Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-A'raaf : 204
وَ اِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَ اَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ
وَاِذَا
: اور جب
قُرِئَ
: پڑھا جائے
الْقُرْاٰنُ
: قرآن
فَاسْتَمِعُوْا
: تو سنو
لَهٗ
: اس کے لیے
وَاَنْصِتُوْا
: اور چپ رہو
لَعَلَّكُمْ
: تاکہ تم پر
تُرْحَمُوْنَ
: رحم کیا جائے
اور جب قرآن کریم پڑھا جائے ، پس کان لگا کر سنو اس کو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
ربط آیات گزشتہ دروس میں قرآن کریم کے نزول اور اس کے فضائل کا ذکر تھا نیز مشرکین کے جاہلانہ اعتراضات کے جواب میں حکم ہوا کہ آپ مکارم اخلاق کو لازم پکڑیں اور ان کی باتوں سے متاثر نہ ہوں بلکہ درگزر کرنے اور معاف کرنے کی عادت ڈالیں فرمایا ام بالمعروف کا فریضہ ادا کرتے رہیں اور جاہلوں سے نہ الجھیں اگر کسی وقت شیطان کی طرف سے چھیڑ چھاڑ اور وسوسہ اندازی ہو تو فاستعذ باللہ یعنی اللہ کی پناہ میں آجائیں پھر ایمان والوں کے متعلق فرمایا کہ جب انہیں شیطان کی طرف سے وسوسہ آتا ہے تو وہ اللہ کا ذکر کرتے ہیں ایسے لوگ صاحب بصیرت ہوتے ہیں اور شیطان کے پھندے میں نہیں آتے البتہ شیطان کے راستہ پر چلنے والے اس کے بھائی ہوتے ہیں اور وہ انہیں ہمیشہ گمراہ کرتا رہتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی مرضی کے معجزات طلب کرنے والوں کا رد فرمایا انقطاع وحی کے زمانہ میں مشرکین طعن کرتے تھے کہ اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے وحی ہی آتی تو آپ اپنی طرف سے قرآن بنا کرلے آئیں دراصل وہ قرآن کو خدا تعالیٰ کا کلام ہی نہیں سمجھتے تھے اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم (علیہ السلام) سے فرمایا آپ کہہ دیں کہ میں تو وحی الٰہی کا متبع ہوں نہ تو میں خود قرآن بنا سکتا ہوں اور نہ معجزات لانا میرے اختیار میں ہے آخر میں اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کی حیثیت کو بھی واضح کیا اور فرمایا کہ قرآن پاک بصیرت یعنی سوجھ بوجھ کی باتوں پر مشتمل ہے اس کے ماننے والوں کے دلوں میں روشنی پیدا ہوتی ہے دل میں یقین پیدا ہوتا ہے یہ قرآن ہدایت کا سامان مہیا کرتا ہے اور اہل ایمان کے لیے باعث رحمت ہے۔ آداب قرآن اب آج کی آیت میں اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کے آداب بیان کیے ہیں اور اس سے مستفید ہونے کا طریقہ بتلایا ہے ارشاد ہوتا ہے واذا قری القرآن جب قرآن پاک پڑھا جائے فاستمعوا لہ ت اس کو کان لگا کر سنو وانصتوا اور خاموش رہو لعلکم ترحمون تاکہ تم پر حم کیا جائے قرآن کریم ایک عظیم کتاب اور منبع رشد و ہدایت ہے لہٰذا جب یہ پڑھی جائے تو اس کو غور سے سننا چاہیے اور بالکل خاموشی اختیار کرنی چاہیے یہ ایسی بابرکت کتاب ہے کہ اس کا منکر بھی اسے توجہ سے سنے گا تو امید ہے کہ وہ بھی ایمان لے آئے گا اللہ تعالیٰ نے اسے باعث ہدایت اور رحمت بنایا اور جو لوگ اس پر ایمان رکھتے ہیں ان کے لیے تو بدرجہ اولیٰ لازم ہے کہ تلاوت قرآن کے وقت شورشر نہ کریں کوئی جھگڑا تنازعہ برپا نہ کریں بلکہ اسے خاموشی کے ساتھ سنیں سورة حمٰ السجدہ میں کفار کا یہ قول بھی بیان کیا گیا ہے لاسمعوا لھذا القرآن والغوا فیہ لعلکم تغلبون کہ جب قرآن پڑھا جارہا ہو تو اس کو مت سنو بلکہ شوروغوغا کرو تاکہ تمہیں غلبہ حاصل ہو مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تلاوت قرآن کے وقت خوب کان لگا کر سنو اور خاموش رہو تاکہ اللہ کی رحمت تمہارے شامل حال ہو۔ نماز میں کلام کی ممانعت مفسرین کرام اس آیت کا شان نزول یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ اس سے پہلے مسلمان نماز کے دوران کلام بھی کرلیتے تھے ایک دوسرے سے کوئی بات پوچھنا ہوتی تو پوچھ لیتے مثلاً رکعتوں کی تعداد دریافت کرلیتے یا باہر سے آنے والا سلام کہتا تو اس کا جواب دیتے ترمذی شریف کی روایت میں آتا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوگئی فنیھنا عن السلام و الکلام تو ہمیں نماز کے دوران سلام کرنے یا کوئی دیگر کلام کرنے سے روک دیا گیا سورة بقرہ کی آیت وقومو للہ قنتین میں بھی اسی مضمون کو بیان کیا گیا یعنی اللہ کے دربار میں عاجزی اور خاموشی اختیار کرتے ہوئے کھڑے ہو اور نماز کو نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کرو۔ فروعی اختلافات چونکہ نماز میں قرآن پاک کی تلاوت لازمی ہے اس لیے فقہائے کرام نے اس آیت کا اطلاق نماز پر بھی کیا ہ کے تاہم محدثین اور فقہائے کرام کا بعض فروعی مسائل میں اختلاف ہے اس قسم کے اختلافات صحابہ کرام ؓ میں بھی پائے گئے ہیں اور ان کی ممانعت نہیں کیونکہ یہ اختلاف کسی اصول میں نہیں ہوتے بلکہ کسی ایسی فرع میں ہوتے ہیں جہاں اختلاف کی فی الواقع گنجائش موجود ہو دلائل کو سمجھنے میں اختلاف کا پیدا ہونا ایک فطری بات ہے اور اس ضمن میں قوی دلائل کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا نماز کی عمومی حیثیت میں تو کسی صحابی یا اہل حق فقیہہ کا اختلاف نہیں ہے تاہم اس کی کیفیت اور بعض جزیات میں اختلاف ضرور موجود ہے حنفی ، شافعی ، مالکی اور ظاہری مسالک انہی اختلافات پر مبنی ہیں ہر مسلک کا پیروکار اپنے اپنے مسلک کے مطابق نماز ادا کرتا ہے مگر دوسرے کو کسی بات پر مجبور نہیں کرتا اسکے باوجود بعض لوگ تشد سے بھی کام لیتے ہیں اور اپنے مسلک ک ہی حرف آخر سمجھ کر دوسروں پر گمراہی کا فتویٰ لگاتے ہیں حالانکہ ایسا کرنا بذات خود گمراہی ہے دلائل کے ساتھ اختلاف رائے اچھی بات ہے مگر اس میں تشدد کا پہلو نمایاں نہیں ہونا چاہیے۔ اس بات پر تمام فقہائے کرام متفق ہیں کہ صدقہ و خیرات کا ثواب مرنے والے کو پہنچتا ہے مگر نماز کے ثواب پہنچنے میں اختلاف پایا جاتا ہے بعض کہتے ہیں کہ نماز کا ثواب بھی پہنچتا ہے جب کہ بعض دوسرے اس کو تسلیم نہیں کرتے چونکہ اس مسئلہ میں کوئی صحیح حدیث نہیں پہنچی اس لیے اختلاف پایا جاتا ہے اسی طرح تلاوت قرآن پاک کے ایصال ثواب کا مسئلہ ہے امام بو حنیفہ (رح) اور امام احمد (رح) کہتے ہیں کہ مرنے والے کو ثواب پہنچتا ہے جب کہ امام مالک (رح) اور امام شافعی (رح) کہتے ہیں کہ قرآن مجید پڑھنے کا ثواب مرنے والے کو نہیں پہنچتا وہ فرماتے ہیں کہ صدقہ خیرات ، دعا اور استغفار کا فائدہ تو مردے کو ہوتا ہے مگر تلاوت قرآن کا فائدہ تلاوت کرنے والے کو ہی ہوتا ہے کسی دوسرے کو ایصال ثواب نہیں ہوتا اس قسم کے اختلافات مختلف دلائل کی بنا پر ہوتے ہیں۔ قرآت فاتحہ میں اختلاف فقہائے کرام کا اس مسئلہ میں بھی اختلاف ہے کہ نماز میں سورة فاتحہ متعین ہے یا نہیں امام ابوحنیفہ (رح) ، امام سفیان ثوری اور امام اوزاعی (رح) فرماتے ہیں کہ سورة فاتحہ متعین نہیں ہے اور قرآن کا کوئی بھی حصہ نماز میں پڑھ لیا جائے تو فرض ادا ہوجاتا ہے البتہ امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ چونکہ حدیث میں سورة فاتحہ پڑھنے کی تاکید آتی ہے لہٰذا اس کا پڑھن وجوب کا درجہ رکھتا ہے اور واجب کے ترک سے نماز میں نقصان آتا ہے بالکل باطل نہیں ہوتی حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا جس نماز میں سورة فاتحہ نہ پڑھی گئی فھی خدا ج غیر تمام ایسی نماز ناقص ہے لہٰذا سورة فاتحہ کا پڑھنا واجب ہے اس سلسلہ میں سورة مزمل کی آیت فاقرء و ماتیسی من القرآن کا حوالہ بھی دیتے ہیں کہ قرآن پاک کا جو حصہ بھی میسر ہو پڑھ لو ایک لمبی آیت یا تین چھوٹی آیات کی تلاوش ادائیگی فرض کے لیے کافی ہوگی یہ کوئی بھی آیات ہوسکتی ہیں سورة فاتحہ ضروری نہیں تاہم جیسا کہ پہلے عرض کیا حدیث میں تاکید کی بنا پر سورة فاتحہ کا وجوب کا درجہ حاصل ہے اور پھر اس کے ساتھ دوسری سورة کا ملانا بھی واجب ہے کیونکہ حدیث شریف میں آتا ہے لاصلوٰہ الا بقراء ۃ یعنی قرأت کے بغیر نماز نہیں ہوتی بخاری اور مسلم شریف کی روایت میں یہ الفاظ بھی آتے ہیں لاصلوٰۃ لمن لم یقرئ ، بام القرآن فصاعداً یعنی اس شخص کی نماز نہیں جس نے ام القرآن (سورۃ فاتحہ) اور کچھ زیادہ حصہ قرآن نہیں پڑھا تاہم امام بخاری (رح) نے فصاعداً کا لفظ نقل نہیں کیا امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ سورة فاتحہ اور اس کے ساتھ دوسری سورة ملانا دونوں واجب ہیں مگر فاتحہ رکن نہیں ہے کہ اس کے بغیر نماز بالکل باطل ہی ہوجاتی ہو البتہ مطلق قرأت فرض ہے اگر قرأت بالکل نہ کی جائے تو نماز نہیں ہوگی اور اگر وجب ترک ہوجائے تو سجدہ سہو کرنے سے تلافی ہوجائے گی مثلاً اگر کوئی شخص فرائض یعنی قیام ، رکوع ، سجود یا قعدہ قدرت کے باوجود ترک کردے تو اس کی نماز نہیں ہوگی اسی طرح مطلقاً قرأت کے ترک سے بھی نماز باطل ہوگی۔ نمازی کی تین حالتیں کوئی نمازی تین حالتوں سے خالی نہیں ہوتا یا تو وہ منفرد ہوتا ہے یا امام ہوتا ہے اور یا مقتدی ، ہر حالت کے الگ الگ احکام ہیں اور ان کو آپس میں غلط ملط کرکے الجھا دیا جاتا ہے جو کہ کسی طور بھی مناسب نہیں ہے امامت کے متعلق حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ الامام ضامن یعنی امام پوری جماعت کا ضامن ہوتا ہے۔ اس لیے اسے نہایت احتیاط کے ساتھ نماز پڑھنی چاہیے تاکہ مقتدیوں کی نماز خراب نہ ہو اور ساتھ اقتدا کی نیت بھی کرنی چاہیے۔ جو شخص انفرادی طور پر نماز ادا کرتا ہے دوثنا کے بعد سورة فاتحہ بھی پڑھے گا اور اس کے ساتھ کوئی دوسری سورة بھی ملائے گا پھر فرائض اور نوافل کی قرأت میں بھی فرق ہے سنن اور نوافل میں چاروں رکعتوں میں سورة فاتحہ کے بعد سورة ملانا ضروری ہے وتر کی تیسری رکعت میں فاتحہ کے بعد کوئی دوسری سورة ملانا ضروری نہیں بلکہ صرف سورة فاتحہ پڑھنا ہی سنت ہے اگر فاتحہ بھی نہ پڑھے صرف تسبیح کرے یا خاموش کھڑا رہے تب بھی نماز ہوجائے گی امام کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ فرائض کی پہلی دو رکعتوں میں سورة فاتحہ اور اس کے ساتھ کوئی دوسری سورة بھی ملائے گا ورنہ سب کی نماز باطل ہوگی امام احمد (رح) اپنی کتاب الصلوٰۃ میں لکھتے ہیں کہ میں نے کم و بیش ایک سو مسجدوں میں نماز ادا کی اور لوگوں کو نماز میں کوتاہی کرتے پایا چناچہ میں نے یہ کتاب لکھی اگر امام پورے شرائط کے ساتھ نماز پڑھائے گا تو جملہ نمازیوں کے برابر ثواب ملے گا لہٰذا امامت میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہے حضور ﷺ نے اللہ رب العزت سے دعا کی کہ مولا کریم ! ہمارے اماموں کو ہدایت عطا فرما موذنین کے لیے بھی بروقت اذان کہنے کی دعا کی بےوقت اذان سے نماز میں خلل واقع ہوسکتا ہے مثال کے طور پر اگر نماز فجر کی اذان طلوع فجر سے پندرہ منٹ پہلے دیدی جائے اور اس دوران کسی شخص نے سنتیں ادا کیں تو وہ ادا نہیں ہوں گی۔ فاتحہ خلف امام تیسری حالت مقتدی کی ہے اور اس کے لیے الگ احکام ہیں مولانا محمد قاسم ناناتوی ؓ فرماتے ہیں کہ ہر مقام اور محل کے الگ الگ آداب ہیں مقتدی شخص تکبیر وتحمید تو کرے گا مگر قرأت نہیں کرے گا کیونکہ قرأت صرف امام کرے گا اور مقتدی اسے سنیں گے موطا امام مالک میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے من کان لہ امام فقراۃ الامام لہ قرادۃ یعنی امام کی قرأت ہی مقتدی کی قرأت ہے لہٰذا مقتدی کو قرأت کرنے کی ضرورت نہیں رہتی اس کے علاوہ آج کی آیت بھی اس بات کی تائید کررہی ہے کہ جب قرآن پاک پڑھا جائے تو اسے کان لگا کر سنو اور خاموش رہو اس پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ یہ سورة اعراف مکی ہے جب کہ نماز با جماعت کے احکام زیاہ تر مدنی زندگی میں نازل ہوئے اس کا جواب یہ ہے کہ بعض مکی سورتوں میں مدنی آیات بھی شامل ہیں اور ہوسکتا ہے کہ یہ آیت مدنی ہی ہو اور پھر یہ بھی ہے کہ قرآن پاک بغور سننے کا حکم عام ہے اور اس میں کوئی تخصیص نہیں ہے لہٰذا اسے نماز پر محمول کیا جاسکتا ہے بعض احکام ایسے ہیں کہ ان کا اجمالی ذکر مکی زندگی میں ہوا مگر تفصیلات مدنی زندگی میں جاکر نازل ہوئیں مثلاً زکوٰۃ کی ادائیگی کا حکم مکی سورة مزمل میں موجود ہے واقموا الصلوٰۃ واتوالزکوۃ مگر اس کا نصاب اور دیگر تفصیلات مدینہ طیبہ میں 2 ھ میں مقرر ہوا چناچہ امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ اگر اس آیت کو مدنی بھی تسلیم کیا جائے تب بھی یہ نماز ہی کے متعلق ہے اور اس کا حکم خطبہ جمعہ پر بھی عائد ہوتا ہے کہ اس کا سننا بھی ضروری ہے جیسا کہ احادیث سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ امام ابوبکر جصاص (رح) فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے دو باتیں بیان فرمائی ہیں پہلی بات یہ ہے کہ جب نماز میں قرأت بلند آواز سے ہورہی ہو تو فاستمعوا لہ اس کو کان لگا کر سنو۔ اور جب قرأت بالسر ہورہی ہو یا مقتدی تک امام کی قرأت کی آواز نہ پہنچ رہی ہو تو ایسی صورت میں فانصتوا کا حکم ہے یعنی خاموش رہو اسی لیے امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ نماز جہری ہو یا سری مقتدی کو ہر حالت میں خاموش ہی رہنا چاہیے اسے خود قرأت نہیں کرنی چاہیے کیونکہ امام کی قرأت اس کے لیے کافی ہے اس سلسلے میں بہت سی صحیح احادیث بھی موجود ہیں حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ اور حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایات مسلم شریف ، سنن اربعہ ، (ابن ماجہ ، ترمی ، ابودائود او نسائی) مسند احمد وغیرہ میں موجود ہیں اذا کبرالامام فکبرو جب امام تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو واذا قرافانصتوا اور جب امام قرأت کرے تو تم خاموش رہو پھر جب امام ولا الضالین کہے تو تم آمین کہو چناچہ صحابہ کرام ؓ کی اکثریت امام کے پیچھے سورة فاتحہ پڑھنے سے منع کرتی ہے البتہ بعض اکا دکا صحابی اس کے حق میں ہیں ان میں محمود ابن ربیع ؓ ہیں جو چوٹی عمر کے صحابی ہیں اور عبادہ بن صامت ؓ انصار مدینہ میں سے ہیں مسلم شریف میں زید بن ثابت ؓ سے روایت ہے لاقراء ۃ مع الامام فی شی ئٍ بعنی امام کے ساتھ قرأت کا حکم نہیں ہے حضرت جابر ؓ سے موطا امام مالک میں روایت ہے کہ جس نماز میں فاتحہ نہ پڑھی جائے وہ ناقص ہے الا وراء الامام ماسوائے اس کے کہ کوئی شخص امام کے پیچھے نماز ادا کررہا ہو۔ امام ترمذی (رح) سے ہی یہ روایت بھی نقل کی جاتی ہے لاصلوٰۃ الا بقراء ۃ الفاتحۃ یعنی فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی امام ابوحنیفہ (رح) اس حدیث کو مطلق قرأت پر محمول کرتے ہیں اور فاتحہ کو واجب کا درجہ دیتے ہیں دوسری بات یہ ہے کہ امام بخاری (رح) نے حدیث کے الفاط اس طرح نقل کیے ہیں لاصلوٰۃ الا بفاتحۃ الکتب یعنی سورة فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی مگر آپ نے اس کے ساتھ فصاعدًا کا لفظ چھوڑ دیا ہے حالانکہ امام مسلم (رح) نے اسے نقل کیا ہے اس سے معلوم ہوا کہ سورة فاتحہ کے ساتھ کوئی دوسری سورة ملانا بھی ضروری ہے مگر فاتحہ کو ضروری قرار دینے والے لوگ دوسری سورة کو ضروری قرار نہیں دیتے اس سے بھی معلوم ہوا کہ صحیح مسئلہ یہی ہے کہ مقتدی سورة فاتحہ نہ پڑھے دلیل کے اعتبار سے فاتحہ خلف امام کمزور ہے امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) موطا کی فارسی شرح مصفا میں لکھتے ” قرأت فاتحہ باامام و صحابہ شائع نہ بود “ یعنی امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنا صحابہ کرام میں مشہور نہیں تھا کوئی اکا دکا ہی پڑھتا ہے ان میں سے عبادہ بن صامت ؓ اور کم عمر صحابی محمود ابن ربیع ؓ کا ذکر پہلے ہوچکا ہے۔ امام ترمذی (رح) نے اس مسئلہ میں کافی بحث کی ہے اور فرماتے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں کہ من لم یفراء فصلوتہ جائزۃ یعنی جس آدمی نے امام کے پیچھے فاتحہ نہیں پڑھی اس کی نماز صحیح ہے البتہ بعض نے تشدد کیا ہے جن میں امام ترمذی (رح) کے استاد امام بخاری (رح) اور چوتھی صدی کے محدث امام بہقی (رح) ہیں یہ سورة فاتحہ کو نماز کا ر کن قرار دیتے ہیں جس کے بغیر نماز باطل ہوتی ہے تاہم جو دلائل پیش کیے ہیں وہ کمزور ہیں امام بخاری (رح) نے اس مسئلہ میں ایک رسالہ بھی لکھا ہے مگر دلائل قوی نہیں ہیں باقی آئمہ فاتحہ نہ پڑھنے کے حق میں ہیں اور ان کے دلائل بھی قوی ہیں ائمہ اربعہ میں سے امام مالک (رح) ، شافعی (رح) اور احمد کا مسلک یہ ہے کہ جہری نماز میں جب امام کی قرأت سنائی دے رہی ہو تو مقتدی قرأت نہ کرے اور سری نماز میں مقتدی کے لیے سورة فاتحہ پڑھنا مستجب ہے یعنی نہ تو فرض ہے اور نہ واجب اور نہ ہی اس کے ترک سے گناہ لازم آتا ہے بہرحال آئمہ اربعہ میں سے کوئی بھی فاتحہ خلف الامام کو لازمی نہیں سمجھتا۔ امام شافعی (رح) کے متعلق مشہور ہے کہ آپ فاتحہ کو فرض قرار دیتے تھے مگر یہ بات درست ثابت نہیں ہوسکی قیام عراق کے دوران آپ یہ فتویٰ دیتے تھے مگر آپ کی کتاب الام جلد ہفتہ میں یہ مسئلہ موجود ہے کہ اگر امام قرأت بالسر ہورہی ہو تو مقتدی بھی پڑھ سکتا ہے آپ نے کتاب الام اپنی عمر کے آخری چار سالوں میں قیام مصر کے دوران لکھی وہیں فوت ہوئے اور وہیں آپ کی قبر ہے مطلب یہ کہ امام شافعی (رح) کا آخری مسلک بھی یہی ہے کہ وہ سورة فاتحہ کی فرضیت کے قابل نہیں ہیں۔ نماز میں جھگڑا مسلم شریف میں روایت موجود ہے حضور ﷺ نے نماز پڑھائی ایک شخص نے پیچھے پڑھنا شروع کردیا نماز ختم ہوئی تو حضور نے فرمایا مالی انازع القرآ کیا بات ہے میرے ساتھ قرآن میں جھگڑا کیا جارہا ہے فرمایا امام کے پیچھے مت پڑھا کرو چناچہ امام زہری (رح) فرماتے ہیں فانتھی الناس پس لوگ جہری نماز میں امام کے پیچھے پڑھنے لے رک گئے امام ابوحنیفہ (رح) ، امام سفیان ثوری (رح) اور امام اوزاعی (رح) اور ان کے شاگردوں کا بھی یہی مسلک ہے ہدایہ میں امام محمد (رح) کی حرف یہ بات منسوب کی گئی ہے کہ آپ سری نماز میں امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنے کے قائل تھے مگر یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ ان کی اپنی کتاب میں مذکور ہے کہ میں اور میرے استاد اس بات کے قائل ہیں کہ نماز سری ہو یا جہری مقتدی کے لیے قرأت کرنا جائز نہیں ہے۔ حاصل کلام حاصل کلام یہ ہوا کہ امہ اربعہ میں سے کوئی بھی فاتحہ خلف امام کی فرضیت کا قائل نہیں ہے جمہور صحابہ ؓ اور امام شاہ ولی اللہ (رح) کا بھی یہی مسلک ہے حضرت ابوہریرہ ؓ سے دونوں قسم کی روایات ملتی ہیں ابن عباس ؓ ، ابن مسعود ؓ ، خلفائے راشدین ؓ ، ابوسعید خدری ، زید بن ثابت ؓ ، جابر بن عبداللہ وغیر ہم عدم قرأت کے قائل ہیں بہرحال اس مسئلہ میں امام ابوحنیفہ کا موقف کمزور نہیں ہے لوگ غلط پراپیگنڈا کرتے ہیں کہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں اور جس کی نماز نہیں وہ جہنمی ہے ان لوگوں کے دلائل کمزور ہیں صرف دو اماموں نے تشدد کیا ہے اور امام بخاری (رح) کے شاگرد بھی کہتے ہیں کہ ہمارے امام متشدد ہیں احناف اس سلسلہ میں اپنا موقف پیش کرتے ہیں اور کسی سے جھگڑا نہیں کرتے اور نہ یہ فتویٰ دیتے ہیں کہ فاتحہ خلف الامام پڑھنے والے کی نماز نہیں ہوتی لہٰذا دوسرے لوگوں کو بھی حق نہیں پہنچتا کہ وہ فاتحہ نہ پڑھنے والوں پر فتویٰ لگائیں کہ ان کی نماز نہیں ہوتی اس کا فیصلہ تو اللہ تعالیٰ پر ہے فروعی مسائل میں اپنی اپنی رائے ہے اور پھر اس کے پیچھے دلائل ہیں جو کسی پر نماز نہ ہونے کا فتویٰ لگاتا ہے وہ گمراہ ہوگا یا متشدد ہوگا اور تشدد درست نہیں ہے مضبوط موقف کو اختیار کرنا چاہیے حدیث شریف میں آتا ہے کہ تشدد نہ کرو ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تم پر تشدد کرے گا۔ سورۃ فاتحہ کے متعلق بہت سی تفصیلات ہیں میں نے چند باتوں کی طرف اشارہ کردیا ہے قوی مسلک یہی ہے کہ امام کے پیچھے فاتحہ نہیں پڑھنی چاہیے اور جو پڑھتا ہے اس کے ساتھ الجھنے کی ضرورت نہیں ہے بہرحال اس آیت کریمہ کا حکم یہی ہے کہ جب قرآن پاک پڑھا جائے تو اسے کان لگا کر سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر حم کیا جائے۔
Top