Dure-Mansoor - Al-A'raaf : 187
یَسْئَلُوْنَكَ عَنِ السَّاعَةِ اَیَّانَ مُرْسٰىهَا١ؕ قُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّیْ١ۚ لَا یُجَلِّیْهَا لِوَقْتِهَاۤ اِلَّا هُوَ١ؔۘؕ ثَقُلَتْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ لَا تَاْتِیْكُمْ اِلَّا بَغْتَةً١ؕ یَسْئَلُوْنَكَ كَاَنَّكَ حَفِیٌّ عَنْهَا١ؕ قُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ اللّٰهِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ
يَسْئَلُوْنَكَ : وہ آپ سے پوچھتے ہیں عَنِ : سے (متعلق) السَّاعَةِ : گھڑی (قیامت) اَيَّانَ : کب ہے ؟ مُرْسٰىهَا : اس کا قائم ہونا قُلْ : کہ دیں اِنَّمَا : صرف عِلْمُهَا : اس کا علم عِنْدَ : پاس رَبِّيْ : میرا رب لَا يُجَلِّيْهَا : اس کو ظاہر نہ کرے گا لِوَقْتِهَآ : اس کے وقت اِلَّا : سوا هُوَ : وہ (اللہ) ثَقُلَتْ : بھاری ہے فِي : میں السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین لَا : نہ تَاْتِيْكُمْ : آئے گی تم پر اِلَّا : مگر بَغْتَةً : اچانک يَسْئَلُوْنَكَ : آپ سے پوچھتے ہیں كَاَنَّكَ : گویا کہ آپ حَفِيٌّ : متلاشی عَنْهَا : اس کے قُلْ : کہ دیں اِنَّمَا : صرف عِلْمُهَا : اس کا علم عِنْدَ : پاس اللّٰهِ : اللہ وَلٰكِنَّ : اور لیکن اَكْثَرَ : اکثر النَّاسِ : لوگ لَا يَعْلَمُوْنَ : نہیں جانتے
وہ آپ سے قیامت کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہ اس کا واقع ہونا کب ہے ؟ آپ فرمادیجئے کہ اس کا علم صرف میرے رب ہی کے پاس ہے اسے اس کے وقت پر وہی ظاہر فرمائے گا، وہ آسمانوں میں اور زمین میں بھاری پڑجائے گی، تمہارے پاس اچانک ہی آجائے گا وہ آپ سے سوال کرتے ہیں کہ گویا آپ اس کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کرچکے ہیں، آپ فرما دیجئے کہ اس کا علم صرف اللہ ہی کے پاس ہے لیکن بہت سے لوگ نہیں جانتے
(1) امام ابن اسحق، ابن جریر اور ابو الشیخ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ حمل بن ابی قیش اور سمول بن زید نے رسول اللہ ﷺ سے کہا کہ ہم کو بتائیے قیامت کب ہوگی اگر آپ نبی ہیں جیسے کہ آپ دعوی کرتے ہیں کیونکہ ہم جاننا چاہتے ہیں کہ وہ کیا چیز ہے ؟ تو الہ تعالیٰ نے (یہ آیت) نازل فرمائی لفظ آیت ” یسئلونک عن الساعۃ ایان مرسھا قل انما علمھا عند ربی “ (سے لے کر) ” ولکن اکثر الناس لایعلمون “ تک۔ (2) امام عبد بن حمید اور ابن جریر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” یسئلونک عن الساعۃ ایان مرسھا “ کے بارے میں فرمایا یعنی وہ کب قائم ہوگی ” قل انما علمھا عند ربی، لا یجلیہا لوقتھا الا ھو “ فرمایا قریش نے کہا اے محمد ﷺ ہمارے لئے قیامت کی علامت بیان کیجئے کیونکہ ہمارے اور آپ کے درمیان قرابت کا رشتہ ہے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” یسئلونک کانک حفی عنھا، قل انما علمھا عند اللہ “ قتادہ نے کہا ہم کو یہ بات ذکر کی گئی کہ اللہ کے نبی ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ قیامت لوگوں کو گرا دے گی (یعنی اچانک قائم ہوگی) اور ایک آدمی اپنے مویشیوں کو پانی پلا رہا ہوگا اور ایک آدمی اپنے حوض کو ٹھیک کر رہا ہوگا اور ایک آدمی اپنے ترازو کو نیچے اوپر کر رہا ہوگا۔ اور ایک آدمی اپنے سامان کو بازار میں لگا رہا ہوگا اللہ کا فیصلہ اچانک تم پر نافذ ہوجائے۔ (3) امام ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ” ایان مرسھا “ یعنی قیامت کی انتہاء کب ہوگی۔ (4) امام احمد نے حذیفہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ سے قیامت کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا لفظ آیت ” قل انما علمھا عبد ربی، لا یجلیہا لوقتھا الا ھو “ لیکن میں تم کو اس کی نشانیاں بتاتا ہوں اور جو کچھ اس سے پہلے ظاہر ہوگا۔ بیشک اس سے پہلے فتنہ اور ہرج عام ہوگا۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ فتنہ کو تو ہم نے سمجھ لیا لیکن ھرج کیا ہے آپ نے فرمایا حبشہ کی زبان میں (اس کا مطلب ہے) قتل۔ ظہور فتنے کی پیشنگوئی (5) امام طبرانی اور ابن مردویہ نے ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ سے قیامت کے بارے میں پوچھا گیا اور میں بھی حاضر تھا آپ نے فرمایا لفظ آیت ” الا اللہ ولا یجلبھا لوقتھا الاھو “ لیکن میں عنقریب تم کو اس کی نشانیوں کے بارے میں بتاؤں گا کہ اس سے پہلے فتنے اور ھرج ہوگا ایک آدمی نے کہا یا رسول اللہ ! ھرج کیا چیز ہے ؟ آپ نے فرمایا حبشہ کی زبان میں اس کا معنی ہے قتل، لوگوں کے دل خشک ہوجائیں گے اور آپس میں نفرت پیدا ہوجائے گی۔ پس کوئی ایک دوسرے کو نہیں پہچانے گا صاحب عقل اٹھ جائیں گے اور کم عقل باقی رہ جائیں گے۔ وہ نیکی کو نہیں پہچانیں گے اور کسی برے کام کا انکار نہیں کریں گے۔ (6) مسلم، ابن ابی حاتم، حاکم اور ابن مردویہ نے (حاکم نے اس کو صحیح) بھی کیا ہے۔ جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت کی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ایک مہینہ وفات سے پہلے تم لوگ مجھ سے قیامت کے بارے میں سوال کرتے ہیں اور اس کا علم اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ اور میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں آج کے دن جو نو زائدہ بچہ زمین میں موجود ہے۔ اس پر سو سال گزریں گے۔ (7) امام عبد بن حمید اور ابو الشیخ نے شعبی (رح) سے روایت کیا کہ عیسیٰ ، جبرائیل سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا السلام علیک یا روح اللہ تو انہوں نے بھی جواب میں سلام عرض کیا پھر حضرت عیسیٰ نے جبرائیل سے پوچھا، قیامت کب ہوگی۔ جبرئیل (علیہ السلام) نے اپنے پیروں کو جھاڑا پھر فرمایا مسؤل کو بھی سائل سے زیادہ علم نہیں نہیں پھر فرمایا لفظ آیت ” ایان مرسھا، لا یجلبھا الا ھو “ (یعنی اللہ تعالیٰ ہی اسے اپنے وقت پر ظاہر فرمائیں گے) (8) امام ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” لایجلبھا لوقتھا الاھو “ یعنی اس کو نہیں لائیں گے مگر اللہ تعالیٰ ۔ (9) امام ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اس آیت کے بارے میں فرمایا وہی اس کو ظاہر کر دے گا اس کے وقت پر اور اس کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ (10) امام ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” ثقلت فی السموت والارض “ کے بارے میں فرمایا نہیں ہے کوئی چیز مخلوق میں سے مگر پہنچے گی اس کو تکلیف قیامت کے دن۔ (11) امام عبد الرزاق، ابن جریر، ابن منذر، اور ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” ثقلت فی السموت والارض “ کے بارے میں فرمایا بھاری ہے اس کا عمل (یعنی قیامت کا واقع ہونا) آسمانوں اور زمین کے رہنے والوں پر کیونکہ وہ نہیں جانتے حسن نے فرمایا جب آئے گی تو آسمان اور زمین والوں پر بہت بھاری ہوگی یا فرمایا ان پر انتہائی گراں ہوگی۔ (12) امام ابن جریر، ابن منذر، اور ابو الشیخ نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” ثقلت فی السموت والارض “ کے بارے میں فرمایا جب آئے گی تو آسمان پھٹ جائیں گے یہی جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا اور قیامت کی شدت زمین و آسمان دونوں پر ہوگی۔ (13) امام ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” لا تاتیکم الابغتۃ “ یعنی اچانک آجائے گی حالانکہ تم زمین میں ہوں گے۔ قیامت کیسے قائم ہوگی ؟ (14) امام ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت قائم ہوگی ایک آدمی پر اس حال میں کہ اس کا لقمہ اس کے منہ میں ہوگا۔ نہ اس کو چبائے گا نہ اس کو نگلے گا اور نہ اس کو پھینکے گا اور ایسے دو آدمیوں پر قائم ہوگی کہ وہ اپنے درمیان کپڑا پھیلائے ہوئے ہوں گے خریدو فروخت کے لئے نہ وہ اس کو لپیٹ سکیں گے اور نہ وہ آپس میں خریف و فروخت کرسکیں گے (قیامت قائم ہوجائے گی) (15) امام ابن ابی حاتم نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ ایک آواز دینے والا آواز دے گا اے لوگو تم پر قیامت آچکی ہے تم پر قیامت آچکی ہتے یہ اعلان تین بار کرے گا۔ (16) امام ابن ابی جریر اور ابو الشیخ نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” لا یجلبھا لوقتھا الا ھو “ کے بارے میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہی اسے مقررہ وقت پر بھیجے گا لفظ آیت ” ثقلت فی السموت والارض “ یعنی وہ چھپی ہوئی ہے آسمانوں میں اور زمین میں اس کے قائم ہونے کو کوئی نہیں جانتا کہ کب قائم ہوگی نہ کوئی مقرب فرشتہ اور نہ نبی مرسل لفظ آیت ” لاتاتیکم الا بغتۃ “ یعنی اچانک ان پر آجائے گی اور وہ اس سے غافل ہوں گے۔ (17) امام ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” کانک حفی عنھا “ کے بارے میں فرمایا کہ آپ اس کے بارے میں سوال کرکے تحقیق کرچکے ہیں یہاں تک کہ آپ نے اس کو جان لیا ہے۔ (18) امام ابن ابی شیبہ اور ابن منذر نے مجاہد اور سعید بن جبیر (رح) کے بارے میں لفظ آیت ” کانک حفی عنھا “ کے بارے میں ان میں سے ایک نے کہا گویا آپ اس کے بارے میں جانتے ہیں اور دوسرے نے کہا یہ ضروری ہے کہ اس کے بارے میں سوال کیا جائے۔ (19) امام ابن ابی شیبہ اور ابو الشیخ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” کانک حفی عنھا “ کے بارے میں فرمایا کہ گویا یم نے قیامت کے بارے میں بار بار سوال کیا ہے یہاں تک کہ تم نے اس کو جان لیا ہے۔ (20) امام ابن ابی شیبہ اور ابن منذر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” کانک حفی عنھا “ کے بارے میں ان میں سے ایک نے کہا کہ گویا آپ اس کے بارے میں جانتے ہیں اور دوسرے نے کہا ضروری ہے کہ اس کے بارے میں سوال کیا جائے۔ (21) امام ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” یسئلونک کانک حفی عنھا “ کے بارے میں فرمایا کہ گویا کہ آپ اس کے متعلق جانتے ہیں یعنی آپ اس کے متعلق نہیں جانتے ہیں۔ (22) ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” کانک حفی عنھا “ گویا آپ اسے اچھی طرح (یعنی گہرائی) سے جاننے والے ہیں۔ (23) ابن جریر، ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” یسئلونک کانک حفی عنھا “ کے بارے میں فرمایا کہ تیرے اور ان کے درمیان دوستی ہے گویا کہ تو ان کا دوست ہے ابن عباس نے فرمایا جب لوگوں نے محمد ﷺ سے قیامت کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے آپ سے ایک قوم کا پوچھا گویا کہ وہ یقین رکھتے تھے کہ محمد ﷺ ان سے محبت کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے ایک طرف وحی بھیجی کہ اس کا علم اس کے پاس ہے . اس (ذات) نے اس کے علم کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے اور اس پر کسی فرشتے اور رسول کو مطلع نہیں کیا۔ (24) عبد بن حمید نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” یسئلونک کانک حفی عنھا “ کے بارے میں فرمایا گویا کہ آپ ان کے دوست ہیں لہٰذا جب بھی وہ آپ کے پاس آتے ہیں تو آپ سے (اس بارے) میں سوال کرتے ہیں۔ (25) عبد بن حمید نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” یسئلونک کانک حفی عنھا “ کے بارے میں فرمایا کہ گویا آپ یہ پسند کرتے ہیں کہ وہ آپ سے اس بارے میں سوال کریں۔ (26) عبد بن حمید نے عمر بن دینار (رح) سے روایت کیا کہ ابن عباس ؓ یوں پڑھتے تھے لفظ آیت ” کانک حفی عنھا “۔ (27) امام ابو الشیخ نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” یسئلونک کانک حفی عنھا “ کے بارے میں فرمایا گویا کہ قیامت کے متعلق ان کا آپ سے سوال کرنا آپ کو خوش کرتا ہے تاکہ اس کے متعلق ہم آپ کو آگاہ کریں تو اللہ تعالیٰ نے اسے آپ کے لئے چھپا دیا اور آپ کو مطلع نہ کیا۔ اور فرمایا لفظ آیت ” فیم انت من ذکرھا “ (النازعات آیت 43) اور فرمایا ” اکاد اخفیھا “ (طہ آیت 15) (میں اسے پوشیدہ رکھنا چاہتا ہوں) اور ابی ؓ کی قرأت میں یوں ہے لفظ آیت ” اکاد اخفھا من نفسی “۔ (28) امام ابن جریر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ قریش نے محمد ﷺ سے فرمایا کہ ہمارے اور تیرے درمیان رشتہ داری ہے لہٰذا ہم کو بتائیے کہ قیامت کب آئے گی ؟ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” یسئلونک کانک حفی عنھا “۔
Top