Mualim-ul-Irfan - Al-Anbiyaa : 42
قُلْ مَنْ یَّكْلَؤُكُمْ بِالَّیْلِ وَ النَّهَارِ مِنَ الرَّحْمٰنِ١ؕ بَلْ هُمْ عَنْ ذِكْرِ رَبِّهِمْ مُّعْرِضُوْنَ
قُلْ : فرما دیں مَنْ : کون يَّكْلَؤُكُمْ : تمہاری نگہبانی کرتا ہے بِالَّيْلِ : رات میں وَالنَّهَارِ : اور دن مِنَ الرَّحْمٰنِ : رحمن سے بَلْ هُمْ : بلکہ وہ عَنْ ذِكْرِ : یاد سے رَبِّهِمْ : اپنا رب مُّعْرِضُوْنَ : روگردانی کرتے ہیں
(اے پیغمبر ! ) آپ کہہ دیجئے ، کون ہے جو تمہاری حفاظت کرتا ہے رات اور دن میں خدائے رحمان (کی گرفت) سے۔ بلکہ یہ لوگ اپنے رب کی یاد سے اعراض کرنے والے ہیں
ربط آیات : سورۃ الانبیاء میں بنیادی طور پر تین مسائل کا ذکر ہے یعنی توحید ، رسالت اور معاد۔ اس کے علاوہ اس سورة میں مختلف انبیاء (علیہم السلام) کے طریقہ تبلیغ پر روشنی ڈالی گئی ہے اور ان کی مناجات کا ذکر کیا گیا ہے کہ وہ اپنی حوائج اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کس طرح پیش کرتے تھے۔ گذشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے توحید کا ذکر اور کفار ومشرکین کا رد فرمایا۔ اس کے ساتھ ساتھ توحید کے دلائل بھی بیان کیے اور رسالت کے متعلق شکوک و شبہات پیدا کرنے والوں کو موثر جوابات بھی دیے۔ فرمایا ، یہ لوگ عذاب طلب کرنے میں جلد بازی کرتے ہیں ۔ اگر یہ لوگ اس حالت کو دیکھ لیں جب یہ دوزخ کی آگ کو اپنے چہروں اور پشتوں سے نہیں ہٹا سکیں گے ، تو ایسی باتیں نہ کریں۔ پھر اللہ نے تسلی کا مضمون بیان فرمایا کہ اگر پیغمبر اور آپ کے ساتھیوں کے ساتھ لوگ ہنسی مذاق کرتے ہیں ، تو یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں کیونکہ پہلے ادوار میں بھی لوگ اپنے انبیاء کے ساتھ ہی سلوک کرتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ عذاب الٰہی کی بات کو بھی تمسخر میں اڑا دیتے تھے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہیں اسی عذاب نے گھیر لیا جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے۔ فی امان اللہ : گزشتہ آیت میں آخرت کے عذاب کے متعلق فرمایا تھا کہ تم عذاب الٰہی سے بچ نہیں سکوگے ، اب اس دنیا کے متعلق فرمایا قل اے پیغمبر ! آپ کہہ دیجئے من یکلوکم بالیل والنھار من الرحمن ، کون ہے جو رات دن تمہاری نگرانی اور حفاظت کرتا ہے خدائے رحمان کی گرفت سے۔ کیا تم خود اپنی حفاظت کرتے ہو یا تمہارے معبود ان باطلہ تمہاری حفاظت کے ذمہ دار ہیں ؟ حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں بھی نہ کوئی انسان کسی انسان کی حفاظت کرتا ہے اور نہ جن۔ بلکہ ساری مخلوق کی حفاظت کا انتظام خود خدا تعالیٰ نے ہی کررکھا ہے۔ خاص طور پر انسان کی حفاظت کے لئے تو اللہ نے اپنے فرشتوں کو مقرر کررکھا ہے۔ بعض فرشتے انسان کے اعمال کی حفاظت کرتے ہیں اور بعض انہیں جسمانی طور پر حوادثات سے بچانے پر مامور ہیں۔ سورة ق میں موجود ہے مایلفظ…………عتید (آیت 10 , 11) بیشک تم پر محافظ مقرر ہیں ، جنہیں کراماً کاتبین کہا جاتا ہے یعنی معزز لکھنے والے ، جو کچھ تم کرتے ہو ، وہ جانتے ہیں اور لکھتے چلے جاتے ہیں ، اس طرح گویا تمہارے تمام اعمال محفوظ کیے جا رہے ہیں۔ جنہیں قیامت کے دن اعمال نامے کی صورت میں تمہارے سامنے رکھ دیا جائے گا۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا یبنی ادم انما ھی اعما لکم احصیھا علیکم اے آدم کی اولاد یہ تمہارے اعمال ہیں جنہیں ہم نے محفوظ کررکھا ہے اگر تمہارے یہ اعمال اچھے ہیں تو خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرو اور اگر برے میں تو اپنے آپ کو ملامت کرو ۔ ہم نے تمہاری اس کمائی سے کوئی ذرہ بھی ضائع نہیں ہونے دیا۔ انسانوں کے اقوال و اعمال کی حفاظت کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے روانسوں کی حفاظت کا بھی مکمل انتظام کررکھا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے۔ لہ معقبت………………امر اللہ (الرعد 11) اس کے آگے اور پیچھے خدائی چوکیدار ہیں ، جو خدا کے حکم سے اس کی حفاظت کرتے ہیں۔ اللہ نے ایسے فرشتے مقرر کر رکھے ہیں جو انسان کو مختلف آفات وبلیات ، جنات اور شیاطین وغیرہ کے شر سے محفوظ رکھنے کا فریضہ انجام دیتے ہیں ، پھر جب خدا تعالیٰ کی مشیت ہوتی ہے تو انسان سے حفاظت اٹھالی جاتی ہے اور وہ کسی حادثے کا شکار ہوجاتا ہے یا کسی تکلیف اور مصیبت میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ اگر اسی معاملہ میں غوروفکر کرلو تو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت آسانی سے سمجھ میں آسکتی ہے۔ فرمایا ، اللہ نے تو ان کی حفاظت کا انتظام کر رکھا ہے بل ھم عن ذکر ربھم معرضون مگر یہ لوگ اپنے پروردگار کے ذکر سے اعراض کرنے والے ہیں۔ نہ تو یہ خدا تعالیٰ کی نازل کردہ کتاب کی طرف دھیان دیتے ہیں ، اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف توجہ دیتے ہیں۔ غیر اللہ کی بےبسی : ارشاد ہوتا ہے ام لھم الھۃ کیا ان کے کوئی معبود ہیں۔ تمنعھم من دوننا جو ہمارے سوا ان کو بچاتے ہیں یعنی حوادثات سے ان کی حفاظت کرتے ہیں۔ ایسے معبودنہ تو جنوں میں ہیں اور نہ انسانوں میں نہ شجر میں اور نہ حجر میں جاندار چیزیں ہوں یا بےجان ، کوئی بھی بااختیار نہیں ہیں۔ بےجان چیزیں تو ویسے ہی بےحس و حرکت پڑی رہتی ہیں وہ نہ کسی کا کچھ سنوار سکتی ہیں اور نہ بگاڑ سکتی ہیں۔ البتہ جو جاندار ہیں ، وہ بھی اختیار سے خالی ہیں۔ ان میں نفع یا نقصان پہنچانے کی صفت نہیں پائی جاتی۔ کیونکہ النافع اور انصار صرف ذات خداوندی ہے ، وہ قادر مطلق ، علیم کل ، خالق اور مدبر ہے ، اس کے علاوہ بھی ان صفات کا حامل نہیں۔ اسی لئے فرمایا کہ کیا ان کے لئے ہمارے سوا کوئی اور معبود بھی ہیں جو ان کی حفاظت کرتے ہیں ؟ پھر خود ہی اس کا جواب بھی دیا لا یستطیعون نصر انفسھم وہ بیچارے تو خود اپنی مدد بھی نہیں کرسکتے چہ جائیکہ دوسروں کی مدد کرسکیں ۔ بےجان چیزیں تو ویسے ہی ناکارہ ہیں۔ جہاں چاہا پھینک دیا ۔ پڑی رہتی ہیں۔ ان کے ساتھ جو سلوک چاہو کرلو ، وہ تو فریاد بھی نہیں کرسکتیں۔ خواہ انہیں توڑ پھوڑ دیا جائے۔ اور جو جاندار ہیں مثلاً ملائکہ ، جنات یا انسانوں میں سے انبیاء اور اولیا تو ان کو بھی اختیار نہیں کہ وہ کسی کی غائبانہ مافوق الاسباب مدد کرسکیں ، یا کسی کو نفع ونقصان پہنچا سکیں۔ وہ تو خود اقرار کرتے ہیں انت ولینا مولیٰ کریم ! تو ہی ہمارا کارساز ہے۔ مخلوق میں سے بزرگ ترین ہستی حضور خاتم النبیین ﷺ کی ذات مبارکہ ہے۔ اللہ نے آپ کی زبان سے بھی یہ اعلان کروادیا لا املک………………ماشاء اللہ (الاعراف 188) میں تو کسی نفع نقصان کا مالک نہیں سوائے اس کے کہ جو اللہ چاہے آپ نے یہ اعلان بھی فرمادیا کہ اے لوگو ! انی …………رشدا (الجن 21) میں تمہارے حق میں بھی کسی نفع نقصان کا مالک نہیں ہوں۔ ہر قسم کے اختیارات اللہ ہی کے پاس ہیں۔ میرا کام یہ ہے کہ میں وحی الٰہی کا خود بھی اتباع کروں اور تم تک بھی پہنچادوں۔ کسی کو منزل مقصود تک پہنچا دینا یا نفع ونقصان پہنچانا میرے اختیار میں نہیں ہے فرمایا نہ تو وہ معبودان باطلہ خود اپنی مدد کرسکتے ہیں ولا ھم منا یصبحون اور نہ ہمارے طرف سے ان کی تائید کی جاتی ہے کہ وہ جس طرح چاہیں کریں۔ منجانب اللہ آسودگی : فرمایا کہ جن معبودان باطلہ کی یہ لوگ پرستش کرتے ہیں۔ وہ تو کسی نفع نقصان کے مالک نہیں۔ حقیقت حال یہ ہے بل متعنا ھئولاء واباء ھم بلکہ ہم نے ان مشرکوں اور کافروں اور ان کے آبائو اجداد کو بھی فائدہ پہنچایا۔ ان کو سامان زیست فراوانی کے ساتھ عطا کیا۔ رفاہیت ، خوشحالی اور آسودگی عطا فرمائی حتی طال علیھم العمر یہاں تک کہ ان کی عمریں دراز ہوگئیں یعنی ان کو لمبی مدت تک خوشحالی عطا فرمائی۔ یہ آرام طلب ہو کر غفلت میں مبتلا ہوگئے۔ اور عقیدہ توحید کے بجائے شرک میں ملوث ہوگئے۔ پھر نبوت پر اعتراض کرنے لگے حتیٰ کہ اس کا انکار کردیا۔ کفار کا تنزل : فرمایا افلا یرون انا ناتی الارض ننقصھا من اطرافھا کیا یہ لوگ نہیں دیکھتے کہ ہم زمین کو اطراف سے گھٹاتے آرہے ہیں یعنی کفار کے پائوں کے نیچے سے زمین نکل رہی ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ اسلام کی ترویج کے ساتھ ساتھ کافروں کا تنزل شروع ہوچکا ہے اور ان کے علاقوں پر مسلمانوں کا تسلط قائم ہورہا ہے ، چناچہ قبیلہ غفار اور اسلم کی مثال ہمارے سامنے ہے یہ کثیر آبادی کے قبیلے مکہ سے لے کر شام تک کے علاقے میں پھیلے ہوئے تھے۔ حضرت ابوذر غفاری ؓ کی تبلیغ سے آدھا قبیلہ غفار مسلمان ہوگیا۔ پھر جب حضور ﷺ ہجرت کرکے مدینہ تشریف لے آئے تو باقی آدھا قبیلہ بھی اسلام لے آیا۔ پھر جب اسلم قبیلہ والوں نے دیکھا کہ قبیلہ غفار اسلام لے آیا ہے تو وہ سارے بھی مسلمان ہوگئے اور اس طرح بہت بڑا علاقہ کفار کے قبضہ سے نکل کر مسلمانوں کے تسلط میں آگیا۔ پہلے یہ دونوں قبیلے لوٹ مار کرتے اور ڈاکے ڈالتے تھے۔ جب مسلمان ہوگئے تو حضور ﷺ نے ان کے حق میں دعا کی غفار غفر اللہ لھا اللہ تعالیٰ قبیلہ غفار کی غلطیوں کو معاف فرمائے واسلم سالمھا اللہ اور قبیلہ اسلم والوں کو اللہ تعالیٰ سلامتی میں رکھے۔ ان دو قبائل کے بعد پھر یمن ، خیبر اور دوسرے عرب خطے بھی مسلمانوں کے تسلط میں آگئے حتیٰ کہ حضور ﷺ کی وفات تک عرب کا سارا خطہ کفر سے پاک ہوچکا تھا۔ اس کے بعد عجم کے بڑے بڑے ملک بھی مسلمانوں کے زیرنگیں آگئے اور اللہ کا یہ فرمان پورا ہوگیا کہ کیا یہ کافر لوگ نہیں دیکھتے کہ ہم اطراف سے زمین کو گھٹاتے چلے آرہے ہیں یعنی ان پر اللہ کی زمین تنگ ہورہی ہے۔ افھم الغلبون کیا اب بھی یہ غلبے کی توقع رکھے ہوئے ہیں ؟ مسلمانوں کا زوال : واقعہ صفین تک مسلمانوں کی عالمی ترقی نقطہ عروج تک پہنچ چکی تھی اور تقریباً نصف دنیا ان کے زیر نگیں آگئی تھی۔ پھر اس واقعہ نے مسلمانوں کے حالات میں تعطل (Deadlock) پیدا کردیا۔ اگرچہ ان کی عالمی تنظیم کمزور پڑگئی مگر ترقی کا دروازہ پھر بھی کھلارہا۔ البتہ وہ حرکت جو تیزی سے بڑھ رہی تھی اس میں کمی آگئی حتیٰ کہ چھ سو پچاس سال تک مسلمانوں کو عروج حاصل رہا اگر چہ ملوکیت کی وجہ سے کمزوریاں بھی آگئیں۔ ساتویں صدی میں مسلمانوں پر زوال کی ابتداء ہوئی۔ تارتاریوں کے حملے میں ایک کروڑ مسلمان ذبح کردیے گئے کتب خانے جلادیے گئے اور بحیثیت مسلمان ان پر بڑے مظالم ڈھائے گئے تنزل کا یہ سلسلہ آٹھ صدیوں سے جاری ہے اور ابھی تک مسلمانوں کا قدم نہیں جم سکا ، کہیں تھوڑا بہت چند دن کے لئے کوئی معاملہ درست ہوگیا ، تو کام اچھا ہوگیا ، وگرنہ اس دور میں اکثریت خود غرضوں ، عیاشوں اور سفاکوں کی رہی ہے۔ مسلمانوں کی عالمی تحریک برباد ہوگئی ہے اور اس وقت دنیا میں پچاس سے زیادہ ریاستیں ہونے کے باوجود ان کی کوئی وقعت نہیں ہے۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ ابتدائی دور میں لوگ اسلام میں فوج درفوج داخل ہوئے جیسا کہ فرمایا ورایت……………افواجا (النصر 2) لیکن ایسا دور بھی آنے والا ہے جب لوگ اسلام سے فوج در فوج ہی نکلیں گے۔ اس قسم کے حوادثات ہمارے زمانے میں بھی ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔ ابھی تین چار سال کی بات ہے کہ بنگال کے دس لاکھ مسلمان عیسائی بن چکے ہیں۔ غربت و افلاس نے انہیں مرتد ہونے پر مجبور کردیا ہے۔ قیام پاکستان کے وقت یہاں عیسائیوں کی تعداد بالکل قلیل تھی مگر اب ان کی تعداد ساٹھ لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے۔ یہ محض بھوک اور افلاس کی وجہ سے ہورہا ہے۔ عیسائی مشنریاں لوگوں کو مالی امداد فراہم کرتی ہیں۔ انہیں تعلیم دلاتی ہیں ، علاج معالج کی سہولتیں بہم پہنچاتی ہیں تو لوگ اسلام چھوڑ کر عیسائیت اختیار کرلیتے ہیں۔ یہ چیزیں مسلمانوں کے زوال پر شاہد ہیں۔ گذشتہ پانچ سالوں میں افغانسان میں بیس لاکھ آدمی مارے جاچکے ہیں اور جو بےگھر ہوچکے ہیں ان کا کوئی شمار نہیں۔ عراق ، فلسطین اور فلپائن میں مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کیا جارہا ہے۔ قبرص میں بیس لاکھ ترک ہلاک ہوچکے ہیں۔ آخر انہوں نے تنگ آکر جزیرے کے پانچویں حصے پر قبضہ کرلیا اور وہیں سمٹ کر رہ گئے۔ یہ وہی قبرص ہے جسے مسلمانوں نے فتح کیا اور سارے کا سارا مسلمانوں کے زیر تسلط رہا۔ مگر اب وہاں پر مسلمانوں کی قلیل تعداد بھی زندگی گزارنے سے عاجز ہے۔ ہندوستانی مسلمان : ہندوستانی مسلمانوں کی حالت بھی کچھ کم ابتر نہیں ۔ احمد آباد اور دوسرے صوبوں میں ہزاروں مسلمان موت کا شکار ہوچکے ہیں۔ مولانا قاری محمد طیب صاحب (رح) نے ایک رسالے کو انٹرویو دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ مسلمان بہت سخت جان واقعہ ہوا ہے جو ہندو اکثریت کے سامنے ڈٹا ہوا ہے۔ اگر خون آشام فسادات کسی اور قوم کے خلاف ہوتے تو ان میں سے فرد واحد بھی زندہ نہ بچتا ، مگر اللہ کا شکر ہے کہ اس قدر قتل و غارت کے باوجود ہندوستان میں آج بھی پندرہ کروڑ مسلمان موجود ہیں۔ گزشتہ تیس پینتیس سال میں نہ ہزار سے زیادہ ہندو مسلم فسادات ہوچکے ہیں مگر پھر بھی مسلمان ہندوئوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا ہے۔ ہندوئوں کے تعصب کے متعلق مولانا ابوالکلام آزاد (رح) نے ایک فقرہ کہا تھا کہ اگر دنیا دس لاکھ سال تک بھی قائم رہے تو ہندو کے ذہن سے تنگ نظر دور نہیں ہوسکتی ۔ اور مسلمانوں سے بدگمانی کبھی نہیں جائے گی۔ یہ اچھے آدمیوں کے متعلق ہمیشہ بدگمان رہتے ہیں ، اور برے آدمیوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ایک دفعہ مولانااحمد سعید صاحب مرحوم نے سیرت کے جلسہ میں کہا تھا جس میں تقریباً ایک لاکھ کے قریب آدمی تھے اور ہندو بھی کم وبیش چالیس ہزار موجود تھے۔ آپ نے اس جلتے میں سرعام کہا تھا کہ ہندو کا دل منافق کی قبر سے بھی زیادہ تنگ ہے ۔ الغرض ! ہندوستان کے مسلمان بھی آئے دن مظالم کا شکار ہوتے رہتے ہیں مگر ہندوئوں کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں۔ بہرحال میں نے عرض کیا کہ اسلام کے ابتدائی دور میں جس طرح زمین کافروں کے قبضے سے کھسک کر مسلمانوں کے قبضے میں آرہی تھی اب زوال کے زمانے میں مسلمانوں کے پائوں تلے سے نکل کر انگریزوں اور روسیوں اور دیگر کافروں کے قبضے میں جارہی ہے۔ خوف خدا بذریعہ وحی : اللہ نے فرمایا قل انما انذرکم بالوحی اے پیغمبر ! آپ ان سے کہہ دیں ، میں تمہیں وحی کے ذریعے ڈراتا ہوں ۔ مگر بدقسمتی کی بات یہ ہے ولا یسمع الصم الدعاء اذا اما ینذرون کو جتنا بھی ڈرایا جائے بہرے لوگ اس پکار کو سنتے ہی ہیں۔ جو لوگ اللہ کی دعوت پر توجہ ہی نہیں کرتے ان کا یہی حال ہے۔ اللہ نے کافروں کو مردوں کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔ جو بظاہر زندوں کی بات نہ سنتے ہیں اور نہ اس سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ یا بہروں کے ساتھ جو سنتے ہی نہیں۔ ظاہر ہے کہ جو شخص کسی بات کو سنتا ہی نہیں ، وہ اس سے فائدہ کیا اٹھائیگا ؟ مگر اللہ نے ساتھ یہ وعید بھی سنا دی ہے ولئن مستھم نفحۃ من عذاب ربک اور اگر ان کافروں اور مشرکوں پر عذاب الٰہی کا ایک چھینٹا بھی پڑجائے یعنی ذرا بھی گرفت خداوندی وارد ہوجائے لیقولن یویلنا انا کنا ظلمین تو کہیں گے ہائے افسوس ! بیشک ہم ہی زیادتی کرنے والے تھے۔ یہ ہماری ہی غلطی کا نتیجہ ہے۔ اس وقت ان کا غرور ، تکبر اور اکڑفول سب ختم ہوجائیگی اور اپنی خباثت کا اقرار کریں گے۔ اللہ نے بعض دوسری قوموں کا بھی ذکر فرمایا کہ جب ان پر تباہی و بربادی آئی تو ان کی زبانوں پر یہی کلمہ تھا انا کنا ظلمین بیشک ہم ہی ظلم کرنے والے تھے۔ زیادتی ہمیں سے ہوئی جس کا نتیجہ آج بھگت رہے ہیں۔
Top