الگ الگ استعمال اور معانی پر البقرہ : 4 [ 2: 3: 1 (4)] میں بات ہوئی تھی۔ ۔ یوں اس عبارت (کما سُئِل موسٰی من قبل) کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ” جیسا کہ سوال کیا گیا تھا موسیٰ کو پہلے بھی : اس سے پہلے) اردو محاورے کے مطابق یہاں تمام مترجمین نے ” کو “ کی بجائے ” سے “ کے ساتھ ہی ترجمہ کیا ہے۔ بعض نے سوال کو جمع کا مفہوم دے کر ترجمہ ” سوال ہوچکے ہیں موسیٰ سے پہلے “ کی صورت میں کیا ہے جس میں یہ ابہام رہ جاتا ہے کہ شاید یہ سوالات حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) سے پہلے کسی کو پیش کیے گئے۔ اسی لیے بعض مترجمین نے ” مِنْ قَبْل “ کا ترجمہ ” اس سے پہلے “ اور بعض نے ” اس سے قبل موسیٰ ( علیہ السلام) سے بھی “ کے ساتھ کیا ہے۔ بعض نے ” جس طرح کے سوال پہلے موسیٰ ( علیہ السلام) سے کیے گئے “ کے ساتھ ترجمہ کیا ہے جو زیادہ جامع ہے۔ بعض نے ” سوال “ کے لیے ” بیہودہ درخواستیں “ اور ” ایسی ایسی بےجا درخواستیں “ (کی جا چکی ہیں) کی صورت میں ترجمہ کیا ہے جس سے پیغمبر (حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کا احترام اور سوال کی نوعیت کی وضاحت (تفسیر) مقصود ہے۔ 2: 65: 1 (3) [ وَ مَنْ یَّتَبَدَّلِ الْکُفْرَ بِالْاِیْمَانِ ] A ” وَ “ (اور) یہاں مستانفہ ہے جس کے متعلق [ 2: 7: 1 (1)] میں بات ہوئی تھی۔ یہاں یہ ” اور یہ بھی سوچ لو کہ “ کا مفہوم رکھتی ہے۔ B ” مَنْ “ (جو کوئی بھی کہ : جو کوئی : جو شخص : جس شخص نے) ۔ یہاں یہ (مَنْ ) شرطیہ موصولہ ہے ‘ دیکھیے البقرہ : 8 [ 2: 7: 1 (4)] C ” یَتَبَدَّلْ “ (لیوے : لے لے : اختیار کرے … کو بدلے… کے بدلے : لے… بدلے… کے) اس کا مادہ ” ب د ل “ اور وزن ” یَتَفَعَّلْ “ ہے ‘ یعنی یہ اس مادہ سے باب تفعّل کا صیغہ مضارع (واحد مذکر غائب) مجزوم ہے (جزم کی وجہ ” الاعراب “ میں آئے گی) اور اس میں آخری ساکن لام (ل) کو آگے ملانے کے لیے کسرہ (-ِ ) دی گئی ہے (بصورتِ ” لِ “ ) اس مادہ سے فعل مجرد (جو قرآن کریم میں کہیں استعمال نہیں ہوا) کے معنی وغیرہ پر۔ نیز اس سے باب تفعیل کے استعمال پر البقرہ : 59 [ 2: 37: 1 (9)] میں اور اسی مادہ سے باب استفعال کے استعمال پر البقرہ : 61 [ 2: 39: 1 (9)] میں مفصل بات ہوچکی ہے۔ ان (گزشتہ) دونوں مواقع پر ” بَدَّلَ “ اور ” اِسْتَبْدَلَ “ کے مفعول ثانی پر باء (بِ ) کے صلہ کے استعمال پر ----- ضرورت ہو تو ----- ایک دفعہ نظر ڈال لیجیے۔ ۔ زیر مطالعہ فعل ” یَتَبَّدَل “ استعمال اور معنی کے لحاظ سے فعل ” اِسْتَبْدَلَ “ کی مانند ہے ‘ البتہ باب ” تفعّل “ میں فعل لازم اور متعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے جبکہ ” اِستبدَل “ صرف متعدی فعل ہے۔ یعنی ” تَبَدَّلَ “ کے معنی ” تَغَیّرَ “ (بدل گیا ‘ تبدیل ہوگیا) بھی ہوتے ہیں اور ” تبدَّل الشَّیْئَ بِالشَّیْئِ “ ہی کے معنی ” اِسْتَبْدَلَ الشَّیْئَ بِالشَّیْئِ “ (بدل کر A کو لے لیا بدلے : کے بجائے B کے) بھی ہوتے ہیں اور اس فعل کے (باب تفعّل سے) متعدی استعمال میں بھی (باب استفعال کی طرح) ایک مفعول (جو چیز بدلے میں لی جائے) تو مفعول بنفسہٖ منصوب ہو کر اور دوسرا مفعول (جو چیز بدلے میں دے دی جائے) ” بِ “ کے صلہ کے ساتھ آتا ہے۔ قرآن کریم میں اس باب (تفعّل) سے فعل کے مختلف صیغے تین جگہ آئے ہیں۔ اور ہر جگہ یہ فعل متعدی اور ہر دو مفعول کے ذکر سمیت آیا ہے۔ جیسا کہ زیر مطالعہ آیت میں ہے۔ D ” الْکُفرَ “ (کفر کو : (لے لے) کفر) ۔ یہ فعل مجرد ” کفَر یکفُر “ کا مصدر ہے جس کا وزن (لام تعریف نکال کر) ” فُعْلٌ“ ہے۔ اس فعل کے باب اور معنیٰ وغیرہ پر سب سے پہلے البقرہ : 6 [ 2: 5: 1 (1)] میں بات ہوئی تھی۔ اس کے بعد سے اب تک اس فعل سے مختلف صیغے پندرہ جگہ گزر چکے ہیں۔ البتہ یہ مصدر (الکُفر) یہاں پہلی دفعہ آیا ہے۔ یہ لفظ (کُفر) اپنے پورے اصطلاحی معنی کے ساتھ اردو میں عام مستعمل ہے۔ اس لیے اکثر مترجمین نے اس کا ترجمہ کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ البتہ بعض نے اس کا ترجمہ بصورت ” اِنکار “ کیا ہے۔ ۔ ” بِالْاِیمَانِ ‘ (بدلے : بجائے ایمان : یقین کے ‘ ایمان کے بدلے میں) ابتدائی ” بِ “ تو وہ صلہ ہے جو فعل ” تبدَّل “ (اور ” استدل “ ) کے دوسرے مفعول (جو چیز بدلے میں دے دی جائے) پر لگتا ہے۔ ” الاِیمَان “ کا مادہ ” ا م ن “ اور وزن (لام تعریف نکال کر ” اِفعال “ ) ہے۔ یعنی یہ اس مادہ سے باب افعال کا مصدر ہے۔ یہ در اصل ” اِئْ مَان “ تھا۔ مہموز کے قاعدہ تخفیف (ئِ ئْ = ئِ یْ ) کے مطابق دوسرا ساکن ہمزہ پہلے متحرک ہمزہ کی حرکت (-ِ ) کے موافق حرفِ علت (ی) میں بدل گیا۔ یوں یہ لفظ ” اِیْمَان “ ہوگیا۔ ۔ یوں اس زیر مطالعہ حصہ آیت (وَ مَنْ یَتَبَدَّلِ الْکُفْرَ بِالْاِیْمَانِ ) کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ” اور جو کوئی بدل کرلے لے کفر بجائے ایمان کے “ پھر اسے جملے کی اردو ساخت (Suntax) کے مطابق ” جو کوئی ایمان کے بدلے : بدل میں کفر لے لے : اختیار کرے “ کی صورت دی گئی ہے۔ اکثر حضرات نے اردو میں بھی اصل عربی فعل کی طرح مضارع کے ساتھ ہی ترجمہ کیا ہے۔ البتہ بعض نے اس کا ترجمہ (غالباً شرط کے مفہوم کی بناء پر) فعل مستقبل کے ساتھ بصورت ” لے لے گا : اختیار کرے گا “ کیا ہے۔ عربی میں مضارع ہی حال اور مستقبل دونوں کا کام دیتا ہے۔ البتہ جن حضرات نے اس کا ترجمہ فعل ماضی کے ساتھ بصورت ” ایمان کے بدلے کفر لیا “ کیا ہے تو یہ اردو محاورے کی وجہ سے ہے۔ بعض نے ایمان کا ترجمہ ” ایمان لانے کی بجائے “ سے اور ” کفر “ کا ترجمہ ” کفر کی باتیں کرنا “ سے کیا ہے ‘ جو بلحاظ مفہوم درست ہے۔ 2: 65: 1 (4) [ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآئَ السَّبِیْلِ ] A ” فَقَدْ “ (پس تحقیق : سو یقینا : تو بیشک) اس میں پہلی ” فَ “ (جو زیادہ تر عاطفہ بمعنی ” پھر : پس “ آتی ہے) یہاں جواب شرط پر داخل ہونے کے باعث اس کا ترجمہ ” تو “ سے ہوگا اور ” قَدْ “ حرفِ تحقیق ہے۔ اس کے معنی اور استعمال پر البقرہ : 60 [ 2: 38: 1 (8)] میں بات ہوچکی ہے۔ قَدْ (بےشک) کبھی فَقَدْ (پس بیشک) اور کبھی ” لَقَدْ “ کی صورت میں (یعنی لام تاکید + حرفِ تحقیق) بھی استعمال ہوتا ہے۔ B ” ضَلَّ “ (بھٹک گیا : گمراہ ہوا : بہک گیا : دور جا پڑا) جس کا مادہ ” ض ل ل “ اور وزن اصلی ” فَعَلَ “ ہے ‘ کے معانی اور استعمال پر الفاتحہ : 7 [ 1: 6: 1 (6)] میں بات ہوچکی ہے۔ اور اس کے بعد اس سے باب افعال کا صیغہ مضارع ” یُضِلُّ “ (گمراہ کرتا ہے) البقرہ : 26 میں اور ایک اسم (مصدر) ” ضَلالَۃ “ بھی البقرہ : 16 میں گزرے ہیں۔ C ” سَوَائٌ“ (درمیان : برابر : ٹھیک وسط : یکساں) کے مادہ (سو و) وزن اور معانی و استعمال پر البقرہ : 6 [ 2: 5: 1 (2)] میں مفصل بات ہوچکی ہے۔ یہاں یہ لفظ بصورت ” سَوَائٌ“ یعنی منصوب اور خفیف ہو کر آیا ہے جس کی وجہ آگے ” الاعراب “ میں بیان ہوگی۔ D ” السَّبیل “ (راستہ : راہ) کا مادہ ” س ب ل “ اور وزن ” فَعِیلٌ“ ہے (عبارت میں لفظ معرف باللام اور مجرور آیا ہے) اس مادہ سے فعل مجرد بہت کم استعمال ہوتا ہے بلکہ اکثر کتب (معاجم) میں اس کا ذکر تک نہیں کیا گیا۔ البتہ مزید فیہ کے ایک دو ابواب سے مختلف معانی کے لیے فعل استعمال ہوتے ہیں۔ تاہم قرآن کریم میں اس مادہ سے کسی قسم کا کوئی صیغہ فعل کہیں استعمال نہیں ہوا۔ قرآن کریم میں اس مادہ سے مشتق صرف یہی اسم (سَبِیل) مفرد ‘ مرکب ‘ معرفہ ‘ نکرہ اور مختلف حالتوں (رفع ‘ نصب ‘ جر) میں قریباً 166 جگہ وارد ہوا ہے اور اس کی جمع مکسر ” سُبُلٌ“ بھی مختلف تراکیب کی صورت میں کم و بیش دس جگہ آئی ہے۔ لفظ ” سَبِیل “ کے بنیادی معنی ” راستہ “ کے ہی ہیں اور یہ لفظ مذکر مؤنث دونوں طرح استعمال ہوتا ہے بلکہ خود قرآن کریم میں بھی یہ دونوں طرح آیا ہے (مثلاً مذکر استعمال کے لیے دیکھیے ” الاعراف : 146“ اور مؤنث استعمال کے لیے دیکھیے ” یوسف : 108“ اتفاق کی بات ہے کہ اردو میں مذکر ترجمہ ” راستہ “ اور مؤنث ترجمہ ” راہ “ بالکل مترادف ہیں۔ قرآن کریم میں یہ لفظ ” سَبِیل “ بعض دوسرے معانی مثلاً ” ذمہ داری ‘ گرفت ‘ الزام ‘ مواخذہ ‘ باز پرس “ کے لیے (خصوصاً ” علٰی “ کے ساتھ) اور بمعنی ” سنگت ‘ قریبی تعلق “ بھی (” مَعَ “ کے ساتھ) استعمال ہوا ہے۔ تاہم غور سے دیکھا جائے تو ان سب معانی کے پیچھے ” راستہ “ کا مفہوم موجود ہے۔ اسی طرح قرآن کریم میں اس لفظ کے بعض مخصوص اور با محاورہ استعمال کی صورتیں بھی آئی ہیں مثلاً ” ابن السَّبیل “ اور ” سبیل اللّٰہ “ جن پر حسب موقع بات ہوگی۔ ان شاء اللہ۔ اور ان ہی با محاورہ صورتوں میں سے زیر مطالعہ ترکیب ” سوائَ السَّبِیل “ ہے جس کا لفظی ترجمہ تو ہے ” راستے کا ٹھیک درمیان “ یا ” درمیانی حصہ “ جس میں راستہ سے ذرا بھی ادھر ادھر نہ ہونے کا مفہوم ہے۔ اس لیے اکثر مترجمین نے اس کا ترجمہ ’ سیدھا راستہ “ ‘ ” سیدھی راہ “ سے اور بعض نے ” راہِ راست “ اور ” ٹھیک راستہ “ سے کیا ہے۔ ۔ یوں اس حصہ آیت ” فَقَدْ ضَلَّ سَوائَ السَّبِیل “ کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ” تو بیشک وہ بھٹک گیا راستے کی ٹھیک درمیانی جگہ سے “ جسے بعض نے جملے کی عربی ساخت کے مطابق فعل کا ترجمہ پہلے کرتے ہوئے بصورت ” پس تحقیق : تو : وہ گمراہ ہوا : بھولا : بہکا : بھٹک گیا : سیدھی راہ : سیدھے راستے : سے “ کیا ہے۔ جبکہ بعض نے اجزائے جملہ کی اردو ترتیب کے مطابق فعل کا ترجمہ بعد میں کیا ہے۔ یعنی ” تو : سو وہ یقینا : بلا شک راہ راست : سیدھی راہ : سیدھے راستے سے اور جا پڑا : بھٹک گیا : بہک گیا “ کی صورت میں۔ 2: 65: 2 الاعراب آسانی کے لیے یہاں بھی ہم زیر مطالعہ آیت کو (بحث ” اللغۃ “ کی طرح) چار جملوں (حصوں) میں تقسیم کر کے ’ اعراب “ کی بات کریں گے۔ A اَمْ تُرِیْدُوْنَ اَنْ تَسْئَلُوْا رَسُوْلَکُمْ … [ اَمْ ] یہاں منقطعہ ہے کیونکہ عبارت میں اس سے پہلے کوئی (ئَ ) ہمزۃ التسویہ (دیکھیے [ 2: 5: 1 (3)]) نہیں آیا۔ ایسا ” اَمَ “ عموماً ” بَلْ أَ “ … (بلکہ کیا : بلکہ شاید) کے معنی دیتا ہے۔ [ تُرِیدُون ] فعل مضارع معروف صیغہ جمع حاضر مذکر ہے جس میں ضمیر فاعلین ” اَنْتُم “ مستتر ہے۔ [ اَنْ ] ناصبہ مصدریہ ہے [ دیکھیے 2: 19: 1 (2)] اور [ تسئلوا ] فعل مضارع منصوب (بِاَن) ہے ‘ علامت نصب آخری نون کا گرنا ہے۔ اس صیغہ میں ضمیر فاعلین ” انتم “ شامل ہے۔ اور [ رَسُولَکُم ] میں ” رَسول “ مفعول (فعل ” تَسْئَلوا “ کا) لہٰذا منصوب ہے۔ علامت نصب ” لَ “ کی فتحہ ہے کیونکہ یہاں لفظ ” رسول “ آگے مضاف ہونے کے باعث خفیف بھی ہے۔ ضمیر مجرور ” کُمْ “ مضاف الیہ ہے۔ یعنی در اصل تو پورا مرکب اضافی (رَسُولَکم) مفعول ہے۔ اور چونکہ ” اَن “ کے بعد والے فعل مضارع سمیت مصدر کے معنی میں سمجھا جاسکتا ہے (جسے مصدر مؤول کہتے ہیں) لہٰذا یہاں ” ان تسئلوا “ کی بجائے لفظ ” سوال “ لگ سکتا ہے (بلحاظ مفہوم) مقدر عبارت ” اَتریدون سوال رسولِکم “ ہوگی۔ گویا اس عبارت کا ترجمہ ” چاہتے ہو کہ سوال کرو “ کی بجائے ” چاہتے ہو سوال کرنا : پوچھنا اپنے رسول سے “ بھی ہوسکتا ہے۔ تاہم اردو کے تمام مترجمین نے اس (مصدری) ترجمہ کو نظر انداز کیا ہے ---- سب نے ” کہ سوال کرو “ سے ہی ترجمہ کیا ہے۔ مصدری ترجمہ کی صورت میں ” اَن “ کا ترجمہ (کہ) کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ B کَمَا سُئِلَ مُوْسٰی مِنْ قَبْلُ … [ کمَا ] میں کاف الجر (کَ ) تشبیہہ کے لیے ہے بمعنی ” مانند “ اور ” مَا “ موصولہ (بمعنی ” جو کہ “ ) ہے۔ دیکھیے [ 2: 1: 1 (1)] [ سُئل ] فعل ماضی مجہول برائے واحد مذکر غائب ہے جس کا فاعل مذکور نہیں (مراد قوم موسیٰ ہے) اس کے بعد [ مُوسٰی ] نائب فاعل (لہٰذا) مرفوع ہے (جس میں ظاہراً کوئی علامت رفع نہیں ہے) اور چونکہ ایسے موقع پر ” ما “ بھی مصدریہ استعمال ہوسکتی ہے یعنی ” مَا “ اور اس کے بعد والا فعل مل کر اس فعل کا مصدر (بلحاظ معنی) سمجھا جاسکتا ہے۔ گویا یہاں ” مَا سُئِل “ کو مصدر (مؤول) ” سوال “ سمجھیں تو عبارت ” کمَا سُئِل مُوسٰی “ کو ” کَسُوالِ موسٰی “ سمجھا جاسکتا ہے۔ خیال رہے مصدر فعل معروف اور مجہول دونوں کا ایک ہی ہوتا ہے۔ یعنی ” سوال “ کا مطلب ” پوچھنا : سوال کرنا “ بھی ہوسکتا ہے اور ” پوچھا جانا : سوال کیا جانا “ بھی۔ اس لیے ابھی اوپر ” اَنْ تسئَلوا “ (فعل معروف) کا مصدر بھی ” سوال “ ہی بنا تھا اور یہاں ” ما سُئِل “ کی مصدری صورت بھی وہی ” سوال “ ہی بنتی ہے۔ گویا سابقہ اور موجودہ عبارت کے مصدر موول ہوسکنے والے حصہ عبارت ” تُرِیْدُوْنَ اَنْ تَسْئَلُوْا رَسُوْلَکُمْ کَمَا سُئِلَ مُوْسٰی “ کو دوسرے لفظوں میں یوں بھی ظاہر کرسکتے ہیں (سمجھانے کے لیے) ” تُرِیدُون سُؤالَ رَسولِکُم کسُؤالِ ( قوم موسٰی نبیَّھم) مُوسٰی “… اردو کے صرف ایک مترجم نے ” کما سئل “ کا مصدری ترجمہ ” جیسا سوال “ کی سورت میں کیا ہے۔ [ مِن قبل ] میں ” مِن “ جارہ ہے مگر مجرور ” قبل “ مبنی بر ضمہ (-ُ ) ہے ‘ کیونکہ اس کا مضاف الیہ محزوف ہے۔ گویا در اصل ” مِن قبلِ سُؤالِکم “ (تمہارے پوچھنے سے پہلے) تھا۔ اور یہاں اس ” مِن قبلُ “ کا ذکر صرف تاکید کے لیے ہے ورنہ یہ تو ظاہر ہے کہ موسیٰ ( علیہ السلام) سے جو سوال کیے گئے وہ پہلے (قبل) کی بات ہی تو ہے۔ اسی لیے ” کَمَا “ اور ” مِن قبل “ کا ترجمہ ” ویسے ہی سوال پہلے بھی “ کیا گیا ہے۔ C وَمَنْ یَّتَبَدَّلِ الْکُفْرَ بِالْاِِیْمَانِ … [ وَ ] یہاں مستانفہ ہے [ مَنْ ] موصولہ شرطیہ ہے جس کی وجہ سے اگلا فعل مضارع (صیغہ واحد مذکر غائب) [ یَتَبَدَّلْ ] مجزوم ہے ‘ علامت جزم ” ل “ کا سکون ہے (جسے صرف آگے ملانے کے لیے کسرہ (-ِ ) دی گئی ہے [ الکُفرَ ] اس فعل مضارع کا مفعول (لہٰذا) منصوب ہے علامت نصب ” ر “ کی فتحہ (-َ ) ہے (معرف باللام ہونے کی وجہ سے) [ باِلایمانِ ] کی ابتدائی ” بِ “ جارہ صلہ فعل ہے اور یہاں یہ ” بائ “ تعویض (کے بدلے) کے لیے ہے (” بِ “ کے استعمال کے لیے چاہیں تو بحث ” استعاذہ “ دیکھ لیں) اور … ” الایمانِ “ مجرور بالجر ہے۔ یہاں تک اس جملہ شرطیہ کا پہلا حصہ (بیانِ شرط) مکمل ہوتا ہے۔ دوسرا حصہ (جوابِ شرط) آگے آ رہا ہے۔ D فَقَدْ ضَلَّ سَوَآئَ السَّبِیْلِ … [ فَ ] عاطفہ یہاں جوابِ شرط کے رابطہ کے لیے (بمعنی ” تو : سو “ ) ہے اور [ قَدْ ] حرفِ تحقیق ہے۔ [ ضَلَّ ] فعل ماضی معروف ہے جس میں ضمیر واحد مذکر غائب ” ھُوَ “ بطور فاعل شامل ہے [ سَوائَ ] مفعول بہٖ منصوب ہے۔ علامت نصب آخری ” ئَ “ کی فتحہ (-َ ) ہے۔ کیونکہ یہ آگے مضاف الیہ ہونے کے باعث خفیف بھی ہے۔ [ السَّبِیلِ ] مضاف الیہ مجرور ہے ‘ علامت جر ” لِ “ کی کسرہ (-ِ ) ہے۔ عبارت کا یہ حصہ جوابِ شرط ہے جسے نحوی لوگ محلاً مجزوم کہتے ہیں۔ اگرچہ یہاں جواب، شرط میں فعل مجزوم نہیں آیا۔ 2: 65: 3 الرسم زیر مطالعہ آیت کے تمام کلمات کا رسم عثمانی اور رسم املائی یکساں ہے ما سوائے دو کلمات یعنی ” تَسْئَلُوا “ اور ” بِالْاِیمَانِ “ کے ‘ تفصیل یوں ہے : ۔ ” تَسْئَلُوْا “ (جس کا عام رسم املائی تو ” تَسَأَلُوا “ ہے ‘ کیونکہ عام قاعدۂ املایہ ہے کہ ہمزۂ مفتوحہ اگر کسی لفظ کے درمیان میں ہو (یعنی ابتداء یا آخر میں نہ ہو) تو اسے الف (ا) پر لکھا جاتا ہے ‘ تاہم عام املاء میں اسے کبھی بصورتِ ” تَسْئَلُوا “ بھی لکھتے ہیں جو رسم املائی اور رسم عثمانی دونوں کے لحاظ سے غلط ہے۔ مگر رسم عثمانی میں یہ لفظ بصورتِ ” تَسْئَلُوا “ لکھا جاتا ہے۔ یعنی اس کی ” کرسی “ والا الف (ا) حذف کردیا جاتا ہے مگر ” من “ (ساکنہ) اور ” ل “ (متحرکہ) کے درمیان ہمزہ (ئ) کی کرسی کے لیے کوئی نبرہ (دندانہ) بھی نہیں بنایا جاتا۔ تھوڑی سی لمبی خالی جگہ (س اور ل کے درمیان) چھوڑی جاتی ہے جس پر ہمزۂ قطع بذریعہ ضبط ظاہر کیا جاتا ہے۔ مزید وضاحت (برائے کتابت ہمزہ) کے لیے دیکھیے [ 2: 11: 3] میں کلمہ ” مُستھزِئُ ون “ کا رسم اور [ 2: 22: 3] میں کلمہ ” اَنبِعئُونی “ کی بحث رسم۔ بعض ممالک (مثلاً ایران) میں اسے جو بصورتِ ” تسئلوا “ (ہمزہ کو ” ی “ کے دندانہ : نبرہ پر) لکھتے ہیں تو یہ رسم عثمانی کی خلاف ورزی ہے۔ بخلافِ کلمہ ” سُئِلَ “ کے (جو آگے آ رہا ہے) کہ اس کے لیے رسم املائی اور رسم عثمانی دونوں میں نبرہ (یعنی دندانہ برائے ” ی “ ) ڈالا جاتا ہے۔ یعنی ” س “ اور ” ل “ کے درمیان بصورتِ ” سئل “ اور پھر اس دندانہ کے اوپر یا نیچے ہمزہ (ئ) اور اس کی حرکت کو بذریعہ ضبط ظاہر کرنے کے مختلف طریقے ہیں جیسا کہ ضبط میں آئے گا۔ ۔ دوسرے کلمہ ” اِیمان “ (بِالایمان میں) کے رسم میں اختلاف ہے۔ الدانی نے اس میں الف کے حذف (جو ” م “ اور ” ن “ کے درمیان ہے) کی تصریح نہیں کی جو اثبات کو مستلزم ہے۔ اس لیے افریقہ میں سے لیبیا اور کئی مشرقی ممالک (برصغیر میں ترکی ایران وغیرہ کے مصاحف میں اسے باثباتِ الف بصورتِ ” بِالاِیمَان “ لکھا جاتا ہے۔ جبکہ ابو داؤد کی طرف منسوب قول کے مطابق بیشتر عرب اور افریقی ممالک کے مصاحف میں اسے بحذف الف (بین المیم و النون) بصورتِ ” بِالایمٰن “ لکھا جاتا۔ 2: 65: 4 الضبط ذیل میں ہم زیر مطالعہ قطعہ کے کلمات کے لیے قرآنی ضبط کے مختلف طریقے نمونوں کی صورت میں ظاہر کرتے ہیں۔ ک جو کلمات پہلے گزر چکے ہیں ان کا بحث ضبط والا گزشتہ حوالہ لکھنے پر اکتفا کیا گیا ہے۔ بعض کلمات کے ضمن میں کچھ مزید وضاحت (صرف نمونہ کے علاوہ) بھی کی گئی ہے۔ ” اَمْ “ [ 2: 5: 4] ۔ تُرِیْدُوْنَ : تُرٖیدُونَ : تُرِیدُونَ 3 تُرَِیدَٰونَ ۔ اَنْ (نون مخفاۃ کے ساتھ ‘ جیسے یہاں ہے ‘ پہلی دفعہ [ 2: 19: 4] میں اور نون مخفاۃ و مظرہ دونوں کے ساتھ [ 2: 43: 4] میں گزرا ہے) تَسْئَلُوْا : تَسْئَلُوا : تَسْئَلُوْا : تسْسَلُواْ ۔ رَسُوْلَکُمْ : رَسُولَکُمْ : رَسُولَکُمْ : رَسُولَکُمْ ۔ کَمَا [ 2: 10: 4] میں پہلی دفعہ دو مرتبہ گزرا ہے۔ سُئِلَ : سُئِلَ : سُئِلَ : سُئَِل۔ مُوسٰی [ 2: 33: 4] مِنْ قَبْلُ پہلی دفعہ یہی ترکیب البقرہ : 25 [ 2: 18: 4] میں گزری ہے وَ مَنْ یَّتَبَدَّلِ ۔ نون مخفاۃ ما قبل یائے متحرکہ کے ساتھ (جیسے یہاں ہے) البقرہ : 8 [ 2: 7: 4] میں ” مَنْ یَّقُوْلُ “ کی صورت میں گزرا ہے۔
Top