Ruh-ul-Quran - Hud : 51
یٰقَوْمِ لَاۤ اَسْئَلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا١ؕ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلَى الَّذِیْ فَطَرَنِیْ١ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ
يٰقَوْمِ : اے میری قوم لَآ اَسْئَلُكُمْ : میں تم سے نہیں مانگتا عَلَيْهِ : اس پر اَجْرًا : کوئی اجر (صلہ) اِنْ : نہیں اَجْرِيَ : میرا صلہ اِلَّا : مگر (صرف) عَلَي : پر الَّذِيْ فَطَرَنِيْ : جس نے مجھے پیدا کیا اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ : کیا پھر تم سمجھتے نہیں
اے میری قوم کے لوگو ! میں اس پر تم سے کسی معاوضے کا طالب نہیں۔ میرا اجر تو بس اسی کے ذمہ ہے جس نے مجھے پیدا کیا تو کیا تم سمجھتے نہیں۔
یٰـقَوْمِ لَآاَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا ط اِنْ اَجْرِیَ اِلاَّعَلَی الَّذِیْ فَطَرَنِیْ ط اَفَلاَ تَعْقِلُوْنَ ۔ (سورۃ ہود : 51) (اے میری قوم کے لوگو ! میں اس پر تم سے کسی معاوضے کا طالب نہیں۔ میرا اجر تو بس اسی کے ذمہ ہے جس نے مجھے پیدا کیا تو کیا تم سمجھتے نہیں۔ ) آیت کے دو مفہوم اس آیت کریمہ میں ایک ایسی بات فرمائی گئی ہے جس کو سمجھنے کے لیے عقل کا استعمال ضروری ہے۔ اس لیے آیت کے آخر میں عقل کا حوالہ دیا گیا ہے۔ عام رواروی میں اس آیت کا مفہوم یہ سمجھ میں آتا ہے کہ میں جو عظیم الشان کام سرانجام دے رہا ہوں اس کے لیے میں تم سے کسی اجر کا متمنی نہیں ہوں حالانکہ دنیا میں کوئی کام آدمی معاوضے کے بغیر نہیں کرتا۔ لیکن میں یہ کام چونکہ تمہاری چاہت سے نہیں کرتا بلکہ اللہ کے حکم سے کر رہا ہوں۔ اس لیے میرا اجر اس کے ذمہ ہے۔ اس مفہوم کی اپنی ایک معنویت ہے اور اپنا ایک اثر ہے لیکن اگر گہری نظر سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں یہ فرمایا جارہا ہے کہ قوموں کی اصلاح کا کام دنیا میں سب سے کٹھن اور نازک کام ہے۔ اس کے لیے صرف محنت ہی درکار نہیں بلکہ خطرات سے کھیلنا اور گزرنا بھی پڑتا ہے۔ اپنے بیگانہ ہوجاتے ہیں، دوست دشمن بن جاتے ہیں۔ عزت ذلت میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ زندگی مستقل خطرے کا شکار رہتی ہے۔ کوئی لمحہ آرام کا نصیب نہیں ہوتا۔ دن گالیاں سنتے اور طعنے برداشت کرتے گزر جاتا ہے اور راتیں اللہ کی بارگاہ کی نذر ہوجاتی ہیں۔ ایسا کٹھن اور جانگسل کام جس کی اور کوئی مثال پیش نہیں کی جاسکتی بغیر کسی لالچ اور معاوضے کے ایک آدمی سرانجام دے رہا ہے۔ وہ ایک ایک دروازے پہ دستک دیتا ہے اور اسے نامناسب رویئے سے سابقہ پڑتا ہے۔ وہ ایک ایک شخص سے ہمکلام ہونا چاہتا ہے تاکہ اسے جہنم سے بچا سکے لیکن وہ اسے منہ لگانے کو تیار نہیں۔ وہ اپنے بدترین دشمنوں کو دعائوں میں یاد رکھتا ہے۔ مخالفین اس کی جان لینے کے درپے ہوتے ہیں اور وہ ان کی عاقبت سنوارنے کے فکر میں رہتا ہے۔ یہ طرزعمل، یہ ہمدردی، یہ خیرخواہی، یہ جان پر کھیل کر دوسرے کی عاقبت بنانے کی فکر کیا تمہاری عقل کو اپیل نہیں کرتی کہ اگر اس شخص کی فکر میں کوئی کجی ہوتی یا اس کی نیت میں کوئی فتور ہوتا یا یہ کسی لالچ کا شکار ہوتا تو اس کا ضرور کہیں نہ کہیں اظہار ہوتا۔ اسے اس خدمت کے عوض مسلسل فاقوں اور دکھوں کے سوا اور کیا ملا ہے۔ اس کا یہ طرز عمل بجائے خود اس بات کی دلیل ہے کہ یقینا اس کے پیچھے ایک سچائی ہے جو اسے مسلسل آمادہ ٔ کاوش رکھتی ہے۔ وہ جن خطرات سے انھیں آگاہ کرتا ہے ان کے واقع ہونے کا اسے پوری طرح یقین ہے۔ وہ آنے والے حالات کو معلوم ہوتا ہے اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ جہنم اس کے سامنے دہک رہا ہے اور مخالفین اندھوں کی طرح اس کی طرف بھاگے چلے جارہے ہیں۔ وہ جان پر کھیل کر انھیں اس آگ سے بچانا چاہتا ہے۔ تعجب ہے کہ لوگ اس کے یقین، ایقان، فکرمندی، ہمدردی اور خیرخواہی سے اس کی دعوت کی حقانیت کو کیوں نہیں اخذ کرتے اور کیوں ایمان نہیں لاتے۔ آخر ان کی عقلوں کو کیا ہوگیا ہے۔ اگر یہ ذرا بھی عقل سے کام لیتے تو جس طرح چمکتے ہوئے سورج سے روشنی کا ادراک ایک بدیہی بات ہے اسی طرح پیغمبر کے اس رویئے سے اس کی دعوت کا یقین اس سے بڑھ کر بدیہی اور یقینی بات ہے۔
Top