Kashf-ur-Rahman - Faatir : 10
وَ یٰقَوْمِ مَنْ یَّنْصُرُنِیْ مِنَ اللّٰهِ اِنْ طَرَدْتُّهُمْ١ؕ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ
وَيٰقَوْمِ : اور اے میری قوم مَنْ يَّنْصُرُنِيْ : کون بچائے گا مجھے مِنَ : سے اللّٰهِ : اللہ اِنْ : اگر طَرَدْتُّهُمْ : میں ہانک دوں انہیں اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ : کیا تم غور نہیں کرتے
جو شخص عزت حاصل کرنا چاہے تو سب قسم کی عزت اللہ ہی کو حاصل ہے پاکیزہ کلام خدا ہی کی طرف چڑھتا ہے اور نیک عمل اس پاکیزہ کلام کو بلند کردیتا ہے اور جو لوگ بری بری تدبیریں کرتے ہیں ان کو سخت عذاب ہوتا ہے اور ان لوگوں کی یہ سب تدبیریں نابود و برباد ہوجائیں گی
(10) جو شخص عزت حاصل کرنا چاہے تو ہر قسم کی تمام تر عزت اللہ تعالیٰ ہی کو حاصل ہے۔ پاکیزہ کلام اللہ تعالیٰ ہی کی بارگاہ میں چڑھتا ہے اور عمل صالح اور نیک کام اس پاکیزہ کلام کو اٹھاتا اور بلند کرتا ہے اور وہ لوگ جو بری تدبیریں اور برے دائوں کرتے رہتے ہیں ان کیلئے سخت سزا اور سخت عذاب ہے اور ان لوگوں کے یہ دائوں اور بری تدبیریں سب نابود و برباد ہوجائیں گی اور ان کا دائوں نقصان اور خسارہ کا ہے۔ دین حق کے منکروں کو یہ گھمنڈ تھا کہ ہمارے معبود دنیا میں اور خصوصاً آخرت میں ہمارے شفیع ہوں گے۔ اور ہماری عزت اور سربلندی کے یہی معبود ان باطلہ ضامن ہیں۔ حضرت حق جل مجدہ نے اس غلط خیال کا رد فرمایا کہ عزت مطلقہ اور بالذات اسی اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے اگر دوسرے کو کوئی عزت ملتی ہے اور تعزز حاصل ہوتا ہے تو وہ اس کی عنایت اور فضل سے میسر ہوتا ہے۔ عزت کا اصلی اور بالذات مالک وہی ہے اور دوسروں کو جو تعزز حاصل ہوتا ہے وہ بالواسطہ ہوتا ہے۔ جیسا سورة منافقون میں انشاء اللہ آجائے گا۔ وللہ العزۃ ولرسولہ وللمؤمنین جیسا کہ عام قاعدہ ہے کہ بالعرض محتاج ہوتا ہے بالذات کا تو سب حق تعالیٰ کے حصول عزت میں محتاج ہوئے۔ آگے فرمایا کلام پاکیزہ یعنی ذکر الٰہی اور تلاوت قرآن اور دعائیں وغیرہ سب اس کی بارگاہ میں چڑھتی ہیں اور وہی ان کو قبول فرماتا ہے۔ گویا اذکار کا ذاتی اقتضا اوپر چڑھنا ہے اس کلام کے ساتھ نیک اعمال بھی ہوں تو اذکار کو سہارا مل جاتا ہے۔ عمل صالح سے مراد تمام نیک کام خواہ ظاہری ہوں یا باطنی بلکہ تصدیق قلبی کو بھی شامل ہیں اگر اذکار الٰہیہ کے ساتھ یہ چیزیں بھی ہوں تو ان کو اور بلندی یعنی قبولیت تامہ حاصل ہوجاتی ہے۔ بعض حضرات نے یرفعہ کی ضمیر سے یہ مطلب لیا ہے کہ عمل صالح اللہ تعالیٰ خود بلند فرماتا۔ بعضوں نے کہا پاکیزہ کلام کو اچھا اور نیک کام بلند کرتا ہے۔ حضرات مفسرین نے کئی طرح معنی کئے ہیں ایک قرأت والعمل کے لام کو فتح کے ساتھ بھی ہے۔ اس تقدیر کے معنی یہ ہیں کہ پاکیزہ کلام نیک عمل کو بلند کرتا ہے اور معراج قبول کو پہنچاتا ہے۔ بہرحال ! پہلے معنی جو ہم نے بیان کئے وہ راجح معلوم ہوتے ہیں اور بات بھی یہی ہے کہ اذکار طیبہ تو اگر کسی فاسق کے منہ سے نکلیں تو وہ بھی اوپر چڑھتے ہیں لیکن عمل صالح بھی اگر ہوں تو قبولیت کی امید زیادہ ہے یہ مقبولیت ایمان خالص کے ساتھ وابستہ ہے اور جو لوگ ہر وقت اسلام اور پیغمبر اسلامی کیخلاف ریشہ دوانیاں کرتے رہتے ہیں تو ان کے مکروفریب اور بری قسم کی ریشہ دوانیاں سب نیست و نابود ہوجائیں گی اور ان کے مکروفریب کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا اور بہت نقصان پہنچے گا۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی عزت اللہ کے ہاتھ ہے تمہارے ذکر اور بھلے کام چڑھتے جاتے ہیں جب اپنی حد کو پہنچیں گے تب بدی پر غلبہ کریں گے۔ کفر دفع ہوگا اسلام کو عزت ہوگی یعنی ہر ایک کام سہج سہج ہوتا ہے جیسے آدمی کا بننا۔
Top