Mufradat-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 137
قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِكُمْ سُنَنٌ١ۙ فَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِیْنَ
قَدْ خَلَتْ : گزر چکی مِنْ قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے سُنَنٌ : واقعات فَسِيْرُوْا : تو چلو پھرو فِي الْاَرْضِ : زمین میں فَانْظُرُوْا : پھر دیکھو كَيْفَ : کیسا كَانَ : ہوا عَاقِبَةُ : انجام الْمُكَذِّبِيْنَ : جھٹلانے والے
تم لوگوں سے پہلے بھی بہت سے واقعات گزر چکے ہیں تو تم زمین میں سیر کر کے دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا کیسا انجام ہو
قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِكُمْ سُنَنٌ۝ 0 ۙ فَسِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَۃُ الْمُكَذِّبِيْنَ۝ 137 ( قَدْ ) : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة . نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ . و ( قَدْ ) و ( قط) يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر . ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔ سنن وتنحّ عن سَنَنِ الطّريق، وسُنَنِهِ وسِنَنِهِ ، فالسُّنَنُ : جمع سُنَّةٍ ، وسُنَّةُ الوجه : طریقته، وسُنَّةُ النّبيّ : طریقته التي کان يتحرّاها، وسُنَّةُ اللہ تعالی: قد تقال لطریقة حکمته، وطریقة طاعته، نحو : سُنَّةَ اللَّهِ الَّتِي قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا [ الفتح/ 23] ، وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَحْوِيلًا [ فاطر/ 43] ، فتنبيه أنّ فروع الشّرائع۔ وإن اختلفت صورها۔ فالغرض المقصود منها لا يختلف ولا يتبدّل، وهو تطهير النّفس، وترشیحها للوصول إلى ثواب اللہ تعالیٰ وجواره، وقوله : مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ [ الحجر/ 26] ، قيل : متغيّر، وقوله : لَمْ يَتَسَنَّهْ [ البقرة/ 259] ، معناه : لم يتغيّر، والهاء للاستراحة «1» . سنن تنح عن سنن الطریق ( بسین مثلثہ ) راستہ کے کھلے حصہ سے مٹ ج اور ۔ پس سنن کا لفظ سنۃ کی جمع ہے اور سنۃ الوجہ کے معنی دائرہ رد کے ہیں اور سنۃ النبی سے مراد آنحضرت کا وہ طریقہ ہے جسے آپ اختیار فرماتے تھے ۔ اور سنۃ اللہ سے مراد حق تعالیٰ کی حکمت اور اطاعت کا طریقہ مراد ہوتا ہے جیسے فرمایا : سُنَّةَ اللَّهِ الَّتِي قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا [ الفتح/ 23]( یہی) خدا کی عادت ہے جو پہلے سے چلی آتی ہے اور تم خدا کی عادت کبھی بدلتی نہ دیکھو گے ۔ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَحْوِيلًا [ فاطر/ 43] اور خدا کے طریقے میں کبھی تغیر نہ دیکھو گے ۔ تو آیت میں اس بات پر تنبیہ پائی جاتی ہے ۔ کہ شرائع کے فروغی احکام کی گو مختلف صورتیں چلی آئی ہیں ۔ لیکن ان سب سے مقصد ایک ہی ہے ۔ یعنی نفس کو پاکر کرنا اور اسے اللہ تعالیٰ کے ہاں ثواب اور اس کا جوار حاصل کرنے کے لئے تیار کرنا اور یہ مقصد ایسا ہے کہ اس میں اختلاف یا تبدیلی نہیں ہوسکتی ۔ اور آیت : مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ [ الحجر/ 26] سڑے ہوئے گارے سے ۔ سار السَّيْرُ : المضيّ في الأرض، ورجل سَائِرٌ ، وسَيَّارٌ ، والسَّيَّارَةُ : الجماعة، قال تعالی: وَجاءَتْ سَيَّارَةٌ [يوسف/ 19] ، يقال : سِرْتُ ، وسِرْتُ بفلان، وسِرْتُهُ أيضا، وسَيَّرْتُهُ علی التّكثير، فمن الأوّل قوله : أَفَلَمْ يَسِيرُوا[ الحج/ 46] ، قُلْ سِيرُوا[ الأنعام/ 11] ، سِيرُوا فِيها لَيالِيَ [ سبأ/ 18] ، ومن الثاني قوله : سارَ بِأَهْلِهِ [ القصص/ 29] ، ولم يجئ في القرآن القسم الثالث، وهو سِرْتُهُ. والرابع قوله : وَسُيِّرَتِ الْجِبالُ [ النبأ/ 20] ، هُوَ الَّذِي يُسَيِّرُكُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [يونس/ 22] ، وأمّا قوله : سِيرُوا فِي الْأَرْضِ [ النمل/ 69] فقد قيل : حثّ علی السّياحة في الأرض بالجسم، وقیل : حثّ علی إجالة الفکر، ومراعاة أحواله كما روي في الخبر أنه قيل في وصف الأولیاء : (أبدانهم في الأرض سَائِرَةٌ وقلوبهم في الملکوت جائلة) «1» ، ومنهم من حمل ذلک علی الجدّ في العبادة المتوصّل بها إلى الثواب، وعلی ذلک حمل قوله عليه السلام : «سافروا تغنموا» «2» ، والتَّسْيِيرُ ضربان : أحدهما : بالأمر، والاختیار، والإرادة من السائر نحو : هُوَ الَّذِي يُسَيِّرُكُمْ [يونس/ 22] . والثاني : بالقهر والتّسخیر کتسخیر الجبال وَإِذَا الْجِبالُ سُيِّرَتْ [ التکوير/ 3] ، وقوله : وَسُيِّرَتِ الْجِبالُ [ النبأ/ 20] ، والسِّيرَةُ : الحالة التي يكون عليها الإنسان وغیره، غریزيّا کان أو مکتسبا، يقال : فلان له سيرة حسنة، وسیرة قبیحة، وقوله : سَنُعِيدُها سِيرَتَهَا الْأُولی [ طه/ 21] ، أي : الحالة التي کانت عليها من کو نها عودا . ( س ی ر ) السیر ( س ی ر ) السیر ( ض) کے معنی زمین پر چلنے کے ہیں اور چلنے والے آدمی کو سائر وسیار کہا جاتا ہے ۔ اور ایک ساتھ چلنے والوں کی جماعت کو سیارۃ کہتے ہیں قرآن میں ہے ۔ وَجاءَتْ سَيَّارَةٌ [يوسف/ 19] ( اب خدا کی شان دیکھو کہ اس کنویں کے قریب ) ایک قافلہ دار ہوا ۔ سرت ( ض ) کے معنی چلنے کے ہیں اور سرت بفلان نیز سرتہ کے معنی چلانا بھی آتے ہیں اور معنی تلثیر کے لئے سیرتہ کہا جاتا ہے ۔ ( الغرض سیر کا لفظ چار طرح استعمال ہوتا ہے ) چناچہ پہلے معنی کے متعلق فرمایا : أَفَلَمْ يَسِيرُوا[ الحج/ 46] ، کیا ان لوگوں نے ملک میں سیر ( و سیاحت ) نہیں کی ۔ قُلْ سِيرُوا[ الأنعام/ 11] کہو کہ ( اے منکرین رسالت ) ملک میں چلو پھرو ۔ سِيرُوا فِيها لَيالِيَ [ سبأ/ 18] کہ رات ۔۔۔۔۔ چلتے رہو اور دوسرے معنی یعنی سرت بفلان کے متعلق فرمایا : سارَ بِأَهْلِهِ [ القصص/ 29] اور اپنے گھر کے لوگوں کو لے کر چلے ۔ اور تیسری قسم ( یعنی سرتہ بدوں صلہ ) کا استعمال قرآن میں نہیں پایا جاتا اور چوتھی قسم ( یعنی معنی تکثیر ) کے متعلق فرمایا : وَسُيِّرَتِ الْجِبالُ [ النبأ/ 20] اور پہاڑ چلائی جائینگے ۔ هُوَ الَّذِي يُسَيِّرُكُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [يونس/ 22] وہی تو ہے جو تم کو جنگل اور دریا میں چلنے پھر نے اور سیر کرانے کی توفیق دیتا ہے ۔ اور آیت : سِيرُوا فِي الْأَرْضِ [ النمل/ 69] کہ ملک میں چلو پھرو ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ سیاست جسمانی یعنی ملک میں سیر ( سیاحت ) کرنا مراد ہے اور بعض نے سیاحت فکری یعنی عجائبات قدرت میں غور فکر کرنا اور حالات سے باخبر رہنا مراد لیا ہے جیسا کہ اولیاء کرام کے متعلق مروی ہے ۔ ( کہ ان کے اجسام تو زمین پر چلتے پھرتے نظر اتے ہیں لیکن ان کی روحیں عالم ملکوت میں جو لانی کرتی رہتی ہیں ) بعض نے کہا ہے اس کے معنی ہیں عبادت میں اسی طرح کوشش کرنا کہ اس کے ذریعہ ثواب الٰہی تک رسائی ہوسکے اور آنحضرت (علیہ السلام) کا فرمان سافروا تغنموا سفر کرتے رہو غنیمت حاصل کر وگے بھی اس معنی پر محمول ہے ۔ پھر تسیر دوقسم پر ہے ایک وہ جو چلنے والے کے اختیار واردہ سے ہو جیسے فرمایا ۔ هُوَ الَّذِي يُسَيِّرُكُمْ [يونس/ 22] وہی تو ہے جو تم کو ۔۔۔۔ چلنے کی توفیق دیتا ہے ۔ دوم جو ذریعہ کے ہو اور سائر یعنی چلنے والے کے ارادہ واختیار کو اس میں کسی قسم کا دخل نہ ہو جیسے حال کے متعلق فرمایا : وَسُيِّرَتِ الْجِبالُ [ النبأ/ 20] اور پہاڑ چلائے جائیں گے تو وہ ریت ہوکر رہ جائیں گے ۔ وَإِذَا الْجِبالُ سُيِّرَتْ [ التکوير/ 3] اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے ۔ السیرۃ اس حالت کو کہتے ہیں جس پر انسان زندگی بسر کرتا ہے عام اس سے کہ اس کی وہ حالت طبعی ہو یا اکتسابی ۔ کہا جاتا ہے : ۔ فلان حسن السیرۃ فلاں کی سیرت اچھی ہے ۔ فلاں قبیح السیرۃ اس کی سیرت بری ہے اور آیت سَنُعِيدُها سِيرَتَهَا الْأُولی [ طه/ 21] ہم اس کو ابھی اس کی پہلی حالت پر لوٹا دیں گے ۔ میں سیرۃ اولٰی سے اس عصا کا دوبارہ لکڑی بن جانا ہے ۔ نظر النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] أي : تَأَمَّلُوا . والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] ، وقال : إِلى طَعامٍ غَيْرَ ناظِرِينَ إِناهُ [ الأحزاب/ 53] أي : منتظرین، ( ن ظ ر ) النظر کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔ اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں عاقب والعاقِبةَ إطلاقها يختصّ بالثّواب نحو : وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ [ القصص/ 83] ، وبالإضافة قد تستعمل في العقوبة نحو : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا [ الروم/ 10] ، ( ع ق ب ) العاقب اور عاقبتہ کا لفظ بھی ثواب کے لئے مخصوص ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ [ القصص/ 83] اور انجام نیک تو پرہیز گاروں ہی کا ہے ۔ مگر یہ اضافت کی صورت میں کبھی آجاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا [ الروم/ 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے
Top