Mualim-ul-Irfan - Al-A'raaf : 204
وَ اِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَ اَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ
وَاِذَا : اور جب قُرِئَ : پڑھا جائے الْقُرْاٰنُ : قرآن فَاسْتَمِعُوْا : تو سنو لَهٗ : اس کے لیے وَاَنْصِتُوْا : اور چپ رہو لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم پر تُرْحَمُوْنَ : رحم کیا جائے
اور جب قرآن کریم پڑھا جائے ، پس کان لگا کر سنو اس کو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
ربط آیات گزشتہ دروس میں قرآن کریم کے نزول اور اس کے فضائل کا ذکر تھا نیز مشرکین کے جاہلانہ اعتراضات کے جواب میں حکم ہوا کہ آپ مکارم اخلاق کو لازم پکڑیں اور ان کی باتوں سے متاثر نہ ہوں بلکہ درگزر کرنے اور معاف کرنے کی عادت ڈالیں فرمایا ام بالمعروف کا فریضہ ادا کرتے رہیں اور جاہلوں سے نہ الجھیں اگر کسی وقت شیطان کی طرف سے چھیڑ چھاڑ اور وسوسہ اندازی ہو تو فاستعذ باللہ یعنی اللہ کی پناہ میں آجائیں پھر ایمان والوں کے متعلق فرمایا کہ جب انہیں شیطان کی طرف سے وسوسہ آتا ہے تو وہ اللہ کا ذکر کرتے ہیں ایسے لوگ صاحب بصیرت ہوتے ہیں اور شیطان کے پھندے میں نہیں آتے البتہ شیطان کے راستہ پر چلنے والے اس کے بھائی ہوتے ہیں اور وہ انہیں ہمیشہ گمراہ کرتا رہتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی مرضی کے معجزات طلب کرنے والوں کا رد فرمایا انقطاع وحی کے زمانہ میں مشرکین طعن کرتے تھے کہ اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے وحی ہی آتی تو آپ اپنی طرف سے قرآن بنا کرلے آئیں دراصل وہ قرآن کو خدا تعالیٰ کا کلام ہی نہیں سمجھتے تھے اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم (علیہ السلام) سے فرمایا آپ کہہ دیں کہ میں تو وحی الٰہی کا متبع ہوں نہ تو میں خود قرآن بنا سکتا ہوں اور نہ معجزات لانا میرے اختیار میں ہے آخر میں اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کی حیثیت کو بھی واضح کیا اور فرمایا کہ قرآن پاک بصیرت یعنی سوجھ بوجھ کی باتوں پر مشتمل ہے اس کے ماننے والوں کے دلوں میں روشنی پیدا ہوتی ہے دل میں یقین پیدا ہوتا ہے یہ قرآن ہدایت کا سامان مہیا کرتا ہے اور اہل ایمان کے لیے باعث رحمت ہے۔ آداب قرآن اب آج کی آیت میں اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کے آداب بیان کیے ہیں اور اس سے مستفید ہونے کا طریقہ بتلایا ہے ارشاد ہوتا ہے واذا قری القرآن جب قرآن پاک پڑھا جائے فاستمعوا لہ ت اس کو کان لگا کر سنو وانصتوا اور خاموش رہو لعلکم ترحمون تاکہ تم پر حم کیا جائے قرآن کریم ایک عظیم کتاب اور منبع رشد و ہدایت ہے لہٰذا جب یہ پڑھی جائے تو اس کو غور سے سننا چاہیے اور بالکل خاموشی اختیار کرنی چاہیے یہ ایسی بابرکت کتاب ہے کہ اس کا منکر بھی اسے توجہ سے سنے گا تو امید ہے کہ وہ بھی ایمان لے آئے گا اللہ تعالیٰ نے اسے باعث ہدایت اور رحمت بنایا اور جو لوگ اس پر ایمان رکھتے ہیں ان کے لیے تو بدرجہ اولیٰ لازم ہے کہ تلاوت قرآن کے وقت شورشر نہ کریں کوئی جھگڑا تنازعہ برپا نہ کریں بلکہ اسے خاموشی کے ساتھ سنیں سورة حمٰ السجدہ میں کفار کا یہ قول بھی بیان کیا گیا ہے لاسمعوا لھذا القرآن والغوا فیہ لعلکم تغلبون کہ جب قرآن پڑھا جارہا ہو تو اس کو مت سنو بلکہ شوروغوغا کرو تاکہ تمہیں غلبہ حاصل ہو مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تلاوت قرآن کے وقت خوب کان لگا کر سنو اور خاموش رہو تاکہ اللہ کی رحمت تمہارے شامل حال ہو۔ نماز میں کلام کی ممانعت مفسرین کرام اس آیت کا شان نزول یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ اس سے پہلے مسلمان نماز کے دوران کلام بھی کرلیتے تھے ایک دوسرے سے کوئی بات پوچھنا ہوتی تو پوچھ لیتے مثلاً رکعتوں کی تعداد دریافت کرلیتے یا باہر سے آنے والا سلام کہتا تو اس کا جواب دیتے ترمذی شریف کی روایت میں آتا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوگئی فنیھنا عن السلام و الکلام تو ہمیں نماز کے دوران سلام کرنے یا کوئی دیگر کلام کرنے سے روک دیا گیا سورة بقرہ کی آیت وقومو للہ قنتین میں بھی اسی مضمون کو بیان کیا گیا یعنی اللہ کے دربار میں عاجزی اور خاموشی اختیار کرتے ہوئے کھڑے ہو اور نماز کو نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کرو۔ فروعی اختلافات چونکہ نماز میں قرآن پاک کی تلاوت لازمی ہے اس لیے فقہائے کرام نے اس آیت کا اطلاق نماز پر بھی کیا ہ کے تاہم محدثین اور فقہائے کرام کا بعض فروعی مسائل میں اختلاف ہے اس قسم کے اختلافات صحابہ کرام ؓ میں بھی پائے گئے ہیں اور ان کی ممانعت نہیں کیونکہ یہ اختلاف کسی اصول میں نہیں ہوتے بلکہ کسی ایسی فرع میں ہوتے ہیں جہاں اختلاف کی فی الواقع گنجائش موجود ہو دلائل کو سمجھنے میں اختلاف کا پیدا ہونا ایک فطری بات ہے اور اس ضمن میں قوی دلائل کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا نماز کی عمومی حیثیت میں تو کسی صحابی یا اہل حق فقیہہ کا اختلاف نہیں ہے تاہم اس کی کیفیت اور بعض جزیات میں اختلاف ضرور موجود ہے حنفی ، شافعی ، مالکی اور ظاہری مسالک انہی اختلافات پر مبنی ہیں ہر مسلک کا پیروکار اپنے اپنے مسلک کے مطابق نماز ادا کرتا ہے مگر دوسرے کو کسی بات پر مجبور نہیں کرتا اسکے باوجود بعض لوگ تشد سے بھی کام لیتے ہیں اور اپنے مسلک ک ہی حرف آخر سمجھ کر دوسروں پر گمراہی کا فتویٰ لگاتے ہیں حالانکہ ایسا کرنا بذات خود گمراہی ہے دلائل کے ساتھ اختلاف رائے اچھی بات ہے مگر اس میں تشدد کا پہلو نمایاں نہیں ہونا چاہیے۔ اس بات پر تمام فقہائے کرام متفق ہیں کہ صدقہ و خیرات کا ثواب مرنے والے کو پہنچتا ہے مگر نماز کے ثواب پہنچنے میں اختلاف پایا جاتا ہے بعض کہتے ہیں کہ نماز کا ثواب بھی پہنچتا ہے جب کہ بعض دوسرے اس کو تسلیم نہیں کرتے چونکہ اس مسئلہ میں کوئی صحیح حدیث نہیں پہنچی اس لیے اختلاف پایا جاتا ہے اسی طرح تلاوت قرآن پاک کے ایصال ثواب کا مسئلہ ہے امام بو حنیفہ (رح) اور امام احمد (رح) کہتے ہیں کہ مرنے والے کو ثواب پہنچتا ہے جب کہ امام مالک (رح) اور امام شافعی (رح) کہتے ہیں کہ قرآن مجید پڑھنے کا ثواب مرنے والے کو نہیں پہنچتا وہ فرماتے ہیں کہ صدقہ خیرات ، دعا اور استغفار کا فائدہ تو مردے کو ہوتا ہے مگر تلاوت قرآن کا فائدہ تلاوت کرنے والے کو ہی ہوتا ہے کسی دوسرے کو ایصال ثواب نہیں ہوتا اس قسم کے اختلافات مختلف دلائل کی بنا پر ہوتے ہیں۔ قرآت فاتحہ میں اختلاف فقہائے کرام کا اس مسئلہ میں بھی اختلاف ہے کہ نماز میں سورة فاتحہ متعین ہے یا نہیں امام ابوحنیفہ (رح) ، امام سفیان ثوری اور امام اوزاعی (رح) فرماتے ہیں کہ سورة فاتحہ متعین نہیں ہے اور قرآن کا کوئی بھی حصہ نماز میں پڑھ لیا جائے تو فرض ادا ہوجاتا ہے البتہ امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ چونکہ حدیث میں سورة فاتحہ پڑھنے کی تاکید آتی ہے لہٰذا اس کا پڑھن وجوب کا درجہ رکھتا ہے اور واجب کے ترک سے نماز میں نقصان آتا ہے بالکل باطل نہیں ہوتی حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا جس نماز میں سورة فاتحہ نہ پڑھی گئی فھی خدا ج غیر تمام ایسی نماز ناقص ہے لہٰذا سورة فاتحہ کا پڑھنا واجب ہے اس سلسلہ میں سورة مزمل کی آیت فاقرء و ماتیسی من القرآن کا حوالہ بھی دیتے ہیں کہ قرآن پاک کا جو حصہ بھی میسر ہو پڑھ لو ایک لمبی آیت یا تین چھوٹی آیات کی تلاوش ادائیگی فرض کے لیے کافی ہوگی یہ کوئی بھی آیات ہوسکتی ہیں سورة فاتحہ ضروری نہیں تاہم جیسا کہ پہلے عرض کیا حدیث میں تاکید کی بنا پر سورة فاتحہ کا وجوب کا درجہ حاصل ہے اور پھر اس کے ساتھ دوسری سورة کا ملانا بھی واجب ہے کیونکہ حدیث شریف میں آتا ہے لاصلوٰہ الا بقراء ۃ یعنی قرأت کے بغیر نماز نہیں ہوتی بخاری اور مسلم شریف کی روایت میں یہ الفاظ بھی آتے ہیں لاصلوٰۃ لمن لم یقرئ ، بام القرآن فصاعداً یعنی اس شخص کی نماز نہیں جس نے ام القرآن (سورۃ فاتحہ) اور کچھ زیادہ حصہ قرآن نہیں پڑھا تاہم امام بخاری (رح) نے فصاعداً کا لفظ نقل نہیں کیا امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ سورة فاتحہ اور اس کے ساتھ دوسری سورة ملانا دونوں واجب ہیں مگر فاتحہ رکن نہیں ہے کہ اس کے بغیر نماز بالکل باطل ہی ہوجاتی ہو البتہ مطلق قرأت فرض ہے اگر قرأت بالکل نہ کی جائے تو نماز نہیں ہوگی اور اگر وجب ترک ہوجائے تو سجدہ سہو کرنے سے تلافی ہوجائے گی مثلاً اگر کوئی شخص فرائض یعنی قیام ، رکوع ، سجود یا قعدہ قدرت کے باوجود ترک کردے تو اس کی نماز نہیں ہوگی اسی طرح مطلقاً قرأت کے ترک سے بھی نماز باطل ہوگی۔ نمازی کی تین حالتیں کوئی نمازی تین حالتوں سے خالی نہیں ہوتا یا تو وہ منفرد ہوتا ہے یا امام ہوتا ہے اور یا مقتدی ، ہر حالت کے الگ الگ احکام ہیں اور ان کو آپس میں غلط ملط کرکے الجھا دیا جاتا ہے جو کہ کسی طور بھی مناسب نہیں ہے امامت کے متعلق حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ الامام ضامن یعنی امام پوری جماعت کا ضامن ہوتا ہے۔ اس لیے اسے نہایت احتیاط کے ساتھ نماز پڑھنی چاہیے تاکہ مقتدیوں کی نماز خراب نہ ہو اور ساتھ اقتدا کی نیت بھی کرنی چاہیے۔ جو شخص انفرادی طور پر نماز ادا کرتا ہے دوثنا کے بعد سورة فاتحہ بھی پڑھے گا اور اس کے ساتھ کوئی دوسری سورة بھی ملائے گا پھر فرائض اور نوافل کی قرأت میں بھی فرق ہے سنن اور نوافل میں چاروں رکعتوں میں سورة فاتحہ کے بعد سورة ملانا ضروری ہے وتر کی تیسری رکعت میں فاتحہ کے بعد کوئی دوسری سورة ملانا ضروری نہیں بلکہ صرف سورة فاتحہ پڑھنا ہی سنت ہے اگر فاتحہ بھی نہ پڑھے صرف تسبیح کرے یا خاموش کھڑا رہے تب بھی نماز ہوجائے گی امام کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ فرائض کی پہلی دو رکعتوں میں سورة فاتحہ اور اس کے ساتھ کوئی دوسری سورة بھی ملائے گا ورنہ سب کی نماز باطل ہوگی امام احمد (رح) اپنی کتاب الصلوٰۃ میں لکھتے ہیں کہ میں نے کم و بیش ایک سو مسجدوں میں نماز ادا کی اور لوگوں کو نماز میں کوتاہی کرتے پایا چناچہ میں نے یہ کتاب لکھی اگر امام پورے شرائط کے ساتھ نماز پڑھائے گا تو جملہ نمازیوں کے برابر ثواب ملے گا لہٰذا امامت میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہے حضور ﷺ نے اللہ رب العزت سے دعا کی کہ مولا کریم ! ہمارے اماموں کو ہدایت عطا فرما موذنین کے لیے بھی بروقت اذان کہنے کی دعا کی بےوقت اذان سے نماز میں خلل واقع ہوسکتا ہے مثال کے طور پر اگر نماز فجر کی اذان طلوع فجر سے پندرہ منٹ پہلے دیدی جائے اور اس دوران کسی شخص نے سنتیں ادا کیں تو وہ ادا نہیں ہوں گی۔ فاتحہ خلف امام تیسری حالت مقتدی کی ہے اور اس کے لیے الگ احکام ہیں مولانا محمد قاسم ناناتوی ؓ فرماتے ہیں کہ ہر مقام اور محل کے الگ الگ آداب ہیں مقتدی شخص تکبیر وتحمید تو کرے گا مگر قرأت نہیں کرے گا کیونکہ قرأت صرف امام کرے گا اور مقتدی اسے سنیں گے موطا امام مالک میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے من کان لہ امام فقراۃ الامام لہ قرادۃ یعنی امام کی قرأت ہی مقتدی کی قرأت ہے لہٰذا مقتدی کو قرأت کرنے کی ضرورت نہیں رہتی اس کے علاوہ آج کی آیت بھی اس بات کی تائید کررہی ہے کہ جب قرآن پاک پڑھا جائے تو اسے کان لگا کر سنو اور خاموش رہو اس پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ یہ سورة اعراف مکی ہے جب کہ نماز با جماعت کے احکام زیاہ تر مدنی زندگی میں نازل ہوئے اس کا جواب یہ ہے کہ بعض مکی سورتوں میں مدنی آیات بھی شامل ہیں اور ہوسکتا ہے کہ یہ آیت مدنی ہی ہو اور پھر یہ بھی ہے کہ قرآن پاک بغور سننے کا حکم عام ہے اور اس میں کوئی تخصیص نہیں ہے لہٰذا اسے نماز پر محمول کیا جاسکتا ہے بعض احکام ایسے ہیں کہ ان کا اجمالی ذکر مکی زندگی میں ہوا مگر تفصیلات مدنی زندگی میں جاکر نازل ہوئیں مثلاً زکوٰۃ کی ادائیگی کا حکم مکی سورة مزمل میں موجود ہے واقموا الصلوٰۃ واتوالزکوۃ مگر اس کا نصاب اور دیگر تفصیلات مدینہ طیبہ میں 2 ھ میں مقرر ہوا چناچہ امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ اگر اس آیت کو مدنی بھی تسلیم کیا جائے تب بھی یہ نماز ہی کے متعلق ہے اور اس کا حکم خطبہ جمعہ پر بھی عائد ہوتا ہے کہ اس کا سننا بھی ضروری ہے جیسا کہ احادیث سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ امام ابوبکر جصاص (رح) فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے دو باتیں بیان فرمائی ہیں پہلی بات یہ ہے کہ جب نماز میں قرأت بلند آواز سے ہورہی ہو تو فاستمعوا لہ اس کو کان لگا کر سنو۔ اور جب قرأت بالسر ہورہی ہو یا مقتدی تک امام کی قرأت کی آواز نہ پہنچ رہی ہو تو ایسی صورت میں فانصتوا کا حکم ہے یعنی خاموش رہو اسی لیے امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ نماز جہری ہو یا سری مقتدی کو ہر حالت میں خاموش ہی رہنا چاہیے اسے خود قرأت نہیں کرنی چاہیے کیونکہ امام کی قرأت اس کے لیے کافی ہے اس سلسلے میں بہت سی صحیح احادیث بھی موجود ہیں حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ اور حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایات مسلم شریف ، سنن اربعہ ، (ابن ماجہ ، ترمی ، ابودائود او نسائی) مسند احمد وغیرہ میں موجود ہیں اذا کبرالامام فکبرو جب امام تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو واذا قرافانصتوا اور جب امام قرأت کرے تو تم خاموش رہو پھر جب امام ولا الضالین کہے تو تم آمین کہو چناچہ صحابہ کرام ؓ کی اکثریت امام کے پیچھے سورة فاتحہ پڑھنے سے منع کرتی ہے البتہ بعض اکا دکا صحابی اس کے حق میں ہیں ان میں محمود ابن ربیع ؓ ہیں جو چوٹی عمر کے صحابی ہیں اور عبادہ بن صامت ؓ انصار مدینہ میں سے ہیں مسلم شریف میں زید بن ثابت ؓ سے روایت ہے لاقراء ۃ مع الامام فی شی ئٍ بعنی امام کے ساتھ قرأت کا حکم نہیں ہے حضرت جابر ؓ سے موطا امام مالک میں روایت ہے کہ جس نماز میں فاتحہ نہ پڑھی جائے وہ ناقص ہے الا وراء الامام ماسوائے اس کے کہ کوئی شخص امام کے پیچھے نماز ادا کررہا ہو۔ امام ترمذی (رح) سے ہی یہ روایت بھی نقل کی جاتی ہے لاصلوٰۃ الا بقراء ۃ الفاتحۃ یعنی فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی امام ابوحنیفہ (رح) اس حدیث کو مطلق قرأت پر محمول کرتے ہیں اور فاتحہ کو واجب کا درجہ دیتے ہیں دوسری بات یہ ہے کہ امام بخاری (رح) نے حدیث کے الفاط اس طرح نقل کیے ہیں لاصلوٰۃ الا بفاتحۃ الکتب یعنی سورة فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی مگر آپ نے اس کے ساتھ فصاعدًا کا لفظ چھوڑ دیا ہے حالانکہ امام مسلم (رح) نے اسے نقل کیا ہے اس سے معلوم ہوا کہ سورة فاتحہ کے ساتھ کوئی دوسری سورة ملانا بھی ضروری ہے مگر فاتحہ کو ضروری قرار دینے والے لوگ دوسری سورة کو ضروری قرار نہیں دیتے اس سے بھی معلوم ہوا کہ صحیح مسئلہ یہی ہے کہ مقتدی سورة فاتحہ نہ پڑھے دلیل کے اعتبار سے فاتحہ خلف امام کمزور ہے امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) موطا کی فارسی شرح مصفا میں لکھتے ” قرأت فاتحہ باامام و صحابہ شائع نہ بود “ یعنی امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنا صحابہ کرام میں مشہور نہیں تھا کوئی اکا دکا ہی پڑھتا ہے ان میں سے عبادہ بن صامت ؓ اور کم عمر صحابی محمود ابن ربیع ؓ کا ذکر پہلے ہوچکا ہے۔ امام ترمذی (رح) نے اس مسئلہ میں کافی بحث کی ہے اور فرماتے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں کہ من لم یفراء فصلوتہ جائزۃ یعنی جس آدمی نے امام کے پیچھے فاتحہ نہیں پڑھی اس کی نماز صحیح ہے البتہ بعض نے تشدد کیا ہے جن میں امام ترمذی (رح) کے استاد امام بخاری (رح) اور چوتھی صدی کے محدث امام بہقی (رح) ہیں یہ سورة فاتحہ کو نماز کا ر کن قرار دیتے ہیں جس کے بغیر نماز باطل ہوتی ہے تاہم جو دلائل پیش کیے ہیں وہ کمزور ہیں امام بخاری (رح) نے اس مسئلہ میں ایک رسالہ بھی لکھا ہے مگر دلائل قوی نہیں ہیں باقی آئمہ فاتحہ نہ پڑھنے کے حق میں ہیں اور ان کے دلائل بھی قوی ہیں ائمہ اربعہ میں سے امام مالک (رح) ، شافعی (رح) اور احمد کا مسلک یہ ہے کہ جہری نماز میں جب امام کی قرأت سنائی دے رہی ہو تو مقتدی قرأت نہ کرے اور سری نماز میں مقتدی کے لیے سورة فاتحہ پڑھنا مستجب ہے یعنی نہ تو فرض ہے اور نہ واجب اور نہ ہی اس کے ترک سے گناہ لازم آتا ہے بہرحال آئمہ اربعہ میں سے کوئی بھی فاتحہ خلف الامام کو لازمی نہیں سمجھتا۔ امام شافعی (رح) کے متعلق مشہور ہے کہ آپ فاتحہ کو فرض قرار دیتے تھے مگر یہ بات درست ثابت نہیں ہوسکی قیام عراق کے دوران آپ یہ فتویٰ دیتے تھے مگر آپ کی کتاب الام جلد ہفتہ میں یہ مسئلہ موجود ہے کہ اگر امام قرأت بالسر ہورہی ہو تو مقتدی بھی پڑھ سکتا ہے آپ نے کتاب الام اپنی عمر کے آخری چار سالوں میں قیام مصر کے دوران لکھی وہیں فوت ہوئے اور وہیں آپ کی قبر ہے مطلب یہ کہ امام شافعی (رح) کا آخری مسلک بھی یہی ہے کہ وہ سورة فاتحہ کی فرضیت کے قابل نہیں ہیں۔ نماز میں جھگڑا مسلم شریف میں روایت موجود ہے حضور ﷺ نے نماز پڑھائی ایک شخص نے پیچھے پڑھنا شروع کردیا نماز ختم ہوئی تو حضور نے فرمایا مالی انازع القرآ کیا بات ہے میرے ساتھ قرآن میں جھگڑا کیا جارہا ہے فرمایا امام کے پیچھے مت پڑھا کرو چناچہ امام زہری (رح) فرماتے ہیں فانتھی الناس پس لوگ جہری نماز میں امام کے پیچھے پڑھنے لے رک گئے امام ابوحنیفہ (رح) ، امام سفیان ثوری (رح) اور امام اوزاعی (رح) اور ان کے شاگردوں کا بھی یہی مسلک ہے ہدایہ میں امام محمد (رح) کی حرف یہ بات منسوب کی گئی ہے کہ آپ سری نماز میں امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنے کے قائل تھے مگر یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ ان کی اپنی کتاب میں مذکور ہے کہ میں اور میرے استاد اس بات کے قائل ہیں کہ نماز سری ہو یا جہری مقتدی کے لیے قرأت کرنا جائز نہیں ہے۔ حاصل کلام حاصل کلام یہ ہوا کہ امہ اربعہ میں سے کوئی بھی فاتحہ خلف امام کی فرضیت کا قائل نہیں ہے جمہور صحابہ ؓ اور امام شاہ ولی اللہ (رح) کا بھی یہی مسلک ہے حضرت ابوہریرہ ؓ سے دونوں قسم کی روایات ملتی ہیں ابن عباس ؓ ، ابن مسعود ؓ ، خلفائے راشدین ؓ ، ابوسعید خدری ، زید بن ثابت ؓ ، جابر بن عبداللہ وغیر ہم عدم قرأت کے قائل ہیں بہرحال اس مسئلہ میں امام ابوحنیفہ کا موقف کمزور نہیں ہے لوگ غلط پراپیگنڈا کرتے ہیں کہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں اور جس کی نماز نہیں وہ جہنمی ہے ان لوگوں کے دلائل کمزور ہیں صرف دو اماموں نے تشدد کیا ہے اور امام بخاری (رح) کے شاگرد بھی کہتے ہیں کہ ہمارے امام متشدد ہیں احناف اس سلسلہ میں اپنا موقف پیش کرتے ہیں اور کسی سے جھگڑا نہیں کرتے اور نہ یہ فتویٰ دیتے ہیں کہ فاتحہ خلف الامام پڑھنے والے کی نماز نہیں ہوتی لہٰذا دوسرے لوگوں کو بھی حق نہیں پہنچتا کہ وہ فاتحہ نہ پڑھنے والوں پر فتویٰ لگائیں کہ ان کی نماز نہیں ہوتی اس کا فیصلہ تو اللہ تعالیٰ پر ہے فروعی مسائل میں اپنی اپنی رائے ہے اور پھر اس کے پیچھے دلائل ہیں جو کسی پر نماز نہ ہونے کا فتویٰ لگاتا ہے وہ گمراہ ہوگا یا متشدد ہوگا اور تشدد درست نہیں ہے مضبوط موقف کو اختیار کرنا چاہیے حدیث شریف میں آتا ہے کہ تشدد نہ کرو ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تم پر تشدد کرے گا۔ سورۃ فاتحہ کے متعلق بہت سی تفصیلات ہیں میں نے چند باتوں کی طرف اشارہ کردیا ہے قوی مسلک یہی ہے کہ امام کے پیچھے فاتحہ نہیں پڑھنی چاہیے اور جو پڑھتا ہے اس کے ساتھ الجھنے کی ضرورت نہیں ہے بہرحال اس آیت کریمہ کا حکم یہی ہے کہ جب قرآن پاک پڑھا جائے تو اسے کان لگا کر سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر حم کیا جائے۔
Top