Ruh-ul-Quran - Al-Hajj : 67
وَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَیْمَانِهِمْ لَئِنْ جَآءَهُمْ نَذِیْرٌ لَّیَكُوْنُنَّ اَهْدٰى مِنْ اِحْدَى الْاُمَمِ١ۚ فَلَمَّا جَآءَهُمْ نَذِیْرٌ مَّا زَادَهُمْ اِلَّا نُفُوْرَاۙ
وَاَقْسَمُوْا : اور انہوں نے قسم کھائی بِاللّٰهِ : اللہ کی جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ : اپنی سخت قسمیں لَئِنْ : اگر جَآءَهُمْ : ان کے پاس آئے نَذِيْرٌ : کوئی ڈرانے والا لَّيَكُوْنُنَّ : البتہ وہ ضرور ہوں گے اَهْدٰى : زیادہ ہدایت پانے والے مِنْ اِحْدَى : ہر ایک سے الْاُمَمِ ۚ : امت (جمع) فَلَمَّا : پھر جب جَآءَهُمْ : ان کے پاس آیا نَذِيْرٌ : ایک نذیر مَّا زَادَهُمْ : نہ ان (میں) زیادہ ہوا اِلَّا : مگر۔ سوائے نُفُوْرَۨا : بدکنا
اور انھوں نے اللہ کی کڑی کڑی قسمیں کھائیں کہ اگر ان کے پاس کوئی خبردار کرنے والا آیا تو وہ ہر امت سے زیادہ ہدایت اختیار کرنے والے بنیں گے، پس جب ان کے پاس خبردار کرنے والا آگیا تو اس کی آمد سے ان میں کوئی اضافہ نہ ہوا، مگر بےزاری میں
وَاَقْسَمُوْا بِاللّٰہِ جَھْدَ اَیْمَانِہِمْ لَئِنْ جَآئَ ھُمْ نَذِیْرٌ لَّیَکُوْنُنَّ اَھْدٰی مِنْ اِحْدَی الْاُمَمِ ج فَلَمَّا جَآئَ ھُمْ نَذِیْرٌ مَّا زَادَھُمْ اِلاَّ نُفُوْرَانِ ۔ اسْتِکْبَارًا فِی الْاَرْضِ وَمَکْرَالسَّیِّیِٔ ط وَلاَ یَحِیْقُ الْمَکْرُ السَّیِیُٔ اِلاَّ بِاَھْلِہٖ ط فَھَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلاَّ سُنَّتَ الْاَوَّلِیْنَ ج فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَبْدِیْلاً 5 ج وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَحْوِیْلاً ۔ (فاطر : 42، 43) (اور انھوں نے اللہ کی کڑی کڑی قسمیں کھائیں کہ اگر ان کے پاس کوئی خبردار کرنے والا آیا تو وہ ہر امت سے زیادہ ہدایت اختیار کرنے والے بنیں گے، پس جب ان کے پاس خبردار کرنے والا آگیا تو اس کی آمد سے ان میں کوئی اضافہ نہ ہوا، مگر بےزاری میں۔ زمین میں تکبر میں اور بری چال چلنے میں، حالانکہ بری چال اسی کو گھیرتی ہے جو بری چال چلتا ہے، پس یہ انتظار نہیں کررہے، مگر پچھلی قوموں کے ساتھ سنت الٰہی کا، پس سنت الٰہی میں کوئی تبدیلی نہیں پائو گے، اور نہ تم سنت الٰہی کو ٹلتے ہوئے پائو گے۔ ) قریش کا اپنی روایت سے انحراف اور اس کا سبب قریش اور دیگر مخالفین جس طرح آنحضرت ﷺ کی مخالفت اور اذیت رسانی میں اندھے ہوتے جارہے تھے اور ان تمام اقدار کو بھی پامال کرتے جارہے تھے جو اہل مکہ میں عام طور پر مروج تھیں اور سخت مخالفت میں بھی جن کا عموماً لحاظ رکھا جاتا تھا۔ تو قرآن کریم نے انھیں ان کے رویے پر توجہ دلاتے ہوئے ان کی سرگزشت کا ایک ورق الٹ کر انھیں دکھایا ہے کہ بہت دور کی بات نہیں تم جب یہود کو دیکھتے تھے کہ وہ تمہارے بارے میں نہایت توہین آمیز رویہ رکھتے ہیں۔ اور تمہارے ساتھ ہر زیادتی کو وہ اپنے تئیں حلال کرچکے ہیں۔ تو تم آپس میں ہمیشہ بڑی بلند آہنگی سے یہ بات کہا کرتے تھے کہ اگر ہمارے اندر کوئی خبردار کرنے والا یعنی کوئی رسول مبعوث ہوگیا تو ہم ان یہود کی طرح بودے اور بےہمت ثابت نہیں ہوں گے بلکہ ہم آگے بڑھ کر اس کے دامن سے اس طرح وابستہ ہوجائیں گے کہ دنیا دیکھے گی کہ ہم دوسری قوموں سے بڑھ کر ہدایت یافتہ ہیں۔ لیکن کس قدر شرم کی بات ہے کہ اہل عرب تو ہمیشہ قول کے پکے سمجھے جاتے تھے لیکن تم نے تو اپنی تاریخی روایات کو مٹی میں ملا دیا۔ اللہ تعالیٰ کا عظیم رسول نذیر بن کر تمہارے اندر آگیا ہے لیکن بجائے اس کے کہ تم اپنے دعوئوں کے مطابق اس پر ایمان لاتے اور سب سے زیادہ ہدایت یافتہ ثابت ہوتے۔ تم اس کے آنے کے بعد اس کا راستہ روکنے اور اس کے دین کو مٹانے کے درپے ہوگئے ہو۔ تمہارے اندر اس کے دین سے بےزاری اور اس کی دعوت سے گریز اس حد تک بڑھا کہ تم نے بری سے بری چال بھی اس کے خلاف چلنے سے گریز نہیں کیا۔ اور شب و روز تمہیں اس کے سوا کوئی کام نہ رہا کہ آنحضرت ﷺ ، آپ کے صحابہ اور آپ کے دین کو مٹانے کے لیے جو تم سے بن پڑے اس سے دریغ نہ کیا جائے۔ دوسری آیت میں قریش نے اپنے دعوے کے خلاف جو رویہ آنحضرت ﷺ اور آپ کی دعوت کے متعلق اختیار کیا ہے اس کا حقیقی سبب بیان فرمایا گیا ہے کہ قریش اور دیگر مخالفین اتنے گئے گزرے نہیں کہ وہ آنحضرت ﷺ کے بلند سیرت و کردار کے اعتراف اور قرآن کریم کی معجزانہ شان کے سامنے سپرانداز ہونے کے باوجود آپ کی دعوت کی صداقت کو نہ جانچ سکیں۔ وہ دلوں ہی میں نہیں اپنی نجی مجلسوں میں بھی اقرار کرتے تھے کہ محمد (e) جو کچھ کہہ رہے ہیں، وہ غلط نہیں۔ کیونکہ انھوں نے زندگی بھر کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ اور پھر جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں اس کی صداقت اور افادیت میں شبہ کرنا آسان نہیں۔ لیکن ہمارے لیے مشکل یہ ہے کہ ہمیں مکہ معظمہ اور عرب بھر میں بیت اللہ کے متولی ہونے اور قریشی ہونے کی حیثیت سے جو حقوق و مراعات حاصل ہیں اور جس حیثیتِ عرفی کے ہم مالک بن چکے ہیں اس دین کو قبول کرلینے سے یہ سب کچھ چھوڑنا لازم ہوجائے گا۔ ہم امت مسلمہ کے چھوٹے سے چھوٹے آدمی کے برابر تصور کیے جائیں گے۔ ہمارے حسب و نسب کی عظمتیں خاک میں مل جائیں گی صرف ہمارے کردار کی عظمت دیکھی جائے گی۔ ہمارے خاندانی حوالے ختم ہوجائیں گے۔ اللہ تعالیٰ کے دین کی خدمات کا حوالہ معتبر سمجھا جائے گا۔ اور اسی سے ہماری حیثیت کا تعین ہوگا اور یہ چیز ہمارے لیے کسی طرح قابل قبول نہیں۔ ہم اپنی وجاہت و عظمت اور سیادت و ریاست کو اپنے ہاتھوں کیسے آگ لگا دیں۔ یہ وہ استکبار تھا جس نے انھیں اسلام سے دور رکھا۔ اور اپنی اس نام نہاد حیثیتِ عرفی اور عظمت کو بچانے کے لیے انھوں نے صرف چالیں ہی نہیں چلیں بلکہ بدترین تدبیروں سے کام لیا۔ جس میں وہ عربی روایات کو بھی ملحوظِ خاطر نہ رکھ سکے۔ ” مکر “ چونکہ اچھے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اس وجہ سے اس کے ساتھ سَیِّیُٔ کے لفظ کا اضافہ کرکے ” مکر “ کی نوعیت کو واضح فرما دیا ہے جس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ دشمنی کی بھی کچھ حدود ہیں لیکن ان لوگوں نے اسلام کی دشمنی میں کسی حد کو ملحوظ نہیں رکھا۔ لیکن انھیں اس بات کا احساس نہیں کہ یہاں معاملہ افراد کی یا قبیلوں کی دشمنی کا نہیں بلکہ حق و باطل کی کشمکش کا ہے جسے انھوں نے دشمنی کا رنگ دے دیا ہے اور حق کے خلاف جب بھی کبھی کسی نے سازش کی ہے تو وہ خود ہمیشہ اس کا نشانہ بنا ہے۔ کیونکہ جیسے جیسے وہ دشمنی میں آگے بڑھتا جاتا ہے ویسے ویسے وہ حق سے دور ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس کے بنے ہوئے جال میں کوئی دوسرا پھنسے یا نہ پھنسے، لیکن وہ اپنی ہلاکت کا سامان یقینا کرلیتا ہے۔ لیکن بعض لوگوں نے قلت فکر کی بنیاد پر یہ سوال اٹھایا ہے کہ دنیا میں بہت دفعہ یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ بعض دفعہ بری تدبیر کرنے والے کی تدبیر چل جاتی ہے۔ اور جس کو نقصان پہنچانا ہوتا ہے اس کو نقصان پہنچ جاتا ہے۔ تو قرآن کریم کا یہ کہنا کہ تدبیر ہمیشہ صاحب تدبیر پر الٹتی اور اس کو نشانہ بناتی ہے، یہ تو مشاہدے کے خلاف معلوم ہوتا ہے۔ لیکن جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ عام دشمنیوں کے حوالے سے یہ بات کسی حد تک قابل لحاظ ہوسکتی ہے لیکن حق و باطل کی کشمکش میں ایسا کبھی نہیں ہوتا۔ جو حق کے لیے نقصان اٹھاتے ہیں اور کبھی اس پر قربان ہوجاتے ہیں وہ بھی نقصان میں نہیں رہتے بلکہ کامیابی ان کے قدم چومتی ہے اور تاریخ انھیں ہمیشہ سلام کرتی ہے۔ اور بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ بےگناہ کے خلاف تدبیر کرنے اور اس پر ظلم کرنے کا وبال ظالم پر اکثر دنیا میں بھی پڑجاتا ہے۔ محمد بن کعب قرظی کا قول ہے کہ تین کام ایسے ہیں جن کا کرنے والا دنیا میں بھی وبال و عذاب سے نہیں بچتا۔ ایک کسی بےگناہ کے حق میں بری تدبیر کرکے اسے ایذا پہنچانا، دوسرے عام ظلم، تیسرے عہد شکنی۔ (ابنِ کثیر) خصوصاً کسی ایسے شخص پر اگر ظلم کیا جائے جو بےکس اور بےبس ہو، انتقام پر قدرت نہ رکھتا ہو یا باوجود قدرت انتقام کے صبر کرے اس پر ظلم کے وبال سے دنیا میں بھی کسی کو بچتے نہیں دیکھا۔ قریش برے انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں آخر میں فرمایا گیا ہے کہ قریش اور دیگر اہل مکہ نے اپنی غیرشریفانہ مخالفت کو اس حد تک پہنچا دیا ہے کہ اب شاید وہ سنت الاولین کا انتظار کررہے ہیں۔ یعنی جس طرح پہلی عذاب کا شکار ہونے والی قومیں اللہ تعالیٰ کے خوف سے بےنیاز ہو کر اور اللہ تعالیٰ کے عذاب کو نظرانداز کرکے اللہ تعالیٰ کے نبی کے قتل کے منصوبے باندھنے لگی تھیں اور ان پر ایمان لانے والے ان کے لیے ناقابلِ برداشت ہوگئے تھے تو پھر اللہ تعالیٰ کا قانون حرکت میں آیا جو ہر ایسی امت کے بارے میں اپنا کام کرتا رہا ہے۔ یہاں سنت الاولین سے مراد درحقیقت سنت اللہ فی الاولین ہے۔ اور وہ اللہ تعالیٰ کی سنت یہی ہے کہ ایسی قومیں تباہ کردی جاتی ہیں۔ یہ لوگ بھی شاید یہی چاہتے ہیں کہ وہ بھی اپنے انجام کو پہنچ جائیں۔ کاش انھیں اس بات کی خبر ہوتی کہ اللہ تعالیٰ کا قانونِ عدل بےلاگ ہے۔ اس میں نہ کبھی تبدیلی آتی ہے اور نہ کبھی اس کے ظہور میں تاخیر ہوتی ہے۔ اگر انھوں نے اپنی روش نہ بدلی تو اے پیغمبر آپ پریشان نہ ہوں آپ دیکھیں گے کہ اللہ تعالیٰ کی وہ سنت بروئے کار آئے گی۔ اس نے جس طرح قوم عاد اور قوم ثمود کے ساتھ معاملہ کیا وہی معاملہ ان کے ساتھ بھی کیا جائے گا۔ کیونکہ اس سنت کو بدلنے والا کوئی نہیں۔ اسی طرح جب اس کے ظہور کا وقت آئے گا تو وہ لازماً ظہور میں آکر رہے گی۔ کیونکہ اس کو ٹالنا کسی کے بس میں نہیں۔
Top