Mualim-ul-Irfan - Az-Zukhruf : 63
وَ لَمَّا جَآءَ عِیْسٰى بِالْبَیِّنٰتِ قَالَ قَدْ جِئْتُكُمْ بِالْحِكْمَةِ وَ لِاُبَیِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِیْ تَخْتَلِفُوْنَ فِیْهِ١ۚ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ
وَلَمَّا جَآءَ : اور جب لائے عِيْسٰى : عیسیٰ بِالْبَيِّنٰتِ : کھلی نشانیاں قَالَ : اس نے کہا قَدْ جِئْتُكُمْ : تحقیق میں لایاہوں تمہارے پاس بِالْحِكْمَةِ : حکمت وَلِاُبَيِّنَ : اور تاکہ میں بیان کردوں لَكُمْ : تمہارے لیے بَعْضَ الَّذِيْ : بعض وہ چیز تَخْتَلِفُوْنَ فِيْهِ : تم اختلاف کرتے ہو جس میں فَاتَّقُوا اللّٰهَ : پس ڈرو اللہ سے وَاَطِيْعُوْنِ : اور اطاعت کرو میری
اور جب آئے عیسیٰ (علیہ السلام) واضح نشانیوں کے ساتھ تو کہا انہوں نے تحقیق لایا ہوں میں تمہارے پاس حکمت ، اور تاکہ میں بتلائو تم کو بعض وہ چیزیں جن میں تم اختلاف کرتے ہو پس ڈر جائو اللہ تعالیٰ سے اور میری اطاعت کرو
توحید ، رسالت اور معاد کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر کیا مشرکین کا اعتراض یہ تھا کہ اگر عابد اور معبودان باطلہ سب جہنم میں جائیں گے تو پھر مسیح (علیہ السلام) کا کیا بنے گا کیونکہ ان کی بھی تو لوگ پرستش کرتے ہیں۔ اسی طرح ملائکہ کے پجاری بھی ہیں اور مذکورہ اصول کے تحت ان کو بھی سزا ملنی چاہئے۔ اللہ نے جواباً فرمایا کہ یہ جھگڑالو لوگ ہیں۔ نہ تو یہ حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ ہی انصاف سے کام لیتے ہیں۔ ملائکہ اور عیسیٰ (علیہ السلام) نے تو کبھی لوگوں کو اپنی پرستش کا حکم نہیں دیا۔ لہٰذا ان کے صرف عابد جہنم میں جائیں گے ، انہوں نے تو ہمیشہ لوگوں کو کفر اور شرک سے بچنے کی تلقین کی ۔ یہ لوگ محض جھگڑا کرنے کی خاطر ایسی باتیں کرتے ہیں۔ حضو رعلیہ الصلوۃ والسلام کا فرمان بھی ہے کہ جب لوگ حقیقت کو چھوڑ دیتے ہیں تو پھر جھگڑے میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے گزشتہ درس کی آیات میں مسیح علیہ اسللام کی پوزیشن واضح کی کہ وہ تو ہمارا بندہ ہے جس پر ہم نے انعام کیا ۔ آپ کو نبوت و رسالت سے سرفراز فرمایا اور آپ کو بلند حیثیت عطا فرمائی اور آپ کو بنی اسرائیل کے لئے نمونہ بنایا۔ آپ قرب قیامت کی نشانیوں میں سے ہیں جب دوبارہ زمین پر نازل ہوں گے تو لوگ سمجھ جائیں گے کہ اب قیامت آنے والی ہے۔ فرمایا قیامت کے بارے میں شک نہ کرنا ، میرا اتباع کرو کہ یہی سیدھا راستہ ہے۔ کہیں شیطان تمہیں اس صراط مستقیم سے بہکانہ دے۔ مسیح (علیہ السلام) کی بعثت گزشت ہدرس میں عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق دو باتوں کا ذکر ہوچکا ہے۔ ایک یہ کہ آپ کو بنی اسرائیل کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا اور آپ قیامت کی نشانی ہیں۔ اب تیسری بات یہ بیان ہو رہی ہے ولما جآء عیسیٰ بالبینت جب عیسٰی (علیہ السلام) واضح نشانیاں لے کر دنیا میں آنے قال قدجئتکم بالحکمۃ تو فرمایا کہ میں تمہارے پاس حکمت لے کر آیا ہوں۔ اس بات کا تعلق آپ کی بعثت کے مقصد سے ہے۔ آپ امت کے لئے واضح نشانیاں لائے بینات کا اطلاق معجزات پر بھی ہوتا ہے اور دلائل اور احکام پر بھی۔ اللہ تعالیٰ نے انجیل کے ذریعے آپ پر احکام بھی نازل فرمائے اور دلائل بھی سمجھائے اور ساتھ ساتھ بےمثال معجزات بھی عطا کئے۔ پھر خاص طور پر حکمت کا ذکر کیا کہ میں تمہارے لئے حکمت بھی لایا ہوں۔ حکمت کا عام معنی دانائی کی باتیں ہیں یعنی ایسی پکی باتیں جن میں کسی قسم کا نقصن ہ پایا جاتا ہو حکمت ایک ایسی عظیم چیز ہے جس کے متعلق خود خدا تعالیٰ کا ارشاد ہے یوتی الحکمۃ من یشآء ومن یوت الحکمۃ فقد اوتی خیراً کثیر (البقرۃ 269- ) اللہ تعالیٰ جس کو چاہے حکمت عطا کرے اور جس کو حکم دے دی گئی ، اس کو بہت بہتری عطا ہوگئی۔ امام مالک فرماتے ہیں کہ حکمت سے مراد دین کو سمجھنا اور اس کا اتباع کرنا ہے یعنی معرفۃ الدین والفقہ فیہ دین کی معرفت رکھنے الا آدمی ہی صحیح معنوں میں دانا یا دانشور ہے نہ کہ جھوٹی کہانیاں اور ڈرامے لکھنے والا سورة احزاب میں اللہ نے ازواج مطہرات کو خطاب کر کے فرمایا ہے واذکرن مایتلی فی بیوتکن من ایت اللہ والحکمۃ (آیت 34- ) اور یاد کرو جو تمہارے گھروں میں اللہ کی آیتیں اور حکمت پڑھی جاتی ہے۔ حکم سے مراد حضور ﷺ کی سنت مطہر ہے جس پر آپ اپنی زندگی بھر عمل پیرا رہے بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ حکیم سے مراد وہ عقلمند اور دانا آدمی ہے جو حقائق کو سمجھتا حق و باطل میں امتیاز کرسکتا ہو اور دین کے اصولوں اور اس کی مصلحتوں پر عبور رکھتا ہو۔ بعض حکمت کا مفہوم یہ بتلاتے ہیں کہ افضل الاشیاء کو افضل العلوم کے ذریعے جاننا حکمت ہے۔ افضل چیز اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اس کی صفات اس کے اسمائے مبارکہ اور اس کی توحید ہیں اور افضل العلم وہ علم حضور ہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی تجلیات کی روشنی میں حاصل ہوتا ہے ۔ اسی طرح شیطان کی مکاریوں کی پہچان کو بھی حکمت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ بہرحال عیسیٰ نے کہا کہ میں تمہارے پاس حکمت لے کر آیا ہوں۔ اختلافی ہو کی وضاحت پھر آپ نے چوتھی بات یہ فرمائی ولا بین لکم بعض الذی تختلفون فیہ اور تاکہ میں تمہیں بعض وہ باتیں بتلا دوں جن میں تم اختلاف کرتے ہو مختلف شرائع میں بعض احکام تبدیل ہوتے رہے ہیں چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت کی بعض چیزوں میں ترمیم کردی گئی اور بعض کو منسوخ کردیا گیا اور ان کی جگہ نئے احکام نازل ہوئے اسی طرح عیسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت میں شریعت موسوی کی بعض حرام چیزوں کو حلال قرار دے دیا گیا۔ سورة آل عمران میں جہاں عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے فرائض منصبی کا ذکر کیا ہے وہاں یہ بھی فرمایا کہ میری بعثت کا ایک مقصد یہ بھی ہے ولا جآء لکم بعض الذی حرم علیکم (آیت 50- ) تاکہ میں اللہ کے حکم سے تم پر بعض وہ چیزیں حلال کردوں جو پہلے تم پر حرم تھیں۔ بہرحال یہاں پر بعض اختلافی امور کا ذکر ہے کیونکہ مختلف شرائع میں تمام احکام یکسر نہیں بدل دیئے جاتے بلکہ ان میں سے بعض احکام کو تبدیل کیا جاتا ہے جن کی خاص مصلحت ہوتی ہے۔ اس حصہ آیت سے یہ بات بھی مترشح ہوتی ہے کہ انسان کے دین ، اخلاق اور عمل سے متعلق امور کی وضاحت ہر نبی کے فرائض منصبی میں شامل رہی ہے۔ البتہ تمام دنیوی امور کے متعلق وضاحت کرنا نبی کے لئے ضروری نہیں کیونکہ یہ کام لوگ اپنی عقل اور تجربے کے ذریعے سمجھتے ہیں اور ان کو انجام دیتے ہیں۔ نبی (علیہ السلام) کا فرمان بھی ہے انتم اعلم بامور دنیاکم یعنی دنیا کے معاملات تم بہت رسمجھتے ہو۔ لہٰذا مجھے بتلانے کی چنداں ضروتر نہیں۔ بہرحال عیسیٰ علیہ اسللام نے بھی فرمایا کہ میرے لئے ضروری ہے کہ میں تمہارے درمیانی اختلافی امور کو کھول کر بیان کر دوں۔ تمہارے عمل ، اخلاق ، اصول اور عبادات میں جو خرابیاں پیدا ہوگئیں ہیں ان کو بیان کر دوں۔ عیسیٰ کی تعلیمات آپ نے قوم کو یہ تعلیم بھی دی فاتقرا اللہ وطیعون اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور میری بات مانو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کا یہ مطلب ہے کہ انسان کفر ، شرک ، کبائر صغائر اور خدا کی نافرمانی سے بچ جائے اور ان کی اطاعت دراصل اللہ کی اطاعت ہے من یطع الرسول ……(النسآء 80- ) جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے حقیقت میں اللہ ہی کی اطاعت کی۔ لہٰذا بنی کی اطاعت فرض ہے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے تو فرمایا تھا ا ن اللہ ھو ربی و ربکم بیشک میرا اور تمہارا پروردگار اللہ ہے۔ ربوبیت کا معنی کسی چیز کو بتدریج حد کمال تک پہنچانا ہونا ہے اور اس کا سب سے بڑا مظہر خود انسان ہے جس کی تخلیق کے مختلف مراحل ، اس کے بچپن ، جوانی اور پھر بڑھاپے کا ذکر اللہ نے قرآن کے مختلف مقامات پر کیا ہے۔ انسان خود اپنے وجود پر ہی نظر ڈال لے تو اسے اللہ تعالیٰ کی ربوبیت سمجھ میں آسکتی ہے۔ اس کے علاوہ ہر چھوٹی سے چھوٹی چیز سے لے کر بڑے بڑے حیوانات ، نباتات ، جمادات در مع دنیات ہر چیز کو حد کمال تک پہنچانا صرف اللہ تعالیٰ کا کام ہے اور اس صفت میں اس کا کوئی شریک نہیں۔ جب ہر چیز کا رب وہی ہے فاعبدوہ تو پھر عبادت بھی اسی کی کرو۔ اس میں کسی دوسرے کو شریک نہ کرو ھذا صراط مستقیم یہی سیدھا راستہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر قسم کے شرک سے پاک ہے۔ نہ اس کی ربوبیت میں کوئی شریک ہے ، نہ خالقیت میں اور نہ الوہیت میں سورة مائدہ میں اللہ تعالیٰ نے مسیح (علیہ السلام) کا یہ قول نقل کیا ہے انہ من یشرک باللہ فقد حرم اللہ علیہ الجنۃ (آیت 72- ) جس نے اللہ کے ساتھ شرک کیا اس پر اللہ نے جنت کو حرام کردیا اور اس کا ٹھکانا دوزخ میں ہوگا۔ غرضیکہ عیسیٰ (علیہ السلام) جب اس دنیا میں رہے لوگوں کو صراط مستقیم کی طرف ہی دعوت دیتے رہے۔ دین میں فرق بندی اس دعوت کے جواب میں فاختلف الاحزاب من بینھم مختلف گروہوں نے آپ س میں اختلاف کرلیا۔ مسیح (علیہ السلام) کی قوم بنی اسرائیل کے کئی فرقے بن گئے۔ یہودیوں نے تو سرے سے مسیح (علیہ السلام) کی نبوت و رسالت کا ہی انکار کردیا۔ ان کو دجال کہا اور ان کی جان کے در پے ہوگئے حتی کہ ان کو سولی پر لٹکانے کی کوشش کی۔ ان کی بدبختی کا یہ حال تھا کہ جب آپ سولی کندھے پر اٹھانے سولی کے مقام کی طرف جا رہے تھے تو ان ظالموں نے آپ کے منہ پر تھوکا اور سا طرح آپ کی تذلیل میں کوئی کسر نہ چھوڑی ادھر نصاریٰ نے حضرت مسیح (علیہ السلام) کی نبوت کا اقرار تو کیا مگر جلدی ہی ان کی تعداد میں کمی آنے لگی اور غلط کار لوگ دنیا میں پھیلنے لگے۔ پولس نے اللہ کی صاحب کتاب و شریعت نبی کے متعلق غلط عقائد وضع کئے۔ آپ کی محبت میں اس قدر غلو کیا کہ آپ کو خدا کا بیٹا قرار دے دیا کسی ذمے نے تینوں میں تیسرا خدا مانا اور کسی نے کہا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) ہی خدا ہیں۔ اللہ نے ان سب عقائد کی نفی کی اور فرمایا لقد کفر الذین قالو ان اللہ ھو المسیح ابن مریم (المائدہ 17- ) بیشک ان لوگوں نے کفر ……کیا جنہوں نے کہا کہ اللہ ہی مسیح ابن مریم ہے حقیقت یہ ہے کہ مسیح (علیہ السلام) ان ھوالا عبد انعمنا علیہ (الزخرف 59- ) وہ تو یک بندہ ہے جس پر ہم نے انعام کیا۔ اللہ نے آپ کو ایک عوتر کے پیٹ سے بغیر باپ کے توسل کے پیدا کیا آپ توحید کے علمبردار تھے اور شرکیہ امور سے بیزاری کا اعلان کرتے تھے ۔ ان کے متعلق غلط عقائد پیدا کرنے اولے کفر کے مرتکب ہوئے اور مختلف فرقوں میں بٹ گئے۔ نزول قرآن کو چودہ سو سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے مگر یہو دو نصاریٰ کو ابھی تک حقیقت سمجھ میں نہیں آئی اور وہ بدستور کفر و شرک پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ رومن کیتھولک والے مسیح (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا مانتے ہیں۔ پروٹسٹنٹ فرقہ قدرے جدت پسند ہے مگر ان کے بھی بنیادی عقائد وہی ہیں جن کی قرآن نفی کرتا ہے آج دنیا میں سب سے زیادہ آبادی (تقریباً اڑھائی ارب) عیسائیوں کی ہے مگر عقائد مشرکانہ ہیں اور شرک سب سے بڑا ظلم ہے ان الشرک نظلم عظیمہ (لقمان 30) جس میں یہ لوگ مبتلا ہیں۔ اللہ نے یہاں پر فرمایا فویل للذین ظلموا من عذاب یوم الیم پس ہلاکت اور بربادی ہے ان لوگوں کے لئے جنہوں نے ظلم کیا درد ناک دن کے عذاب سے اس سے مراد قیامت والا دن ہے۔ جب مجرم لوگ درد ناک عذاب کا شکار ہوں گے۔ ظلم کی ابتداء بدعقیدگی یعنی کفر اور شرک سے ہوتی ہے اور پھر اس میں ظلم وجود حق تلفی معاصی اور دیگر مظالم شامل ہوجاتے ہیں۔ اللہ نے فرمایا ایسے لوگوں کو قیامت والے دن ہلاکت و بربادی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ قیامت کا انتظار فرمایا حقیقت واضح ہوجانے کے باوجود اگر یہ لوگ ایمان نہیں لاتے تو پھر کس چیز کا انتظار کر رہے ہیں لا ھل ینظرون الا الساعۃ نہیں انتظار کرتے یہ لوگ مگر قیامت کا ان تاتیھم بغتۃ کہ آجائے ان کے پاس اچانک وھم لایشعرون اور ان کو پتہ بھی نہ چلے۔ فرمایا اب تمام دلائل معجزات ، احکام اور ہدایت کے تمام ذرائع آ چکے ہیں اور صرف قیامت کا آنا باقی ہے جس کے بعد توبہ کا دروازہ بند ہوجائے گا۔ اور ان کے لئے ایمان لانے کا کوئی موقع باقی نہیں رہے گا۔ اس قیامت سے مراد قیامت صغریٰ اور کبری دونوں مراد ہیں قیامت صغریٰ تو ہر شخص کی موت پر واقع ہوجاتی ہے۔ جسے فرمایا من مات فقد قامت قیامتہ جس کی موت واقع ہوگئی اس کی تو قیامت برپا ہوگئی۔ یہ قیامت صغریٰ ہے جو ہر نفس پر واقع ہوتی ہے۔ اس کی وقوع کا بھی کسی کو علم نہیں اور عام طور پر یہ بھی اچانک ہی آتی ہے اور انسان کا کام تمام ہوجاتا ہے ۔ پھر برزخ کی زندگی شروع ہوجاتی ہے اور قبر میں ابتدائی سوال و جواب کی منزل آجاتی ہے قیامت کبریٰ جو کہ پوری کائنات کے لئے اجتماعی قیامت ہے۔ وہ بھی اچانک ہی آئے گی اور کسی کو سنبھلنے کا موقع بھی نہیں ملے گا۔ تو فرمایا کیا یہ لوگ قیامت کا انتظار کر رہے ہیں کہ وہ برپا ہو اور حساب کتاب اور جزائے عمل کی منزل آئے۔ جب وہ موقع آجائے گا تو پھر کفار و مشرکین کا کوئی عذر قابل مسموع نہیں ہوگا۔ انسان دارالعمل سے نکل کر دارالجزا میں پہنچ چکے ہوں گے۔ اس وقت لوگ دنیا میں واپس آنے ، ایمان لانے اور نیک اعمال انجام دینے کی خواہش کریں گے۔ مگر کچھ شنوائی نہیں ہوگی اور ہر ایک کو اس کے اعتقاد و اعمال کا بھگتان کرنا ہوگا۔ فرمایا قیامت والے دن کیا ہوگا ؟ الاخلآء یومئذ بعضھم لبعض عدو اس دن دنیا میں ایک دوسرے کے دوست دشمن بن جائیں گے۔ مشکل کے وقت کوئی ایک دوسرے کی مدد نہیں کرسکے گا بلکہ دوستی دشمنی میں بدل جائیگی الا المتقین سوائے متقی اور پرہیز گار لوگوں کے کہ جن کی دوستی قیامت والے دن بھی قائم رہے گی۔ محبت کی چار قسمیں شیخ ابن عربی فرماتے ہیں کہ محبت کی چار قسمیں ہیں یعنی روحانی ، قلبی ، عقلی اور نفسانی فرماتے ہیں کہ قیامت والے دن روحانی اور قلبی محبت تو قائم رہ یگی جب کہ عقلی اور نفسانی محبت ختم ہو کر دشمنی میں تبدیل ہوجائے گی۔ فرماتے ہیں کہ جو روحیں عالم ارواح میں ایک دوسری کے ساتھ متعارف تھیں ، وہ دنیا میں آ کر بھی آپس میں محبت اور الفت کا سلوک ہی کریں گے۔ اور ان کی یہ روحانی محبت برزخ اور آخرت تک قائم رہے گی۔ حضور ﷺ کا فرمان بھی ہے الارواح جنود مجندۃ روحیں ایک لشکر میں ، جو عالم ارواح میں متعارف تھیں ، ان کے حاملین دنیا میں بھی آپس میں محبت کریں گے اور ان کی دوستی عالم برزخ اور قیامت کے دن بھی قائم رہے گی۔ ان میں انبیاء وہ ادنیا ، صلحاء اصفیاء اور شہداء کی روحیں شالم ہیں۔ فرمایا قلبی محبت اچھے اخلاق ، اچھی سیرت ، صحیح اعتقاد اور عمل صالح پر مبنی ہوتی ہے جو ایماندار ، نیک اور صالح آدمی محض اللہ کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔ ان کے پیش نظر کوئی دنیوی لالچ نہیں ہوتا ان کی محبت میں بھی قیامت والے دن کوئی فرق نہیں آئے گا اور وہ اپنی جگہ قائم و دائم رہے گی۔ فرمایا تیسری محبت عقلی محبت ہے جس کا دار و مدار امور معاش پر ہوتا ہے۔ اس محبت کا دار وم دار کا روبار کی شراکت پر ہوتا ہے۔ لوگ ایک جگہ کام کرتے ہیں۔ کارخانے میں مزدور ہیں یا کسی دفتر میں فرائض انجام دیتے ہیں۔ باہم کھیتی باڑی کرتے ہیں یا مشترکہ تجارت کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ آپ س میں محبت کرنے لگتے ہیں۔ فرمایا یہ عارضی محبت ہے اور قیامت والے دن دشمنی میں تبدیل ہوجائے گی۔ شیخ ابن عربی فرماتے ہیں کہ چوتھی محبت نفسانی ہے۔ اس کی بنیاد خواہشات نفسانیہ پر ہوتی ہے۔ لوگ محض اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے دنیا میں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں … ایک دوسرے سے مفاد حاصل کرتے ہیں۔ اس میں میاں بیوی کی محبت آجاتی ہے۔ فساق و فجور کی باہمی نسبت بھی محبت نفسانیہ ہوتی ہے۔ غرضیکہ ایسی محبت کی بنیاد نیکی پر نہیں۔ بلکہ ذاتی مفاد پر ہوتی ہے۔ لہٰذا ایسی محبت بھی قیامت والے دن دشمنی میں بدل جائے گی شیخ صاحب فرماتے ہیں کہ تیسری اور چوتھی قسم کی محبت والے لوگ اکثریت میں ہیں اور انہی کی دوستی قیامت کو دشمنی میں تبدیل ہوجائے گی۔ البتہ پہلی اور دوسری قسم کی محبت جو متقیوں میں پائی جاتی ہے وہ وہاں بھی قائم رہے گی۔ مسند احمد شریف کی حدیث میں آتا ہے کہ قیامت والے دن اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائیں گے ۔……… اظلھم فی ظلی میری بزرگی سے محبت ……لوگ کہاں ہیں وہ آئیں تاکہ میں انہیں اپنے سایہ رحمت میں جگہ دوں جس دن میرے سایے کے سوا کوئی سایہ نہیں ہوگا۔ یہ وہی ابرار اور صلحاء انبیاء اور شہداء ہوں گے جنہوں نے مجموعی طور پر محض اللہ کی رضا کی خاطر ساری امت سے خیر خواہی کی یا ان کے لئے دعا کی۔ بیہقی شریف کی حدیث میں آتا ہے کہ آپس میں اللہ کی عظمت اور نیکی کی خاطر محبت کرنے والے اگر مشرق و مغرب میں بھی ہوں گے تو قیامت والے دن اللہ تعالیٰ اس محبت کی وجہ سے ان کو اکٹھا کر دے گا۔ الغرض ! معاش اور نفسانی خواہشات پر مبنی محبت درست نہیں ہے۔ یہ قیامت والے دن دشمنی میں تبدیل ہوجائے گی اور روحانی اور قلبی محبت رکھنے والے متقین قیامت والے دن کامیاب ہوں گے اور ان کی محبت وہاں بھی قائم رہے گی۔
Top