Mufradat-ul-Quran - Hud : 51
یٰقَوْمِ لَاۤ اَسْئَلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا١ؕ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلَى الَّذِیْ فَطَرَنِیْ١ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ
يٰقَوْمِ : اے میری قوم لَآ اَسْئَلُكُمْ : میں تم سے نہیں مانگتا عَلَيْهِ : اس پر اَجْرًا : کوئی اجر (صلہ) اِنْ : نہیں اَجْرِيَ : میرا صلہ اِلَّا : مگر (صرف) عَلَي : پر الَّذِيْ فَطَرَنِيْ : جس نے مجھے پیدا کیا اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ : کیا پھر تم سمجھتے نہیں
میری قوم ! میں اس (وعظ ونصیحت) کا تم سے کچھ صلہ نہیں مانگتا۔ میرا صلہ تو اس کے ذمے ہے جس نے مجھے پیدا کیا۔ بھلا تم سمجھتے کیوں نہیں ؟
يٰقَوْمِ لَآ اَسْـــَٔـلُكُمْ عَلَيْہِ اَجْرًا۝ 0ۭ اِنْ اَجْرِيَ اِلَّا عَلَي الَّذِيْ فَطَرَنِيْ۝ 0ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۝ 51 أجر الأجر والأجرة : ما يعود من ثواب العمل دنیویاً کان أو أخرویاً ، نحو قوله تعالی: إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [يونس/ 72] ، وَآتَيْناهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت/ 27] ، وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف/ 57] . والأُجرة في الثواب الدنیوي، وجمع الأجر أجور، وقوله تعالی: وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء/ 25] كناية عن المهور، والأجر والأجرة يقال فيما کان عن عقد وما يجري مجری العقد، ولا يقال إلا في النفع دون الضر، نحو قوله تعالی: لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 199] ، وقوله تعالی: فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ [ الشوری/ 40] . والجزاء يقال فيما کان عن عقدٍ وغیر عقد، ويقال في النافع والضار، نحو قوله تعالی: وَجَزاهُمْ بِما صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيراً [ الإنسان/ 12] ، وقوله تعالی: فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ [ النساء/ 93] . يقال : أَجَر زيد عمراً يأجره أجراً : أعطاه الشیء بأجرة، وآجَرَ عمرو زيداً : أعطاه الأجرة، قال تعالی: عَلى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمانِيَ حِجَجٍ [ القصص/ 27] ، وآجر کذلک، والفرق بينهما أنّ أجرته يقال إذا اعتبر فعل أحدهما، وآجرته يقال إذا اعتبر فعلاهما «1» ، وکلاهما يرجعان إلى معنی واحدٍ ، ويقال : آجره اللہ وأجره اللہ . والأجير : فعیل بمعنی فاعل أو مفاعل، والاستئجارُ : طلب الشیء بالأجرة، ثم يعبّر به عن تناوله بالأجرة، نحو : الاستیجاب في استعارته الإيجاب، وعلی هذا قوله تعالی: اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص/ 26] . ( ا ج ر ) الاجر والاجرۃ کے معنی جزائے عمل کے ہیں خواہ وہ بدلہ دنیوی ہو یا اخروی ۔ چناچہ فرمایا : ۔ {إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ } [هود : 29] میرا اجر تو خدا کے ذمے ہے ۔ { وَآتَيْنَاهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ } [ العنکبوت : 27] اور ان کو دنیا میں بھی ان کا صلہ عنایت کیا اور وہ آخرت میں بھی نیک لوگوں میں سے ہوں گے ۔ { وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا } [يوسف : 57] اور جو لوگ ایمان لائے ۔ ۔۔۔ ان کے لئے آخرت کا اجر بہت بہتر ہے ۔ الاجرۃ ( مزدوری ) یہ لفظ خاص کر دنیوی بدلہ پر بولا جاتا ہے اجر کی جمع اجور ہے اور آیت کریمہ : { وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ } [ النساء : 25] اور ان کے مہر بھی انہیں ادا کردو میں کنایہ عورتوں کے مہر کو اجور کہا گیا ہے پھر اجر اور اجرۃ کا لفظ ہر اس بدلہ پر بولاجاتا ہے جو کسی عہد و پیمان یا تقریبا اسی قسم کے عقد کی وجہ سے دیا جائے ۔ اور یہ ہمیشہ نفع مند بدلہ پر بولا جاتا ہے ۔ ضرر رساں اور نقصان دہ بدلہ کو اجر نہیں کہتے جیسے فرمایا { لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ } [ البقرة : 277] ان کو ان کے کاموں کا صلہ خدا کے ہاں ملے گا ۔ { فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ } ( سورة الشوری 40) تو اس کا بدلہ خدا کے ذمے ہے الجزاء ہر بدلہ کو کہتے ہیں خواہ وہ کسی عہد کی وجہ سے ہو یا بغیر عہد کے اچھا ہو یا برا دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ { وَجَزَاهُمْ بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيرًا } [ الإنسان : 12] اور ان کے صبر کے بدلے ان کو بہشت کے باغات اور ریشم ( کے ملبوسات) عطا کریں گے ۔ { فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ } ( سورة النساء 93) اس کی سزا دوزخ ہے ۔ محاورہ میں ہے اجر ( ن ) زید عمرا یا جرہ اجرا کے معنی میں زید نے عمر کو اجرت پر کوئی چیز دی اور اجر عمر زیدا کے معنی ہوں گے عمرو نے زید کو اجرت دی قرآن میں ہے :۔ { عَلَى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ } [ القصص : 27] کہ تم اس کے عوض آٹھ برس میری خدمت کرو ۔ اور یہی معنی اجر ( مفاعلہ ) کے ہیں لیکن اس میں معنی مشارکت کا اعتبار ہوتا ہے اور مجرد ( اجرتہ ) میں مشارکت کے معنی ملحوظ نہیں ہوتے ہاں مال کے لحاظ سے دونوں ایک ہی ہیں ۔ محاورہ ہی ۔ اجرہ اللہ واجرہ دونوں طرح بولا جاتا ہے یعنی خدا اسے بدلہ دے ۔ الاجیرہ بروزن فعیل بمعنی فاعل یا مفاعل ہے یعنی معاوضہ یا اجرت کا پر کام کرنے والا ۔ الاستیجار کے اصل معنی کسی چیز کو اجرت پر طلب کرنا پھر یہ اجرت پر رکھ لینے کے معنی میں بولا جاتا ہے جس طرح کہ استیجاب ( استفعال ) بمعنی اجاب آجاتا ہے چناچہ آیت کریمہ : { اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ } [ القصص : 26] اسے اجرت پر ملازم رکھ لیجئے کیونکہ بہتر ملازم جو آپ رکھیں وہ ہے جو توانا اور امانت دار ہو میں ( استئجار کا لفظ ) ملازم رکھنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ فطر أصل الفَطْرِ : الشّقُّ طولا، يقال : فَطَرَ فلان کذا فَطْراً ، وأَفْطَرَ هو فُطُوراً ، وانْفَطَرَ انْفِطَاراً. قال تعالی: هَلْ تَرى مِنْ فُطُورٍ [ الملک/ 3] ، أي : اختلال ووهي فيه، وذلک قد يكون علی سبیل الفساد، وقد يكون علی سبیل الصّلاح قال : السَّماءُ مُنْفَطِرٌ بِهِ كانَ وَعْدُهُ مَفْعُولًا[ المزمل/ 18] . وفَطَرْتُ الشاة : حلبتها بإصبعین، وفَطَرْتُ العجین : إذا عجنته فخبزته من وقته، ومنه : الفِطْرَةُ. وفَطَرَ اللہ الخلق، وهو إيجاده الشیء وإبداعه علی هيئة مترشّحة لفعل من الأفعال، فقوله : فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْها[ الروم/ 30] ، فإشارة منه تعالیٰ إلى ما فَطَرَ. أي : أبدع ورکز في النّاس من معرفته تعالی، وفِطْرَةُ اللہ : هي ما رکز فيه من قوّته علی معرفة الإيمان، وهو المشار إليه بقوله : وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ [ الزخرف/ 87] ، وقال : الْحَمْدُ لِلَّهِ فاطِرِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ فاطر/ 1] ، وقال : الَّذِي فَطَرَهُنَّ [ الأنبیاء/ 56] ، وَالَّذِي فَطَرَنا [ طه/ 72] ، أي : أبدعنا وأوجدنا . يصحّ أن يكون الِانْفِطَارُ في قوله : السَّماءُ مُنْفَطِرٌ بِهِ [ المزمل/ 18] ، إشارة إلى قبول ما أبدعها وأفاضه علینا منه . والفِطْرُ : ترک الصّوم . يقال : فَطَرْتُهُ ، وأَفْطَرْتُهُ ، وأَفْطَرَ هو وقیل للکمأة : فُطُرٌ ، من حيث إنّها تَفْطِرُ الأرض فتخرج منها . (ط ر ) الفطر ( ن ض ) اس کے اصل معنی کسی چیز کو ( پہلی مرتبہ ) طول میں پھاڑنے کے ہیں چناچہ محاورہ ہے ۔ فطر فلانا کذا فطرا کسی چیز کو پھاڑ ڈالنا ۔ افطر ھو فطورا روزہ افطار کرنا انفطر انفطار پھٹ جانا اور آیت کریمہ : ۔ هَلْ تَرى مِنْ فُطُورٍ [ الملک/ 3] بھلا تجھ کو کوئی شگاف نظر آتا ہے ۔ میں فطور کے معنی خلل اور شگاف کے ہیں اور یہ پھاڑ نا کبھی کیس چیز کو بگاڑنے اور کبھی مبنی بر مصلحت ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ السَّماءُ مُنْفَطِرٌ بِهِ كانَ وَعْدُهُ مَفْعُولًا[ المزمل/ 18]( اور ) جس سے آسمان پھٹ جائیگا یہ اس کا وعدہ ( پورا ) ہو کر رہے گا ۔ فطر ت الشاۃ : میں نے بکری کو دو انگلیوں سے دو ہا فطرت العجین : آٹا گوندھ کر فورا روتی پکانا ۔ ( اسی سے فطرت ہے جس کے معنی تخلیق کے ہیں اور فطر اللہ الخلق کے معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کی تخلیق اسطرح کی ہے کہ اس میں کچھ کرنے کی استعداد موجود ہے پس آیت کریمہ : ۔ فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْها[ الروم/ 30] اور خدا کی فطرت کو، جس پر لوگوں کو پیدا کیا ( اختیار کئے رہو۔ میں اس معرفت الہی کی طرف اشارہ ہے جو تخلیق طور پر انسان کے اندر ودیعت کی گئی ہے لہذا فطرۃ اللہ سے معرفت الہیٰ کی استعداد مراد ہے جو انسان کی جبلت میں پائی جاتی ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ [ الزخرف/ 87] اور اگر تم ان سے پوچھو کہ ان کو کس نے پیدا کیا تو بول اٹھیں گے خدا نے ۔ میں اسی قوت معرفت کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے الْحَمْدُ لِلَّهِ فاطِرِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ فاطر/ 1] سب تعریف خدا ہی کو سزا وار ہے جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے ۔ الَّذِي فَطَرَهُنَّ [ الأنبیاء/ 56] جس نے ان کو پیدا کیا ہے ۔ وَالَّذِي فَطَرَنا [ طه/ 72] اور جن نے ہم کو پیدا کیا ہے ۔ اور آیت کریمہ : السَّماءُ مُنْفَطِرٌ بِهِ [ المزمل/ 18] اور جس سے آسمان پھٹ جائے ۔ میں ہوسکتا ہے کہ انفطار سے اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر فیضان ہوگا ۔ وہ اسے قبول کرلے گا الفطر روزہ افطار کرنا ۔ کہا جاتا ہے ۔ فطر تہ وافطرتہ افطرھو یعنی لازم اور متعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے اور گما ۃ کھمبی ) کو فطر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ زمین کو پھاڑ کر باہر نکلتی ہے عقل العَقْل يقال للقوّة المتهيّئة لقبول العلم، ويقال للعلم الذي يستفیده الإنسان بتلک القوّة عَقْلٌ ، وهذا العقل هو المعنيّ بقوله : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] ، ( ع ق ل ) العقل اس قوت کو کہتے ہیں جو قبول علم کے لئے تیار رہتی ہے اور وہ علم جو اس قوت کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی عقل کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] اور سے توا ہل دانش ہی سمجھتے ہیں
Top