Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-Ahzaab : 7
وَ اِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّبِیّٖنَ مِیْثَاقَهُمْ وَ مِنْكَ وَ مِنْ نُّوْحٍ وَّ اِبْرٰهِیْمَ وَ مُوْسٰى وَ عِیْسَى ابْنِ مَرْیَمَ١۪ وَ اَخَذْنَا مِنْهُمْ مِّیْثَاقًا غَلِیْظًاۙ
وَاِذْ
: اور جب
اَخَذْنَا
: ہم نے لیا
مِنَ
: سے
النَّبِيّٖنَ
: نبیوں
مِيْثَاقَهُمْ
: ان کا عہد
وَمِنْكَ
: اور تم سے
وَمِنْ نُّوْحٍ
: اور نوح سے
وَّاِبْرٰهِيْمَ
: اور ابراہیم
وَمُوْسٰى
: اور موسیٰ
وَعِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ ۠
: اور مریم کے بیٹے عیسیٰ
وَاَخَذْنَا
: اور ہم نے لیا
مِنْهُمْ
: ان سے
مِّيْثَاقًا
: عہد
غَلِيْظًا
: پختہ
اور (اس بات کو دھیان میں لائو) جب کہ ہم نے نبیوں سے ان کا عہد لیا اور (خاص طور پر) آپ سے۔ اور نوح (علیہ السلام) سے اور ابراہیم (علیہ السلام) سے اور موسیٰ (علیہ السلام) سے اور عیسیٰ ابن مریم (علیہا السلام) سے اور ہم نے ان سے پختہ عہد لیا
ربط آیات گزشتہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نبی کو مومنوں کے ساتھ ان کی جانوں سے بھی زیادہ تعلق اور لگائو ہے۔ نبی کی بیویاں مومنوں کی مائیں ہیں لہٰذا نبی کا اتباع اور ادب و احترام ضروری ہے اور دوسرا مسئلہ اللہ نے قرابت داروں کے متعلق فرمایا کہ عام مومنوں اور مہاجروں کی نسبت قرابت داروں کا وراثت میں حق فائق ہے۔ البتہ دوسرے لوگوں سے حسن سلوک اور احسان کیا جاسکتا ہے اس سے پہلی آیت میں پیغمبر (علیہ السلام) کا مرتبہ اور آپ کا اجلال و اکرام بیان ہوا تھا۔ نبی (علیہ السلام) کو جو خیرخواہی اور ہمدردی بنی نوع انسان سے بالعموم اور اہل ایمان کے ساتھ بالخصوص ہے ، وہ کسی دوسری ذات میں نہیں۔ جس قسم کی تربیت آپ کرسکتے ہیں کوئی اور نہیں کرسکتا ، لہٰذا آپ کا اتباع ضروری ہے۔ میثاق انبیاء سورۃ کی ابتدا میں اللہ نے پیغمبر (علیہ السلام) کو مخاطب کر کے فرمایا واتبع ما یوحیٰ الیک من ربک آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر جو وحی نازل کی جاتی ہے آپ اس کا اتباع کریں۔ عام اہل ایمان کے لئے بھی یہی حکم ہے کہ وہ وحی الٰہی کی پیروی کریں۔ اور جن پر وحی نازل کی جاتی ہے وہ اللہ کے نبی اور رسول ہوتے ہیں اور ان کا اتباع بھی ضروری ہے۔ اب آج کے درس میں اللہ تعالیٰ نے انبیاء (علیہم السلام) اور ان کے عہد و پیمان کا ذکر کیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے و اذ اخذنا من النبین میثاقھم اور اس بات کی طرف توجہ کرو جب کہ ہم نے انبیاء (علیہم السلام) سے پختہ عہد لیا۔ النبیین سے مراد سارے کے سارے انبیاء ہیں کہ ان سے اقرار لیا گیا تھا۔ اور آگے عہد کی پختگی کا ذکر بھی آ رہا ہے۔ درمیان میں اللہ تعالیٰ نے اس عہد کے ضمن میں پانچ اولوالعزم انبیاء کا تذکرہ فرمایا ہے جن میں سرفہرست حضور خاتم النبیین ﷺ ہیں۔ اللہ نے فرمایا کہ جب ہم نے پختہ عہد لیا جملہ انبیاء (علیہم السلام) سے و منک اور خاص طور پر آپ سے و من نوح و ابراہیم و موسیٰ و عیسیٰ ابن مریم اور نوح ، ابراہیم ، موسیٰ اور عسیٰ ابن مریم (علیہم السلام) سے بھی ، فرمایا و اخذٓا منھم میثاقا غلیظا اور ہم نے ان سب سے پختہ اور مضبوط عہد لیا۔ قرآن پاک میں کئی ایک عہد و پیمان کا ذکر آیا ہے۔ ایک عہد الست ہے جس کا ذکر سورة الاعراف میں آیا ہے۔ یہ عہد عالم ارواح میں تمام بنی نوع انسان سے لیا گیا تھا۔ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانی روحوں کو حضرت آدم (علیہ السلام) کی پشت سے نکالا اور انہیں دکھایا۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ بعض روحیں 1 ؎ ابن کثیر ص 964 ج 3 ، ابن کثیر ص 964 ج 12 (فیاض) بڑی روشن اور چمکدار تھیں۔ حضرت آدم (علیہ السلام) نے ان کے متعلق دریافت کیا ، تو آپ کو بتیایا گیا کہ یہ آپ کی اولاد میں سے نبی یا رسول یا نہایت ہی نیکی والے لوگ ہیں۔ حضرت دائود (علیہ السلام) کا ذکر بھی آتا ہے کہ جب آدم (علیہ السلام) نے ان کے متعلق دریافت کیا تو اللہ نے فرمایا کہ یہ آپ کی اولاد میں سے آخری دور کے نبی ہیں۔ پھر دریافت کیا کہ ان کی عمر کتنی ہے ، کہا ساٹھ سال ، اس پر آدم (علیہ السلام) نے عرض کیا کہ میری عمر میں سے چالیس سال ان کو دے دیئے جائیں تاکہ ان کی عمر سو سال ہوجائے۔ آپ کی یہ درخواست قبول کرلی گئی۔ روایات میں یہ بھی آتا ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کی عمر ایک ہزار سال تھی۔ جب اس میں چالیس سال باقی رہ گئے تو اللہ تعالیٰ کا حکم آ گیا۔ آپ نے کہ ابھی تو میری عمر کے چالیس سال باقی ہیں۔ فرمایا گیا کہ یہ عمر تو تم نے اپنے بیٹے دائود (علیہ السلام) کو دے دی تھی۔ مگر آپ وہ بات بھول چکے تھے لہٰذا انکار کیا جس طرح آدم (علیہ السلام) بھولے تھے اسی طرح آپ کی اولاد بھی بولتی ہے۔ اسی لئے اللہ نے اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے معاملات کو تحریر کرنے کا حکم دیا ہے۔ تاکہ بعد میں کوئی انکار نہ کرسکے۔ بعض فرماتے ہیں کہ یہ عہد حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق کے بعد ہوا تھا۔ جب آپ کو زمین پر اتار دیا گیا تو عرفات کے قریب وادی نعمان میں اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کی پشت سے ان کی اولاد کی ساری روحوں کو نکالا ، یہ روحیں چیونٹیوں کی مانند بالکل چھوٹی چھوٹی تھیں۔ بعض دوسری احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے آدم (علیہ السلام) کے دائیں کندھے پر ہاتھ رکھ کر اہل ایمان کی روحوں کو برآمد کیا اور پھر بائیں کندھے پر ہاتھ رکھ کر کفار و مشرکین کی روحوں کو نکالا۔ بہرحال یہ عہد الست کہلاتا ہے اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کی تمام روحوں کو مخاطب کر کے فرمایا تھا الست بربکم قالو بلی (الاعراف۔ 271) کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ؟ تو سب روحوں نے جواب دیا کہ بیشک تو ہی ہمارا رب ہے۔ اس عہد کے علاوہ بعض دوسرے عہد و پیمان کا ذکر بھی قرآن پاک میں آتا ہے مثلاً اللہ نے بنی اسرائیل سے عہد لیا تھا الا نعبدو الا ایاہ و بالوالدین احسانا (بنی اسرائیل۔ 32) کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا اور والدین کے ساتھ احسان کرنا۔ مکروہ اس عہد پر قائم نہ رہ سکے۔ اللہ نے بنی اسرائیل سے یہ عہد بھی لیا تھا کہ تم اللہ کی کتاب اور اس فرمان کو لتتبیننہ للناس ولا تکتمونہ (آل عمران۔ 781) لوگوں کے سامنے ظاہر کرو گے اور چھپائو گے نہیں مگر بنی اسرائیل اس عہد پر بھی قائم نہ رہ سکے اور حق بات کو چھپاتے رہے۔ جس عہد کا ذکر آیت زیردرس میں ہو رہا ہے یہ میثاق النبیین کہلاتا ہے۔ جو اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء (علیہم السلام) اور خاص طور پر مذکورہ پانچ اولوالعزم انبیاء سے لیا تھا۔ اس عہد کی تفصیل سورة آل عمران میں گزر چکی ہے۔ اللہ نے تمام انبیاء (علیہم السلام) کو مخاطب کر کے فرمایا کہ جب میں نے تمہیں کتاب اور حکمت عطا فرمائی پھر تمہارے پاس وہ رسول آجائے جو ان کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہو جو تمہارے پاس ہیں تو اتومنن بہ ولتنصرنہ (آیت۔ 18) تو اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا مطلب یہ کہ اگر پہلا نبی پچھلے نبی کا دور پائے تو اس پر ایمان لائے اور اس کی تائید کرے۔ اور مجموعی طور پر سارے انبیاء سے عہد لیا تھا کہ وہ حضور ﷺ پر ایمان لائیں گے اور ان کی نصرت کریں گے۔ اس عہد کے متعلق مختلف اقوال ہیں کہ یہ کب لیا گیا۔ بعض فرماتے ہیں کہ عہدالست کی طرح یہ عہد بھی اس مادی جہان میں آنے سے پہلے لیا گیا تھا۔ البتہ بعض دوسرے مفسرین فرماتے ہیں کہ یہ عہد اللہ نے ہر نبی سے اس کی دنیا میں بعثت کے بعد 1 ؎ تفسیر حقانی ص 56 ج 6 (فیاض) لیا تھا کہ اگر تمہارے زمانے میں دوسرا نبی آجائے یا نبی آخر الزمان آجائیں تو ان کی تائید و نصرت کرنا۔ شیخ ابن عربی (رح) یہ بھی فرماتے ہیں کہ یہ عہد خدا تعالیٰ کی توحید پر کاربند رہنے ، ادائے رسالت اور لوگوں کو دین کی طرف دعوت دینے کا تھا اور پختہ عہد لیا تھا کہ تم اس فریضہ کو پورے طریقے سے ادا کرو گے ، اور اس میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کرو گے۔ حضور ﷺ کی خصوصیت یہاں یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ حضور خاتم النبیین ﷺ تو تمام انبیاء کے بعد مبعوث ہوئے مگر اس آیت کریمہ میں آپ کا ذکر باقی انبیاء سے پہلے کیا گیا ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے ؟ امام ترمذی نے ایک روایت بیان کی ہے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا کہ آپ کے لئے نبوت کب واجب ہوئی تو آپ نے فرمایا میں اس وقت بھی نبی تھا و آدم بین الروح ولجسہ جس وقت آدم علیہ کے جسم میں روح بھی داخل نہیں ہوئی تھی اور حضور ﷺ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ میں تخلیق میں سب سے پہلے اور بعثت میں سب انبیاء کے بعد ہوں مطلب یہ کہ آپ کی تخلیق عالم ارواح میں بھی سب سے پہلے عمل میں آئی۔ اسی لئے اکثر بزرگان دین فرماتے ہیں کہ اس جہاں میں نبی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے ذریعے اللہ نے باقی انبیاء کی ارواح کی بھی تربیت فرمائی اور اس طرح آپ کو اس عالم میں بھی شرف اور مرتبہ حاصل تھا۔ امام ابن عربی (رح) اور بع ضدگیر محققین فرماتے ہیں کہ کائنات کی تخلیق کا باعث بھی حضور ﷺ کا وجود مبارک ہے اور سب سے مقدم ذریعہ فیضان بھی آپ 1 ؎ تفسیر الشیخ الاکبر 141 ج 2۔ 2 ؎ ترمذی ص 915 3 ؎ طبری ص 521 ج 12 و ابن کثیر ص 964 ج 3 و معالم التنزیل ص 261 ج 3 و درمنثور ص 481 ج 5 4 ؎ تفسیر الشیخ الاکبر ص 141 ج 3 (فیاض) ہی کی ذات ہے۔ عالم ارواح میں بھی اللہ نے آپ کی روح کو سب سے پہلے پیدا کیا اور اس کے ذریعے دوسری ارواح کو فیض پہنچایا غرضیکہ عہ و پیمان کے سلسلے میں آپ کا ذکر خیر اس لئے مقدم رکھا گیا ہے کہ عالم ارواح میں بھی آپ کی تخلیق سب سے پہلے ہوئی تھی۔ یہاں یہ امر بھی وضاحت کے قابل ہے کہ اس آیت کریمہ میں جن پانچ انبیاء (علیہم السلام) کا ذکر کیا گیا ہے وہ بلند مرتبت اور عظیم الشان انبیاء کہلاتے ہیں۔ اگرچہ النبیین میں تو سارے کے سارے نبی شامل ہیں مگر یہ پانچ اولوالعزم انبیاء ہیں وہ ہیں جن کا فیضان اور اتباع دنیا میں ہزاروں سال تک جار یرہا یہی وجہ ہے کہ اللہ نے ان کا بطور خاص تذکرہ فرمایا ہے کہ ان سے عہد لیا گیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی توحید پر کاربند رہیں گے۔ لوگوں کو اللہ کے دین کی طرف دعوت دیں گے ، خود بھی اس پر عمل پیرا رہیں گے اور دوسروں کو بھ یاس پر پابند بننے کی ترغیب دیں گے۔ اس کے علاوہ دنیا میں برائی کی بجائے نیکی اور فساد کی بجائے اصلاح کو عام کرنے کی سعی کریں گے۔ میثاق کی حمایت آگے اللہ نے اس میثاق کی غرض وغایت بھی بیان فرمائی ہے۔ لیسئل الصدقین عن صدقھم تاکہ اللہ تعالیٰ سچے لوگوں سے ان کی سچائی کے بارے میں سوال کرے۔ سورة الاعراف میں یہ مضمون اس طرح بیان کیا گیا ہے۔ فلنسئلن الذین ارسل الیھم ولنسئلن المرسلین (آیت۔ 6) ہم ان لوگوں سے بھی پوچھیں گے جن کی طرف رسولوں کو بھیجا گیا اور خود رسولوں سے بھی سوال کریں گے کہ انبیاء اور ان کے امتیوں نے مذکورہ عہد کو کس حد تک پورا کیا۔ نبیوں سے سوال ہوگا کہ کیا انہوں نے تبلیغ حق کی ذمہ داری پوری کی اور امتیوں سے پوچھا جائے گا کہ انہوں نے نبیوں کی دعوت کو قبول کیا یا نہیں ؟ انبیاء سے اس قسم کے سوال کا ذکر حجۃ الوداع کے واقعہ میں بھی آتا ہے۔ حج کا خطبہ ارشاد فرمانے کے بعد نبی ﷺ نے حاضرین سے فرمایا تھا : کہ لوگو ! کل قیامت کے دن میرے بارے میں تم سے سوال ہوگا تو کیا جو ابدو گے ؟ سب نے کہا۔ نشھد انک قد ادیت الامانۃ و بلغت الرسالۃ و نصحت الامۃ ہم اللہ کے حضور گواہی دیں گے کہ آ پنے امانت ادا کردی ، تبلیغ کا حق اد اکر دیا اور امت کے لئے خیرخواہی بھی کردی۔ اس کے بعد حضور ﷺ نے اپنی انگشت شہادت آسمان کی جانب اٹھائی اور لوگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین دفعہ فرمایا ، خدایا گواہ رہنا۔ بہرحال قیامت والے دن اللہ تعالیٰ سچے لوگوں سے ان کی سچائی کے بارے میں سوال کرے گا۔ اس بات کا ذکر سورة المائدہ میں بھی آتا ہے ھذا یوم ینفع الصدقین صدقھم (آیت۔ 911) اس دن سچے لوگوں کو ان کی چسائی ضرور فائدہ دے گی اور سچے لوگوں میں سرفہرست انبیاء کی جماعت ہے جنہوں نے پوری سچائی کے ساتھ دین کو قبول کیا ، اس پر عمل کیا اور اس کی اشاعت و بقا کا بندوبست کیا۔ اس کے بعد جن لوگوں نے دین حق کو مانا اور اس پر عمل پیرا ہوئے وہ بھی سچوں میں شمار ہوں گے اور قیامت کے دن ان کی سچائی کے متعلق سوال ہوگا اور وہ اللہ کی رحمت کے مقام میں پہنچیں گے۔ ان کے برخلاف جنہوں نے دین توحید کو تسلیم نہ کیا اور کفر ، شرک اور معصیت کا ارتکاب کرتے رہے ، فرمایا و اعد للکفرین عذاباً الیما ایسے لوگوں کے لئے دردناک عذاب بھی تیار کیا ہوا ہے جس کا وہ شکار ہوں گے۔ حقیقت میں ایسے لوگوں نے اس عہد کا پاس نہ کای جو اللہ نے ان سے لیا تھا کہ وہ انبیاء کے لائے ہوئے دین کو قبول کریں گے اور ان کی تائید و نصرت کریں گے ایسے لوگوں نے اپنے انبیاء کی تکذیب کی اور ان کے لائے ہوئے دین کو ٹھکرا دیا اور بالآخر دردناک عذاب میں پھنس گئے۔
Top