Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mutaliya-e-Quran - Az-Zumar : 43
اَمْ تُرِیْدُوْنَ اَنْ تَسْئَلُوْا رَسُوْلَكُمْ كَمَا سُئِلَ مُوْسٰى مِنْ قَبْلُ١ؕ وَ مَنْ یَّتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْاِیْمَانِ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِیْلِ
اَمْ تُرِیْدُوْنَ
: کیا تم چاہتے ہو
اَنْ تَسْاَلُوْا
: کہ سوال کرو
رَسُوْلَكُمْ
: اپنا رسول
کَمَا
: جیسے
سُئِلَ
: سوال کئے گئے
مُوْسٰى
: موسیٰ
مِنْ قَبْلُ
: اس سے پہلے
وَمَنْ
: اور جو
يَتَبَدَّلِ
: اختیار کرلے
الْكُفْرَ
: کفر
بِالْاِیْمَانِ
: ایمان کے بدلے
فَقَدْ ضَلَّ
: سو وہ بھٹک گیا
سَوَآءَ
: سیدھا
السَّبِیْلِ
: راستہ
پھر کیا تم اپنے رسول سے اس قسم کے سوالات اور مطالبہ کرنا چاہتے ہو، جیسے اس سے پہلے موسیٰؑ سے کیے جا چکے ہیں؟ حالانکہ جس شخص نے ایمان کی روش کو کفر کی روش سے بدل لیا وہ راہ راست سے بھٹک گیا
[ اَمْ تُرِيْدُوْنَ : یا تم لوگ چاہتے ہو ] [ اَنْ تَسْـــَٔـلُوْا : کہ تم لوگ پوچھو ] [ رَسُوْلَكُمْ : اپنے رسول سے ] [ كَمَا : اس کی مانند ] [ سُىِٕلَ : پوچھا گیا ] [ مُوْسٰى: موسیٰ سے ] [ مِنْ قَبْلُ : اس سے پہلے ] [ ۭ وَمَنْ يَّتَـبَدَّلِ : اور جو بدلہ میں لیتا ہے ] [ الْكُفْرَ : کفر کو ] [ بِالْاِيْمَانِ : ایمان کے عوض ] [ فَقَدْ ضَلَّ : تو وہ بھٹک گیا ہے ] [ سَوَاۗءَ السَّبِيْلِ : راہ کے وسط سے ] 1 اللغۃ اس آیت میں بھی بالکل نیا اور بلحاظ مادہ پہلی دفعہ آنے والا لفظ تو صرف ” السبیل “ ہے۔ باقی تمام کلمات براہ راست (اپنی اسی موجودہ شکل میں) یا بالواسطہ (یعنی) اصل مادہ کے لحاظ سے) پہلے گزر چکے ہیں۔ اس لیے ہم عبارت کو چھوٹ چھوٹے جملوں (یا جملوں سے ملتے جلتے حصوں) میں تقسیم کر کے ہر ایک جزء کے کلمات کی وضاحت کریں گے یا حسب ضرورت گزشتہ حوالہ دیتے جائیں گے۔ 2: 65: 1 (1) [ اَمْ تُرِیْدُوْنَ اَنْ تَسْئَلُوْا رَسُوْلَکُمْ …] A ” اَمْ “ (آیا : کیا ؟: بلکہ : شاید) اس کی دو اقسام یعنی ” اَمْ متّصلہ “ اور ” اَمْ منقطعہ “ پر بات البقرہ : 6 [ 2: 5: 1 (4)] میں ہوچکی ہے۔ B ” تُرِیدُونَ “ (تم ارادہ کرتے ہو) اس کا مادہ ” ر و د “ اور وزن ” تُفْعِلُونَ “ ہے۔ یہ در اصل ” تُرْوِدُوْنَ “ تھا۔ پھر ”-ُ -ْ وِ = -ْ -ِ یْ “ کے مطابق ” وِ “ کی حرکت (-ِ ) ما قبل ساکن (رْ ) کو منتقل ہوئی اور پھر خود ” وْ “ بوجہ ما قبل مکسور کے ” یْ “ میں بدل گئی یعنی تُرْوِدُوْنَ - تُرِوْدُوْن = تُرِیْدُوْنَ ۔ گویا یہ اس مادہ سے باب افعال کا فعل مضارع معروف صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔ ۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد (جو قرآن کریم میں نہیں آیا) اور اس سے باب افعال کے فعل ” اَرادَ یُرِیدُ “ کی اصل صورت ‘ اس کی تعلیل اور معنی (قصد کرنا ‘ چاہنا ‘ ارادہ کرنا) پر البقرہ : 26 [ 2: 19: 1 (8)] میں مفصل بات ہوچکی ہے۔ اس طرح اس صیغہ (تُرِیدُون) کا لفظی ترجمہ تو وہی ہے جو اوپر لکھا گیا ہے۔ تاہم اکثر مترجمین نے اس کا ترجمہ ” کیا تم یہ چاہتے ہو “ سے کیا ہے۔ بعض نے ضمیر مخاطب کے بغیر ترجمہ بصورت ” کیا یہ چاہتے ہو “ کیا ہے جس میں اردو محاورے کے مطابق ” تم “ کا مفہوم مووجد ہے۔ بعض نے اس کا ترجمہ ” کیا تم مسلمان بھی چاہتے ہو “ کیا ہے جو تفسیری ترجمہ ہے۔ اس میں ” بھی “ کا استعمال آگے آنے والی عبارت ” کَمَا سُئِلَ…“ کی وجہ سے کیا گیا ہے۔ C ” اَنْ “ (یہ کہ : کہ) کے استعمال اور معانی پر البقرہ : 26 [ 2: 19: 1 (2)] میں پہلی دفعہ مفصل بات ہوئی تھی۔ اس کے بعد اب تک یہ لفظ تو دفعہ گزر چکا ہے۔ یہاں یہ مصدریہ ناصبہ ہے۔ اس کی وجہ سے ترجمے میں (یہ کہ) آتا ہے جسے اردو محاورے کے مطابق جملے میں جدا کر کے استعمال کیا گیا ہے۔ یعنی ” کیا تم یہ چاہتے ہو کہ “ کی صورت میں۔ D ” تَسْئَلُوْا “ (” کہ “: تم پوچھو ‘ سوال کرو) اس کا مادہ ” س ء ل “ اور وزن ” تَفْعَلُوا “ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ” سَأَلَ یَسْأَلُ “ (= مانگنا ‘ پوچھنا ‘ سوال کرنا) کے باب اور استعمالات کے متعلق البقرہ : 61 [ 2: 39: 1 (13)] میں وضاحت کی جا چکی ہے۔ ” تسألوا “ اس فعل سے صیغہ مضارع منصوب (جمع حاضر) ہے ‘ علامت نصب آخری نون کا گرنا ہے (در اصل تَسأَلونَ تھا) واو الجمع کے بعد الف لکھنا ضروری ہوتا ہے۔ اس طرح ” اَنْ تسألوا “ کا مجموعی ترجمہ کرنا پڑتا ہے۔ یعنی ”… کہ سوال کرو “۔ اس کے مصدری ترجمہ پر ” الاعراب “ میں مزید بات ہوگی۔ ۔ ” رَسُولَکُمْ “ (تمہارے (اپنے) رسول کو) ۔ اس کا آخری حصہ (کُمْ ) تو ضمیر مجرور ہے بمعنی ” تمہارا “۔ پہلا لفظ ” رَسُول “ اس سے پہلے البقرہ : 87 [ 2: 53: 1 (1 - 4)] میں گزرا ہے اور وہاں اس کی لغوی وضاحت بھی ہوئی تھی جس کا یہاں دوبارہ مختصراً ذکر کیا جاتا ہے۔ اس کا مادہ ” ر س ل “ اور وزن ” فَعُوْلٌ“ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ” بالوں کا لمبا ہونا اور اونٹ کا نرم رفتار ہونا “ کے لیے آتا ہے ‘ تاہم یہ فعل قرآن مجید میں استعمال نہیں ہوا ‘ بلکہ قرآن کریم میں یہ مادہ بصورتِ فعل صرف باب افعال سے استعمال ہوا ہے۔ لفظ ” رَسُول “ اس مادہ سے کسی متروک الاستعمال فعل کا مصدر بمعنی ” رِسَالۃ “ (پیغام) ہے اور مصدر بمعنی اسم الفاعل بھی استعمال ہوتا ہے یعنی ” پیغام والا : پیغمبر “۔ اصل میں مصدر ہونے اور ” فَعُول “ کے وزن پر ہونے کی وجہ سے ہی یہ لفظ (رسول) مذکر مؤنث واحد جمع کے لیے یکساں رہتا ہے۔ مثلاً ھُوَ رسولٌ۔ ھی رسولٌ۔ ھُم رسولٌ اور ھُنَّ رسولٌ کہہ سکتے ہیں اور اسی لیے قرآن کریم میں ایک جگہ (الشعرائ : 16) یہ لفظ مبتدأ (جمع) کے لیے خبر (بلفظ واحد) آیا ہے یعنی ” اِنَّا رَسُولُ رَبِّ الْعَالَمِینَ “ اردو میں اس کے لیے فارسی لفظ ” پیغمبر “ بھی استعمال ہوتا ہے اور خود لفظ ” رسول “ اپنے اصطلاحی معنی (اللہ کے پیغام لانے والا) کے ساتھ عام رائج ہے۔ اور اسی لیے اکثر مترجمین نے اس کا ترجمہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ 2: 65ـ: 1 (2) [ کَمَا سُئِلَ مُوْسٰی مِنْ قَبْلُ ] A ” کَمَا “ (جیسے : جیسا کہ : جس طرح) یہ کاف الجر اور ” مَا “ موصولہ کا مرکب ہے ” کَ “ بمعنی ” مثل “ بطور اسم بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس پر مفصل بحث البقرہ : 13 [ 2: 10: 1 (1)] میں گزری ہے جہاں یہ لفظ دو دفعہ وارد ہوا ہے۔ B ” سُئِلَ “ (سوال کیا گیا : پوچھا گیا : سوال کیے جا چکے : ہوچکے) کا مادہ ” س ء ل “ اور وزن ” فُعِل “ ہے۔ یعنی یہ اس مادہ سے فعل مجرد کا صیغہ ماضی مجہول ہے۔ اس فعل مجرد پر ابھی اوپر ” اَنْ تَسْئَلُوا “ میں اور اس سے پہلے البقرہ : 61 [ 2: 39: 1 (13)] میں بات ہوچکی ہے۔ یہاں جمع کے ساتھ ترجمہ (سوال کیے گئے : جا چکے) ایک طرح سے تفسیری ترجمہ ہے کیونکہ ان لوگوں ( قوم موسیٰ ( علیہ السلام) ) نے کئی بار اور متعدد ناروا سوال پوچھے تھے اور ماضی مجہول کا صیغہ دوسرے محذوف مفعول مطلق کی بناء پر واحد جمع دونوں معنی کا متحمل ہوسکتا ہے۔ قرآن، کریم میں اس مجہول فعل کے مختلف صیغے تین جگہ آئے ہیں۔ اس کے یہاں مصدری معنی پر آگے ” الاعراب “ میں مزید بات ہوگی۔ C ” مُوْسٰی “ مشہور پیغمبر کا نام ہے۔ یہ لفظ پہلی دفعہ البقرہ : 15 [ 2: 33: 1 (2)] میں آیا تھا اور وہاں اس کے اشتقاق اور معنی پر بھی بات ہوئی تھی۔ اس کے بعد سے اب تک یہ لفظ نو دفعہ گزر چکا ہے۔ D ” مِنْ قَبلُ “ (پہلے بھی : اس سے پہلے) یہ ترکیب جاری سب سے پہلے البقرہ : 25 [ 2: 18: 1 (7)] میں زیر بحث آچکی ہے اور پھر البقرہ؛ 89 [ 2: 54: 1 (3)] میں بھی گزر چکی ہے۔ ” مِنْ “ الجارہ اور ظرف ” قبل “ کے الگ الگ استعمال اور معانی پر البقرہ : 4 [ 2: 3: 1 (4)] میں بات ہوئی تھی۔ ۔ یوں اس عبارت (کما سُئِل موسٰی من قبل) کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ” جیسا کہ سوال کیا گیا تھا موسیٰ کو پہلے بھی : اس سے پہلے) اردو محاورے کے مطابق یہاں تمام مترجمین نے ” کو “ کی بجائے ” سے “ کے ساتھ ہی ترجمہ کیا ہے۔ بعض نے سوال کو جمع کا مفہوم دے کر ترجمہ ” سوال ہوچکے ہیں موسیٰ سے پہلے “ کی صورت میں کیا ہے جس میں یہ ابہام رہ جاتا ہے کہ شاید یہ سوالات حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) سے پہلے کسی کو پیش کیے گئے۔ اسی لیے بعض مترجمین نے ” مِنْ قَبْل “ کا ترجمہ ” اس سے پہلے “ اور بعض نے ” اس سے قبل موسیٰ ( علیہ السلام) سے بھی “ کے ساتھ کیا ہے۔ بعض نے ” جس طرح کے سوال پہلے موسیٰ ( علیہ السلام) سے کیے گئے “ کے ساتھ ترجمہ کیا ہے جو زیادہ جامع ہے۔ بعض نے ” سوال “ کے لیے ” بیہودہ درخواستیں “ اور ” ایسی ایسی بےجا درخواستیں “ (کی جا چکی ہیں) کی صورت میں ترجمہ کیا ہے جس سے پیغمبر (حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کا احترام اور سوال کی نوعیت کی وضاحت (تفسیر) مقصود ہے۔ 2: 65: 1 (3) [ وَ مَنْ یَّتَبَدَّلِ الْکُفْرَ بِالْاِیْمَانِ ] A ” وَ “ (اور) یہاں مستانفہ ہے جس کے متعلق [ 2: 7: 1 (1)] میں بات ہوئی تھی۔ یہاں یہ ” اور یہ بھی سوچ لو کہ “ کا مفہوم رکھتی ہے۔ B ” مَنْ “ (جو کوئی بھی کہ : جو کوئی : جو شخص : جس شخص نے) ۔ یہاں یہ (مَنْ ) شرطیہ موصولہ ہے ‘ دیکھیے البقرہ : 8 [ 2: 7: 1 (4)] C ” یَتَبَدَّلْ “ (لیوے : لے لے : اختیار کرے … کو بدلے… کے بدلے : لے… بدلے… کے) اس کا مادہ ” ب د ل “ اور وزن ” یَتَفَعَّلْ “ ہے ‘ یعنی یہ اس مادہ سے باب تفعّل کا صیغہ مضارع (واحد مذکر غائب) مجزوم ہے (جزم کی وجہ ” الاعراب “ میں آئے گی) اور اس میں آخری ساکن لام (ل) کو آگے ملانے کے لیے کسرہ (-ِ ) دی گئی ہے (بصورتِ ” لِ “ ) اس مادہ سے فعل مجرد (جو قرآن کریم میں کہیں استعمال نہیں ہوا) کے معنی وغیرہ پر۔ نیز اس سے باب تفعیل کے استعمال پر البقرہ : 59 [ 2: 37: 1 (9)] میں اور اسی مادہ سے باب استفعال کے استعمال پر البقرہ : 61 [ 2: 39: 1 (9)] میں مفصل بات ہوچکی ہے۔ ان (گزشتہ) دونوں مواقع پر ” بَدَّلَ “ اور ” اِسْتَبْدَلَ “ کے مفعول ثانی پر باء (بِ ) کے صلہ کے استعمال پر ----- ضرورت ہو تو ----- ایک دفعہ نظر ڈال لیجیے۔ ۔ زیر مطالعہ فعل ” یَتَبَّدَل “ استعمال اور معنی کے لحاظ سے فعل ” اِسْتَبْدَلَ “ کی مانند ہے ‘ البتہ باب ” تفعّل “ میں فعل لازم اور متعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے جبکہ ” اِستبدَل “ صرف متعدی فعل ہے۔ یعنی ” تَبَدَّلَ “ کے معنی ” تَغَیّرَ “ (بدل گیا ‘ تبدیل ہوگیا) بھی ہوتے ہیں اور ” تبدَّل الشَّیْئَ بِالشَّیْئِ “ ہی کے معنی ” اِسْتَبْدَلَ الشَّیْئَ بِالشَّیْئِ “ (بدل کر A کو لے لیا بدلے : کے بجائے B کے) بھی ہوتے ہیں اور اس فعل کے (باب تفعّل سے) متعدی استعمال میں بھی (باب استفعال کی طرح) ایک مفعول (جو چیز بدلے میں لی جائے) تو مفعول بنفسہٖ منصوب ہو کر اور دوسرا مفعول (جو چیز بدلے میں دے دی جائے) ” بِ “ کے صلہ کے ساتھ آتا ہے۔ قرآن کریم میں اس باب (تفعّل) سے فعل کے مختلف صیغے تین جگہ آئے ہیں۔ اور ہر جگہ یہ فعل متعدی اور ہر دو مفعول کے ذکر سمیت آیا ہے۔ جیسا کہ زیر مطالعہ آیت میں ہے۔ D ” الْکُفرَ “ (کفر کو : (لے لے) کفر) ۔ یہ فعل مجرد ” کفَر یکفُر “ کا مصدر ہے جس کا وزن (لام تعریف نکال کر) ” فُعْلٌ“ ہے۔ اس فعل کے باب اور معنیٰ وغیرہ پر سب سے پہلے البقرہ : 6 [ 2: 5: 1 (1)] میں بات ہوئی تھی۔ اس کے بعد سے اب تک اس فعل سے مختلف صیغے پندرہ جگہ گزر چکے ہیں۔ البتہ یہ مصدر (الکُفر) یہاں پہلی دفعہ آیا ہے۔ یہ لفظ (کُفر) اپنے پورے اصطلاحی معنی کے ساتھ اردو میں عام مستعمل ہے۔ اس لیے اکثر مترجمین نے اس کا ترجمہ کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ البتہ بعض نے اس کا ترجمہ بصورت ” اِنکار “ کیا ہے۔ ۔ ” بِالْاِیمَانِ ‘ (بدلے : بجائے ایمان : یقین کے ‘ ایمان کے بدلے میں) ابتدائی ” بِ “ تو وہ صلہ ہے جو فعل ” تبدَّل “ (اور ” استدل “ ) کے دوسرے مفعول (جو چیز بدلے میں دے دی جائے) پر لگتا ہے۔ ” الاِیمَان “ کا مادہ ” ا م ن “ اور وزن (لام تعریف نکال کر ” اِفعال “ ) ہے۔ یعنی یہ اس مادہ سے باب افعال کا مصدر ہے۔ یہ در اصل ” اِئْ مَان “ تھا۔ مہموز کے قاعدہ تخفیف (ئِ ئْ = ئِ یْ ) کے مطابق دوسرا ساکن ہمزہ پہلے متحرک ہمزہ کی حرکت (-ِ ) کے موافق حرفِ علت (ی) میں بدل گیا۔ یوں یہ لفظ ” اِیْمَان “ ہوگیا۔ ۔ یوں اس زیر مطالعہ حصہ آیت (وَ مَنْ یَتَبَدَّلِ الْکُفْرَ بِالْاِیْمَانِ ) کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ” اور جو کوئی بدل کرلے لے کفر بجائے ایمان کے “ پھر اسے جملے کی اردو ساخت (Suntax) کے مطابق ” جو کوئی ایمان کے بدلے : بدل میں کفر لے لے : اختیار کرے “ کی صورت دی گئی ہے۔ اکثر حضرات نے اردو میں بھی اصل عربی فعل کی طرح مضارع کے ساتھ ہی ترجمہ کیا ہے۔ البتہ بعض نے اس کا ترجمہ (غالباً شرط کے مفہوم کی بناء پر) فعل مستقبل کے ساتھ بصورت ” لے لے گا : اختیار کرے گا “ کیا ہے۔ عربی میں مضارع ہی حال اور مستقبل دونوں کا کام دیتا ہے۔ البتہ جن حضرات نے اس کا ترجمہ فعل ماضی کے ساتھ بصورت ” ایمان کے بدلے کفر لیا “ کیا ہے تو یہ اردو محاورے کی وجہ سے ہے۔ بعض نے ایمان کا ترجمہ ” ایمان لانے کی بجائے “ سے اور ” کفر “ کا ترجمہ ” کفر کی باتیں کرنا “ سے کیا ہے ‘ جو بلحاظ مفہوم درست ہے۔ 2: 65: 1 (4) [ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآئَ السَّبِیْلِ ] A ” فَقَدْ “ (پس تحقیق : سو یقینا : تو بیشک) اس میں پہلی ” فَ “ (جو زیادہ تر عاطفہ بمعنی ” پھر : پس “ آتی ہے) یہاں جواب شرط پر داخل ہونے کے باعث اس کا ترجمہ ” تو “ سے ہوگا اور ” قَدْ “ حرفِ تحقیق ہے۔ اس کے معنی اور استعمال پر البقرہ : 60 [ 2: 38: 1 (8)] میں بات ہوچکی ہے۔ قَدْ (بےشک) کبھی فَقَدْ (پس بیشک) اور کبھی ” لَقَدْ “ کی صورت میں (یعنی لام تاکید + حرفِ تحقیق) بھی استعمال ہوتا ہے۔ B ” ضَلَّ “ (بھٹک گیا : گمراہ ہوا : بہک گیا : دور جا پڑا) جس کا مادہ ” ض ل ل “ اور وزن اصلی ” فَعَلَ “ ہے ‘ کے معانی اور استعمال پر الفاتحہ : 7 [ 1: 6: 1 (6)] میں بات ہوچکی ہے۔ اور اس کے بعد اس سے باب افعال کا صیغہ مضارع ” یُضِلُّ “ (گمراہ کرتا ہے) البقرہ : 26 میں اور ایک اسم (مصدر) ” ضَلالَۃ “ بھی البقرہ : 16 میں گزرے ہیں۔ C ” سَوَائٌ“ (درمیان : برابر : ٹھیک وسط : یکساں) کے مادہ (سو و) وزن اور معانی و استعمال پر البقرہ : 6 [ 2: 5: 1 (2)] میں مفصل بات ہوچکی ہے۔ یہاں یہ لفظ بصورت ” سَوَائٌ“ یعنی منصوب اور خفیف ہو کر آیا ہے جس کی وجہ آگے ” الاعراب “ میں بیان ہوگی۔ D ” السَّبیل “ (راستہ : راہ) کا مادہ ” س ب ل “ اور وزن ” فَعِیلٌ“ ہے (عبارت میں لفظ معرف باللام اور مجرور آیا ہے) اس مادہ سے فعل مجرد بہت کم استعمال ہوتا ہے بلکہ اکثر کتب (معاجم) میں اس کا ذکر تک نہیں کیا گیا۔ البتہ مزید فیہ کے ایک دو ابواب سے مختلف معانی کے لیے فعل استعمال ہوتے ہیں۔ تاہم قرآن کریم میں اس مادہ سے کسی قسم کا کوئی صیغہ فعل کہیں استعمال نہیں ہوا۔ قرآن کریم میں اس مادہ سے مشتق صرف یہی اسم (سَبِیل) مفرد ‘ مرکب ‘ معرفہ ‘ نکرہ اور مختلف حالتوں (رفع ‘ نصب ‘ جر) میں قریباً 166 جگہ وارد ہوا ہے اور اس کی جمع مکسر ” سُبُلٌ“ بھی مختلف تراکیب کی صورت میں کم و بیش دس جگہ آئی ہے۔ لفظ ” سَبِیل “ کے بنیادی معنی ” راستہ “ کے ہی ہیں اور یہ لفظ مذکر مؤنث دونوں طرح استعمال ہوتا ہے بلکہ خود قرآن کریم میں بھی یہ دونوں طرح آیا ہے (مثلاً مذکر استعمال کے لیے دیکھیے ” الاعراف : 146“ اور مؤنث استعمال کے لیے دیکھیے ” یوسف : 108“ اتفاق کی بات ہے کہ اردو میں مذکر ترجمہ ” راستہ “ اور مؤنث ترجمہ ” راہ “ بالکل مترادف ہیں۔ قرآن کریم میں یہ لفظ ” سَبِیل “ بعض دوسرے معانی مثلاً ” ذمہ داری ‘ گرفت ‘ الزام ‘ مواخذہ ‘ باز پرس “ کے لیے (خصوصاً ” علٰی “ کے ساتھ) اور بمعنی ” سنگت ‘ قریبی تعلق “ بھی (” مَعَ “ کے ساتھ) استعمال ہوا ہے۔ تاہم غور سے دیکھا جائے تو ان سب معانی کے پیچھے ” راستہ “ کا مفہوم موجود ہے۔ اسی طرح قرآن کریم میں اس لفظ کے بعض مخصوص اور با محاورہ استعمال کی صورتیں بھی آئی ہیں مثلاً ” ابن السَّبیل “ اور ” سبیل اللّٰہ “ جن پر حسب موقع بات ہوگی۔ ان شاء اللہ۔ اور ان ہی با محاورہ صورتوں میں سے زیر مطالعہ ترکیب ” سوائَ السَّبِیل “ ہے جس کا لفظی ترجمہ تو ہے ” راستے کا ٹھیک درمیان “ یا ” درمیانی حصہ “ جس میں راستہ سے ذرا بھی ادھر ادھر نہ ہونے کا مفہوم ہے۔ اس لیے اکثر مترجمین نے اس کا ترجمہ ’ سیدھا راستہ “ ‘ ” سیدھی راہ “ سے اور بعض نے ” راہِ راست “ اور ” ٹھیک راستہ “ سے کیا ہے۔ ۔ یوں اس حصہ آیت ” فَقَدْ ضَلَّ سَوائَ السَّبِیل “ کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ” تو بیشک وہ بھٹک گیا راستے کی ٹھیک درمیانی جگہ سے “ جسے بعض نے جملے کی عربی ساخت کے مطابق فعل کا ترجمہ پہلے کرتے ہوئے بصورت ” پس تحقیق : تو : وہ گمراہ ہوا : بھولا : بہکا : بھٹک گیا : سیدھی راہ : سیدھے راستے : سے “ کیا ہے۔ جبکہ بعض نے اجزائے جملہ کی اردو ترتیب کے مطابق فعل کا ترجمہ بعد میں کیا ہے۔ یعنی ” تو : سو وہ یقینا : بلا شک راہ راست : سیدھی راہ : سیدھے راستے سے اور جا پڑا : بھٹک گیا : بہک گیا “ کی صورت میں۔ 2: 65: 2 الاعراب آسانی کے لیے یہاں بھی ہم زیر مطالعہ آیت کو (بحث ” اللغۃ “ کی طرح) چار جملوں (حصوں) میں تقسیم کر کے ’ اعراب “ کی بات کریں گے۔ A اَمْ تُرِیْدُوْنَ اَنْ تَسْئَلُوْا رَسُوْلَکُمْ … [ اَمْ ] یہاں منقطعہ ہے کیونکہ عبارت میں اس سے پہلے کوئی (ئَ ) ہمزۃ التسویہ (دیکھیے [ 2: 5: 1 (3)]) نہیں آیا۔ ایسا ” اَمَ “ عموماً ” بَلْ أَ “ … (بلکہ کیا : بلکہ شاید) کے معنی دیتا ہے۔ [ تُرِیدُون ] فعل مضارع معروف صیغہ جمع حاضر مذکر ہے جس میں ضمیر فاعلین ” اَنْتُم “ مستتر ہے۔ [ اَنْ ] ناصبہ مصدریہ ہے [ دیکھیے 2: 19: 1 (2)] اور [ تسئلوا ] فعل مضارع منصوب (بِاَن) ہے ‘ علامت نصب آخری نون کا گرنا ہے۔ اس صیغہ میں ضمیر فاعلین ” انتم “ شامل ہے۔ اور [ رَسُولَکُم ] میں ” رَسول “ مفعول (فعل ” تَسْئَلوا “ کا) لہٰذا منصوب ہے۔ علامت نصب ” لَ “ کی فتحہ ہے کیونکہ یہاں لفظ ” رسول “ آگے مضاف ہونے کے باعث خفیف بھی ہے۔ ضمیر مجرور ” کُمْ “ مضاف الیہ ہے۔ یعنی در اصل تو پورا مرکب اضافی (رَسُولَکم) مفعول ہے۔ اور چونکہ ” اَن “ کے بعد والے فعل مضارع سمیت مصدر کے معنی میں سمجھا جاسکتا ہے (جسے مصدر مؤول کہتے ہیں) لہٰذا یہاں ” ان تسئلوا “ کی بجائے لفظ ” سوال “ لگ سکتا ہے (بلحاظ مفہوم) مقدر عبارت ” اَتریدون سوال رسولِکم “ ہوگی۔ گویا اس عبارت کا ترجمہ ” چاہتے ہو کہ سوال کرو “ کی بجائے ” چاہتے ہو سوال کرنا : پوچھنا اپنے رسول سے “ بھی ہوسکتا ہے۔ تاہم اردو کے تمام مترجمین نے اس (مصدری) ترجمہ کو نظر انداز کیا ہے ---- سب نے ” کہ سوال کرو “ سے ہی ترجمہ کیا ہے۔ مصدری ترجمہ کی صورت میں ” اَن “ کا ترجمہ (کہ) کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ B کَمَا سُئِلَ مُوْسٰی مِنْ قَبْلُ … [ کمَا ] میں کاف الجر (کَ ) تشبیہہ کے لیے ہے بمعنی ” مانند “ اور ” مَا “ موصولہ (بمعنی ” جو کہ “ ) ہے۔ دیکھیے [ 2: 1: 1 (1)] [ سُئل ] فعل ماضی مجہول برائے واحد مذکر غائب ہے جس کا فاعل مذکور نہیں (مراد قوم موسیٰ ہے) اس کے بعد [ مُوسٰی ] نائب فاعل (لہٰذا) مرفوع ہے (جس میں ظاہراً کوئی علامت رفع نہیں ہے) اور چونکہ ایسے موقع پر ” ما “ بھی مصدریہ استعمال ہوسکتی ہے یعنی ” مَا “ اور اس کے بعد والا فعل مل کر اس فعل کا مصدر (بلحاظ معنی) سمجھا جاسکتا ہے۔ گویا یہاں ” مَا سُئِل “ کو مصدر (مؤول) ” سوال “ سمجھیں تو عبارت ” کمَا سُئِل مُوسٰی “ کو ” کَسُوالِ موسٰی “ سمجھا جاسکتا ہے۔ خیال رہے مصدر فعل معروف اور مجہول دونوں کا ایک ہی ہوتا ہے۔ یعنی ” سوال “ کا مطلب ” پوچھنا : سوال کرنا “ بھی ہوسکتا ہے اور ” پوچھا جانا : سوال کیا جانا “ بھی۔ اس لیے ابھی اوپر ” اَنْ تسئَلوا “ (فعل معروف) کا مصدر بھی ” سوال “ ہی بنا تھا اور یہاں ” ما سُئِل “ کی مصدری صورت بھی وہی ” سوال “ ہی بنتی ہے۔ گویا سابقہ اور موجودہ عبارت کے مصدر موول ہوسکنے والے حصہ عبارت ” تُرِیْدُوْنَ اَنْ تَسْئَلُوْا رَسُوْلَکُمْ کَمَا سُئِلَ مُوْسٰی “ کو دوسرے لفظوں میں یوں بھی ظاہر کرسکتے ہیں (سمجھانے کے لیے) ” تُرِیدُون سُؤالَ رَسولِکُم کسُؤالِ ( قوم موسٰی نبیَّھم) مُوسٰی “… اردو کے صرف ایک مترجم نے ” کما سئل “ کا مصدری ترجمہ ” جیسا سوال “ کی سورت میں کیا ہے۔ [ مِن قبل ] میں ” مِن “ جارہ ہے مگر مجرور ” قبل “ مبنی بر ضمہ (-ُ ) ہے ‘ کیونکہ اس کا مضاف الیہ محزوف ہے۔ گویا در اصل ” مِن قبلِ سُؤالِکم “ (تمہارے پوچھنے سے پہلے) تھا۔ اور یہاں اس ” مِن قبلُ “ کا ذکر صرف تاکید کے لیے ہے ورنہ یہ تو ظاہر ہے کہ موسیٰ ( علیہ السلام) سے جو سوال کیے گئے وہ پہلے (قبل) کی بات ہی تو ہے۔ اسی لیے ” کَمَا “ اور ” مِن قبل “ کا ترجمہ ” ویسے ہی سوال پہلے بھی “ کیا گیا ہے۔ C وَمَنْ یَّتَبَدَّلِ الْکُفْرَ بِالْاِِیْمَانِ … [ وَ ] یہاں مستانفہ ہے [ مَنْ ] موصولہ شرطیہ ہے جس کی وجہ سے اگلا فعل مضارع (صیغہ واحد مذکر غائب) [ یَتَبَدَّلْ ] مجزوم ہے ‘ علامت جزم ” ل “ کا سکون ہے (جسے صرف آگے ملانے کے لیے کسرہ (-ِ ) دی گئی ہے [ الکُفرَ ] اس فعل مضارع کا مفعول (لہٰذا) منصوب ہے علامت نصب ” ر “ کی فتحہ (-َ ) ہے (معرف باللام ہونے کی وجہ سے) [ باِلایمانِ ] کی ابتدائی ” بِ “ جارہ صلہ فعل ہے اور یہاں یہ ” بائ “ تعویض (کے بدلے) کے لیے ہے (” بِ “ کے استعمال کے لیے چاہیں تو بحث ” استعاذہ “ دیکھ لیں) اور … ” الایمانِ “ مجرور بالجر ہے۔ یہاں تک اس جملہ شرطیہ کا پہلا حصہ (بیانِ شرط) مکمل ہوتا ہے۔ دوسرا حصہ (جوابِ شرط) آگے آ رہا ہے۔ D فَقَدْ ضَلَّ سَوَآئَ السَّبِیْلِ … [ فَ ] عاطفہ یہاں جوابِ شرط کے رابطہ کے لیے (بمعنی ” تو : سو “ ) ہے اور [ قَدْ ] حرفِ تحقیق ہے۔ [ ضَلَّ ] فعل ماضی معروف ہے جس میں ضمیر واحد مذکر غائب ” ھُوَ “ بطور فاعل شامل ہے [ سَوائَ ] مفعول بہٖ منصوب ہے۔ علامت نصب آخری ” ئَ “ کی فتحہ (-َ ) ہے۔ کیونکہ یہ آگے مضاف الیہ ہونے کے باعث خفیف بھی ہے۔ [ السَّبِیلِ ] مضاف الیہ مجرور ہے ‘ علامت جر ” لِ “ کی کسرہ (-ِ ) ہے۔ عبارت کا یہ حصہ جوابِ شرط ہے جسے نحوی لوگ محلاً مجزوم کہتے ہیں۔ اگرچہ یہاں جواب، شرط میں فعل مجزوم نہیں آیا۔ 2: 65: 3 الرسم زیر مطالعہ آیت کے تمام کلمات کا رسم عثمانی اور رسم املائی یکساں ہے ما سوائے دو کلمات یعنی ” تَسْئَلُوا “ اور ” بِالْاِیمَانِ “ کے ‘ تفصیل یوں ہے : ۔ ” تَسْئَلُوْا “ (جس کا عام رسم املائی تو ” تَسَأَلُوا “ ہے ‘ کیونکہ عام قاعدۂ املایہ ہے کہ ہمزۂ مفتوحہ اگر کسی لفظ کے درمیان میں ہو (یعنی ابتداء یا آخر میں نہ ہو) تو اسے الف (ا) پر لکھا جاتا ہے ‘ تاہم عام املاء میں اسے کبھی بصورتِ ” تَسْئَلُوا “ بھی لکھتے ہیں جو رسم املائی اور رسم عثمانی دونوں کے لحاظ سے غلط ہے۔ مگر رسم عثمانی میں یہ لفظ بصورتِ ” تَسْئَلُوا “ لکھا جاتا ہے۔ یعنی اس کی ” کرسی “ والا الف (ا) حذف کردیا جاتا ہے مگر ” من “ (ساکنہ) اور ” ل “ (متحرکہ) کے درمیان ہمزہ (ئ) کی کرسی کے لیے کوئی نبرہ (دندانہ) بھی نہیں بنایا جاتا۔ تھوڑی سی لمبی خالی جگہ (س اور ل کے درمیان) چھوڑی جاتی ہے جس پر ہمزۂ قطع بذریعہ ضبط ظاہر کیا جاتا ہے۔ مزید وضاحت (برائے کتابت ہمزہ) کے لیے دیکھیے [ 2: 11: 3] میں کلمہ ” مُستھزِئُ ون “ کا رسم اور [ 2: 22: 3] میں کلمہ ” اَنبِعئُونی “ کی بحث رسم۔ بعض ممالک (مثلاً ایران) میں اسے جو بصورتِ ” تسئلوا “ (ہمزہ کو ” ی “ کے دندانہ : نبرہ پر) لکھتے ہیں تو یہ رسم عثمانی کی خلاف ورزی ہے۔ بخلافِ کلمہ ” سُئِلَ “ کے (جو آگے آ رہا ہے) کہ اس کے لیے رسم املائی اور رسم عثمانی دونوں میں نبرہ (یعنی دندانہ برائے ” ی “ ) ڈالا جاتا ہے۔ یعنی ” س “ اور ” ل “ کے درمیان بصورتِ ” سئل “ اور پھر اس دندانہ کے اوپر یا نیچے ہمزہ (ئ) اور اس کی حرکت کو بذریعہ ضبط ظاہر کرنے کے مختلف طریقے ہیں جیسا کہ ضبط میں آئے گا۔ ۔ دوسرے کلمہ ” اِیمان “ (بِالایمان میں) کے رسم میں اختلاف ہے۔ الدانی نے اس میں الف کے حذف (جو ” م “ اور ” ن “ کے درمیان ہے) کی تصریح نہیں کی جو اثبات کو مستلزم ہے۔ اس لیے افریقہ میں سے لیبیا اور کئی مشرقی ممالک (برصغیر میں ترکی ایران وغیرہ کے مصاحف میں اسے باثباتِ الف بصورتِ ” بِالاِیمَان “ لکھا جاتا ہے۔ جبکہ ابو داؤد کی طرف منسوب قول کے مطابق بیشتر عرب اور افریقی ممالک کے مصاحف میں اسے بحذف الف (بین المیم و النون) بصورتِ ” بِالایمٰن “ لکھا جاتا۔ 2: 65: 4 الضبط ذیل میں ہم زیر مطالعہ قطعہ کے کلمات کے لیے قرآنی ضبط کے مختلف طریقے نمونوں کی صورت میں ظاہر کرتے ہیں۔ ک جو کلمات پہلے گزر چکے ہیں ان کا بحث ضبط والا گزشتہ حوالہ لکھنے پر اکتفا کیا گیا ہے۔ بعض کلمات کے ضمن میں کچھ مزید وضاحت (صرف نمونہ کے علاوہ) بھی کی گئی ہے۔ ” اَمْ “ [ 2: 5: 4] ۔ تُرِیْدُوْنَ : تُرٖیدُونَ : تُرِیدُونَ 3 تُرَِیدَٰونَ ۔ اَنْ (نون مخفاۃ کے ساتھ ‘ جیسے یہاں ہے ‘ پہلی دفعہ [ 2: 19: 4] میں اور نون مخفاۃ و مظرہ دونوں کے ساتھ [ 2: 43: 4] میں گزرا ہے) تَسْئَلُوْا : تَسْئَلُوا : تَسْئَلُوْا : تسْسَلُواْ ۔ رَسُوْلَکُمْ : رَسُولَکُمْ : رَسُولَکُمْ : رَسُولَکُمْ ۔ کَمَا [ 2: 10: 4] میں پہلی دفعہ دو مرتبہ گزرا ہے۔ سُئِلَ : سُئِلَ : سُئِلَ : سُئَِل۔ مُوسٰی [ 2: 33: 4] مِنْ قَبْلُ پہلی دفعہ یہی ترکیب البقرہ : 25 [ 2: 18: 4] میں گزری ہے وَ مَنْ یَّتَبَدَّلِ ۔ نون مخفاۃ ما قبل یائے متحرکہ کے ساتھ (جیسے یہاں ہے) البقرہ : 8 [ 2: 7: 4] میں ” مَنْ یَّقُوْلُ “ کی صورت میں گزرا ہے۔
Top