Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 108
اَمْ تُرِیْدُوْنَ اَنْ تَسْئَلُوْا رَسُوْلَكُمْ كَمَا سُئِلَ مُوْسٰى مِنْ قَبْلُ١ؕ وَ مَنْ یَّتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْاِیْمَانِ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِیْلِ
اَمْ تُرِیْدُوْنَ : کیا تم چاہتے ہو اَنْ تَسْاَلُوْا : کہ سوال کرو رَسُوْلَكُمْ : اپنا رسول کَمَا : جیسے سُئِلَ : سوال کئے گئے مُوْسٰى : موسیٰ مِنْ قَبْلُ : اس سے پہلے وَمَنْ : اور جو يَتَبَدَّلِ : اختیار کرلے الْكُفْرَ : کفر بِالْاِیْمَانِ : ایمان کے بدلے فَقَدْ ضَلَّ : سو وہ بھٹک گیا سَوَآءَ : سیدھا السَّبِیْلِ : راستہ
کیا تم چاہتے ہو کہ اپنے رسول سے اس طرح کے سوال کرو جس طرح کے سوال اس سے پہلے موسیٰ سے کیے گئے اور جو لوگ ایمان کو کفر سے بدل لیں گے وہ شاہراہ سے بھٹک گئے
لفظ ’ سوال ‘ کا مفہوم : لفظ سوال کے اندر کئی مفہوم ہیں۔ مثلاً مانگنا، درخواست کرنا، مطالبہ کرنا، پوچھنا، پرسش کرنا، سوال کرنا۔ سوال، بعض صورتوں میں اعتراض کی نوعیت کا بھی ہوتا ہے، اس وجہ سے اس کے مفہوم میں اعتراض کرنا بھی داخل ہے۔ بعض حالات میں تحقیق کی نوعیت کا ہوتا ہے، اس صورت میں اس کا صلہ عن کے ساتھ آتا ہے۔ بعض حالات میں سوال استہزاء کی نوعیت کا بھی ہوتا ہے، اس صورت میں اس کا صلہ ’ ب ‘ کے ساتھ آتا ہے مثلا سَأَلَ سَائِلٌ بِعَذَابٍ وَاقِع (ایک مذاق اڑانے والے نے مذاق اڑایا، ہونے والے عذاب کا) (معارج :1)۔ قرآن مجید میں یہ لفظ مذکورہ تمام معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ یہاں موقع کلام دلیل ہے کہ یہ لفظ معترضانہ سوال کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ مسلمانوں کو ایک تنبیہ : یہاں مخاطب مسلمانوں کے اندر کے وہ کمزور لوگ ہیں جو یہود کے القاء کیے ہوئے مذکورہ بالا سوال سے متاثر ہو کر اس کو آنحضرت ﷺ کے سامنے پیش کرتے اور اس طرح اس سوال کے اٹھانے اور پھیلانے میں مسلمانوں کے اندر یہود کی نمائندگی کرتے۔ قرآن نے سوال کا جواب تو اوپر دے دیا تاکہ یہود کے پروپیگنڈے کا رد ہوجائے لیکن جس طرح اوپر والی آیت میں یہود کو تنبیہ کی اسی طرح مسلمانوں کے اندر ان کی نمائندگی کرنے والوں کو یہاں تنبیہ کی۔ یہ سوالات اپنی ذہنیت اور نوعیت کے اعتبار سے اسی طرح کے سوالات ہیں جس طرح کے سوالات یہود حضرت موسیٰ سے کرتے رہے ہیں اور یہ روش ایمان وہدایت کی روش نہیں ہے بلکہ ایمان کو کفر سے بدلنے کی روش ہے۔ جو لوگ یہ روش اختیار کرتے ہیں وہ یہود ہی کی طرح جادہ مستقیم سے بھٹک کے رہتے ہیں۔ چونکہ اس سوال کے پس پردہ در حقیقت یہود ہی تھے اس وجہ سے قرآن نے یہ کہہ کے کہ اسی طرح کے سوالات اس سے پہلے موسیٰ سے کیے گئے، بڑی بلاغت کے ساتھ ان کی طرف اشارہ کردیا ہے تاکہ ان پر واضح ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ ان کی وسوسہ اندازیوں سے بیخبر نہیں ہے۔
Top