Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 187
یَسْئَلُوْنَكَ عَنِ السَّاعَةِ اَیَّانَ مُرْسٰىهَا١ؕ قُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّیْ١ۚ لَا یُجَلِّیْهَا لِوَقْتِهَاۤ اِلَّا هُوَ١ؔۘؕ ثَقُلَتْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ لَا تَاْتِیْكُمْ اِلَّا بَغْتَةً١ؕ یَسْئَلُوْنَكَ كَاَنَّكَ حَفِیٌّ عَنْهَا١ؕ قُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ اللّٰهِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ
يَسْئَلُوْنَكَ
: وہ آپ سے پوچھتے ہیں
عَنِ
: سے (متعلق)
السَّاعَةِ
: گھڑی (قیامت)
اَيَّانَ
: کب ہے ؟
مُرْسٰىهَا
: اس کا قائم ہونا
قُلْ
: کہ دیں
اِنَّمَا
: صرف
عِلْمُهَا
: اس کا علم
عِنْدَ
: پاس
رَبِّيْ
: میرا رب
لَا يُجَلِّيْهَا
: اس کو ظاہر نہ کرے گا
لِوَقْتِهَآ
: اس کے وقت
اِلَّا
: سوا
هُوَ
: وہ (اللہ)
ثَقُلَتْ
: بھاری ہے
فِي
: میں
السَّمٰوٰتِ
: آسمانوں
وَالْاَرْضِ
: اور زمین
لَا
: نہ
تَاْتِيْكُمْ
: آئے گی تم پر
اِلَّا
: مگر
بَغْتَةً
: اچانک
يَسْئَلُوْنَكَ
: آپ سے پوچھتے ہیں
كَاَنَّكَ
: گویا کہ آپ
حَفِيٌّ
: متلاشی
عَنْهَا
: اس کے
قُلْ
: کہ دیں
اِنَّمَا
: صرف
عِلْمُهَا
: اس کا علم
عِنْدَ
: پاس
اللّٰهِ
: اللہ
وَلٰكِنَّ
: اور لیکن
اَكْثَرَ
: اکثر
النَّاسِ
: لوگ
لَا يَعْلَمُوْنَ
: نہیں جانتے
وہ تم سے قیامت کے بارے میں سوال کر رہے ہیں کہ کب ہے اس کے قائم ہونے کا وقت کہہ دیجئے کہ اس کا علم تو بس میرے رب ہی کے پاس ہے وہی اس کے وقت پر اس کو ظاہر کرے گا بوجھل ہیں اس سے آسمان اور زمین وہ تم پر بس اچانک ہی آدھمکے گی وہ تم سے پوچھتے ہیں گویا اس کی تحقیق میں لگے ہوئے ہو۔ کہہ دو ! اس کا علم تو بس اللہ کے پاس ہے لیکن اکثر لوگ اس بات کو نہیں جانتے۔
ارشاد ہوتا ہے : یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ السَّاعَۃِ اَیَّانَ مُرْسٰھَا قُلْ اِنَّمَا عِلْمُھَا عِنْدَ رَبِِّیْج لَا یُجَلِّیْھَا لِوَقْتِھَآ اِلَّا ھُوَط م ثَقُلَتْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِط لَا تَاْتِیْکُمْ اِلَّا بَغْتَۃًط یَسْئَلُوْنَکَ کَاَنَّکَ حَفِیٌّ عَنْھَاط قُلْ اِنَّمَا عِلْمُھَا عِنْدَ اللّٰہِ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَا النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ ۔ (الاعراف : 187) ” وہ تم سے قیامت کے بارے میں سوال کر رہے ہیں کہ کب ہے اس کے قائم ہونے کا وقت کہہ دیجئے کہ اس کا علم تو بس میرے رب ہی کے پاس ہے وہی اس کے وقت پر اس کو ظاہر کرے گا بوجھل ہیں اس سے آسمان اور زمین وہ تم پر بس اچانک ہی آدھمکے گی وہ تم سے پوچھتے ہیں گویا اس کی تحقیق میں لگے ہوئے ہو۔ کہہ دو ! اس کا علم تو بس اللہ کے پاس ہے لیکن اکثر لوگ اس بات کو نہیں جانتے “۔ ایک سوال اور اس کا جواب اسلامی تعلیمات کا تمام تر دارومدار تین بنیادی عقائد پر ہے توحید، رسالت، آخرت۔ مکی سورتوں میں خاص طور پر عقائد پر زور دیا جاتا ہے لیکن پیغمبر جب دیکھتا ہے کہ اس کی قوم سنجیدگی سے اللہ کے دین کی دعوت پر غور کرنے کے لیے تیار نہیں تو پھر وہ کبھی انھیں اس انجام سے ڈراتا ہے جس انجام سے قوم عاد وثمود جیسی معذب قومیں دو چار ہوئیں اور کبھی قیامت کی ہولناکیوں کو ان کے سامنے ذکر کرتا ہے وہ انھیں بار بار سمجھاتا ہے کہ تمہاری زندگی کا ایک مقصد ہے اور تم اس مقصد کے حوالے سے اللہ کے سامنے جواب دہ ہو یہ زندگی ہمیشہ رہنے کی نہیں ایک دن ایسا آئے گا جب سب کو قبروں سے اٹھا کر اللہ کی بارگاہ میں جوابدہی کے لیے پہنچا دیا جائے گا اس دن ہر نیک عمل کا اجر ملے گا اور ہر برائی کی سزا ملے گی تم نے اگر اس دن کی جوابدہی کے لیے آج تیاری نہ کی تو سوچ لو کل کو اللہ کے سامنے کیا جواب دے سکو گے۔ جوابدہی کا احساس ہی انسان کو بدلنے پر مجبور کرسکتا ہے اس لیے پیغمبر سب سے زیادہ زور اسی بات پر دیتا ہے۔ کبھی انھیں موت کی یاد دلاتا ہے، کبھی برزخی زندگی کا حوالہ دیتا ہے، کبھی قیامت کے احوال کو ذکر کرتا ہے، کبھی میزان عمل کے حوالے سے ایک ایک عمل کی طرف توجہ دلاتا ہے، مقصود ان سب باتوں سے یہ ہوتا ہے کہ اس کے مخاطب اپنی زندگی کے رویے پر غور کرنے کے لیے تیا رہو جائیں۔ چناچہ آنحضرت ﷺ بھی قیامت اور آخرت پر سب سے زیادہ زور دیتے تھے اور بار بار لوگوں کو تنبہ فرماتے تھے کہ لوگو ! موت سر پر تلی کھڑی ہے اور موت کے ساتھ ہی تمہاری مہلت عمل اپنی انتہاء کو پہنچ جائے گی اب اس کے بعد تمہارے پاس ایمان و عمل کے لیے کوئی موقع نہیں ہوگا اس لیے خدا کے لیے ابھی سے اپنی زندگی کو بدلنے کا آغاز کرو نہ جانے کل کا دن تم لوگ دیکھ سکو گے کہ نہیں۔ تمہارا ایک ایک سانس تمہاری زندگی ختم کرتا جا رہا ہے کچھ خبر نہیں کہ کب آخری سانس لینے پر مجبور ہوجاؤ دنیا کی ہر چیز کو ختم ہونے کے لیے ایک وقت لگتا ہے لیکن انسانی زندگی کے ختم ہونے میں تو کوئی وقت نہیں لگتا پانی کا بلبلا ٹوٹتے بھی ایک وقت لیتا ہے لیکن سانس کے رکنے کی تو خبر بھی نہیں ہوتی۔ امام فخر الدین رازی (رح) نے لکھا ہے کہ میں ایک دن بازار سے گزر رہا تھا ایک برف بیچنے والا شور مچا رہا تھا کہ لوگو ! رحم کھائو اس شخص پر جس کا سرمایہ گھلتا جا رہا ہے، اگر تم نے یہ برف خرید لی تو میرے دام کھرے ہوجائیں گے اور نہیں خریدو گے تو برف کا یہ بلاک گھل گھل کر ختم ہوجائے گا۔ امام صاحب کہتے ہیں کہ میں سوچ میں پڑگیا کہ برف کا بلاک تو گھلتے گھلتے وقت لے گا اور اسے اس کے گھل جانے کی فکر کھائے جا رہی ہے اور عمر کے اس سرمایہ کے گھل جانے کی تو کوئی مدت نہیں ہر روز اس کا ایک دن کم ہوجاتا ہے۔ لیکن کب یہ ختم ہو کر رہ جائے اس کا کھٹکا تو ہر وقت لگا رہتا ہے لیکن ہم منٹوں، سیکنڈوں کو گزرتے دیکھ کر بھی کبھی اس پریشانی میں مبتلا نہیں ہوتے کہ میرا سرمایہ گھلتا جا رہا ہے۔ اگر اچانک اس کے خاتمہ کی فکر نہ بھی ہو تو اس کا ہر منٹ کے ساتھ کم ہونا تو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ کاش ! ہمیں اس کی ہی فکر ہوتی۔ پیغمبر یہی فکر پیدا کرنے کے لیے دنیا میں تشریف لاتے ہیں وہ بار بار اس طرف توجہ دلاتے ہیں ؎ ہو رہی ہے عمر مثل برف کم رفتہ رفتہ لحظہ لحظہ دم بہ دم سانس ہے اک رہرو ملک عدم دفعتاً اک روز یہ جائے گا تھم ایک دن مرنا ہے آخر موت ہے کرلو جو کرنا ہے آخر موت ہے مشرکینِ مکہ بجائے اس کے کہ آنحضرت ﷺ کی قیامت کی بار بار یاددہانی کے نتیجہ میں اپنے انجام کے بارے میں فکر مند ہوتے انھوں نے اسے بھی ایک مذاق بنا لیا۔ قیامت کے تذکرہ سے مقصود تو یہ تھا کہ ہر آدمی کو اس بات کی فکر ہوتی کہ قیامت جب بھی آئے میرے لیے تو عمر کی ایک متعین مدت ہے جب وہ مدت ختم ہوگئی تو میری قیامت تو آگئی کیونکہ اس کے بعد مجھے مزید کوئی عمل کرنے یا اپنی زندگی کی اصلاح کرنے کا موقع نہیں ملے گا۔ قبر میں بھی کیسی ہی لمبی انتظار کروں عمل سے تو بہرحال محروم رہوں گا۔ فیصلہ کن جگہ تو بہر حال قیامت کا محشر ہے۔ مجھے جو بھی وقت ملا ہے مجھے اس کی تیاری کرنی چاہیے۔ مجھے اس بات سے تعرض نہیں ہونا چاہیے کہ قیامت کے آنے کا وقت کیا ہے وہ جب بھی آئے مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن مشرکین مکہ نے اصل مقصد کو نظر انداز کر کے اس بات کو موضوعِ سخن بنا لیا کہ جس قیامت کے آنے کا آپ بار بار تذکرہ کرتے ہیں اگر اس کا آنا ایسا ہی یقینی ہے تو معلوم تو ہونا چاہیے کہ وہ کب آئے گی اور پھر یہ سوالات کوئی تحقیق کے لیے نہیں بلکہ تمسخر اڑانے کے لیے تھے خود ” اَیَّانَ “ کا لفظ ہی بتارہا ہے کہ ان کے سوال کرنے کا انداز کیا تھا کیونکہ ایان محض وقت سے متعلق سوال کے لیے نہیں آتا بلکہ یہ ایسے موقع پر استعمال ہوتا ہے جب کسی چیز سے متعلق استغراب اور استنکار مقصود ہوتا ہے پھر اس سوال کے بعد مرسٰھا کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ مرسیٰجہاز وغیرہ کے لنگر انداز ہونے کو کہتے ہیں وہ مذاق اڑاتے ہوئے یہ کہتے تھے کہ آپ جو بار بار قیامت کے آنے کی خبر دے رہے ہیں معلوم تو ہو کہ یہ جہاز آخر کہاں رک گیا ہے ؟ اگر کہیں سے روانہ ہوا تھا تو کہیں اٹک کیوں گیا ہے ؟ اس ساحل پر کب لنگر انداز ہوگا ؟ آپ نے پروردگار کے حکم سے نہایت سنجیدگی سے اس کا جواب دیا کہ قیامت کے آنے کا وقت کیا ہے، میں اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ اس کا علم تو صرف میرے رب کے پاس ہے، میں تو تمہیں اس کے آنے کی یقینی خبر دے رہا ہوں اور یہ یقین تمہارے اندر پیدا کرنا چاہتا ہوں کہ قیامت جب بھی آئے وہ یقینا آئے گی وہ آج بھی آسکتی ہے اور صدیوں بعد بھی۔ تمہارا کام اس کے وقت کا کھوج لگانا نہیں بلکہ اس کی تیاری کرنا ہے لیکن وہ بار بار آپ سے وقت ہی کے بارے میں استفسار کرتے تھے اور اس طرح پلٹ پلٹ کر پوچھتے تھے جیسے آنحضرت ﷺ کو اس کے سوا کوئی کام نہیں کہ وہ قیامت کی کھوج، کرید اور جستجو میں لگے رہیں۔ اس لیے دو دفعہ اس بات کو دہرایا گیا کہ تم اصل حقیقت کو جاننے اور میری حیثیت پہچاننے کی کوشش کرو۔ اصل حقیقت صرف یہ ہے کہ تمہارے لیے جوابدہی کا ایک دن مقرر کردیا گیا ہے وہ جب بھی آئے تمہیں اس سے یقینا سابقہ پڑے گا اور میری حیثیت یہ ہے کہ میں تمہیں ان صداقتوں سے آگاہ کروں جنھیں اللہ نے مجھ پر نازل کیا ہے اور اپنے قول و عمل سے تمہارے اندر یقین کی قوت پیدا کرنے کی کوشش کروں اور اس خطرے سے تمہیں آگاہ کروں کہ تم قیامت کے وقت کی کھوج کرید میں لگے ہوئے ہو تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ جب آئے گی تو اس کا آنا اس قدر اچانک ہوگا کہ کوئی اپنے آپ کو بچانے کی تدبیر نہ کرسکے گا۔ حضرت ابوہریرہ ( رض) سے بخاری اور مسلم میں ایک حدیث منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قیامت کے دفعتاً اور اچانک آنے کے متعلق فرمایا کہ لوگ اپنے اپنے کاروبار میں ابھی معاملہ طے نہ کر پائیں گے کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔ ایک شخص اپنی اونٹنی کا دودھ دوھ کر ابھی استعمال نہ کر پائے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔ کوئی شخص کھانے کا لقمہ ہاتھ میں اٹھائے گا ابھی منہ تک نہ پہنچے گا کہ قیامت برپا ہوجائے گی۔ اس لیے وقت کے تعین کی بجائے اس بات کی فکر کرو کہ جس قیامت کا آنا اس قدر اچانک ہے اس کی تیاری کے لیے کوئی لمحہ ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ مزید اس آیت میں اس دن کی ہولناکی، اہمیت اور عظمت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ حادثہ قیامت آسمانوں اور زمین پر بہت بھاری ہوگا کیونکہ آسمانوں اور زمینوں کے ٹکڑے ہوجائیں گے، پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑتے پھریں گے، ہر چیز موت کا شکار ہوجائے گی۔ لیکن بعض اہل علم نے اس کی وضاحت ایک دوسرے انداز میں کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کے بوجھل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ گھڑی آسمان اور زمین میں ایک بوجھ بنی ہوئی ہے اس میں اس حقیقت کی طرف ایک تلمیح ہے کہ جس طرح ایک حاملہ عورت، ولادت کے قریب بار حمل سے گرانبار ہوتی ہے، اگرچہ یہ کوئی نہیں جانتا کہ ولادت کا صحیح وقت کیا ہے لیکن ہر آنکھیں رکھنے والا دیکھتا ہے اور یقین رکھتا ہے کہ یہ عورت جنے گی اور بہت جلد جنے گی وہی حال قیامت اور عذاب کے معاملے میں آسمان و زمین میں غور کرنے والے اربابِ بصیرت کا ہے۔ وہ آسمانوں اور زمین کو اس بوجھ سے گرانبار دیکھتے ہیں اور اگرچہ وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ اس بوجھ سے کب سبکدوش ہوں گے لیکن جس طرح ایک حاملہ اپنے آخری مرحلہ میں اپنے بوجھ سے سبکدوش ہونے کے لیے منتظر اور بےقرار ہوتی ہے، وہی بےقراری آسمان و زمین کے اندر نمایاں ہے۔ اس میں اس بات کی طرف ایک لطیف اشارہ بھی ہے کہ جن لوگوں کو آسمان و زمین کے اندر قیامت اور عذاب کی نشانیاں نظر نہیں آرہی ہیں ان کو گویا آخری مرحلہ میں پہنچی ہوئی حاملہ کا حمل نظر نہیں آرہا ہے۔ لَا تَاْتِیْکُمْ اِلَّا بَغْتَۃًیعنی اس کے علامات و آثار دیکھو اور نہی کو دیکھ کر اس کے آنے کا یقین کرو اور اس کے لیے تیاری کرو، اس کا ظہور جب بھی ہوگا، اچانک ہوگا، اس کے صحیح وقت کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا لیکن اس کے وقت کے نہ جاننے سے اس کے واقع ہونے کی نفی نہیں ہوجاتی۔ ایک حاملہ کے متعلق ہر شخص یقین رکھتا ہے کہ وہ جنے گی اگرچہ یہ نہیں جانتا کہ وہ کس وقت جنے گی۔ اس رکوع کی گزشتہ آیات کے مفاہیم کا خلاصہ اس رکوع کی گزشتہ آیات پر اگر ایک اجتماعی نظر ڈالیں تو سب سے پہلے جو چیز نمایاں نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ قوموں میں عقائد کا بگاڑ اور پیغمبر کی دعوت کو قبول نہ کرنا بلکہ شریعت اور دین کے حوالے سے الجھتے چلے جانا اس کا سب سے بڑا سبب اللہ کے نبی کی حیثیت کو نہ سمجھنا ہے اس لیے ان آیات میں مختلف پہلوئوں سے قوموں کی اس فکری گمراہی کا ازالہ کرنے کی سعی بلیغ کی گئی ہے۔ سب سے پہلی آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ پیغمبر کی دعوت کو قبول کرنے کا نتیجہ پیغمبر کی خبر کے مطا بق ہمیشہ سرافرازی رہا ہے اور اس کو رد کردینے کا نتیجہ تباہی اور بربادی کے سوا کبھی کچھ نہیں ہوا لیکن تم جو پیغمبر کی دعوت کو رد کرنے والوں کو خوشحال اور بظاہر سر افراز دیکھتے ہو یہ حقیقت میں وہ استدراج ہے جس میں پیغمبر کی دعوت کو قبول نہ کرنے والے مبتلا کر دئیے گئے ہیں وہ خود بھی فریب نظر کا شکار ہیں اور تم بھی اس کی حقیقت سمجھنے میں کوتاہی کر رہے ہو۔ دوسری آیت کریمہ میں مشرکین مکہ کو اس حقیقت سے آگاہ کیا گیا ہے کہ تم پیغمبر پر جنون کا الزام دھرتے ہو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ تم پیغمبر کی حقیقت کو نہیں سمجھتے وہ انسان کے ساتھ گہری ہمدردی اور اللہ کی طرف سے ہونے والے فیصلوں پر بےپناہ یقین اور دعوت کے نتائج سے پوری طرح آگاہی کے باعث جس دل سوزی ‘ جانکاہی اور غم گساری کا ثبوت دے رہے ہیں تم انھیں اللہ کی نعمت اور پیغمبر کا احسان سمجھنے کی بجائے جنون سمجھ رہے ہو تمہاری حیثیت بگڑے ہوئے بچوں سے مختلف نہیں جو ماں اور باپ کو اپنے بگاڑ پر روتے ہوئے دیکھ کر ان کے رونے کا سبب جاننے کی بجائے انھیں دیوانہ قرار دینے لگتے ہیں۔ تیسری آیت میں اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا کہ پیغمبر کی بات تمہیں اس لیے بھی جنون کا نتیجہ دکھائی دیتی ہے کہ وہ جن حقائق کو حقیقتِ ثابتہ کے طور پر تمہارے سامنے نمایاں کرتا ہے تم جہالت اور خواہشاتِ نفس کے غلبہ کے سبب انکا ادراک کرنے سے عاجز رہ جاتے ہو حالانکہ وہ پیش پا افتادہ حقیقتیں ہیں لیکن کوئی حقیقت بھی غور و فکر کے بغیر تو قوت ادراک میں نہیں آتی اور تم اپنی بدنصیبی سے غور و فکر سے محروم ہوچکے ہو اسکا نتیجہ یہ ہے کہ پیغمبر کی اصل پہچان اسکی دعوت اور اسکی تعلیمات ہی ہوتی ہیں اور تم انھیں کو نظر انداز کر کے پیغمبر کی حقیقی شناخت سے بےبہرہ رہ جاتے ہو اور اس بات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے کہ ان حقائق کو اگر تم نے اب بھی سمجھ کر زندگی بدلنے کی کوشش نہ کی تو پھر وہ موقع کب آئے گا جب تم راہ راست اختیار کرسکو گے۔ چوتھی آیت میں نہایت حسرت کے انداز میں ایک طرح سے وارننگ دیتے ہوئے فرمایا کہ تم اپنی کرتوتوں سے اللہ کے قانون کی گرفت میں آتے جا رہے ہو اگر ایسا ہوگیا تو پھر تمہاری بدقسمتی اور گمراہی کا علاج کسی کے بس میں نہیں ہوگا۔ پانچویں آیت کریمہ میں یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ اللہ کے نبی کی حقیقی معرفت نہ ہونے کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ تمہاری اصلاح کے لیے جو بنیادی تصورات پیش کر رہا ہے جس میں ایک اہم تر تصور قیامت کا واقع ہونا ہے تم اسے سمجھنے اور یقین کرنے کی بجائے اس بحث میں الجھ گئے ہو کہ ہمیں قیامت کے آنے کا وقت بتایا جائے حالانکہ پیغمبر تم میں یہ فکر پیدا کرنا چاہتا ہے کہ قیامت آئے گی اور تمہیں اپنے ایک ایک عمل کا جواب دینا پڑے گا اب بجائے اسکے کہ تم اس فکری مندی کے باعث اپنے اعمال کے اصلاح کی فکر کرو تم اسے بالکل نظر انداز کر کے اس بحث کے درپے ہو کہ وہ قیامت کب آئے گی اور اس کا ٹھیک وقت کیا ہوگا جو اصل مقصود سے بالکل غیرتعلق بحث ہے اور یہ نتیجہ ہے صرف اس بات کا کہ تم پیغمبر کی اصل حیثیت کو سمجھنے سے عاجز ہو۔ چھٹی آیت میں پیغمبر کی شناخت اور معرفت کے حوالے سے مشرکینِ مکہ جو کو تاہیاں کر رہے تھے انھیں میں سے مزید دو باتوں کا ذکر فرمایا ہے۔
Top