Mualim-ul-Irfan - Al-A'raaf : 187
یَسْئَلُوْنَكَ عَنِ السَّاعَةِ اَیَّانَ مُرْسٰىهَا١ؕ قُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّیْ١ۚ لَا یُجَلِّیْهَا لِوَقْتِهَاۤ اِلَّا هُوَ١ؔۘؕ ثَقُلَتْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ لَا تَاْتِیْكُمْ اِلَّا بَغْتَةً١ؕ یَسْئَلُوْنَكَ كَاَنَّكَ حَفِیٌّ عَنْهَا١ؕ قُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ اللّٰهِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ
يَسْئَلُوْنَكَ : وہ آپ سے پوچھتے ہیں عَنِ : سے (متعلق) السَّاعَةِ : گھڑی (قیامت) اَيَّانَ : کب ہے ؟ مُرْسٰىهَا : اس کا قائم ہونا قُلْ : کہ دیں اِنَّمَا : صرف عِلْمُهَا : اس کا علم عِنْدَ : پاس رَبِّيْ : میرا رب لَا يُجَلِّيْهَا : اس کو ظاہر نہ کرے گا لِوَقْتِهَآ : اس کے وقت اِلَّا : سوا هُوَ : وہ (اللہ) ثَقُلَتْ : بھاری ہے فِي : میں السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین لَا : نہ تَاْتِيْكُمْ : آئے گی تم پر اِلَّا : مگر بَغْتَةً : اچانک يَسْئَلُوْنَكَ : آپ سے پوچھتے ہیں كَاَنَّكَ : گویا کہ آپ حَفِيٌّ : متلاشی عَنْهَا : اس کے قُلْ : کہ دیں اِنَّمَا : صرف عِلْمُهَا : اس کا علم عِنْدَ : پاس اللّٰهِ : اللہ وَلٰكِنَّ : اور لیکن اَكْثَرَ : اکثر النَّاسِ : لوگ لَا يَعْلَمُوْنَ : نہیں جانتے
یہ لوگ آپ سے سوال کرتے ہیں قیامت کے بارے میں کہ کب ہوگا اس کا قائم ہونا۔ آپ کہ دیجیے (اے پیغمبر ! ) بیشک اس کا علم میرے رب کے پاس ہے۔ نہیں ظاہر کرے گا اس کو اس کے وقت پر مگر وہی۔ یہ بھاری ہے آسمانوں ا و زمین میں نہیں آئے گی تمہارے پاس مگر اچانک یہ لوگ آپ سے سوال کرتے ہیں گویا کہ آپ اس کی کھوج میں لگے ہوئے ہیں۔ اے پیغمبر ! آپ کہہ دیں کہ اس کا علم اللہ کے پاس ہے۔ لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے
ربط آیات عہدو پیمان کا ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اسے توڑنے والوں کی مذمت بیان فرمائی پھر فرمایا کہ ہم نے انسان کو دل ، آنکھیں اور کان جیسی نعمتیں عطا فرمائیں مگر لوگ ان کا صحیح استعمال نہ کرکے غفلت میں پڑتے ہیں اور بالآخر جہنم کا شکار بنتے ہیں پھر اللہ نے ایمان اور توحید کے سلسلے میں اسمائے پاک اور صفات الٰہی کا مسئلہ بھی بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو انہی اسماء اور صفات کے ساتھ پکارنا چاہیے اور اللہ کی صفات کو غلط معانی پہنا کر یا غلط مقام میں استعمال کرکے یا غلط تاویل کرکے الحاد کے مرتکب نہیں ہونا چاہیے فرمایا اللہ تعالیٰ کے اسمائے مختصہ کا غیر اللہ پر اطلاق کرنا بھی الحاد میں داخل ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے تکذیب کرنے والوں کے متعلق فرمایا کہ ہم انہیں مہلت دے کر اس طریقہ سے پکڑیں گے کہ انہیں پتہ بھی نہیں چلے گا اللہ کی تدبیر بڑی مضبوط ہے پھر اللہ تعالیٰ نے شکوہ کیا کہ لوگ زمین و آسمان کی بادشاہی میں غورو فکر نہیں کرتے اگر وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت تامہ اور حکمت بالفہ کے دلائل کو دیکھتے ان میں غور وفکر کرتے تو اس کی وحدانیت کا کبھی انکار نہ کرتے ان کو کیا پتہ کہ شاید ان کا وقت قریب آگیا ہو ، فرمایا یہ لوگ اکثر گمراہی میں سردگراں رہتے ہیں۔ اب آج کے درس میں قیامت کے متعلق ذکر ہورہا ہے جیسا کہ میں نے کل عرض کیا تھا اس سورة کے آخر میں توحید ، رسالت ، قضا و قدر اور معاد جیسے اہم مسائل کا ذکر آرہا ہے تو یہ آیات بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہیں اس سورة میں اللہ تعالیٰ نے رسالت کی پوری تایرخ بیان فرمائی ہے اور انبیاء کے مشن کی وضاحت فرمائی ہے مشرکین جن چیزوں کا انکار کرتے تھے ان میں توحید سرفہرست ہے توحید کو اختیار کرنے کے بجائے وہ شرک کی مختلف اقسام میں مبتلا تھے اور اسی طرح قیامت کا بھی انکار کرتے تھے تو یہاں پر اللہ تعالیٰ نے قیامت کا مسئلہ بیان فرمایا ہے جو کہ ایمان کا ایک بنیادی جزو ہے۔ وقوع قیامت کا وقت ارشاد ہوتا ہے یسلونک عن الساعۃ اے پیغمبر ! یہ لوگ آپ سے قیامت کے متعلق پوچھتے ہیں ایان موسھا ط کہ وہ کب قائم ہوگی لفظ این اور ایان میں یہ فرق ہے کہ این مکان کو ظاہر کرتا ہے جب کہ ایان وقت کے لیے آتا ہ کے مطلب یہ ہے کہ قیامت کب برپا ہوگی اور ارسی کا معنی کسی چیز کا گاڑ دینا ہوتا ہے جیسے فرمایا ” والجبال ارسھا (النزعت) پہاڑوں کو گاڑ دیا بحری جہاز کے لنگر انداز ہونے کو بھی ارساء السفینۃ کہتے ہیں تاہم یہاں پر وقوع مراد ہے کہ قیامت کب واقع ہوگی جب حضور ﷺ قیامت کا تذکرہ فرماتے ہیں اور لوگوں کو بتاتے کہ وہ وقت آنے والا کہے جب ہر ایک کو اپنی کارکردگی کا حساب دینا ہوگا تو مشرکین طنزاً کہتے متیٰ ھذالوعد ان کنتم صدقین (الملک) اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو تو بتائو کہ وہ قیامت کب آئے گی ہم نے تو آج تک کسی کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہوتے نہیں دیکھا یہاں بھی اسی طرح کے سوال کے جواب میں اللہ نے فرمایا قل اے پیغمبر ! آپ کہ دیجیئے انما علمھا عند ربی کہ وقوع قیامت کا علم تو میرے رب کے پاس ہے لایجلیھا لوقتھا الاھو نہیں ظاہر کرے گا اس (قیامت) کو اس کے وقت پر مگر وہی اللہ ، اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں کو اپنی ذالت کے ساتھ مختص کررکھا ہے ان میں قیامت بھی شامل ہے قیامت کے واقع ہونے کی خبر تو دے دی گئی ہے اور قرآن پاک کا ایک تہائی حصہ اسی موضوع پر مشتمل ہے مگر اس کے وقوع کا عین وقت نہیں بتایا گیا معراج کے واقعہ سے متعلق ابن ماجہ اور مسند احمد کی روایت میں آتا ہے کہ جب تمام انبیاء (علیہم السلام) اکٹھے ہوئے تو ان کے درمیان قیامت کا ذکر بھی ہوا تھا ہر نبی نے قیامت کے وقت سے لاعلمی کا اظہار فرمایا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا اماوجب تھا فلا یعلمھا الا اللہ یعنی قیامت کے وقوع کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں اللہ نے قیامت کے وقت کے متعلق نہ کسی نبی اور مرسل کو خبر دی ہے اور نہ کسی مقرب فرشتے کو ، البتہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ قیامت سے پہلے زمین پر اتر کر اللہ کے دشمن دجال کا قتل کروں قرب قیامت کی بعض دوسری نشانیاں بھی بتلائی گئی ہیں حدیث جبرئیل میں آتا ہے کہ حضرت جبرئیل (علیہ السلام) نے ایمان ، اسلام اور احسان کے بعد جب متی الساعۃ کا سوال کیا یعنی حضور ! یہ بتائیں کہ قیامت کب آئے گی ؟ تو آپ نے بھی یہی جواب دیا تھا ما السئول عنھا باعلم من السائل کہ جس سے یہ سوال کیا جارہا ہے وہ سائل سے زیادہ نہیں جانتا یعنی جس طرح اس بات کا علم پوچھنے والے کو نہیں ہے اسی طرح جواب دینے والے کو بھی نہیں ہے اس بات کی وضاحت سورة لقمان میں موجود ہے ان اللہ عندہ علم الساعۃ یعنی قیامت کے وقوع کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے وہی اس کو اپنے وقت پر ظاہر کرے گا۔ آسمان و زمین کیلئے بوجھل آگے قیامت کے متعلق مزید فرمایا کہ ثقلت فی السموت والارض قیامت کا وقوع آسمانوں اور زمین میں بھاری ہے بڑی بوجھل ہے کیونکہ جب یہ واقع ہوگی تو ہر چیز کو درہم برہم کردے گی جیسے فرمایا اذا الشمس کورت وازا النجوم انکدرت (التکویں) جب سورج لپیٹ لیا جائے گا اور جب تارے بےنور ہوجائیں گے غرضیکہ ارض و سما کا یہ موجود نظام شمسی ختم ہوجائے گا اس نظام کے تمام سیارے ایک دوسرے کے ساتھ ٹکرا کر پاش پاش ہوجائیں گے پھر خطیرۃ القدس کا نظام قائم ہوگا اس وقت لوگوں پر بڑی دہشت طاری ہوگی سورة الحاقہ میں موجود ہے جب صور پھونکا جائے گا تو زمین اور پہاڑی اٹھا لیے جائیں گے وانشقت السماء اور آسمان پھٹ جائے گا اور فرشتے اس کے کناروں پر اتر آئیں گے پورے کا پورا نظام بدل جائے گا حضور ﷺ سے دریاف کیا گیا کہ حضور ! جب یہ حالت طاری ہوجائے گی تو اس وق مخلوق کہاں ہوگی ؟ فرمایا وہ پل صراط کے ایک حصے پر ہوں گے۔ قیامت کی اچانک آمد فرمایا یہ قیامت بھاری ہے آسمان اور زمین پر لاتاتیکم الابغتۃ نہیں آئے گی تمہارے پاس مگر اچانک قیامت کی اچانک آمد کے متعلق احادیث میں مختلف روایات ملتی ہیں مثلاً صحیمین کی روایت میں آتا ہے دو آدمی کپڑا پھیلائیں گے اور اس کا بھائو نہیں طے کر پائیں گے کہ قیامت برپا ہوجائے گی کوئی شخص جانور خریدے گا اس کا دودھ دوہے گا مگر پینے سے پہلے قیامت آجائے گی پھر فرمایا ایک شخص کھانا کھانے کے لیے برتن سے لقمہ اٹھائے گا مگر منہ میں نہیں ڈال سکے گا اور قیامت واقع ہوجائے گی۔ فرمایا ، یہ لوگ یسئلونک کانک حفیً عنھا آپ سے قیامت کے متعلق اس طرح سوال کرتے ہیں گویا کہ آپ اس کی کھوج میں لگے ہوئے ہیں حفی کا معنی عالم بھی ہوتا ہے اگر یہ معنی کیا جائے تو پورا جملہ اس طرح ہوگا یہ لوگ آپ سے قیامت کے متعلق سوال کرتے ہیں گویا آپ اسے جانتے ہیں یہ درست نہیں ہے نہ تو آپ اس کی کھوج میں ہیں اور نہ ہی آپ قیامت کے وقت معین کو جانتے ہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کو قیامت کے وقت کا علم نہیں دیا البتہ بعض نشانیاں بتلائی ہیں کہ قرب قیامت میں اس قسم کے واقعات پیش آئیں گے اور پھر قیامت برپا ہوجائے گی۔ حفی کا ایک معنی مہربان بھی ہوتا ہے سورة مریم میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی زبان سے یہ لفظ ادا ہوا جب بتوں کو پاش پاش کرنے کی پاداش میں باپ نے گھر سے نکال دیا تو آپ نے جاتے ہوئے سلام کہا اور کہا کہ میں اپنے پروردگار سے تمہارے لیے بخشش مانگو گا انہ کان بی حفیاً وہ مجھ پر نہایت مہربان ہے مشرکین تو حضور ﷺ سے قیامت کا سوال طعن وتشنیع کے طور پر کرتے تھے مگر اہل ایمان بھی بعض اوقات قیامت کے متعلق دریافت کرلیتے تھے کیونکہ حضور ﷺ ان کے لیے نہایت شفیق اور مہربان تھے بہرحال اس قسم کے سوالات کے جواب میں اللہ نے فرمایا قل اے پیغمبر ! آپ کہہ دیجئے انما علمھا عنداللہ اس کا علم تو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے ولکن اکترالناس لایعلمون مگر اکثر لوگ نہیں سمھجتے اور ایسے سوال کرتے ہیں جن کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اور جو اس نے کسی کو نہیں دیا۔ اللہ اور رسول کی محبت صحیمین کی روایت میں ایک دیہاتی مسلمان کا ذکر آتا ہے کہ اس نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے عرض کیا کہ حضور ! یہ بتائیں متی الساعۃ کہ قیامت کب آئے گی ؟ آپ نے فرمایا افسوس ہے کہ تم نے قیام کے لیے تیاری کیا کررکھی ہے ؟ اس نے کہا حضور ! بڑی بڑی نمازیں اور روزے تو خیر نہیں ہوسکے الکنی احب اللہ و رسولہ البتہ میں اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ محبت ضرور دیکھتا ہوں تو حضور ﷺ نے فرمایا ، انت مع من اجبت تم اسی کے ساتھ ہوگے جس کے ساتھ محبت ہوگی حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ حضور کی یہ بات سن کر مجھے اتنی خوشی ہوئی کہ کسی دوسری بات سے نہیں ہو سکتی کیونکہ حضور نے اللہ اور اس کے رسول کی محبت پر اتنی بڑی بشارت سنادی۔ قیامت کے بارے میں اہل ایمان بھی سوال کرتے تھے تو آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے وقت کو مخلوق سے اس لیے مخفی رکھا ہے تاکہ لوگ محتاط رہیں اور نیکی کی طرف زیادہ سے زیادہ راغب ہوں وہ ہمیشہ فکر مند رہیں کہ پتہ نہیں قیامت کب آجائے گی اس لیے ہمیں غافل نہیں ہونا چاہیے اور نیکی کرنے میں سبقت کرنی چاہیے اس قسم کا اخفاء اللہ نے لیلۃ القدر کے تعین میں بھی رکھا ہے تاکہ لوگ اس کی لاش میں زیادہ سے زیادہ محنت کریں اور پھر اس کا پھل حاصل کرسکیں قیامت کے وقت کو مخفی رکھنے میں بھی یہی حکمت ہے۔ نافع اور ضار قیامت کے بارے میں جاننا تو بہت بڑی بات ہے فرمایا قل اے پیغمبر ! آپ کہہ دیں لا املک لنفسی نفعاً ولاضراً میں تو اپنی ذات کے لیے بھی نفع و نقصان کا مالک نہیں ہوا الا ماشاء اللہ مگر جو اللہ چاہے میرے اختیار میں تو یہ بھی نہیں کہ میں اپنے آپ کو نفع پہنچا سکوں یا نقصان کو دور کرسکوں یہ سب اختیارات تو اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں چناچہ ہر انسان کا پختہ یقین ہونا چاہیے بلکہ یہ بات اس کے ایمان میں داخل ہے کہ نافع اور ضار صرف خدا تعالیٰ ہے مافوق الاسباب اور غائبانہ طور پر وہی نفع پہنچاتا ہے اور وہی نقصان پہنچاتا ہے النافع اور انصار اللہ تعالیٰ کے اسمائے پاک بھی ہیں مگر کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ لوگ اللہ کے علاوہ دوسروں کو بھی حاجت روا اور مشکل کشا مانتے ہیں۔ مسئلہ علم غیب اللہ نے فرمایا آپ یہ بھی کہہ دیں ولوکنت اعلم الغیب اور اگر میں غیب جانتا لا استکترت من الخیر تو بہت سی بھلائی حاصل کرلیتا وما مسنی السوء اور مجھے کوئی برائی اور تکلیف نہ پہنچی گویا حضور ﷺ نے اپنے متعلق علم غیب کی صریح الفاظ میں نفی کردی ہے عیب اس علم کو کہا جاتا ہے جو نہ عقل سے معلوم ہو اور نہ حواس ظاہرہ و باطنہ سے جو چیز غور و فکر کرنے سے یا کسی دوسرے کے بتلانے سے معلوم ہو وہ بھی غیب نہیں ہوتا علم غیب اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے لہٰذا اس کا اطلاق کسی فرشتے ، نبی یا ولی پر کرنا درست نہیں ہے انبیاء بھی غیب نہیں جانتے الا ماعلمھم اللہ سوائے اس کے جو اللہ تعالیٰ انہیں وحی کے ذریعے عطا کرتا ہے اور غیب وہ ہوتا ہے جو بغیر کسی واسطہ کے خودبخود ہو ایسا علم صرف اللہ کے پاس ہے یہ چیز مخلوق میں سے کسی کو حاصل نہیں انبیاء کو بھی اتنا ہی علم ہوتا ہے جتنا اللہ تعالیٰ عطا کرتا ہے ذرے ذرے کا علم خدا کے سوا کسی مخلوق کو حاصل نہیں مولوی احمد رضا خان بریلوی نے بالکل غلط بات کی ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو زمین کی پیدائش سے لے کر قیامت تک کے ذرے ذرے کا علم ہے یہ تو مشرکانہ عقیدہ ہے کیونکہ علم محیط اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے اور قرآن کریم میں حضور ﷺ کے کلی علم کی صراحتاً نفی کی گئی ہے مثلاً سورة یٰسین میں فرمایا وما علمنہ العشر وما ینبغی لہ ہم نے اپنے نبی کو شعر کا علم نہیں سکھایا اور نہ ہی یہ اس کے شایان شان ہے اب کلی علم کہاں رہ گیا خود حضور ﷺ نے دعا میں سکھایا الھم انی اعوذ بک من علم لاینفع اے اللہ ! میں تیری ذات پاک کے ساتھ ایسے علم سے پناہ چاہتا ہوں جو مفید نہ ہو جیسے سحر ، کہانت اور رمل کا علم کہ حضور نے اس سے پناہ مانگی ہے۔ امام شاہ ولی اللہ محدیث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ اللہ کے نبیوں سے اللہ تعالیٰ کی صفات مختصہ کی نفی کرنا واجب ہے پیغمبر (علیہ السلام) کے بارے قادر مطلق ، علیم کل ، واجب الوجود ہونے کی نفی کرنا ضروری ہے وہ تو اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں اور اس کے سامنے عاجز ہیں بھائی ! صفات مختصہ کی نفی کرنا انبیاء (علیہم السلام) کی توہین نہیں ہے یہ صفات تو اللہ تعالیٰ کا حق ہیں اور حق صرف حقدار کو ہی ملنا چاہیے ہاں شریعت کا علم نبی مکمل طور پر جانتا ہے اگر کوئی شخص یہ کہے کہ نبی شریعت کا کوئی مسئلہ نہیں جانتا تو یہ کفر ہوگا شریعت کے علاوہ کائنات میں جو تکوینی چیزیں واقع ہوتی ہیں اللہ تعالیٰ ان کا وافر حصہ بھی نبی کو عطا کرتا ہے مگر ہر چیز کا علم نہیں دیتا کہ اس کا اپنا خاصہ ہے بیشمار چیزیں ایسی ہیں کہ جن کے متعلق حضور ﷺ نے فرمایا کہ میں نہیں جانتا انہیں اللہ ہی جانتا ہے۔ فرمایا میں غیب نہیں جانتا ، اگر جانتا تو اپنے لیے بہت سی بھلائیاں جمع کرلیتا اور مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچتی مگر حضور ﷺ کی حیات طیبہ سے واضح ہوتا ہے کہ آپ بیمار بھی ہوئے ، آپ زخمی بھی ہوئے ، آپ کے عزیز ساتھی شہید ہوئے اگر آپ کو غیب کا علم ہوتا تو اتنی تکالیف برداشت نہ کرتے برامعونہ والا واقعہ بڑا دلخراش ہے آپ نے ستر جلیل القدر صحابہ ؓ کو تبلیغ دین کے لیے بھیجا مگر وہ سارے کے سارے راستے میں ہی قتل کردیئے گئے حضور ﷺ کو اتنا صدمہ ہوا کہ مہینہ بھر قنوت نازلہ پڑھتے رہے اگر آپ کو علم ہوتا کہ یہ لوگ دھوکے سے آدمی لے جا رہے ہیں اور انہیں قتل کردیں گے تو آپ کبھی نہ بھیجتے دنیا میں پیش آنے والے کتنے امور ہیں کہ ان کے متعلق پیشگی علم ہوجائے تو انسان کو کبھی نقصان نہ اٹھانا پڑے صحت ، بیماری ، قحط ، فراوانی ، فتح ، شکست ، نفع ، نقصان کتنی چیزیں ہیں کہ قدرت کا سارا نظام انسان کی لاعلمی کی وجہ سے ہی چل رہا ہے اگر ہر شخص کو نفع نقصان یا موت وحیات کا پیشگی علم ہوجائے تو دنیا کا نظام ٹھپ ہو کر رہ جائے لہٰذا اللہ نے کلی علم صرف اپنے پاس رکھا ہے۔ صفت تدبیر میں شرک اللہ تعالیٰ کے واجب الوجود اور خالق ہونے میں تو مشرکین بھی متفق ہیں مگر آگے چل کر وہ اللہ تعالیٰ کی صفت تدبیر میں شرک کرنے لگتے ہیں حالانکہ تدبیر بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے عالم بالا سے لے کر عالم زیریں تک تمام امور کی تدبیر اللہ ہی کرتا ہے اور اس کام میں اس کا کوئی شریک نہیں فالمدبرات امراً میں اگرچہ فرشتوں کے امور انجام دینے کا بیان ہے مگر وہ اللہ تعالیٰ ہی کے کارندے ہیں اور اس کے حکم کے مطابق تمام کام کرتے ہیں کمی بیشی ، عروج زوال تنگی وسعت ، صحت ، بیماری وغیرہ تدبیر کے ساتھ تعلق رکھنے والی چیزیں ہیں اور یہ سب کچھ اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے اس مقام پر لوگ بہک جاتے ہیں اور یہ عقیدہ اختیار کرلیتے ہیں کہ اللہ کے علاوہ نبی ولی وغیرہ بھی کچھ تدبیر کرتے ہیں مشکل کشائی اور حاجت روائی کرتے ہیں لہٰذا ان کے نام پر نذر و نیاز دیتے ہیں اور ان کی عبادت کرنے لگتے ہیں۔ اسی طرح قادر مطلق اور علیم کل ہونا بھی اللہ تعالیٰ کی خاص صفات ہیں ہر چیز پر قدرت رکھنے والی صرف وہی ذات ہے اور ازل سے لے کر ابد تک ذرے ذرے کا علم بھی اسی کے پاس ہے ان دو صفات میں بھی اس کا کوئی شرک نہیں خدا کے سوا کوئی قادر مطلق بھی نہیں ہے اسی طرح الومہیت کی صفات میں غیر مرئی ہونا یعنی دکھائی نہ دینا بھی خاصہ خدا وندی ہے مسیح (علیہ السلام) کیسے الٰہ ہوسکتے ہیں وہ تو دکھائی دیتے ہیں خدا تعالیٰ غیر محدود اور غیر مرئی ہے۔ حضور ﷺ بحیثیت تدیروبشیر فرمایا کہ قیامت کے وقوع کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اس نے اسے اپنے لیے خاص رکھا ہے اور پھر مقررہ وقت پر اچانک ظاہر کردے گا………………………ان انا الانذیر وبشیر میں تو ڈر سنانے والا ہوں کہ دیکھو ! قیامت آنے والی ہے اس کے لیے تیاری کرلو ، اللہ کی وحدانیت کو تسلیم کرلو اور شرک سے باز آجائو میں اللہ کا رسول ہوں تمہیں ہدایت کی باتیں بتاتا ہوں اور تمہیں برے انجام سے ڈراتا ہوں نیز میں اطاعت گزاروں اور فرمانبرداروں کے لیے خوشخبری سنانے والا بھی ہوں جو لوگ ایمان لاتے ہیں اور نیک اعمال انجام دیتے ہیں ان لھم قدم صدق عند ربھم (یونس) ان کے لیے ان کے رب کے پاس سچائی کا پایہ ہے ایسے لوگوں کا انجام اچھا ہوگا برے انجام سے ڈرانا اور اچھے اعمال پر خوشخبری سنانا ہر نبی کا کام رہا ہے ” وما نرسل المرسلین الا مبشرین ومنذرین “ (الانعام) ہم ہر رسول کو بشارسنانے والا اور ڈرانے والا بناکر بھیجتے ہیں بشمول حضور خاتم النبیین ﷺ بشارت و نذرات تمام انبیاء کی مشترک صفت ہے فرمایا بشارت ان لوگوں کے لیے ہے لقوم یومنون جو خدا کی وحدانیت اور اس کے رسولوں کی رسالت پر ایمان لاتے ہیں جو قرآن کو برحق سمجھتے ہیں معاد پر یقین رکھتے ہیں اور شرک سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں جو لوگ سرکشی اختیار کرتے ہیں ان کے لیے کوئی بشارت نہیں بلکہ وہ تو انداز کے حق دار ہیں۔
Top