Al-Quran-al-Kareem - Az-Zukhruf : 63
وَ لَمَّا جَآءَ عِیْسٰى بِالْبَیِّنٰتِ قَالَ قَدْ جِئْتُكُمْ بِالْحِكْمَةِ وَ لِاُبَیِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِیْ تَخْتَلِفُوْنَ فِیْهِ١ۚ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ
وَلَمَّا جَآءَ : اور جب لائے عِيْسٰى : عیسیٰ بِالْبَيِّنٰتِ : کھلی نشانیاں قَالَ : اس نے کہا قَدْ جِئْتُكُمْ : تحقیق میں لایاہوں تمہارے پاس بِالْحِكْمَةِ : حکمت وَلِاُبَيِّنَ : اور تاکہ میں بیان کردوں لَكُمْ : تمہارے لیے بَعْضَ الَّذِيْ : بعض وہ چیز تَخْتَلِفُوْنَ فِيْهِ : تم اختلاف کرتے ہو جس میں فَاتَّقُوا اللّٰهَ : پس ڈرو اللہ سے وَاَطِيْعُوْنِ : اور اطاعت کرو میری
اور جب عیسیٰ واضح دلیلیں لے کر آیا تو اس نے کہا بیشک میں تمہارے پاس حکمت لے کر آیا ہوں اور تاکہ میں تمہارے لیے بعض وہ باتیں واضح کر دوں جن میں تم اختلاف کرتے ہو، سو اللہ سے ڈرو اور میرا کہنا مانو۔
(1) ولما جآء عیسیٰ بالبینت :”البینات“”بینۃ“ کی جمع ہے، واضح روشن چیز، یہ مچحذوف موصوف کی صفت ہے جو معجزات بھی ہیں، دلائل بھی اور آیات بھی۔ یعنی جب عیسیٰ ؑ واضح اور روشن معجزات، توحید الٰہی اور پانی رسالت کے واضح دلائل اور اللہ تعالیٰ کی وضاحت اور روشن آیات لے کر آئے۔ (2) قال قد جئتکم بالحکمۃ :”الحکمۃ“ محکم اور پکی بات ، دانائی کی بات جو صحیح عقل کے عین مطابق ہو۔ (3) ولابین لکم بعض الذی تختلقون فیہ …: یعنی جب عیسیٰ ؑ بینات لے کر بنی اسرائیل کے پاس آئے تو انھیں بات ایک ہ میں تمہارے پاس اللہ کی شریعت لے کر آیا ہوں، جو نہایت محکم اور مضبوط ہے اور سراسر دانائی پر مشتمل ہے تاکہ وہ تمہیں سکھاؤں اور تاکہ بعض باتیں جن میں تمہارے درمیان اختلاف پیدا ہوگیا ہے ان میں محکم اور پختہ بات کے ساتھ حق واضح کر دوں۔ بعض اس لئے فرمایا ج کہ پیغمبر کا کام دینی احکام کی رہنمائی ہے، دنیوی معاملات مثلاً تجارت ، زراعت اور صنعت وغیرہ کو لوگوں کے تجربہ و عقل پر رہنے دیا گیا ہے، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :(انتم اعلم بامر دنیا کم) (مسلم ، الفضائل، باب وجوب امتال ماقالہ شرعا …: 363 ہ)”اپنا دنیاوی معاملہ تم بہتر جانتے ہو۔“ یا بعض اس لئے فرمایا کہ بعض کا فیصلہ آخری پیغمبر کے آنے پر چھوڑ دیا گیا۔ واضح رہے کہ بنی اسرائیل میں توحید، قیامت اور مختلف اشیاء کی حلت و حرمت کے بارے میں کئی طرح کا اختلاف پیدا ہوگیا تھا، مثلاً ان میں سے کچھ حق پر قائم تھے تو بعض عزیز ؑ کو اللہ کا بیٹا کہنے لگ گئے تھے۔ قیامت کے متعلق انہوں نے ایسے عقائد گھڑ لئے تھے جن سے اللہ تعالیٰ کے ہاں جواب دہی کا معاملہ ہی ختم ہوجاتا تھا۔ مثلاً ان کا کہنا :(نحن ابنو اللہ و احباوہ) (المائدۃ :18)”ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں۔“ یعنی ہم بنی اسرائیل اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں (جس طرح مسلمانوں میں کئی سید بادشاہ اپنے بارے میں باور کرواتے ہیں) اور یہ کہ جنت ہمارا حق ہے، اگر جہنم میں گئے بھی تو چند روز کے لئے جائیں گے۔ کچھ چیزیں ان کی سرکشی اور نافرمانی کی وجہ سے ان پر حرام کی گئی تھیں، کچھ ان کے احبارو رہبان نے حرام کردی تھیں۔ عیسیٰ ؑ نے فرمایا کہ میں تمہارے ان اختلافات میں حق واضح کرنے کیلئے آیا ہوں، اس لئے تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔
Top