Mualim-ul-Irfan - Al-A'raaf : 44
وَ نَادٰۤى اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ اَصْحٰبَ النَّارِ اَنْ قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا فَهَلْ وَجَدْتُّمْ مَّا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا١ؕ قَالُوْا نَعَمْ١ۚ فَاَذَّنَ مُؤَذِّنٌۢ بَیْنَهُمْ اَنْ لَّعْنَةُ اللّٰهِ عَلَى الظّٰلِمِیْنَۙ
وَنَادٰٓي : اور پکاریں گے اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ : جنت والے اَصْحٰبَ النَّارِ : دوزخ والوں کو اَنْ : کہ قَدْ وَجَدْنَا : تحقیق ہم نے پالیا مَا : جو وَعَدَنَا : ہم سے وعدہ کیا رَبُّنَا : ہمارا رب حَقًّا : سچا فَهَلْ : تو کیا وَجَدْتُّمْ : تم نے پایا مَّا وَعَدَ : جو وعدہ کیا رَبُّكُمْ : تمہارا رب حَقًّا : سچا قَالُوْا : وہ کہیں گے نَعَمْ : ہاں فَاَذَّنَ : تو پکارے گا مُؤَذِّنٌ : ایک پکارنے والا بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان اَنْ : کہ لَّعْنَةُ : لعنت اللّٰهِ : اللہ عَلَي : پر الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اور پکاریں گے جنت والے دوزخ کو (اور کہیں گے) کہ بیشک ہم نے پایا اس چیز کو سچا جو وعدہ کیا ہمارے رب نے ہم سے ۔ پس کیا پایا تم نے اس چیز کو سچا جو وعدہ کیا تھا تمہارے پروردگار نے تم سے۔ وہ کہیں گے ، ہاں۔ پس اعلان کرے گا ایک اعلان کرنے والا ان کے درمیان کہ اللہ کی لعنت ہو ظلم کرنے والوں پر
ربط آیات یہ آیات بھی گزشتہ درس والی آیات کے ساتھ مربوط ہیں اللہ تعالیٰ نے مکذبین اور متکبرین کا برا انجام بیان فرمایا پھر فرمایا کہ کفر کرنے والوں کا جنت میں داخلہ اس طرح محال ہے جس طرح اونٹ کا سوئی کے ناکے میں سے گزرنا ان کے لیے آسمان اور رحمت کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے اور مجرمین کا اوڑھنا اور بچھونا جہنم کی آگ ہوگی اس کے برخلاف اہل ایمان اور نیک اعمال کرنے والوں کا ٹھکانا جنت ہوگا جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رہیں گے اور اگر دنیا کی زندگی میں ان کے دلوں میں کوئی کدورت یا شکر رنجی تھی تو وہ سب نکال لی جائے گی اور وہ بالکل پاک صاف ہو کر جنت میں جائیں گے پھر وہاں پر وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کریں گے کہ اس کی مہربانی سے وہ رحمت کے مقام تک پہنچے وہ یہ بھی کہیں گے کہ ہمارے رب کے رسولوں نے بالکل سچی بات کہی تھی جس کا نتیجہ سامنے آگیا ہے پھر ان لوگوں سے کہا جائے گا کہ تمہیں یہ جنت وراثت میں دی گئی ہے ان اعمال کی قدردانی کے طور پر جو تم انجام دیتے رہے۔ جنتیوں اور دوزخیوں کی آپس میں بات چیت کا ذکر قرآن پاک کی مختلف سورتوں میں موجود ہے کہ وہ ایک دوسرے کو دیکھ سکیں گے چناچہ آج کی آیات میں بھی اسی قسم کے ایک مکالمہ کا ذکر ہے سورة صفت میں بھی ایسا ہی ایک واقعہ آتا ہے کہ جنت والا ایک شخص اپنے ایک دوست سے ملاقات کا خواہش مند ہوگا جب اسے جنت میں نہ پائے گا تو جہنم میں تلاش کرے گا فاطلع فراہ فی سواء الجحیم وہ دوزخ میں جھانک کر دیکھے گا تو اسے جہنم کے درمیان میں پڑا ہوا پائے گا جنت ساتوں آسمانوں سے اوپر اور جہنم ساتوں زمینوں سے نیچے ہے کروڑوں میل کے فاصلے کے باوجود وہ ایک دوسرے کو دیکھ سکیں گے اور ان میں مکالمہ ہوگا جنت والا کہے گا تاللہ ان کدت لتردین خدا کی قسم قریب تھا کہ تو مجھے ہلاک کردیتا اگر میں تیری باتوں میں آکر معاد کا انکار کردیتا تو آج میں بھی تیرے ساتھ ہی ہوتا مگر خدا تعالیٰ کا احسان عظیم ہے کہ میں تمہاری باتوں سے متاثر نہ ہوا اور اللہ نے مجھے اپنی رحمت کے مقام میں پہنچا دیا بہرحال اسی طرح کا ایک مکالمہ ان آیات میں بھی آیا ہے۔ حق حقدار رسد ارشاد ہوتا ہے ونادیٰ اصحاب الجنۃ اصحاب النار اور جنت والے دوزخ والوں کو پکاریں گے ان قد وجدنا ماوعدنا ربنا حقاً ہم نے پالیا اس چیز کو جو ہمارے رب نے ہم سے وعدہ کیا بالکل سچ اللہ تعالیٰ کا وعدہ یہ تھا کہ اگر تم ایمان لائو گے تقویٰ کی راہ اختیار کرو گے اور نیکیاں کمائو گے تو میں تمہیں جنت میں پہنچا دوں گا چناچہ اس نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا اور اپنی رحمت کے مقام جنت میں پہنچا دیا فھل وجدتم ماوعدربکم حقاً اب یہ بتائو کہ تمہارے رب نے تمہارے ساتھ جو وعدہ کیا تھا کیا تم نے بھی اسے سچ پایا ہے تمہارے ساتھ اس کا وعدہ یہ تھا کہ اگر کفر اور شرک اختیار کرو گے اللہ کی آیات کی تکذیب کرو گے تو تمہیں جہنم میں پہنچایا جائے گا جو کہ سزا کا مقام ہے بھلا بتائو تو سہی کیا وہ وعدہ پورا ہوگیا قالو انعم وہ جواب دیں گے ہاں ، وہ وعدہ بھی سچا ہوگیا اور اسکے مطابق ہم دوزخ جیسے المناک مقام میں پہنچ گئے ہیں۔ اس قسم کا مکالمہ صحیحین کی حدیث میں بھی آتا ہے جنگ بدر میں جب بڑے بڑے سردار کافر مارے گئے تو حضور ﷺ نے فرمایا ان کی لاشوں کو گھسیٹ کر اس کنویں میں ڈال دو مئی جیسا شدید گرمی کا مہینہ تھا ایک لاش ٹکڑے پکڑے ہوچکی تھی باقیوں کو گھسیٹ کر کنویں میں گرا دیا گیا اس وقت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کنویں پر کھڑے ہو کر ان آئمہ کفر سے اسی طرح خطاب کیا تھا جس طرح اس آیت کریمہ میں ہے کہ ہم نے تو اپنے رب کا وعدہ سچا پالیا فھل وجدتم ماوعدربکم حقاً کیا تم نے بھی اپنے رب کا وعدہ سچا پالیا ہے ؟ اس پر حضرت عمر ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ماتکلم من اجسادلا ارواح لھا آپ ایسے اجسام سے کلام فرماتے ہیں جن میں روحیں موجود نہیں ہیں یہ تو مردار ہیں اور کفر کی حالت میں مرے ہیں آپ ان سے کیسے خطاب فرماتے ہیں تو حضور ﷺ نے فرمایا والذی نفس محمد بیدہ ما انتم باسمع لما اقول منھم قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں محمد کی جان ہے میں جو باتیں کررہا ہوں تم ان کو ان سے زیادہ نہیں سنتے والکنھم لایجیبون مگر یہ جواب نہیں دے سکتے حضرت قتادہ ؓ اس کی توجیہہ یہ کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کفار کو زندہ کیا اور انہیں نبی (علیہ السلام) کی بات سنوائی تاکہ لوگوں کو عبرت ہو کہ نبی کے نافرمانوں ، بڑے بڑے جابروں کا کیا حشر ہوا۔ ظالموں پر لعنت بہرحال جنت والے دوزخیوں سے پوچھیں گے کیا تمہارے رب نے وعدہ سچا کردیا تو وہ ہاں میں جواب دیں گے کہ بالکل ایسا ہی ہوا فاذن موذن بینھم پھر ان کے درمیان ایک پکارنے والا پکار کر کہے گا یعنی اعلان کرے گا ان لعنۃ اللہ علی الظلمین کہ ظالموں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو جن لوگوں نے کفر اور شرک کیا اللہ کے رسولوں کو جھٹلایا خدا کی توحید کا انکار کیا معاد پر یقین نہ لائے ، وہ ظالم ہیں ، ضد اور عناد رکھنے والے معاند کافر ہیں ان پر اللہ کی لعنت ہو۔ فاذن کا لفظی معنی ہے اذان دی اور عربی میں یہ لفظ بلند آواز سے عام اعلان کے لیے استعمال ہوتا ہے نماز کے لیے جو اذان دی جاتی ہے اس سے بھی نماز کا اعلان ہی مراد ہوتا ہے تاہم یہ شرعی اذان مخصوص اعلان ہے۔ اللہ کے راستے میں رکاوٹ فرمایا ظالموں پر اللہ کی لعنت ہے اور یہ وہ لوگ ہیں الذین یصدون عن سبیل اللہ جو خود بھی گمراہ ہیں اور دوسروں کو بھی اللہ کے راستے سے روکتے ہیں ہر نبی کے دور میں معامذ کافروں کو یہی شیوہ رہا ہے حضرت شعیب (علیہ السلام) ، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے واقعات میں ملتا ہے کہ ان کے مخالفین لوگوں کو نبی کی بات سننے سے روکتے تھے حضور خاتم النبیین ﷺ کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کیا گیا اگر باہر سے کوئی حضور ﷺ سے ملنے کے لیے آتا تو کفار کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ آپ سے ملنے نہ پائے آپ کے بارے میں غلط پراپیگنڈا کرکے لوگوں کو باز رہنے کی تلقین کرتے تھے کبھی دیوانہ کہتے اور کبھی شاعر کہتے بعض کو طرح طرح کے لالچ دے کر بھی آپ کے قریب جانے سے روکتے تھے اور بعض پر تشدد کرنے سے بھی نہ چوکتے تھے احادیث میں دو صحابیوں کا ذکر آتا ہے جو مکی زندگی میں حضور ﷺ سے ملنے کے لیے آئے اور کفار کے تشدد کا نشانہ بنے ان میں سے ایک ابو ذر غفاری ؓ تھے جو خود اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سن رکھا تھا کہ مکہ کے سردار باہر سے آنے والوں کو حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے سے روکتے ہیں کہتے ہیں کہ جب میں مکہ پہنچا تو حضور ﷺ کا پتہ دریافت کرنے کے لیے میں نے ایک کمزور سے آدمی کو مخالب کیا خیال تھا کہ یہ آسانی سے پتہ بتا دے گا اور کوئی چون و چرا نہیں کرے گا مگر جونہی میں نے حضور ﷺ کا نام لیا اس آدمی نے فوراً شور مچادیا پکڑ لو یہ صابی ہے اور حضور کو ملنے کے لیے آیا ہے حضرت ابوذر غفاری ؓ فرماتے ہیں کہ لوگوں نے حرم کے قریب مجھے اتنا مارا کہ میں لہولہان ہوگیا اور بےہوش ہو کر گرپڑا مطلب یہ کہ مشرکین اللہ کے راستے سے روکنے کے لیے غلط پراپیگنڈا کے علاوہ طرح طرح کی اذیت بھی دے دیتے تھے۔ اسلام کے خلاف پراپیگنڈا مخالفین اسلام نے اسلام کے خلاف پراپیگنڈا کو موثر ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اسلام کی اتنی عیب جوئی کی جائے کہ اس کے قریب کوئی نہ آئے یہودیوں اور عیسائیوں نے ہمیشہ یہی ہتھیار استعمال کیا ہے یہودی تو اس معالم میں بہت آگے ہیں تاہم عیسائی بھی ان سے پیچھے نہیں رہے انہوں نے لوگوں کو مفت تعلیم اور ملازمت کا لالچ دیا ہے ہسپتال قائم کیے ہیں حتیٰ کہ عورتوں کے ذریعے بھی اپنے نظریات کی اشاعت کرتے ہیں جو کہ درحقیقت اسلام کے خلاف سازش ہے امریکہ ، برطانیہ ، فرانس اور جرمنی اسلام دشمن سرگرمیوں پر بےانتہا دولت خرچ کر رہے ہیں دنیا کے مختلف ممالک میں مشن بھیجتے ہیں جو انسانی ہمدردی کی آڑ میں مسلمانوں کے ایمان پر ڈاکہ ڈالتے ہیں اور اغیار کو اسلام کے قریب آنے سے روکتے ہیں اشتراکیت بھی یہودونصاریٰ کی بگڑی ہوئی شکل ہے یہ خفیہ سازش نہیں کرتے بلکہ دین دشمنی میں بالکل واضح ہیں ان کے منشور میں یہ بات درج ہے کہ کوئی شخص کسی مذہب کے حق میں کسی مسجد ، چوک اور عبادت خانے میں کوئی بات نہیں کرسکتا البتہ مذہب کے خلاف جو چاہے اور جہاں چاہے کرتا پھرے اس کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اس جانبداری کا حقیقی نقصان تو اسلام ہی کو پہنچتا ہے کیونکہ سچادین ہے جس کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں اسلام کے علاوہ عیسائیت ہو یا یہودیت ، ہندو ازم یا مجوسیت سب باطل ہیں ان کو تو کوئی فرق نہیں پڑا مگر یہ سب سے بڑی رکاوٹ اسلام کے راستے میں ہے۔ عیب جوئی کی تلاش فرمایا یہ لوگ اللہ کے راستے سے روکتے ہیں ویبغونھاعوجلاً اور اس میں کجی تلاش کرتے ہیں اسلام کی ایی عیب جوئی کرتے ہیں کہ کوئی شخص اس کے قریب نہ آئے غیر مسلم قومیں اسلام کے حدود کو اکثر اپنے پراپیگنڈے کا ذریعہ بناتی ہیں کہتے ہیں کہ اسلام نے وحشیانہ سزائیں مقرر کررکھی ہیں قطع ید اور رجم کو غیر انسانی سزائیں قرار دیتے ہیں یورپی ممالک میں اسلامی سزائوں کے خلاف بڑا زہر اگلا جاتا ہے تاکہ لوگ اس کی طرف متوجہ ن ہوسکیں اب تو اپنے بھی حدود کے خلاف باتیں کرنے لگے ہیں نام نہاد بڑے لوگ اسلامی حدود کو وحشیانہ سزائیں کہنے لگے ہیں کہتے ہیں کہ یہ سزائیں غیر مہذب زمانے میں رائج ہوئی تھیں اب تو دنیا متمدن ہوچکی ہے اب ان سزائوں کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہی اسی طرح تعداد ازواج پر بھی اعتراض کیا جاتا ہے کہ یہ تو عیاشی کا ذریعہ ہے حالانکہ اگر کوئی شخص بیک وقت دس عورتوں سے ناجائز تعلقات استوار کرلے تو گوارا کرلیتے ہیں مگر دوسری بیوی سے نکاح کرلینے کے خلاف زمین و آسمان ایک کردیتے ہیں یہ سب اسلام میں عیب جوئی کی تلاش ہے جس کے ذریعے اسے ناکام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ آخرت کا انکار فرمایا اللہ کے راستے سے روکنے اور دین میں کجی تلاش کرنے والوں کی ایک خصلت یہ بھی ہے وھم بالآخرۃ کفرون اور وہ آخرت کا انکار کرنے والے ہیں وہ اس چیز کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں کہ مرنے کے بعد پھر اٹھنا ہے حساب کتاب کی منزل آتی ہے اور انہیں جزا یا سزا سے دو چار ہونا ہے جدید تمدن کے لوگ اب تو اس قدر مصروف ہوچکے ہیں کہ انہیں آخرت کی فکر کا موقع ہی نہیں ملتا چوبیس گھنٹے لہود لعب میں مشغول ہیں آدھی آدھی رات تک ریڈیو اور ٹیلیویژن پروگرام دیکھتے ہیں یا پھر وی سی آر پر فلمیں چلتی ہیں ہر گھر سینما گھر بن چکا ہے جہاں ناچ گانے اور کھیل تماشے کی فراوانی ہے بھلا ایسے میں آخرت کی طرف کون توجہ دیگا ؟ اب تو عرب بھی اس فحاشی میں شامل ہوچکے ہیں اگرچہ وہاں پبلک سینما گھر تو نہیں ہیں مگر مال و دولت کی فراوانی نے ہر گھر کو عیاشی کا اڈا بنا دیا ہے دنیا بھر کے فحش پروگرام ان گھروں میں دیکھے جاتے ہیں اب تمام ملکوں میں کھیلوں کی وزارتیں بھی قائم ہیں کھیلوں کی ٹی میں غیر ممالک میں بھیجی جاتی ہیں جنہیں بڑے بڑے الائونس دیے جاتے ہیں ہا کی ، کرکٹ ، فٹ بال ، ٹینس ، کشتی رانی کے مقابلوں پر کروڑوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں ان مقابلوں کو دیکھنے کے لیے لوگ ہفتہ بھر ٹیلیویژن کے سامنے بیٹھے رہتے ہیں ملک کے اندر قوم کو کھیل کود میں الجھا کر بیکار کردیا جاتا ہے اور باہر جانے والوں پر بےدریغ روپیہ صرف کیا جاتا ہے جو کہ قوم و ملک کا دوہرا نقصا ان ہے ان حالات میں اللہ کے ساتھ تعلق قائم کرنے اور آخرت کو یاد کرنے کا موقع کیسے مل سکتا ہے ؟ اور وتبتل الیہ تبتیلاً کی نوبت کب آئے گی اگر باقی مصروفیات سے فراغت ہوگی تو کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرے گا اس کی عبادت کرے گا اور تنہائی میں اس کا ذکر کرے گا۔ اعراف کیا ہے جنت اور دوزخ کا تذکرہ کرنے کے بعد اللہ نے فرمایا وبینھما حجاب ان دونوں کے درمیان حجاب ہوگا سورة حدید میں اسے ایک بڑی فصیل سے تعبیر کیا گیا جو منافقین اور مومنین کے درمیان ہائل ہوگی اس فصیل کی ایک طرف خدا تعالیٰ کی رحمت ہوگی اور دوسری طرف عذاب ہوگا بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ یہ حجاب بھی وہی چیز ، یعنی ایک بڑی فصیل ہے جو سورة حدید میں بیان ہوئی ہے وعلیٰ الاعراف رجال اور اعراف پر کچھ لوگ ہوں گے اعراف اونچے مقام ، پہاڑ یا اونچی دیوار کو کہتے ہیں اور حجاب بھی اسی کا دوسرا نام ہے ایک طرف جنت کا نظارہ ہوگا اور دوسری طرف جہنم کا ، ویسے عرف اور معروف نیکی کو کہا جاتا ہے اور نیکی میں بھی اونچائی کا مفہوم پایا جاتا ہے عرف خوشبو کو بھی کہتے ہیں جس میں بڑی مہک پائی جاتی ہے گھوڑے کی گردن پر جو بال ہوتے ہیں ان کو بھی اعراف کہتے ہیں بہرحال یہاں پر اس اونچے مقام کا نام اعراف ہے جو جنت اور دوزخ کے درمیان ہوگا یہ اللہ ہی جانتا ہے کہ اعراف کب تک قائم رہے گا تاہم قیامت والے دن حساب کتاب کی منزل کے بعد کچھ لوگ جنت میں جائیں گے اور کچھ لوگ جہنم میں جائیں گے مگر بعض لوگوں کو اعراف کے اوپر ٹھہرایا جائے گا۔ اعراف کے مکین اعراف والے لوگوں کے متعلق مختلف اقوال پائے جاتے ہیں بعض مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ یہ اونچے درجے کے لوگ ہوں گے جن کو جنت اور دوزخ دونوں طرف کے حالات کے مشاہدہ کے لیے کھڑا کیا جائے گا مگر احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ صاحب اعراف وہ لوگ ہوں گے جن کی نیکیاں اور برائیاں برابر برابر ہوں گی کچھ عرصہ تک وہ اس مقام میں ٹھہریں گے اور آخر میں خدا تعالیٰ کی رحمت غالب آئے گی اور ان کو جنت میں جانے کی اجازت مل جائے گی تاہم وہ اہل ایمان ہی ہوں گے کافر یا مشرک وغیرہ نہیں ہوں گے بعض کہتے ہیں کہ مشرکین کی چھوٹی اولاد کو اعراف میں رکھا جائے گا بعض یہ بھی فرماتے ہیں کہ اعراف کے مکین وہ شہدا ہوں گے جو دنیا میں اپنے والدین کے نافرمان ہوں گے بعض فرماتے ہیں کہ صاحب اعراف لوگ فترۃ والے لوگ ہوں گے یعنی ایسے لوگ جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور حضور ﷺ کے درمیانی دور میں دنیا میں آئے مگر ان کے پاس کوئی نبی نہیں آیا اور نہ انہیں ہدایت نصیب ہوئی بایں ہمہ انہوں نے شرک بھی نہیں کیا ایسے لوگوں کو اعراف میں کچھ عرصہ رکھا جائے گا اور پھر جنت میں داخل کردیاجائے گا۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) نے اپنی کتاب حجۃ اللہ البالغہ میں اس معاملہ میں تمام مفسرین سے مختلف انداز اختیار کیا ہے فرماتے ہیں اعراف کے مقام پر دو قسم کے لوگ ہوں گے پہلی قسم ان لوگوں کی ہے جو عقل سلیم رکھتے ہیں ان کے قویٰ بالکل درست ہیں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں مگر ان تک اسلام کی دعوت صحیح طریقے پر نہیں پہنچی اور ان پر حجت تمام نہیں ہوئی مثلاً کسی مقام تک اسلام کا کوئی مبلغ پہنچا ہی نہیں یا اگر پہنچا ہے تو زبان کے اختلاف کی وجہ سے وہ اسلام کی دعوت صحیح طریقے پر نہیں پہنچا سکا اور ان لوگوں نے کفر یا شرک بھی نہیں کیا نہ ہی مکمل طور پر ایمان لائے ہیں تو شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ یہ لوگ اہل اعراف ہیں۔ مولانا عبیداللہ سندھی (رح) فرماتے ہیں کہ عباسیوں کے دور کے بعد دنیا میں بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں جن تک اسلام کی دعوت صحیح طریقے سے نہیں پہنچی اس دور کے بعد دنیا میں مسلمانوں میں ملوکیت کا دور دورہ رہا ہے صفین کے واقعہ سے پہلے تو ہر مسلمان تبلیغ دین کو اپنا اولین فریضہ سمجھتا تھا اور اس کے لیے بڑی سے بڑی قربانی پیش کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا تھا مگر اس واقعہ کے بعد مسلمانوں میں آرام طلبی ، تعیش اور دنیا داری آگئی ہے جس کی وجہ سے انہوں نے تبلیغ دین جیسا اہم فیرضہ فراموش کردیا ہے اور دنیا کے بہت سے لوگوں تک دین کا پیغام اس طریقے سے نہیں پہنچ سکا کہ ان پر حجت قائم ہوجائے ایسے لوگ اگر کفر شرک میں مبتلا نہیں رہے تو وہ اصحاب اعراف میں شمار ہوں گے۔ تبلیغ دین کی ضرورت حقیقت یہ ہے کہ اس وقت مسلمان من حیث الجماعت تبلیغ کا فریضہ بالکل فراموش کرچکے ہیں اس کام کے لیے نہ وقت دیا جارہا ہے اور نہ مال صرف کیا جارہا ہے زیادہ سے زیادہ ہم تبلیغی جماعت پر تکیہ لگائے بیٹھے ہیں کہ ان بندگان خدا کی بدولت تبلیغ دین کا حق ادا ہورہا ہے اور دنیا میں دین کا چرچا ہوجائے گا یہ جذبہ واقعی قابل قدر ہے جس کی وجہ سے اپنی اصلاح بھی ہوتی ہے اور دوسروں کو بھی مگر سوال تو یہ ہے کہ اصل ضرورت کا یہ کتنے فیصدی کام ہورہا ہے اگر حساب لگایا جائے تو نہ ہونے کے برابر ہے اس زمانے میں مسلمانوں کے پاس مال کی کمی نہیں مگر یہ تو اپنے آرام و آسائش کے لیے صرف ہورہا ہے اس میں سے جہاد ، اقامت دین اور تبلیغ فی سبیل اللہ پر کتنا روپیہ خرچ ہورہا ہے اب تو لوگ زکوٰۃ کو بھی وبال جان سمجھنے لگے ہیں حالانکہ مال میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی حق ہے غربا اور مساکین کی اعانت کے علاوہ غیر اقوام میں مواخات کے لیے بھی روپے کی ضرورت ہے یہ عیسائی مشنریاں مواخات قائم کرکے ہی کامیابی سے ہمکنار ہورہی ہیں مشہور واقعہ ہے کہ ایک مسلمان لڑکی مہلک مرض میں مبتلا ہوگئی مسلمانوں نے تو اس کی پروا نہ کی مگر وہ کسی طرح ٹیکسلا کے مشنری ہسپتال میں پہنچ گئی بیچاری معذور تھی ہسپتال کی نرسوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا اس کا علاج کیا تعلیم دی اور پھر اس پر عیسائیت پیش کی جسے اس نے قبول کرلیا اور اب وہ مسلمان لڑکی عیسائی مبلغ بنی ہوئی ہے یہ کام تو مسلمانوں کا تھا جو غیر مسلم اقوام نے سنبھال لیا ہے مسلمانوں کے پاس مال کی کمی نہیں بڑی بڑی عمارات بن رہی ہیں کارخانے لگ رہے ہیں مشرق و مغرب میں تجارت ہے ، بینک بھرے ہوئے ہیں مگر اس دولت کا ایک فیصدی بھی تبلیغ دین کے لیے صرف نہیں ہورہا اگر مسلمان اپنا کھویا ہوا وقار دو بار حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں اس طرف توجہ دینا ہوگی۔ بہرحال شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ صاحب اعراف ایک تو وہ لوگ ہیں جنہیں اسلام کا پیغام کماحقہ نہیں پہنچا اور انہوں نے کفر اور شرک کا ارتکاب بھی نہیں کیا اور دوسری قسم کے وہ لوگ ہیں جو ناقص العقل ہیں پاگل ہیں یا نیم پاگل ہیں چھوٹے بچے ہیں جو ابھی مکلف نہیں ہوئے شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ کسانوں کی اکثریت بھی اسی فہرست میں آتی ہے ان کو اتنا وقت ہی نہیں ملتا کہ وہ نیکی کی بات اخذ کریں اسے سمجھیں اور پھر اس پر عمل کرسکیں شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ غلام بھی اسی زمرہ میں شامل ہیں جو اپنے آقائوں کی خدمت میں مصروف رہتے ہیں ان سے صرف یہی مطلوب ہے کہ وہ اہل ایمان کے ساتھ مشابہت پیدا کریں ان جیسے امور حتی الامکان انجام دیتے رہیں ان کی عقل و فہم کے مطابق اتنا عمل بھی کافی ہے۔ جنتیوں کو سلام فرمایا اعراف پر کچھ مرد ہوں گے یعرفون کلا بسیمھم جو ہر ایک کو پہچانیں گے کہ یہ جنتی جا رہے ہیں اور یہ دوزخی ہیں ونادواصحب الجنۃ وہ اہل جنت کو پکاریں گے ان سلم علیکم کہ تم پر سلامتی ہو اصحاب اعراف لوگ اہل جنت کے لیے تو سلامتی کی دعا کریں گے مگر ان کی اپنی حالت یہ ہوگی لم یدخلوھا کہ وہ خود تو ابھی جنت میں داخل نہیں ہوئے ہوں گے ابھی مقام اعراف پر ہی رکے ہوئے ہوں گے وھم یطمعون البتہ وہ جنت میں جانے کے خواہشمند ضرور ہوں گے ابھی تک ان میں جنت میں جانے والی صلاحیت نہیں ہوگی پھر جب ان کی بہمیت مغلوب ہو کر ملکیت ظاہر ہوجائے گی اور ان میں عالم مقدس کو سمجھنے کی اہلیت پیدا ہوجائے گی تو اللہ تعالیٰ انہیں اپنی رحمت سے جنت میں داخلے کی اجازت دے دیں گے۔ دوزخیوں سے پناہ فرمایا اہل عراف جنتیوں کو تو سلام کریں گے واذا صرفت ابصارھم تلقاء اصحاب النار اور جب ان کی نگاہیں اہل دوزخ کی طرف پھیری جائیں گی یعنی جب وہ دوزخیوں کو دیکھیں گے قالو ربنا لاتجعلنا مع القوم الظلمین تو کہیں گے اے ہمارے پروردگار ہمیں ظالموں کے گروہ میں شامل نہ کر ، کفر اور شرک سب سے بڑے مظالم ہیں جن کا انہوں نے ارتکاب کیا یہ لوگ ضد اور عناد پر قائم رہے اللہ کی وحدانیت اور اس کے رسولوں کی رسالت کو جھٹلایا انہوں نے آسمانی کتابوں کی تکذیب کی اور معاد سے انکار کیا یہ بڑے ظالم لوگ ہیں اور جہنم کی طرف جا رہے ہیں مولا کریم ! ہمیں انی معیت سے محفوظ رکھنا اگلی آیات میں اہل اعراف کا مزید ذکر بھی آرہا ہے۔
Top