Mualim-ul-Irfan - Al-A'raaf : 205
وَ اذْكُرْ رَّبَّكَ فِیْ نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَّ خِیْفَةً وَّ دُوْنَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِ وَ لَا تَكُنْ مِّنَ الْغٰفِلِیْنَ
وَاذْكُرْ : اور یاد کرو رَّبَّكَ : اپنا رب فِيْ : میں نَفْسِكَ : اپنا دل تَضَرُّعًا : عاجزی سے وَّخِيْفَةً : اور ڈرتے ہوئے وَّدُوْنَ : اور بغیر الْجَهْرِ : بلند مِنَ : سے الْقَوْلِ : آواز بِالْغُدُوِّ : صبح وَالْاٰصَالِ : اور شام وَلَا تَكُنْ : اور نہ ہو مِّنَ : سے الْغٰفِلِيْنَ : بیخبر (جمع)
اور یاد کریں آپ اپنے رب کو اپنے جی میں عاجزی کرتے ہوئے اور ڈرتے ہوئے اور بلند آواز سے کم ، صبح کے وقت اور پچھلے پہر اور نہ ہوں آپ غافلوں میں سے
سجدہ تلاوت سورۃ اعراف کی یہ آخری آیتیں ہیں اور بالکل آخری آیت سجدے والی آیت ہے قرآن پاک کی مختلف سورتوں میں کل چودہ مقامات پر سجدہ تلاوت واجب ہوتا ہے جن میں سے پہلا مقام یہ ہے یہ سجدہ ہر پڑھنے والے اور سننے والے پر لازم آتا ہے امام ابوحنیفہ (رح) اور امام شافعی (رح) کے نزدیک سجدہ تلاوت واجب ہے جب کہ باقی ائمہ کے نزدیک سنت موکدہ ہے بہتر تو یہی ہے کہ جس وقت کوئی شخص تلاوت کرے یا سنے تو اس وقت سجدہ کرلے مگر فی الفور کرنا ضروری بھی نہیں بلکہ بعد میں بھی کیا جاسکتا ہے سجدہ تلاوت کے بھی وہی شرائط ہیں جو سجدہ نماز کے ہیں اس کے لیے بھی جگہ ، جسم اور کپڑے کی پاکیزگی ضروری ہے قبلہ رو ہونا بھی لازم ہے ورنہ سجدہ ادا نہیں ہوگا جس طرح نماز کے لیے وضو کی ضرورت ہے اسی طرح سجدہ تلاوت کے لیے بھی طہارت ضروری ہے اس ضمن میں مولانا مودودی نے لکھا ہے کہ سجدہ تلاوت کے لیے جمہور انہی شرائط کے قائل ہیں جو نماز کی شرطیں ہیں مگر ان شرائط کے لیے انہیں کوئی دلیل نہیں ملی چناچہ انہوں نے بعض آثار سے یہ رائے قائم کی ہے کہ اس سجدہ کے لیے باوضو ہونا ، یا قبلہ رو ہونا یا زمین پر سر رکھنا ضروری نہیں ہے ان کی یہ تحقیق درست نہیں ہے ان کی تفسیر میں اس طرح کی اور بھی اغلاط پائی گئی ہیں مثلاً رمضان میں اختتام سحری کے متعلق ان ک تحقیق یہ ہے کہ اگر کوئی شخص سحری کھا رہا ہو اور اذان کی آواز آجائے تو فوراً چھوڑ نہ دے بلکہ اپنی حاجت پر کھا پی لے ملا علی قاری (رح) شرح نقایہ میں لکھتے ہیں کہ یہ شاذ قول ہے بعض لوگوں نے ایسا کیا ہے مگر غلط ہے صحیح مسئلہ یہ ہے کہ جب طلوع فجر کا یقین ہوجائے تو سحری کھنا بند کردینی چاہیے۔ ذکر الٰہی کے آداب گزشتہ درس میں قرآن پاک کے آداب بیان ہوئے تھے کہ جب اس کی تلاوت ہورہی ہو تو اس کو بغور سنو اور خاموش رہو تاکہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی تمہارے شامل حال ہو اب آج کے درس میں ذکر الٰہی کے آداب کا بیان ہے ارشاد ہوتا ہے واذکر ربک فی نفسک یاد کریں آپ اپنے پروردگار کو اپنے جی میں مولانا اشرف علی تھانوی (رح) اس جملے کا ترجمہ اس طرح کرتے ہیں کہ آپ یاد کریں اور دوسروں کو بھی حکم دیں کہ ہر شخص ایسا ہی کرے نیز تمام امتیوں کو بھی اس بات کا حکم دے دیں اور خود بھی اس بات پر عمل کریں اور یاد کس طرح کریں تضرعاً عاجزی کے ساتھ ، گڑگڑاتے ہوئے اور دوسری بات وخیفۃ یعنی خدا کے جلال سے ڈرتے ہوئے پھر تیسرے نمبر پر ودون الجھرمن القول یعنی بلند آواز سے کم۔ لسانی ذکر یہاں پر ذکر سے مراد زبانی ذکر ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی جاتی ہے قرآن پاک کی تلاوت کی جاتی ہے نماز پڑھی جاتی ہے اور دوسرے اذکار کیے جاتے ہیں زبانی ذکر کے سلسلے میں سورة بنی اسرائیل میں آتا ہے ولا تجھر بصلاتک ولاتخافت بھا وابتغ بین ذلک سبیلاً آپ نماز نہ زیادہ بلند آواز سے پڑھیں اور نہ بہت آہستہ بلکہ درمیانی راستہ اختیار کریں۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ مکی زندگی میں حضور ﷺ کفار کی موجودگی میں بطریق احسن نماز ایسی جگہ ادا کرتے تھے جہاں کفار کا ہجوم نہ ہو کیونکہ کفار قرآن پاک کی بلند آواز سے تلاوت برداشت نہیں کرتے تھے اور اس میں خلل ڈالتے تھے اس لیے اللہ نے حکم دیا کہ آپ بلند آواز سے تلاوت نہ کریں مگر ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ اتنا آہستہ بھی قرآن نہ پڑھیں کہ آپ کے ساتھی بھی نہ سن سکیں لہٰذا ان دونوں حالتوں کا درمیانی راستہ اختیار کریں۔ لسانی ذکر کے بارے میں قانون یہ ہے کہ ذکر بالجہر اور ذکر بالسر دونوں درست ہیں مگر فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ ذکر بالجہر اس وقت روا ہوگا جب کہ دوسروں کے لیے باعث اذیت نہ ہو اگر کوئی آدمی پاس سویا ہوا ہو کوئی شخص بیمار ہے یا کوئی مطالعہ میں مصروف ہے تو ذکر بالجہر مکروہ ہوجاتا ہے البتہ جہاں کسی دوسرے شخص کے معمولات میں نقص نہ آتا ہو وہاں ذکر بالجہر درست ہوگا۔ مولانا عبیداللہ سندھی (رح) فرماتے ہیں کہ ذکر بالجہر اشاعت قرآن و دین کے لیے ہوتا ہے چناچہ رات کی نمازوں میں قرآن پاک بلند آواز سے پڑھا جاتا ہے جب کہ دن کی نمازوں میں آہستہ پڑھنے کا حکم ہے مطلق تلاوت قرآن بالجہر کا مقصد یہ ہے کہ لوگ قرآن پاک سیکھیں اور آہستہ پڑھنے سے مقصود یہ ہے کہ انسان کا تعلق خطیرۃ القدس اور ملاء اعلیٰ کے ساتھ قائم رہے اور اس طرح عالم بالا کے فرشتوں کے ساتھ اس کا اتصال رہے خود انسان کی توجہ بھی ملاء اعلیٰ کی طرف لگی رہے اور یہ بھی اس پاک جماعت میں شامل ہے حضور ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص نماز میں سورة فاتحہ کے اختتام پر آمین کہتا ہے یا امام کے ساتھ سمیع اللہ لمن حمدہ کہتا ہے اور پھر اس کی تحمید اور آمین فرشتوں کے ساتھ موافق ہوگئی تو وہ مغفور ہوگا گویا فرشتوں کے ساتھ شریک ہونا ملاء اعلیٰ کی جماعت میں شریک ہونا ہے اور یہ مقصد ذکر بالسر سے حاصل ہوتا ہے۔ نفسی و قلبی ذکر امام ابوبکر جصاص (رح) اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ذکر نفسی بھی ہوتا ہے جو کہ اپنے دل میں اللہ تعالیٰ کی عظمت ، اس کی قدرت اور دلائل قدرت میں غور و فکر کے ذریعے کیا جاتا ہے یہ غور و فکر ایسی عبادت ہے جس میں ریا کا کچھ دخل نہیں ہوسکتا اگر غور و فکر کریگا تو اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی پہچان ، اس کی عظمت اور بڑائی بیٹھے گی امام صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ نفسی ذکر کی دوسری صورت یہ ہے کہ انسان اپنے قلب روح یا لطائف کے ساتھ خدا تعالیٰ کا ذکر کرے نفسی ذکر کے ذریعے بھی ہوتا ہے چناچہ اصحاب طریقت ذکر میں پاس انفاس کی بھی تلقین کرتے ہیں چناچہ سانس کے ذریعے ذکر کے لیے ایسی مشق کی جاتی ہے کہ ہر اندر جانے اور باہر آنے والے……… سانس کے ساتھ خدا تعالیٰ کا ذکر ہوتا ہے چناچہ اگر کوئی انسان سو رہا ہو تب بھی سانس کے ذریعے اس کا ذکر جاری رہتا ہے۔ قلبی ذکر بھی مشق کرنے سے آتا ہے یہ اگرچہ نہ محسوس ہوتا ہے اور نہ کوئی دوسرا شخص جان سکتا ہے مگر قلبی ذکر ہمیشہ جاری رہتا ہے اور انسان کا قلب ہر وقت اللہ اللہ کرتا رہتا ہے حدیث شریف میں قلبی ذکر کی فضیلت میں آتا ہے کہ حشر کے دن اس کا مرتبہ زبانی ذکر سے ستر گنا زیادہ ہوگا کیونکہ ظاہری ذکر میں تو ریا کا شبہ بھی ہوسکتا ہے مگر قلبی ذکرریا سے بالکل محفوظ ہوتا ہے لہٰذا یہ زیادہ افضل ہے قلبی ، روحی اور سری اذکار انسان کے لطائف کو بیدار کرتے ہیں اور وہ بھی ذکر خدا وندی میں مصروف ہوجاتے ہیں البتہ یہ ہے کہ ایسا ذکر عام آدمی کے بس میں نہیں ہے بلکہ اسے سلوک اور تصوف سے تعلق رکھنے والے ہی انجام دے سکتے ہیں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی روایت میں آتا ہے کان رسول اللہ ﷺ یذکر اللہ علیٰ کل احیانہ یعنی حضور نبی کریم ﷺ اپنے تمام اوقات میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے تھے تو بعض بزرگان دین اسے قلبی ذکر پر ہی محمول کرتے ہیں کیونکہ زبانی ذکر تو بول برازیا مباثرت کے دوران معطل ہوجاتا ہے مگر قلبی ذکر ہر حالت میں جاری رہتا ہے بہرحال ذکر کی ایک صورت یہ بھی ہے۔ باعث تکلیف ذکر ہمارے ملک میں ذکر کا جو طریقہ رائج ہے یا صلوٰۃ وسلام جس طرح پڑھا جاتا ہے یہ مکروہات میں داخل ہے وقت بےوقت لائوڈ سپیکر پر تلاوت ، نعت خوانی یا درود وسلام پڑھا جاتا ہے کوئی نہیں دیکھتا کہ اس سے دوسروں کو کتنی تکلیف ہورہی ہے کسی بیمار کو تکلیف ہوگی طالب علم کے مطالعہ میں خلل واقع ہوگا یا گھر میں کوئی نماز ، تلاوت یا تسبیح میں مصروف ہے مگر ادھر چیخ و پکار جاری ہے منع کرو تو الٹا الزام لگتا ہے کہ ذکر سے روکتے ہیں اخبارات میں اس کے خلاف آواز اٹھتی ہے مگر کہیں شنوائی نہیں ہوتی اس سلسلے میں حکومت بھی بےبس ہے اگر کسی کو سختی سے منع کیا جائے تو بدنامی ہوتی ہے اللہ کا ذکر ہے اس کو کیسے بند کریں حالانکہ یہ غلط بات ہے جو چیز دوسروں کے لیے اذیت کا باعث ہے وہ مکرو تحریمی کے درجے میں آتی ہے غرضیکہ بعض عوارض کی وجہ سے ذکر بالجہر بعض اوقات مکروہ ہوتا ہے پچھلی سورة میں بھی گزر چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر عاجزی کے ساتھ اور آہستہ کرنا بہتر ہے کیونکہ اس میں ریا کاری بھی نہیں ہوتی اور کسی کو تکلیف بھی نہیں ہوگی ایسا ذکر اجر کے لحاظ سے بھی بہتر ہوگا کیونکہ حضور ﷺ کا فرمان ہے خیرالرزق مایکفی وخیرالذکر ماخفی یعنی بہتر روزی وہ ہے جو انسان کے لیے کفایت کرجائے اور بہتر ذکر وہ ہے جو آستہ طریقے سے ہو بعض بزرگان دین اپنے اپنے سلسلہ کے مطابق ابتداء میں ذکر بالجہر کراتے ہیں یہ دل کی قساوت کو دور کرنے کے لیے ہوتا ہے اور اس لیے بھی کہ جسم میں حرارت پیدا ہو ، شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی (رح) فرماتے ہیں کہ حضرت مولانا حاجی امداد اللہ مہاجر مکی (رح) کے ارشاد کے مطابق میں مکہ اور مدینہ میں جب ذکر کرو کرتا تھا تو جسم میں حرکت و حرارت پیدا ہوتی تھی اور میں باہر چلا جاتا تھا اور جھاڑیوں میں بیٹھ کر ذکر کیا کرتا تھا تاکہ یہ سلسلہ بھی قائم رہے اور دوسرے لوگوں کے لیے باعث اذیت بھی نہ ہو غرضیکہ ذکر بالسر بہر طور احسن ہے۔ صبح و شام ذکر تین باتیں پہلے بیان ہوچکی ہیں کہ اپنے رب کا ذکر کرو عاجزی کے ساتھ ، ڈرتے ہوئے اور بلند آواز سے کم تاکہ ریا پیدا نہ ہو اور نہ کسی کے لیے تکلیف کا باعث ہو اور اب چوتھی بات یہ فرمائی بالغدو والا صال صبح بھی اور پچھلے پہر بھی ، بعض فرماتے ہیں کہ غدو سے مراد طلوع فجر سے لے کر طلوع شمس تک کا وقت ہے ۔ مگر صحیح قول یہ ہے کہ اس کا وقت طلوع فجر سے لے کر زوال شمس تک ہے جہاں تک اصال یعنی پچھلے پہر کا تعلق ہے بعض فرماتے ہیں کہ یہ وقت عصر سے مغرب تک کا ہے مگر صحیح بات یہ ہے کہ زوال کے بعد سے لے کر رات کے آنے تک کا وقت مراد ہے دوسرے مقام پر ذلفاً من الیل یعنی رات کی گھڑیوں کے الفاظ آتے ہیں بہرحال فرمایا کہ اپنے رب کو یاد کرو صبح کے وقت بھی اور پچھلے پہر بھی اور طلب یہ ہے کہ ذکر پر ہمیشہ مداومت اختیار کرنی چاہیے ولا تکن من الغفلین اور غافلوں میں نہیں ہونا چاہیے۔ غفلت کا معنی پردہ پڑجانا ہے انسان کے دل پر جہالت او معصیت کا پردہ پڑجاتا ہے اور اس کا اتصال ملاء اعلیٰ کے ساتھ قائم نہیں رہتا اس لیے فرمایا کہ آپ غافلوں میں سے نہ ہوں بلکہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے رہنا چاہیے حدیث شریف میں آتا ہے کہ یاد رکھو ! کہ اللہ تعالیٰ سے بعید چیزوں میں سب سے بعید قلب غافل ہے جب انسان غافل ہوجاتا ہے تو اس کا دل سخت ہوجاتا ہے اور اس پر شیطان مسلط ہوجاتا ہے لہٰذا اس سے بچنے کے لیے اللہ کا ذکر کرنا چاہیے اس کی اطاعت پر کار بند ہونا چاہیے نماز پڑھیں تلاوت قرآن کریں تسبیح واستفغار کریں تاکہ غفلت کے پردے دور ہوجائیں دوسری حدیث میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ جہاں تک ممکن ہو اللہ کا کچھ نہ کچھ ذکر ضرور کرو تاکہ غفلت سے بچ جائو نماز تو بہرحال فرض ہے اس کے علاوہ دیگر اذکار کے لیے بھی کچھ وقت نکالنا چاہیے۔ فرشتوں کی تسبیح اور سجدہ فرمایا ان الذین عند ربک وہ جو تیرے رب کے پاس ہیں یعنی ملاء اعلیٰ اور دوسرے فرشتے ہیں لا یستکبرون عن عبادتہ وہ اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے فرشتے اگرچہ پاک اور مقدس ہیں گناہوں سے مبرا ہیں مگر پھر بھی اللہ کی عبادت میں لگے رہتے ہیں ان کے مقابلے میں انسان تو خطا کار ہیں اس لیے انہیں اس طرف زیادہ توجہ دینی چاہیے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت سے غافل نہیں ہونا چاہیے فرمایا ایک تو فرشتے اللہ کی عبادت کرتے ہیں اس کے علاوہ ویسجونہ وہ ہر وقت اللہ کی تسبیح بیان کرتے رہتے ہیں تسبیح کا معنی خدا تعالیٰ کی تنزیہ ہے جب کوئی شخص سبحان اللہ کہتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہر عجیب ، کمزوری اور نقص سے پاک ہے یہ بہت بلند کلمہ ہے حضور ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ملائکہ کے لیے یہ چار کلمات منتخب فرمائے ہیں یعنی سبحان اللہ ، الحمدللہ ، لا الہ الا اللہ اور اللہ اکبر ، بلاشبہ اللہ ہی بڑا ہے اسی لیے سورة مدخر میں حکم ہے ربک فکبر ، یعنی اپنے پروردگار کی بڑائی بیان کریں اور اس کا ذکر کیا کریں۔ فرمایا اللہ کے فرشتے ایک تو تسبیح بیان کرتے ہیں او دوسرے ولہ یسجدون اور اس کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں سجدہ بھی بہت بڑی عبادت ہے حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ سجدہ کی حالت میں انسان اللہ تعالیٰ کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے سجدہ میں انتہائی درجے کی عاجزی پائی جاتی ہے اور یہی چیز اللہ تعالیٰ کو پسند ہے انسان جس قدر عاجزی کا اظہار کرے گا اتنا ہی مقرب الٰہی ہوگا سورة العلق میں اشراد ہے واسجد واقترب یعنی سجدہ کرکے قرب الٰہی حاصل کرو سجدہ کی مختلف سورتیں ہیں سجدہ نماز کے لیے بھی ہوتا ہے سجدہ تلاوت بھی ہے او عطائے نعمت پر سجدہ شکر بھی ادا کیا جاتا ہے سجدے میں چونکہ تسبیح بھی کی جاتی ہے سحان ربی الاعلیٰ لہٰذا اس میں سجدہ اور تسبیح دونوں چیزیں آجاتی ہیں اسی لیے یہ تقرب الٰہی کا ذریعہ ہے صیح حدیث میں آتا ہے کہ جب کوئی انسان جسدہ کرتا ہے کہ انسان کو سجدے کا حکم ہوا تو اس نے تعمیل حکم کی مگر مجھے سجدہ کا حکم ہوا تو میں انکار کرکے مردود ٹھہرا شیطان کا یہ افسوس اس کے حسد کی بنا پر ہوتا ہے کیونکہ وہ اب توبہ تو کرنا نہیں چاہتا انسان کو سجدہ ریز دیکھ کر اس میں حسد کی آگ بھڑک اٹھتی ہے کہ یہ کیوں اللہ کے سامنے پیشانی کو رکھ رہا ہے کیونکہ وہ تو چاہتا ہے کہ ہر انسان اللہ کا باغی بن کر اس کی جماعت میں شامل ہوجائے تو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے فرشتے اللہ کی عبادت کرنے سے تکبر نہیں کرتے اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں اس کی پاکی بیان کریں اور سجدہ کے ذریعے اس کا تقرب حاصل کریں۔ خلاصہ سورة سورۃ کے آخر میں اس کا خلاصہ بیان ہوگیا ہے یہ مکی سورة ہے اس میں عقائد صحیحہ توحید رسالت ، قیامت عظمت قرآن آگئے ہیں تاریخ رسالت اور توحید اس سورة کے مرکزی مضامین ہیں چونکہ توحید ایک بنیادی مسئلہ ہے اس لیے توحید فی العبادت اور توحید فی الاستعانت کو مکمل طور پر بیان کردیا گیا ہے خدا تعالیٰ کی عبادت اس کا ذکر اور تسبیح و تہیل سورة کالب لباب ہے اللہ تعالیٰ کی تحمیدو تسبیح کرنا فرشتوں اور انسانوں کا مشترکہ فرض ہے اگر انسان فلاح و فوز کے طالب ہیں تو انہیں اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق برقرار رکھنا چاہیے اور اس کا طریقہ وہی ہے جو اس اس سورة میں خاص طور پر بیان کردیا گیا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب الیہ المرجع والماب و صلی اللہ تعالیٰ علی رسولہ محمد والہ و اصحابہ واذواجہ واتباعہ اجمعین برحمتک یا الرحم الراحمین
Top