Mualim-ul-Irfan - Al-Furqaan : 41
وَ اِذَا رَاَوْكَ اِنْ یَّتَّخِذُوْنَكَ اِلَّا هُزُوًا١ؕ اَهٰذَا الَّذِیْ بَعَثَ اللّٰهُ رَسُوْلًا
وَاِذَا : اور جب رَاَوْكَ : دیکھتے ہیں تمہی وہ اِنْ : نہیں يَّتَّخِذُوْنَكَ : وہ بناتے تمہیں اِلَّا : مگر۔ صرف هُزُوًا : تمسخر (ٹھٹھا اَھٰذَا : کیا یہ الَّذِيْ بَعَثَ : وہ جسے بھیجا اللّٰهُ : اللہ رَسُوْلًا : رسول
اور جب دیکھتے ہیں یہ لوگ آپ کو تو نہیں بناتے آپ کو مگر ٹھٹا کیا ہوا اور کہتے ہیں ، کیا یہ وہ شخص ہے جس کو اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہے ؟
ربط ِ آیات اس رکوع کی پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) کا ذکر کر کے حضور نبی کریم ﷺ اور آپ کے پیروکاروں کو تسلی دی ۔ ان انبیائے کرام کو بڑے سر کش اور مغرور لوگوں سے واسطہ پڑا ۔ اللہ نے ان کے غرور کو توڑا اور ان کو تباہ و برباد کیا ۔ اللہ نے نوح (علیہ السلام) کا تذکرہ بھی فرمایا کہ آپ کی قوم نے رسولوں کو جھٹلایا ، پھر قوم عاد ، ثمود اور کنوئیں والوں نے اللہ کے نبیوں کے ساتھ زیادتی کی تو ان کو بھی ہلاک کیا گیا ۔ درمیان میں بہت سی دیگر قومیں بھی گزر ی ہیں جن کا تذکرہ نہ تو کتب سماویہ نے کیا ہے اور نہ ہی تاریخ نے انہیں محفوظ رکھا ہے ہر قوم کے لیے اللہ نے رسول بھیجے ، مثالیں بیان کی کیں ، ان کو ہر طریقے سے سمجھایا گیا مگر اکثر لوگوں نے تسلیم نہ کیا اور ہلاک ہوئے ، پھر ان بستیوں کا تذکرہ جن پر سے اہل مکہ تجارتی سفر کے دوران گزرتے ہیں ۔ اللہ نے ان پر بڑی یعنی پتھروں کی بارش برسا کر انہیں تہس نہس کردیا ۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ قیامت اور جزائے عمل کا انکار کردیتے ہیں ۔ وہ آخرت سے غافل اور لا پرواہ ہوجاتے ہیں اور یہی چیز ان کی ہمیشہ کی تباہی کا باعث بنتی ہے ۔ باطل پر ڈٹے رہنے کی خواہش اس سورة میں زیادہ تر انکار رسالت کا مسئلہ بیان ہوا ہے لوگ اللہ کے نبیوں پر طرح طرح کے اعتراض کرتے تھے بلکہ ان کے ساتھ ٹھٹا کرتے تھے اور اہل ایمان کی تکلیفیں پہنچاتے تھے ۔ آج کی پہلی آیت میں اسی بات کا تذکرہ ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے واذا راوک جب کفار و مشرکین آپ کو دیکھتے ہیں ان یتخذونک الا ھزوا تو بناتے ہیں آپ کو ٹھٹا کیا ہوا یعنی آپ کا تمسخر اڑاتے ہیں ۔۔۔۔ کہتے ہیں کہ اللہ کو نبوت و رسالت کے لیے ابو طالب کا یتیم بھتیجا ہی ملا تھا ، نہ اس کے پاس مال نہ جانور ، نہ باغات نہ محلات اور نہ نوکر چاکر ، بھلا یہ کیسے نبی ہوسکتا ہے ؟ کہتے تھے اھذا الذی بعث اللہ رسولاً کیا یہ وہ شخص ہے جس کو اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہے ؟ پھر یہ بھی کہتے ان کاد لیضلناعن الھتنا قریب تھا کہ یہ شخص ہمیں ہمارے معبودوں سے گمراہ کردیتا ہے لو لا ان صبرنا علیھا اگر ہم ان پر صبر نہ کرتے یعنی ان پر مستحکم نہ رہتے ۔ اس شخص کی تقریر بڑی پر اثر ہے اگر ہمارے معبودوں کے متعلق ہمارا عقیدہ ذرا بھی کمزور ہوتا تو یہ شخص ہمیں بد ظن کر کے گمراہ کردیتا ۔ چناچہ ایک دوسرے کو اپنے معبودان باطلہ پر پختگی اختیار کرنے کی تلقین کرتے تھے وَقَالُوْا لَا تَذَرُنَّ اٰلِھَتَکُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّلَا سُوَاعًا وَّلَا یَغُوْثَ وَیَعُوْقَ وَنَسْرًا (نوح : 32) کہتے تھے اس شخص کے کہنے میں آ کر اپنے معبودوں ود ، سواع ، بغوث ، یعوق اور کسر کو نہ چھوڑ بیٹھنا ، بلکہ ان پر اپنا عقیدہ مضبوط کھنا ہو ۔ ہود (علیہ السلام) نے بھی اپنی قوم سے یہی کہا یٰـقَوْمِ اعْبُدُوا اللہ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ (ہود : 05) لوگو عبادت صرف اللہ کی کرو ، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ، مگر قوم نے یہی جواب دیا وَّمَا نَحْنُ بِتَارِکِیْٓ اٰلِہَتِنَا عَنْ قَوْلِکَ (ہود : 35) ہم تیرے کہنے پر اپنے معبودوں کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں۔ ارشاد ہوتا ہے وسوف یعلمون حین یرون العذاب جب عذاب کو اپنے سامنے دیکھیں گے تو انہیں جلدی ہی معلوم ہوجائے گا من اضل سبیلاً کہ کون زیادہ بہکا ہوا ہے ۔ راستے کے اعتبار سے آج تو یہ کہتے ہیں کہ اللہ کا نبی معبودوں سے ہٹا کر غلط راستے پر ڈال رہا ہے مگر جب قیامت کا دن آئے گا اور یہ لوگ مستحق عذاب ٹھہریں گے تو پھر انہیں پتہ چلے گا کہ غلط راستے پر کون تھا۔ خواہشات نفسانی بطور معبود اسی سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین کی ایک بہت بڑی قباحت کا ذکر کیا ہے کہ خواہشات نفسانی کے پیچھے چلنا اس کو معبود بنا لینے کے مترادف ہے ۔ یہ بیماری انسانوں میں ابتداء سے چلی آ رہی ہے ، اب بھی ہے اور تا قیام قیامت موجود رہیگی۔ حق و باطل میں امتیاز نہ کرنا خواہش نفس کو پورا کرنا ہے ۔ اکثر و بیشتر لوگ اسی خواہش میں مبتلا ہو کر گمراہ ہوجاتے ہیں اور پھر جدھر خواہش چاہتی ہے ادھر ہی چلتے رہتے ہیں ۔ یہ بات اللہ نے یہاں پر اس طرح بیان فرمائی ہے ۔ ارء یت من اتخذ الھہ ھو ہ کیا آپ نے اس شخص کی طرف دیکھا ہے جس نے اپنی خواہش کو ہی اپنا معبودبنا رکھا ہے ۔ یہاں پر الٰہ کو مقدم اور ہوی کو مؤخر کیا گیا ہے ۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ یہ ترکیب بات میں زور پیدا کرنے کے لیے استعمال کی گئی ہے ۔ جس کا مطلب ہے کہ ایسے لوگوں کے نزدیک صرف خواہش ہی ان کا معبود ہے ۔ جدھر خواہش جاتی ہے ادھر ہی وہ جاتے ہیں ۔ ان کے نزدیک حق اور باطل میں امتیاز کرنے والی اور کوئی چیز نہیں ہے۔ خواہش کی آفرنیشن کبھی خاندان کی وجہ سے ہوتی ہے ، کبھی سوسائٹی کی وجہ سے اور کبھی علاقائی رسم و رواج کی وجہ سے ، لوگ قانون کی پابندی کی پرواہ کیے بغیر اسی خواہش کے پیچھے چلنے لگتے ہیں ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان خطیرۃ القدس کا ممبر بننے کی بجائے ہلاکت کے گڑھے میں جا گرتا ہے ۔ مفسرین 1 ؎ (تفسیر بیان القرآن ص 15 ج 8 (فیاض) کرام حضرت ابو امامہ ؓ سے روایت بیان کرتے ہیں جسے مفسرطبریٰ ، صاحب حلیۃ الاولیاء اور مولانا شاہ اشرف علی تھانوی (رح) نے بھی نقل کیا ہے۔ حضورعلیہ السلام کا ارشاد مبا رک ہے ماتخت ظل السماء من الہ یعبد من دون اللہ عزوجل اعظم عند اللہ من ھوی یتبع یعنی آسمان کے سائے کے نیچے اللہ کے سوا سب سے بڑا معبود خوش ہے۔ جس کے اتباع کی جاتی ہے ۔ فرمایا افانت تکون علیہ وکیلا ، کیا آپ اس کے ذمہ دار ہیں ؟ مطلب یہ کہ خواہش کے پچاریوں کی ذمہ داری آپ پر نہیں آتی بلکہ اللہ تعالیٰ خودہی ان سے قیامت کو نپٹ لے گا اور ان سے وہی سلوک کرے گا جس کے یہ لوگ مستحق ہیں ۔ چار چیزیں ذریعہ آزمائش تفسیر حسینی 1 ؎ والے مفسر لکھتے ہیں کہ آدم (علیہ السلام) اور حوا کے ملاپ سے انسان پیدا ہوا ، اور جب شیطان کا ملاپ دنیا سے ہوا تو اس سے خواہش پیدا ہوئی۔ گویا شیطان کا عقد دنیا سے ہوا ہے ۔ اس بات کو کسی شاعر نے اس طرح بیان کیا ہے ؎ انی بلیت باربع ما سلطوا الا لعظلم بلیتی وشقائی ابلیس والدنیا ونفسی والھوی کیف الاخلاص وکلھم اعدائی میری آزمائش اور شقاوت کو بڑا بنانے کے لیے مجھے چار چیزوں سے آزمایا گیا ہے یعنی یہ چیزیں مجھ پر مسلط کی گئی ہیں ۔ ابلیس ، دنیا ، نفس اور خواہش ، یہ ساری چیزیں انسان کی دشمن ہیں جو اسے حق کے راستے سے بہکاتی ہیں ۔ ابلیس نے تو شروع سے ہی وعدہ لے رکھا ہے کہ وہ انسان کو قیامت تک گمراہ کرتا رہے گا ۔ دنیا بھی ہمیشہ انسانوں کو اپنی طرف راغب کر کے غفلت میں مبتلا کرتی ہے۔ نفس کے متعلق قرآن میں موجود ہے ان النفس لا مارۃ بالسوء ( یوسف : 35) انسان کا نفس اسے ہمیشہ برائی کی طرف راغب کرتا ہے۔ اگر اس پر قابو پا لیا جائے تو پھر یہ نفس لوامہ اور نفس مطمئنہ بنتا ہے ۔ اور خواہش ایک ایسی چیز ہے جسے انسان الوہیت کا درجہ دے دیتا ہے اور پھر اسی کے پیچھے چلتا رہتا ہے۔ بہر حال خواہش کے پیچھے لگ کر لوگ گمراہ ہوتے ہیں ۔ تو فرمایا کیا آپ نے اس شخص کی طرف نہیں دیکھا جس نے خواہش کو ہی اپنا معبود بنا رکھا ہے ؟ قانون کی پابندی قانون کی پابندی ہر مکلف کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ مگر اس پابندی کی خلاف ورزی کرنے والی اولین چیز انسان کی خواہش ہے ۔ جب انسان اپنی خواہش کے پیچھے چل نکلتا ہے تو پھر وہ قانون کی کچھ پرواہ نہیں کرتا بلکہ وہی کرتا ہے جو اس کی خواہش ہوتی ہے۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) اپنی حکمت کے مطابق بیان کرتے ہیں کہ قانون کی پابندی کے بغیر انسان خطیرۃ القدس کے پاس مقام تک نہیں پہنچ سکتا مگر اسی کی اکثر لوگ خلاف ورزی کرتے ہیں حالانکہ قرآن پاک نے قانون کی پابندی کی سخت تاکید فرمائی ہے۔ مثلاً فرمایاٰیٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰـکُمْ (البقرہ : 271) اے لوگو ! ہماری عطا کردہ روزی میں سے پاک چیزیں کھائو۔ دوسری جگہ آیا ہییٰٓـاَیُّہَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ (البقرہ : 12) اے لوگو ! عبادت صرف اللہ ی کرو ۔ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ اپنے عقیدے کو پاک کرو ۔ جب تک عقیدہ پاک نہیں ہوگا ۔ اخلاق اور عمل پاک نہیں ہوگا ۔ جس کی فکر پاک نہیں ہے اس کا ذہن ، روح ، دل اور دماغ پاک نہیں ہے ۔ اسی لئے اللہ نے فرمایا الْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ ( التوبہ : 82) مشرک لوگ سراپا ناپاک ہیں کیونکہ ان کی فکر میں شک کی ملاوٹ ہے ۔ اللہ نے یہ بھی فرمایا فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ ( الحج : 03) بت پرستی کی گندگی سے بچو کہ یہ نجاست ہے ۔ غرضیکہ قانون کی پابندی کے بغیر انسان ترقی کی منازل طے نہیں کرسکتا ۔ بلکہ ہمیشہ تنزل کا شکار رہتا ہے۔ اسی لیے اللہ نے فرمایا وَّلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ ( البقرہ : 861) شیطان کے نقش قدم پر نہ چلنا کہ یہی خواہش کی پیروی ہے جس کے متعلق فرمایا کہ لوگ خواہش کو ہی اپنا معبود بنا لیتے ہیں۔ جانوروں سے بد تر انسان ارشاد ہوتا ہے ام تحسب ان اکثر ھم یسمعون او یعقلون کیا آپ گمان کرتے ہیں کہ ان مشرکوں میں سے اکثر لوگ سنتے ہیں یا سمجھتے ہیں ؟ فرمایا نہیں ۔ ان ھم الاکالا نعام یہ تو جانوروں کی مانند ہیں بل ھم اضل سبیلا بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں بےعقل لوگوں کے جانوروں سے بھی بد تر ہونے کی دلیل یہ ہے کہ جانوروں میں تو اللہ نے عقل کا مادہ ہی نہیں رکھا جب کہ انسان کی عقل و شعور جیسا بہترین جو ہر عطا کیا جس کے ذریعے وہ حق و باطل میں امتیاز کرسکتا ہے۔ جانور تو زیادہ سے زیادہ جہل بسیط میں مبتلا ہوں گے کہ انہیں شعور ہی نہیں مگر کافر اور مشرک جہل مرکب کا شکار ہیں جو صحیح کو غلط اور غلط کو صحیح قرار دیتے ہیں ۔ یہ لوگ ہدایت کو گمراہی سے تعبیر کر رہے ہیں اور گمراہی کو ہدایت سمجھ رہے ہیں ۔ یہ بڑی خطرناک روش ہے ۔ اللہ نے فرمایا کہ یہ لوگ جانوروں سے بھی زیادہ گمراہ ہیں۔ جانور ایک ایسی مخلوق ہے جو اپنے مالک اور محسن کو پہچانتی ہے اور اس کا حکم مانتی ہے ، کسی بھی خدمت گزار جانور کو آواز دو تو وہ فوراً متوجہ ہوتا ہے جانور کھلانے پلانے والے مالک یا کارندے کی آواز پر چونک پڑتا ہے مگر کافر اور مشرک اشرف المخلوقات کافر و ہونے کے باوجود اپنے مالک حقیقی اور محسن حقیقی کو ذرا نہیں پہچانتا اور نہ ہی اس کو آواز پر لبیک کہتا ہے۔ صاحب دروس کا جانور کے بارے میں ذاتی تجربہ ہم نے ایک بلی پال رکھی تھی جو جوان ہوئی ، پھر اس نے بچے دیئے۔ وہ بیماری بیمار ہوگئی ۔ اندر آنا چاہتی تھی مگر دروازہ بند تھا۔ آخر دیوار پھلانگ کر اندر آئی اور میرے پائوں کے قریب آ کر بیٹھ گئی ۔ میں نے کہا اے دودھ پلائو ، مگر اس نے نہ پیا ، تھوڑی دیر بعد درازے کے راستے باہر نکلی اور پھر پتہ چلا کہ بیماری میں مر گئی ہے۔ مجھے فوراً خیال آیا کہ یہ بلی اپنی زندگی سے مایوس ہوچکی تھی ۔ اور آخری وقت سلام کرنے کے لیے آئی تھی ۔ مقصد یہ ہے کہ جانوروں میں بھی اتنا شعور ہوتا ہے کہ وہ اپنے محسن کو پہچانتے ہیں ، مگر انسان جانوروں سے بھی گیا گزرا ہے جو اپنے حقیقی محسن کو نہیں پہچانتا بلکہ یا تو اس کا انکار کر کے کافر بن جاتا ہے اور یا پھر غیروں کے دروازے پر دستک دیکر مشرک ہوجاتا ہے۔ جانور بےشعور ہو کر بھی اپنا مقصد حیات پورا کر رہا ہے جب کہ انسان انسان ہو کر بھی اپنے مقصد حیات سے غافل ہے اسی لیے فرمایا کہ جو لوگ اپنی خواہش کو ہی اپنا معبود بنا لیتے ہیں ، وہ حقیقی معبود سے کٹ جاتے ہیں اور ایسے لوگ جانوروں سے بھی بد تر ہیں۔
Top