Fahm-ul-Quran - Al-Baqara : 199
كَذٰلِكَ حَقَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ عَلَى الَّذِیْنَ فَسَقُوْۤا اَنَّهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ
كَذٰلِكَ : اسی طرح حَقَّتْ : سچی ہوئی كَلِمَتُ : بات رَبِّكَ : تیرا رب عَلَي : پر الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو فَسَقُوْٓا : انہوں نے نافرمانی کی اَنَّھُمْ : کہ وہ لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہ لائیں گے
اسی طرح پوری ہوچکی ہے تیرے رب کی بات ان لوگوں پر جو حدود سے نکل گئے ہیں کہ وہ ایمان نہیں لائیں گے۔
کَذٰلِکَ حَقَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ عَلَی الَّذِیْنَ فَسَقُوْآ اَنُّہُمْ لاَ یُؤْمِنُوْنَ ۔ (یونس : 33) (اسی طرح پوری ہوچکی ہے تیرے رب کی بات ان لوگوں پر جو حدود سے نکل گئے ہیں کہ وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ ) گزشتہ آیات کریمہ میں قرآن کریم نے زوردار دلائل کے ذریعے یہ ثابت کیا کہ جس اللہ کو تم اپنا خالق تسلیم کرتے ہو وہی تمہاری زندگی اور موت کا مالک ہے۔ اسی کے ہاتھ میں پوری کائنات کا انتظام و انصرام ہے اور و ہی کائنات کے معاملات کی تدبیر کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے تمہیں پیدا کرکے چھوڑ نہیں دیا بلکہ تمہاری تمام زندگی کی ضرورتوں کو پورا کرنا اور جس کائنات میں تم رہتے ہو اس کے معاملات کا انتظام کرنا اور تمہیں اس دنیا میں رہتے ہوئے جس ظاہری، معنوی، ذہنی اور روحانی رہنمائی کی ضرورت ہے اسے پوری طرح روئے کار لانا اور تمہیں اس سے آراستہ کرنا یہ بھی اس نے اپنے ذمہ لے رکھا ہے۔ اس لحاظ سے جہاں وہ خالق اور مدبر ہے وہاں وہ تمہارا رب یعنی حاکم حقیقی، آقائے حقیقی اور معبودِ حقیقی بھی ہے۔ یہ تینوں صفتیں ربوبیت کا تقاضا بھی ہیں اور لازمہ بھی۔ جب تک تم انھیں بہمہ وجوہ تسلیم نہیں کرو گے اس وقت تک تم شرک کی گندگی سے پاک نہیں ہوسکتے۔ یہ تمام باتیں دلائل سے ثابت کرنے کے بعد فرمایا کہ اب تمہیں اس بات کا یقین ہوگیا ہوگا کہ یہی اللہ تمہارا رب حقیقی ہے اور کائنات کا سب سے بڑا حق اور سب سے بڑی سچائی یہی ہے۔ اسے اگر اچھی طرح سمجھ گئے ہوتواب حق کے قبول کرنے میں کوئی دیر نہیں ہونی چاہیے کیونکہ حق واضح ہوجانے کے بعد گمراہی کے سوا کوئی چیز باقی نہیں رہتی۔ جو آدمی اب بھی حق سے انحراف کرے گا وہ یقیناً گمراہی میں مبتلا ہوگا۔ ایسے آدمی کے بارے میں اس کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ اس کی عقل پر پتھر پڑگئے اور اس نے دراصل اپنے آپ کو شیطانی قوتوں کے حوالے کردیا ہے۔ وہ نجانے اسے کن وادیوں میں لیے پھرتے ہیں۔ اللہ کا قانونِ ہدایت و ضلالت اس تمام صورتحال کے واضح ہوجانے کے بعد جب ایک مخاطب یہ دیکھتا ہے کہ اب جبکہ حق کھل کے سامنے آگیا ہے تو آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ اب بھی کچھ لوگ ایمان لا کے نہیں دیتے بلکہ وہ اپنی جہالت اور ضلالت پر قائم رہنے ہی کو دانشمندی سمجھتے ہیں۔ اس شبے کے ازالے کے لیے پیش نظر آیت کریمہ میں فرمایا جارہا ہے کہ تم جس صورتحال کو دیکھ کر تعجب کا اظہار کررہے ہو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں بلکہ یہ سنت اللہ کے عین مطابق ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کا قانونِ ہدایت و ضلالت جو اس دنیا میں انسانوں میں نافذ ہے اس کا لازمی تقاضا یہی ہے۔ آپ شاید اسے نہ سمجھے ہوں میں آسانی پیدا کرنے کے لیے اس کی وضاحت کییدیتا ہوں۔ اللہ کا طریقہ اور اس کی سنت یہ ہے کہ اس نے انسانوں کی ہدایت کے لیے چند اسباب پیدا کیے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ انسان جب پیدا ہوتا ہے تو جب تک اس کی فطرت اور اس کی قلبی کیفیت کو ماحول کے اثرات سے بگاڑ نہیں دیا جاتا اس وقت تک اس کا قلبی میلان اور فطری رجحان اللہ کی معرفت اور اس کی بندگی کی طرف رہتا ہے۔ لیکن جب وہ مخالف ماحول، مخالف تعلیم اور بگڑے ہوئے احباب میں رہ کر اپنی سلامت روی کو بگاڑ لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے حواس اور عقل عطا کرتے ہیں۔ حق اور باطل میں امتیاز کرنے کے لیے اسے قوت تمیز عطا کی جاتی ہے اور آسمانوں سے کتابیں اترتی ہیں۔ ہر قوم میں سے ایک ایسا فرد جو ہر لحاظ سے بھروسے کے لائق ہو اور جس کے سیرت و کردار میں کوئی عیب نہ ہو اس پر اللہ کی وحی اترتی ہے اور وہ انسانوں کو اپنی ہمت سے بڑھ کر اپنی پوری شخصیت کو دائو پر لگا کر اور زندگی کا ہر دکھ اٹھا کر نہایت ہمدردی اور جانفشانی سے قوم کو اللہ کی ہدایت کی طرف بلاتا ہے اور دعوت کا کوئی اسلوب ایسا باقی نہیں رہتا جس سے وہ کام نہیں لیتا لیکن ان تمام مساعی اور ہمدردی و جانسپاری کے باوجود جو شخص ایمان لانے کے لیے تیار نہیں ہوتا بلکہ وہ ہر ممکن طریق سے اللہ کے نبی کا راستہ روکتا ہے تو پھر اللہ کی ایک مخصوص سنت اور ایک خاص قانون حرکت میں آتا ہے جسے ہدایت و ضلالت کا قانون کہنا چاہیے۔ ایسا شخص اس قانون کی زد میں آجاتا ہے اور قدرت کی جانب سے اس کے دل و دماغ پر ہدایت سے محرومی کی مہر لگا دی جاتی ہے۔ اب وہ اس قابل نہیں رہتا کہ وہ ہدایت قبول کرسکے۔ اس آیت کریمہ میں اسی قانون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ جن لوگوں نے قرآن کریم کے تمام دلائل اور آنحضرت ﷺ کی تمام دعوتی کوششوں کو نظرانداز کرکے شرک پر اصرار جاری رکھا اور وہ اپنی گمراہی کے راستے پر جمے رہے اور ہدایت کی ہر بات کو پھلانگتے ہوئے پامال کرگئے تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں پر شیاطین کو مسلط کردیتا ہے جو انھیں اپنا مصاحب اور ساتھی بنا لیتے ہیں اور پھر ہر وقت اسے اپنے ساتھ ساتھ لیے پھرتے ہیں پھر ایک وقت آتا ہے جب اسے گمراہی کی کھائیوں کی نذر کردیتے ہیں اور ان کے بارے میں یہ اعلان کردیا جاتا ہے کہ یہ لوگ کبھی بھی ایمان نہیں لائیں گے۔ وَمَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِکْرِالرَّحمَانِ نُقَیِّضْ لَہٗ شَیْطَانًا فَھُوَلَہُ قَرِیْنٌ۔
Top