Tadabbur-e-Quran - Faatir : 42
وَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَیْمَانِهِمْ لَئِنْ جَآءَهُمْ نَذِیْرٌ لَّیَكُوْنُنَّ اَهْدٰى مِنْ اِحْدَى الْاُمَمِ١ۚ فَلَمَّا جَآءَهُمْ نَذِیْرٌ مَّا زَادَهُمْ اِلَّا نُفُوْرَاۙ
وَاَقْسَمُوْا : اور انہوں نے قسم کھائی بِاللّٰهِ : اللہ کی جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ : اپنی سخت قسمیں لَئِنْ : اگر جَآءَهُمْ : ان کے پاس آئے نَذِيْرٌ : کوئی ڈرانے والا لَّيَكُوْنُنَّ : البتہ وہ ضرور ہوں گے اَهْدٰى : زیادہ ہدایت پانے والے مِنْ اِحْدَى : ہر ایک سے الْاُمَمِ ۚ : امت (جمع) فَلَمَّا : پھر جب جَآءَهُمْ : ان کے پاس آیا نَذِيْرٌ : ایک نذیر مَّا زَادَهُمْ : نہ ان (میں) زیادہ ہوا اِلَّا : مگر۔ سوائے نُفُوْرَۨا : بدکنا
اور انہوں نے اللہ کی پکی پکی قسمیں کھائیں کہ اگر ان کے پاس کوئی نذیر آیا تو وہ ہر امت سے زیادہ ہدایت اختیار کرنے والے بنیں گے۔ پس جب ان کے پاس ایک نذیر آیا تو اس چیز نے، زمین میں ان کے تکبر کے باعث، ان کی بیزاری اور ان کی بری چالوں ہی میں اضافہ کیا۔
آیت 42 اہل ِ عرب چونکہ امی یعنی کتاب و شریعت سے ناآشنا تھے اس وجہ سے اہل کتاب بالخصوص یہود ان کو حقیر خیال کرتے تھے۔ یہاں تک کہ ان کے علماء نے یہ فتویٰ دے رکھا تھا کہ ان امیوں کی امانت ہڑپ کر جانے اور ان سے سود لینے میں ان کے لئے کوئی قباحت نہیں ہے۔ آیت ’ لیس علینا فے الامیین سبیل ‘ کے تحت ہم ان خانہ زاد فتوئوں کا حوالہ دے چکے ہیں۔ مشرکین جب یہود کی اس طرح کی باتیں سنتے تو فطری طور پر ان کے اندر ایک قسم کا احساسِ کمتری پیدا ہوتا اور وہ ان کے جواب میں قسمیں کھا کے، بڑے طنطنہ کے ساتھ، یہ کہتے کہ اگر ہمارے اندر کسی رسول کی بعثت ہوئی تو ہم دوسرے تمام قوموں سے زیادہ ہدایت یافتہ قوم بن کے دکھا دیں گے۔ یہ امر یہاں واضح رہے کہ سابق صحیفوں میں آخری رسول کی بعثت سے متعلق جو پشین گوئیاں وارد ہیں ان میں، جیسا کہ تفسیر سورة اعراف میں ہم واضح کرچکے ہیں، نہایت صریح الفاظ میں یہ بات موجود ہے کہ اس رسول کی بعثت بنی اسماعیل (امیوں) میں ہوگی۔ علمائے یہود اگرچہ یہ بات چھپاتے تھے لیکن ان کے اندر ایسے علماء بھی تھے، خاص طور پر نصاری میں، جو امیوں کے اندر ایک رسول کی بعثت کے منتظر تھے۔ چناچہ قرآن نے آیت ’ واذ سمعوا لایۃ (المائدۃ : 83) میں اس کا نہایت شاندار الفاط میں حوالہ دیا ہے۔ اس قسم کے علماء کے ذریعے سے بنی اسماعیل کے اندر بھی یہ روایت موجود تھی کہ ان کے اندر ایک رسول کی بعثت ہونیوالی ہے اور وہ یہود کے مقابل میں اس کا اظہار بھی کرتے رہتے تھے کہ اگر ہمارے اندر کسی رسول کی بعثت ہوئی تو ہم تمہاری طرح کمزور اور بودے ثابت نہیں ہوں گے بلکہ ہدایت قبول کرنے کے معاملے میں سب پر بازی لے جائیں گے۔ ان کی اسی بات کی یاددہانی کرتے ہوئے قرآن نے ان کے حال پر اظہار افسوس کیا ہے کہ پہلے تو بہت بڑھ چرھ کر آنے والے رسول کی حمایت و نصرت کے دعوے کرتے رہے لیکن جب وہ آیا تو ان کی ہدایت میں اضافہ ہونے کے بجائے ان کی نفرت کے دعوے کرتے رہے لیکن جب وہ آیا تو ان کی ہدایت میں اضافہ ہونے کے بجائے ان کی نفرت و بیزاری میں اضافہ ہوا۔ ان کے اس رویے کا ذکر سورة صافات میں بھی ہوا ہے۔ فرمایا ہے۔ وان کانو لیقولون۔ لو ان عندنا ذکر امن الاولین لکنا عباد اللہ المخلصین فکروا بہ فسوف یعلمون (الصفت : 67 : 170) اور بیشک یہ لوگ کہتے رہے ہیں کہ اگر ہمارے پاس اگلوں کی کوئی یاددہانی ہوتی تو ہم خدا کے مخصوص بندوں میں سے ہوتے تو انہوں نے اس کا انکار کردیا تو وہ جلد جان لیں گے۔
Top