Mualim-ul-Irfan - Al-Anbiyaa : 15
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ وَ سُلَیْمٰنَ عِلْمًا١ۚ وَ قَالَا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ فَضَّلَنَا عَلٰى كَثِیْرٍ مِّنْ عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِیْنَ
وَ لَقَدْ اٰتَيْنَا : اور تحقیق دیا ہم نے دَاوٗدَ : داود وَسُلَيْمٰنَ : اور سلیمان عِلْمًا : (بڑا) علم وَقَالَا : اور انہوں نے کہا الْحَمْدُ : تمام تعریفیں لِلّٰهِ : اللہ کے لیے الَّذِيْ : وہ جس نے فَضَّلَنَا : فضیلت دی ہمیں عَلٰي : پر كَثِيْرٍ : اکثر مِّنْ : سے عِبَادِهِ : اپنے بندے الْمُؤْمِنِيْنَ : مون (جمع)
اور البتہ تحقیق دیا ہم نے دائود اور سلیمان (علیہما السلام) کو علم ، اور کہا ان دونوں نے سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے ہمیں فضلیت بخشی ہے اپنے بہت سے ایماندار بندوں پر
ربط آیات سورۃ کی ابتداء قرآن پاک کی حقانیت اور صداقت سے ہوئی ۔ پھر موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت و رسالت اور ان کو فرعون کی قوم کی طرف بھیجنے کا ذکر ہوا ۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) بعض نشانیاں لے کر پہنچے تو قوم فرعون نے اسے جادو کہ انکار کردیا حالانکہ ان کے دلوں میں یقین تھا کہ یہ کسی انسان کے بس کی بات نہیں بلکہ ایسی خارق عادت نشانی اللہ تعالیٰ کے حکم سے اپنے نبی کے ہاتھ پر ہی ظاہر ہو سکتی ہے۔ بہر حال انہوں نے ظلم وتعدی اور غرور وتکبر کی بناء پر معجزات کا انکار کیا تو اللہ نے فرمایا کہ تم نے ایسے فسادیوں کا انجا م بھی تو دیکھ لیا کہ وہ کس طرح غرقاب ہوئے۔ اب آ ج کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے حضرت دائود اور سلیمان (علیہما السلام) کا تذکرہ فرمایا ہے۔ یہ دونوں باپ بیٹا اللہ کے جلیل القدر پیغمبر تھے جن کا ذکر اللہ نے مختلف سورتوں میں کیا ہے ، تا ہم اس مقام میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا تذکرہ حضر ت دائود (علیہ السلام) کی نسبت زیادہ ہے۔ حضرت دائود (علیہ السلام) صاحب کتاب رسول تھے اور سلیمان (علیہ السلام) بھی صاحب صحیفہ رسول اور نبی تھے ۔ اللہ نے باپ بیٹا دونوں کو خلافت کے ساتھ ساتھ نبوت بھی عطا فرمائی تھی ۔ گزشتہ آیات میں فرعون کی حکومت کا ذکر بھی ہوچکا ہے مگر وہ اس قدر نافرمان لوگ تھے کہ اللہ نے اس قوم کو فاسق قرار دیا ہے۔ ان کے بر خلاف دائود (علیہ السلام) اور سلیمان (علیہ السلام) پر بھی دنیا میں خلیفہ تھے ۔ اللہ نے انہیں حکومت عطا کی تھی مگر وہ اللہ کے نہایت مطیع اور شکر گزار بندے تھے ، یہ سابقہ آیات کے ساتھ ربط بھی ہوگیا ۔ بنیاد کا طعی علم اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر حضرت دائود اور سلیمان (علیہما السلام) کا اکٹھا ذکر کر کے فرمایا ہے ولقد اتینا دائود وسلیمن علما ً اور البتہ تحقیق ہم نے دائود (علیہ السلام) اور سلیمان (علیہ السلام) کو علم عطا فرمایا ۔ اس علم سے مراد دنیا کا کسی علم نہیں ہے سکولوں ، کا لجوں یا یونیورسٹیوں کے ذریعے سے حاصل کیا جاتا ہے یا جو علم انسان کو سمع بصر جیسے حواس سے حاصل ہوتا ہے یا انسان اپنی عقل سے غور و فکر کرکے کسی نتیجے پر پہنچتا ہے ، بلکہ اس علم سے مراد وہ قطعی اور یقینی علم ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں کو وحی کے ذریعے سکھاتا ہے۔ اس علم میں نہ تو کوئی اشتباہ ہوتا ہے اور نہ ہی اس میں کسی غلطی کا امکان ہوتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کوئی شخص اس کو سمجھ ہی نہ سکے یا اس کا اپنا دماغ ٹیڑھا ہو اور اسے کوئی چیز ٹیڑھی نظر آئے ۔ وگرنہ یہ ایسا علم ہے جس کے متعلق سورة بقرہ کی ابتداء میں اللہ نے فرمایا ذلک الکتب لا ریب فیہ اس میں تو کسی شک و شبہ کی گنجائش ہی نہیں ۔ بہر حال وحی الٰہی کا علم قطعی اور یقینی ہوتا ہے جب کہ اول الذکر کسی علم ظنی ہوتا ہے ، تو اللہ تعالیٰ نے حضرت دائود اور سلیمان (علیہما السلام) کو احکام شریعت ، اصول سیاست اور حکمرانی کا وہ قطعی علم عطا فرمایا جو ان کے لیے اپنے فرائض سے عہدہ براء ہونے کے لیے ضروری تھا ۔ سورة ص من اللہ نے حضرت دائود (علیہ السلام) کو مخاطب کر کے فرمایا ہے یدائود انا جعلنک خلیفۃ فی الارض ( آیت : 162) اے دائود (علیہما السلام) ہم نے تمہیں زمین میں خلافت عطا کی ہے ، لہٰذا تم عدل و انصاف کے مطابق مخلوق کی خدمت کرنا ۔ آپ کے بیٹے سلیمان (علیہ السلام) آپ کے بعد آپ کے جانشین ہوئے ، تو دونوں کے متعلق اللہ نے فرمایا کہ ہم نے انہیں وہ علم عطا فرمایا جس کی انہیں ضرورت تھی۔ علم کی ضرورت اور اہمیت علم ایک ضروری چیز ہے جسکے بغیر انسانیت ترقی نہیں کرسکتی علم کی روشنی ہی انسان کو منزل مقصود پر پہنچاتی ہے ۔ علم کی کمی انسان کی تنزلی کا سبب بنتی ہے۔ انگریز نے برصغیر میں اپنے اقتدار کے دوران اسلامی علوم کو ختم کرنے یا نہیں اپنے ڈھب پر ڈھال لینے کی بڑی کوشش کی ، مگر اللہ کے نیک بندوں نے اسلامی علوم کے جھنڈے کو ہمیشہ سر بلند رکھا اور اس پر حرف نہیں آنے دیا ۔ وہ جانتے تھے کہ اگر اس یقین علم کو جڑ اکھاڑ دی گئی اور اسکی جگہ ظنی علم کو رائج کردیا گیا تو پھر حقیقی علم کا ہمیشہ کے لیے جنازہ نکل جائے گا ، چناچہ بانیان دارالعلوم دیو بند نے اس خطرے کو بھانپتے ہوئے دارالعلوم کی بنیاد کھی جہاں سے اب تک چالیس ہزار سے زیادہ علماء پیدا ہوچکے ہیں اور دنیا بھر میں اسلام کے پودے کی آبیاری کر رہے ہیں ۔ یہ دارالعلوم تو ایک بنیاد تھی پھر اس سے آگے ہزاروں چشمے جاری ہوئے ۔ ہزاروں دیگر مدارس قائم ہوئے اور علم کی روشنی مسلم امہ کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتی رہی۔ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے اور انشاء اللہ تا قیام قیامت جاری رہے گا ۔ حکومت تو اپنے وسائل مادی تعلیم پر صرف کر رہی ہے مگر اللہ کے نیک بندے حقیقی علم کی نشرواشاعت کے لیے محدود وسائل کے ساتھ ہی بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ بہر حال علم ترقی کا زینہ ہے ۔ خاص طور پر دین کا اتنا علم نہایت ضروری ہے۔ جس کے ذریعے انسان اپنے فرائض سے با خبر ہو سکے اور اللہ اور اس کے بندوں کے حقوق اد ا کرسکے ۔ یہی علم ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوتی ہے اس کی عبادت کا طریقہ معلوم ہوتا ہے ۔ حلال و حرام اور جائز ناجائز میں امتیاز پیدا ہوتا ہے تو حید اور شرک کی سمجھ آتی ہے۔ انسان ایمان ، اخلاص اور نفاق کو پہچانتا ہے ، جہاں تک ٹیکنیکل علوم و فنون کا تعلق ہے۔ وہ تو کافر ، مشرک اور ملحد بھی حاصل کرلیتے ہیں ۔ آج امریکہ ، جاپان ، جرمنی ، روس اور چین سب جانتے ہیں کہ ٹیکنیکل علم کوئی علم نہیں بلکہ یہ تو صنعت و حرفت ہے ، جب کہ حقیقت علم وہی ہے جو وحی الٰہی کے ذریعے حاصل ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء کے ذریعے مخلوق تک پہنچاتا ہے ، تو اللہ نے فرمایا کہ ہم نے دائود اور سلیمان (علیہما السلام) کو حسب ضرورت حقیقی علم عطا فرمایا۔ باپ بیٹے کی طرف سے شکریہ اس یقینی علم کے حصول پر وقالا باپ بیٹے دونوں نے کہا الحمد للہ الذی فضلنا علی کثر من عبادہ المومنین سب تعریفیں اس اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں یا اس ذات باری تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے جس نے ہمیں بہت سے مومن بندوں پر فضلیت عطا فرمائی۔ یہاں پر تمام ایمانداروں پر فضلیت پائے کا ذکر نہیں بلکہ سے اہل ایمان پر برتری حاصل کرنیکا ذکر ہے ، وجہ یہ ہے کہ کائنات میں اللہ تعالیٰ اہل ایمان پر برتری حاصل کرنے کا ذکر ہے۔ وجہ یہ ہے کہ کائنات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے ان دو انبیاء سے بھی زیادہ بعض دوسرے انبیاء اور رسل کو برتری عطا فرمائی ہے جیسے موسیٰ (علیہ السلام) ، عیسیٰ (علیہ السلام) ، ابراہیم (علیہ السلام) اور نوح (علیہ السلام) وغیرہم ، اللہ نے ان حضرات کو اپنے حساب سے بڑا شرف عطا کیا ہے ، لہٰذا یہاں پر بہت سے مومنوں پر فضلیت کا ذکر ہے اور اس تناظر میں غیر مومنوں کا تو کوئی شمار ہی نہیں ہے۔ انبیاء کی وراثت کا مسئلہ ارشاد ہوتا ہے وورث سلیمن دائود اور سلیمان (علیہ السلام) دائود (علیہ السلام) کے وارث ہوئے ۔ مولانا شیخ الہند (رح) اس جملے کا ترجمہ کرتے ہیں ” قائم مقام ہوا سلیمان دائود (علیہ السلام) کا گویا اس مقام پر وراثت سے مراد مالی وراثت نہیں بلکہ نہایت ہے شیعہ حضرات ایک تو اس آیت سے نبی کی وراثت کی دلیل پڑتے ہیں ۔ حالانکہ یہاں پر وراثت سے مراد محض خلافت ہے دوسری آیت جس سے وراثت انبیاء کی دلیل پکڑی جاتی ہے وہ سورة مریم میں ہے کہ زکریا (علیہ السلام) نے اللہ رب العزت کی بارگاہ میں یہ درخواست پیش کی فھب لی من لدنک فلیاہ یرثنی و یرث من ال یعقوب ( آیت 5 ، 6) اے پروردگار مجھے ایسا ولی عطا فرما جو میرا اور آل یعقوب کا وارث بنے ۔ یہاں بھی کوئی بیٹا اپنے باپ کے مال کا وارث تو ہو سکتا ہے مگر ساری آل یعقوب کا وارث ایک شخص کیسے ہوگا ؟ قرینہ یہی ہے کہ ہاں پر علمی وراثت مراد ہے نہ کہ مالی زکریا (علیہ السلام) نے یہی دعا کی تھی کہ اے اللہ ! مجھے ایسا بیٹا عطا فرما جو میرا اور پوری آل یعقوب کا علمی وارث ہو اور جو ہمارے مشن کو آگے بڑھاسکے۔ حضور ﷺ کے دس صحابہ ؓ جن میں خلفائے راشدین ، حضور ﷺ کے چچا عباس ؓ اور امہات المومنین ؓ شامل ہیں روایت بیان کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا نحن معاشر الانبیاء لا نورث ما ترکنا صدقۃ ہم نبیوں کا گروہ کسی کو وارث نہیں بنایا کرتے بلکہ جو کچھ ہم چھوڑ جاتے ہیں وہ محتاجوں کے لیے صدقہ ہوتا ہے ، جو حضور ﷺ کے قبضہ میں خیر یا فدک کی کچھ اراضی تھی۔ جس سے آپ اپنی ضروریات پوری فرماتے تھے ، اس زمین کی تولیت حضرت عباس ؓ اور حضرت علی ؓ کے پاس تھی ۔ ان دونوں حضرات میں کچھ اخلاف رائے پیدا ہوا ، تو وہ حضرت عمر ؓ کے پاس آئے ، وہاں پر دوسرے اکابر صحابہ ؓ بھی موجود تھے۔ حضرت عمر ؓ نے ان دونوں حضرت سے قسم دلا کر پوچھا کہ بتلائو حضور ﷺ کا یہ فرمان موجود ہے کہ ہم انبیاء کا گروہ کسی کو وارث نہیں بناتے بلکہ جو کچھ چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے ، تو دونوں بزرگوں نے اس حدیث کی تصدیق کی ، چناچہ شیعہ حضرات کی طرف سے حضرت فاطمہ ؓ کے حق میں نبی (علیہ السلام) کی وراثت کا دعویٰ معنی بر حقیقت نہیں ۔ یہ درست ہے کہ جب تک حضرت فاطمہ ؓ کو اس حدیث کا علم نہیں تھا۔ انہوں نے حضرت ابوبکر ؓ سے اپنے باپ کی وارثت کا مطالبہ کیا مگر جب آپ نے حضرت فاطمہ کو مذکور حدیث منافی تو کہنے لگیں فانت اعلم بما سمعت من رسول اللہ ﷺ تو پھر آپ اس چیز کو زیادہ جانتے ہیں جو آپ نے رسول خدا سے سنی ہوئی ہے اس کے بعد آپ خاموش ہوگئیں اور پھر کبھی وراثت کا مطالبہ نہیں کیا ۔ حضور ﷺ کا یہ فرمان بھی صحیح حدیث میں موجود ہے انما الانبیاء لم یورثوا درھما ولا دینار یعنی اللہ کے نبی درہم یا دینار وراثت میں نہیں چھوڑا کرتے بلکہ ورثوا علما وہ تو اپنی وراثت میں صرف علم چھوڑ کر جاتے ہیں نبیوں کی وراثت علم دین ہوتا ہے ، جس نے دین کا علم حاصل کرلیا اس نے نبی کی وراثت کو پا لیا ۔ انبیاء کی وراثت کے ضمن میں ایک یہ مسئلہ بھی ہے کہ پیغمبر خود تو اپنے غیر ینی کی وراثت حاصل کرتا ہے مگر اپنے بیٹے کو مالی وراثت نہیں دیتا ، چناچہ حضور ﷺ کو اپنے والد حضرت عبد اللہ کی وراثت ملی ۔ طبقات ابن سعد میں موجود ہے کہ آپ کو پانچ اونٹ ، بکریوں کا ایک ریوڑ اور ام ایمن لونڈی وراثت میں ملی ۔ ام ایمن حبشیہ تھیں مگر بڑی صاحب فضلیت خاتون تھیں ۔ انہوں نے حضور ﷺ کو گود میں اٹھایا تھا۔ لہٰذا آپ ان کی بڑی قدر کرتے تھے ، حضور ﷺ نے بڑے ہو کر ان کو آزاد کردیا تھا اور پھر ان کا نکاح حضور ﷺ کے متنبی زید ؓ کے ساتھ ہوا جن سے اسامہ ؓ پیدا ہوئے حضور ﷺ کو باپ بیٹے دونوں سے بڑی محبت تھی۔ دائود (علیہ السلام) کی جانشینی چونکہ دائود (علیہ السلام) اللہ کے نبی تھے اس لیے آپ کی مالی وراثت تو سلیمان (علیہ السلام) کو نہیں پہنچی بلکہ آپ کی علمی اور نیابتی وراثت آپ کو پہنچی ۔ قرینہ بھی موجود ہے کہ اگر اس وراثت سے جائیداد کی وراثت مراد ہوتی تو پھر یہ صرف سلیمان (علیہ السلام) کو ہی کیوں پہنچتی ، جب کہ دائود (علیہ السلام) کے انیس بیٹے تھے جن میں سے سلیمان (علیہ السلام) سب سے چھوٹے تھے ۔ سارے بیٹے حکومت کے خواہشمند تھے مگر اللہ نے یہ نیابت سلیمان (علیہ السلام) کو عطا فرمائی ، اگر مالی وراثت مراد ہوتی تو سارے بیٹوں کو محروم کر کے صرف ایک کو سب کچھ دے دینا کہاں کا انصاف تھا ؟ حقیقت یہ ہے کہ سلیمان (علیہ السلام) کے علاوہ کوئی دوسرا بیٹا آپ کی خلافت کا بار اٹھانے کے قابل نہیں تھا۔ اس وقت سلیمان (علیہ السلام) کی عمر بارہ یا تیرہ سال کی تھی ۔ دائود (علیہ السلام) نے نیابت کے مسئلہ کو اس شرح حل فرمایا کہ اللہ کے ایک فرشتے نے ایک بند لفافہ لا کر حضرت دائود (علیہ السلام) کو دیا اور کہا کہ آپ مجلس عام میں یہ اعلان کریں کہ آپ کے نبیوں میں سے جو بیٹا اس لفافے میں بند سوالوں کے صحیح صحیح جواب دیگا ۔ وہی میری جانشینی کا حق دار ہوگا ، چناچہ عمائدین سلطنت کی موجودگی میں سارے بیٹوں سے فرمایا کہ یہ امتحان کا لفافہ ہے جو شخص ان سوالات کے جو اباب دے دیگا ، وہی میرا جانشین ہوگا ۔ لفافے میں موجود سوالات اور ان کے صحیح جوابات یہ تھے۔ سوالات صحیح جوابات 1۔ سب سے قریب چیز کون سی ہے ؟ موت 2۔ سب سے بصید چیز کون سی ہے ؟ انسان کے ہاتھ سے نکل جانیوالی چیز 3۔ سب سے مانوس چیز کون سی ہے ؟ جسم بمع روح 4۔ سب سے وحشت ناک چیز کون سی ہے ؟ جسم بغیر روح 5۔ دو قائم چیزیں کون سی ہیں ؟ ارض و سما جو قیامت تک قائم رہیں گی۔ 6۔ دو مختلف چیزیں کون سی ہیں ؟ لیل و نہا ر ، ایک جاتی اور دوسری آتی ہے۔ 7۔ آپس میں دو دشمن چیزیں کونسی ہیں ؟ موت اور حیات 8۔ بہتری انجام والی چیز کون سی ہے ؟ بردباری بوقت غصہ 9۔ بد ترین انجام والی چیز کون سی ہے ؟ غصے کی حالت میں تیزی کا استعمال دائود (علیہ السلام) نے جب بیٹوں کے سامنے یہ سوالات پیش کیے تو ان میں سے کوئی بھی ان کے جوابات نہ دے سکا ۔ سب عاجز آگئے ۔ سلیمان (علیہ السلام) ابھی کم سن تھے اور انہیں خلافت کی خواہش بھی نہیں تھی مگر اللہ نے انہیں بچپن ہی میں فہم و فراست سے نوازا تھا۔ انہوں نے باپ سے عرض کیا اگر اجازت ہو تو ان سوالات کے جوابات میں عرض کروں ۔ اجازت ملنے پر سلیمان (علیہ السلام) نے سوالات کے صحیح صحیح جوابات دے دیئے ، چناچہ حضرت دائود (علیہ السلام) نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا جانشینی کا اعلان کردیا جسے تمام عمائدین سلطنت نے سراہا۔ دائود (علیہ السلام) جس دن دائود (علیہ السلام) کی جانشینی کا فیصلہ ہوا ۔ اس سے اگلے روز آپ کی وفات ہوگئی ۔ مسند احمد کی روایت میں آتا ہے کہ آپ بڑے با عزت آدمی تھے ، جب بھی گھر سے باہر جاتے باہر سے تکالالگا کر جاتے تا کہ کوئی اجنبی آدمی گھر میں داخل نہ ہو سکے اس روز بھی آپ حسب معمول دروازے کو تالا لگا کر باہر چلے گئے ۔ اس دوران آپ کی اہلی نے کسی اجنبی آدمی کو صحن میں کھڑے دیکھا۔ بڑی حیران اور خوفزدہ ہوئیں کہ یہ شخص اندر کیسے آ گیا حالانکہ باہر تو تالا پڑا ہے۔ اتنے میں حضرت دائود (علیہ السلام) بھی آگئے۔ تالا کھول کر داخل ہوئے تو اجنبی شخص کو صحن میں پایا ۔ پوچھا تم کون ہو اور یہاں کیسے آئے ہو تو اس نے کہا کہ میں وہ ہوں جو بادشاہوں سے نہیں ڈرتا اور جس کے لیے کوئی حجاب نہیں ہے۔ دائود (علیہ السلام) نے کہا پھر بخدا تم ملک الموت ہو ، مرحبا بامر اللہ میں تمہیں اللہ کے حکم سے خوش آمدید کہتا ہوں ۔ پھر آپ کمبل اوڑھ کر لیٹ گئے آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی ۔ سلیمان (علیہ السلام) پر فضل مبین فرمایا سلیمان (علیہ السلام) حضرت دائود (علیہ السلام) کے وارث ہوئے وقال یایھا الناس علمنا منطق الطیر اور فرمایا اور اے لوگو ! ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے واوتینا من کل شیء اور ہمیں ہر چیز دی گئی ہے جو ہمارے حسب حال ہے۔ اس سے اس زمانے اور موجودہ زمانے کے تمام آلات اور سامان مراد نہیں ہیں بلکہ نظام حکومت کو چلانے کے لیے جس جس چیز کی ضرورت تھی ، اللہ تعالیٰ نے عطا کردی اور اس کے ساتھ ساتھ پرندوں کی بولی بھی سکھا دی ۔ فرمایا ان ھذا لھو الفضل المبین یہ کھلی فضلیت والی بات ہے جو اللہ نے ہمیں عطا کی ہے۔ وحشر لسلیمن جنودۃ من الجن والانس والطیر اور اکٹھے کئے گئے سلیمان (علیہ السلام) کے لیے جنوں ، انسانوں اور پرندوں کے لشکر فھم یوزعون پس ان کو تقسیم کیا جاتا تھا یا روکا جاتا تھا۔ یعنی ہر یہ جنس کی مخلوق الگ الگ ٹولیوں میں کھڑی ہوجاتی تھی ۔ اللہ تعالیٰ نے سلیمان (علیہ السلام) کو بےمثال حکومت عطا فرمائی تھی جس کی درخواست انہوں نے خود کی تھی وَہَبْ لِیْ مُلْکًا لَّا یَنْبَغِیْ لِاَحَدٍ مِّنْم بَعْدِیْ (ص : 53) اے اللہ ! مجھے ایسی سلطنت عطا فرما جسکی مثال نہ مجھ سے پہلے ہو اور نہ بعد میں پیدا ہو ، چناچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے جنات ، انسانوں اور پرندوں کے علاوہ ہوا کو بھی مسخر کردیا ۔ وَلِسُلَیْمٰنَ الرِّیْحَ غُدُوُّہَا شَہْرٌ وَّرَوَاحُہَا شَہْرٌ (سبا : 21) ہم نے ہوا کہ سلیمان (علیہ السلام) کے تابع کردیا جس کی صبح کی منزل ایک ماہ کی ہوتی تھی اور شام کی منزل بھی ایک ماہ کی آپ کی تخت اور سازو سامان ہوا اڑائے پھرتی تھی ۔ موجودہ زمانے کی محفوظ ترین سواریاں بھی کسی حادثے کے امکان سے خالی نہیں مگر سلیمان (علیہ السلام) کے ہاں کسی خرابی کا کوئی امکان نہیں ہوتا تھا۔ وہ جہاں چاہتے ہوا کہ دوش پر چلے جاتے ۔ پرندوں کی اپنی اپنی بولی ہوتی ہے جسے انسان نہیں سمجھ سکتے۔ اللہ کا فرمان ہے کہ ہر چیز اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہے۔ مگر تم اسے سمجھ نہیں سکتے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) پر یہ بخشی اللہ کا خاص فضل تھا کہ آپ پرندوں کی بولیاں بھی سمجھتے تھے ، اور پھر جن بھی آپ کے تابع تھے اور آپ کے ہر حکم کی بجا آوری کرتے تھے۔
Top