Mualim-ul-Irfan - Faatir : 42
وَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَیْمَانِهِمْ لَئِنْ جَآءَهُمْ نَذِیْرٌ لَّیَكُوْنُنَّ اَهْدٰى مِنْ اِحْدَى الْاُمَمِ١ۚ فَلَمَّا جَآءَهُمْ نَذِیْرٌ مَّا زَادَهُمْ اِلَّا نُفُوْرَاۙ
وَاَقْسَمُوْا : اور انہوں نے قسم کھائی بِاللّٰهِ : اللہ کی جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ : اپنی سخت قسمیں لَئِنْ : اگر جَآءَهُمْ : ان کے پاس آئے نَذِيْرٌ : کوئی ڈرانے والا لَّيَكُوْنُنَّ : البتہ وہ ضرور ہوں گے اَهْدٰى : زیادہ ہدایت پانے والے مِنْ اِحْدَى : ہر ایک سے الْاُمَمِ ۚ : امت (جمع) فَلَمَّا : پھر جب جَآءَهُمْ : ان کے پاس آیا نَذِيْرٌ : ایک نذیر مَّا زَادَهُمْ : نہ ان (میں) زیادہ ہوا اِلَّا : مگر۔ سوائے نُفُوْرَۨا : بدکنا
اور قسمیں اٹھائیں ان لوگوں نے اللہ کے نام کی پختہ قسمیں کہ اگر آئے گا ان کے پاس کوئی ڈر سنانے والا تو البتہ ہوں گے وہ کسی بھی دوسری امت سے زیادہ راہ پانے والے۔ پس جب آیا ان کے پاس ڈر سنانے والا تو نہ زیادہ کیا ان کے لیے مگر بدکنا
ربط آیات گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کے کچھ عقلی دلائل پیش کیے تھے اور شرک کی تردید فرمائی تھی۔ فرمایا وہ اللہ کی ذات ہی ہے جس نے آسمان و زمین کو اپنی قدرت تامہ اور حکمت بالغہ کے ساتھ تھام رکھا ہے اور اگر وہ ان دونوں کو اپنی جگہ سے ہٹانا چاہے تو کوئی دوسرا ان کو تھامنے والا نہیں اللہ تعالیٰ حلیم و غفور ہے ، وہ انسانوں پر فوری گرفت نہیں کرتا بلکہ مہلت دیتا ہے مگر لوگ اس مہلت سے فائدہ اٹھانے کی بجائے مزید سرکشی اختیار کرتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وقت مقررہ پر اللہ کی گرفت آجاتی ہے اور نافرمانوں کو پیس کر رکھ دیتی ہے۔ مشرکین مکہ کا عذر لنگ اب آج کی پہلی آیت میں مشرکین مکہ کے باطل زعم کا خصوصی رد کیا گیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے واقسموا باللہ جھد ایمانھم یہ لوگ اللہ کے نام کی پختہ قسمیں اٹھا کر کہتے تھے لئن جاء ھم نذیر لیکونن اھدی من احدی الامم کہ اگر ان کے پاس کوئی ڈرانے والا آگیا تو وہ کسی بھی دوسری امت سے زیادہ ہدایت یافتہ ہوں گے مشرکین مکہ یہود و نصاریٰ کے متعلق سنتے تھنے کہ اللہ نے ان پر پیغمبر بھیجے ، کتابیں نازل کیں ، مگر انہوں نے نبیوں کی مخالفت ہی کی اور ہدایت قبول نہ کی ، تو یہ لوگ وعدہ کرتے تھے کہ اگر ہم میں کوئی نبی آگیا تو ہم اس کی کماحقہ اطاعت کریں گے۔ اس کا ساتھ دیں گے اور اس کی لائی ہوئی ہدایت کو قبول کریں گے ، مگر اللہ نے فرمایا فلما جاء ھم نذیر جب ان کے پاس ڈرانے والا اللہ کا آخری نبی آگیا تو اس پر ایمان لانے کی بجائے مازادھم الا نفورا ان کی نفرت میں ہی اضافہ ہوا۔ وہ نبی کی اطاعت تو کیا کرتے الٹا اس کے دشمن ہوگئے اور اللہ کے رسول کے متعلق ان کی نفرت میں اضافہ ہی ہوتا چلا گیا۔ حتی کہ پہلے لوگوں نے اپنے انبیاء سے جس قدر نفرت کی ، انہوں نے ان سے بھی زیادہ خباثت کا اظہار کیا۔ اس کے خلاف طرح طرح کے منصوبے بنائے حتی کہ قتل تک کے درپے ہوئے اور یہ اس وجہ سے استکبارا فی الارض کہ وہ زمین میں غرور وتکبر کرنے والے تھے۔ ان لوگوں کو اپنی سیادت و قیادت پر گھمنڈ تھا اور وہ کسی دوسرے کو اس چودھراہٹ میں شریک کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اگر ہم نے محمد ﷺ کو نبی تسلیم کرلیا تو پھر ہماری سیادت ختم ہوجائے گی۔ تکبر ایک روحانی بیماری ہے جو اکثر لوگوں میں پائی جاتی ہے۔ ایسے لوگ حق کو قبول نہیں کرتے اور حیلے بہانے سے اس سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ لوگ دنیاوی حیثیت کو نبوت پر ترجیح دیتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ کیسا نبی ہے جس کے پاس نہ مال و دولت ، نہ زمین و باغات نہ کوٹھی اور نہ نوکر چاکر ، بھلا اس نادار آدمی کو ہم کیسے نبی تسلیم کرلیں وقالوا لولا نزل ھذا القران علی رجل میں القریتین عظیم (الزخرف 31) یہ قرآن مکہ اور طائف کی عظیم بستیوں میں سے کسی بڑے آدمی پر کیوں نہ نازل ہوا۔ کیا نبوت و رسالت کے لیے ابو طالب کا یتیم بھتیجا ہی رہ گیا تھا ؟ مشرکین کی بری تدبیر اللہ کے نبی کے خلاف مشرکین کی نفرت ایک تو غور وتکبر کی بنا پر تھی اور دوسرا ومکر السی بری تدبیر کی وجہ سے تھی۔ ان کی بری تدبیر بیہی تھی کہ نبی (علیہ السلام) کو معاذ اللہ ختم کردیا جائے تاکہ ان کا لایا ہوا دین یہیں دم توڑ جائے اور آگے نہ بڑھ سکے ، مگر اللہ نے فرمایا ولا یحفق المکر السئی الا باھلہ بری تدبیر نہیں گھیرتی مگر خود اس کے کرنے والوں کو۔ یہ تو چاہتے ہیں کہ اللہ کے نبیوں کے مشن کو ناکام بنا دیں تو اللہ نے فرمایا کہ جو کوئی کسی کے خلاف بری تدبیر سوچتا ہے اس کا وبال خود اسی پر پڑتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا دستور ہے کہ برائی کرنے والا خود ہی اس میں پھنس جاتا ہے۔ حضور ﷺ کا فرمان بھی ہے من حقربرا لاخیہ وقع فیہ جو اپنے بھائی کے لیے گڑھا کھودتا ہے وہ خود اس میں گرتا ہے۔ بعض روایات میں منکبا کا لفظ بھی آتا ہے یعنی اوندھے منہ گرتا ہے۔ فارسی کا مقولہ بھی ہے ” چاہ کن را چاہ درپیش “ جو کسی کے لیے برائی سوچتا ہے ، وہ خود ہی اس کا شکار ہوجاتا ہے۔ تین لازمی وقوعات غزوہ خندق کے بعد اللہ تعالیٰ کے حکم سے اہل ایمان نے حضو ر (علیہ السلام) کی قیادت میں بنو قریظہ پر چڑھائی کرکے ان کو مغلوب کیا۔ انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ دفاعی معاہدہ کرنے کے باوجود عہد شکنی کی تھی لہٰذا ان کی سرکوبی ضروری تھی۔ جب وہ مغلب ہوگئے تو انہوں نے حضرت سعد بن معاذ کو اپنا فیصل مقرر کیا جنہوں نے یہ فیصلہ دیا کہ بنو قریظہ کی سزا یہ ہے کہ ان کے تمام بالغ مردوں کو قتل کردیا جائے اور عورتوں اور بچوں کو لونڈی غلام بنالیا جائے۔ یہ فیصلہ حضور نے بھی پسند فرمایا اور کہا کہ یہ فیصلہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق ہے۔ الغرض ! اس فیصلے پر عملدرآمد کرتے ہوئے بنو قریظہ کے تمام بالغ مردوں کو قتل کردیا گیا۔ اس وقت کعب ؓ ایک بچے تھے جو قتل ہونے سے بچ گئے اور بعد میں اسلام قبول کرلیا اور بڑا علم حاصل کیا اور مفسر قرآن شمار ہونے لگے۔ ان کے بیٹے محمد ابن کعب ؓ بھی عظیم مفسر قرآن ہوئے ہیں ان کا قول ہے کہ تین چیزوں کا انجام ضرور واقع ہو کر رہتا ہے فرماتے ہیں کہ پہلی چیزی وہی ہے جو اس آیت کریمہ میں بیان کی گئی ہے کہ جو شخص کسی دوسرے کے لیے بری تدبیر سوچتا ہے وہ خود اس کا شکار بنتا ہے اور دوسری چیز وہ ہے جو قرآن کی اس آیت میں بیان کی گئی ہے کہ یایھا الناس انما بغیکم علی انفسکم (یونس 23) اے لوگو ! تمہاری سرکشی خود تمہارے ہی نفسوں کے خلاف پڑے گی۔ قوانین الٰہی اور حدود شرعی کو توڑنا ہی سرکشی ہے اور دنیا میں اکثر و بیشتر ایسے لوگوں کو سزا مل کر رہتی ہے۔ فرمایا تیسری چیز عہد شکنی ہے کہ اس کا نتیجہ بھی ضرور ظاہر ہوتا ہے فمن نکث فانما ینکث علی نفسہ (الفتح 10) جو کوئی عہد کو توڑتا ہے تو اس کا وبال بھی اسی پر پڑتا ہے اور وہ بھی ذلیل و خوار ہو کر رہتا ہے جیسا کہ بنو قریظہ کا واقعہ بیان ہوا ہے۔ سابقہ لوگوں کے نقش قدم پر فرمایا پہلے تو یہ لوگ کہتے تھے کہ اگر ہمارے پاس کوئی نذیر آتا تو ہم دوسروں سے بڑھ کر اس کی اطاعت کرتے مگر جب اللہ کا نبی بطور نذیر آگیا تو اس کے خلاف تدبیریں سوچنے لگے۔ فرمایا فھل ینظرون الاسنت الاولین کیا یہ لوگ پہلے دنوں کے دستور کا انتظار کر رہے ہیں۔ پہلے لوگوں نے بھی انبیاء کے خلاف بغاوت کی۔ مصلحین اور مبلغین کے خلاف سازشیں کیں تو خدا کی گرفت میں آئے ، اگر یہ بھی انہی لوگوں کے نقش قدم پر چلنا چاہتے ہیں تو فلن تجد لسنت اللہ تبدیلا کہ تم نہیں پائو گے اللہ کے دستور میں کوئی تبدیلی ولن تجد لسنت اللہ تحویلا اور تم اللہ کے دستور میں کوئی تبدیلی۔ ولن تجد لسنت اللہ تحویلا اور تم اللہ کے دستور کو ٹلتے ہوئے بھی نہیں پائو گے۔ مطلب یہ کہ اللہ کا دستور تو یہ ہے کہ جب کوئی قوم بغاوت پر اتر آتی ہے تو پھر وہ اللہ کی گرفت سے بچ نہیں سکتی۔ تاریخ عالم اس بات کی گواہ ہے اسی طرح اگر تم بھی سرکشی سے باز نہ آئے تو اللہ کا دستور محض تمہاری خاطر تو تبدیل نہیں ہوگا۔ اگر تم بھی ایسا کرو گے تو عذاب میں پکڑے جائو گے۔ دنیا کی عدالتوں میں بعض اوقات رشوت یا سفارش کی بنا پر مجرم کی سزا کو ٹال دیا جاتا ہے یا اس میں تخفیف کردی جاتی ہے مگر خدا تعالیٰ کے قانون میں ایسی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ وہ مجرم کو مہلت تو دے دیتا ہے مگر سزا دیے بغیر چھوڑتا نہیں۔ آخر میں اللہ نے بطور نصیحت اور تنبیہہ فرمایا ہے اولم یسیروا فی الارض فینظروا کیف کان عاقبۃ الذین من قبلھم کیا انہوں نے زمین میں چل پھر کر نہیں دیکھا کہ ان سے پہلے لوگوں کا کیا انجام ہوا۔ وکانوا اشد منھم قوۃ وہ تو طاقت میں ان سے بھی زیادہ تھے۔ پرانی قوموں کے حالات پڑھیں اور ان کے آثار دیکھیں تو پتہ چل جائے گا کہ ان کی سرکشی کا کیا انجام ہوا۔ مصر کے فرعون ، بابل کے آشوری اور کلدانی ، عاد اور ثمود بڑے بڑے طاقتور اور ملک و خزانوں کے مالک تھے یونان میں سکندر جیسے فاتح عالم بھی ہوئے ہیں۔ پچھلی سورة میں گزرچکا ہے کہ عرب والوں کو تو سابقہ اقوام کا عشر عشیر بھی نہیں ملا ، یہ کس بات پر اترا رہے ہیں اور کس غرور میں مبتلا ہیں۔ اگر وہ اتنے طاقتور اور جاہ و حشمت کے مالک اپنی سرکشی کی وجہ سے نابود ہوگئے تو یہ کس باغ کی مولی ہیں کہ ہمیشہ قائم رہیں گے ، جب اللہ کی گرفت آئے گی تو صفحہ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹا دیئے جائیں گے۔ فرمایا جب اللہ تعالیٰ کسی کام کا ارادہ کرتا ہے تو پھر اس کے راستے میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں ہوسکتی وما کان اللہ لیتجزہ من شئی فی السموت ولا فی الارض اور اللہ تعالیٰ ایسا نہیں ہے کہ آسمان و زمین کی کوئی چیز اسے عاجز کردے اور وہ اپنے ارادے اور مشیت کو پیاہ تکمیل تک نہ پہنچا سکے۔ واللہ بکل شئی علیم (البقرہ 282) اللہ تعالیٰ ہر شے کا علم رکھتا ہے ، وہ ذرہ ذرہ کو جانتا ہے واللہ علی کل شئی قدیر (البقرہ 284) اور وہ ہر چیز پر قدرت بھی رکھتا ہے ، لہٰذا اس کے ارادے کو کوئی نہیں بدل سکتا۔ چناچہ جب وہ کسی قوم کو پکڑنے پر آتا ہے تو پھر کوئی بھی چیز خواہ وہ آسمان کے کناروں یا زمین کے کسی گوشے میں ہو ، اللہ کی مشیت کے راستے میں رکاوٹ نہیں بن سکتی ، بلکہ کام ہو کر رہتا ہے۔ فرمایا انہ کان علیما قدیرا بیشک اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا ہے اور ہر چیز اسی کے قبضہ قدرت میں ہے وہ جب چاہے گا سرکشوں کو پکڑلے گا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مہلت اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے خبردار کیا ہے ولو یواخذ اللہ الناس بما کسبوا اگر اللہ تعالیٰ لوگوں سے ان کی کردرگی کے متعلق مواخذہ کرے ماترک علی ظھرھا من دابۃ تو زمین پر چلنے پھرنے والے کسی جاندار کو نہ چھوڑے۔ ہر جاندار سے کوئی نہ کوئی غلطی تو ضرور ہوجاتی ہے جب کہ انسان تو بےتحاشا مغرور اور مفتون ہیں ، معاصی کا ارتکاب کرتے ہیں اور ان کی اکثریت کفر اور شرک کا ارتکاب کرتی ہے تو فرمایا اگر ان کی کر ترتوں کے صلہ میں اللہ تعالیٰ ان سے مواخذہ کرنا چاہتے تو کوئی بھی جاندار بچ نہ سکے اور سب پکڑے جائیں۔ ولکن یوخرھم الی اجل مسمی مگر اللہ تعالیٰ انہیں مقررہ وقت تک مہلت دیتا رہتا ہے۔ یہ اس کا دستور ہے اس نے ہر چیز کے لیے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے۔ اس سے آگے پیچھے نہیں ہوتا ، جس طرح انسان کی زندگی کے ایمام مقرر ہیں اسی طرح بحیثیت مجموعی پورے جہان کے لیے ایک وقت مقرر ہے۔ جب وہ مہلت پوری ہوجائے گی تو سارا نظام ختم ہوجائے گا اور پھر نیا نظام قائم ہوگا۔ اور انسانی زندگی کا محاسبہ شروع ہوجائے گا۔ دنیا میں جب انسانوں کی سرکشی حد سے بڑھ جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ ایک خاص وقت تک ڈھیل دیتا رہتا ہے ، پھر جب وہ مدت پوری ہوجاتی ہے تو اللہ کی گرفت سیلاب کی طرح یکدم وارد ہوجاتی ہے اور پھر کوئی عذر نہیں سنا جاتا۔ یہ تو دنیا کا ادنیٰ عذاب ہوتا ہے۔ آخرت کا بڑا عذاب تو آگے ہے۔ اللہ نے اعلان فرما دیا ہے ولندیقنھم من العذاب الادنی دون العذاب الاکبر لعلھم یرجعون (السجدۃ 21) بڑے عذاب سے پہلے ہم انہیں دنیا کا کم ترعذاب بھی چکھاتے ہیں تاکہ وہ حقیقت کی طرف لوٹ آئیں۔ اس کے باوجود بعض لوگ دنیا کی زندگی میں بچے بھی رہتے ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ سزا ان سے ٹل جاتی ہے۔ بلکہ واملی لھم ان کیدی متین (القلم 45) انہیں مہلت دی جاتی ہے اور میری تدبیر بڑی مضبوط ہے جو خطا نہیں جاتی۔ فرمایا فاذا جاء اجلھم جب ان کا مقررہ وقت آجائے گا۔ فان اللہ کان بعبادہ بصیرا تو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے حالات کو دیکھ رہا ہے اسے ہر چیز کا علم ہے اور ہر شخص کے عقائد و اعمال کے مطابق ہی اس کے ساتھ سلوک کرے گا۔ انسان اس کی گرفت سے بچ نہیں سکتے۔
Top