Mufradat-ul-Quran - Al-Ahzaab : 67
وَ قَالُوْا رَبَّنَاۤ اِنَّاۤ اَطَعْنَا سَادَتَنَا وَ كُبَرَآءَنَا فَاَضَلُّوْنَا السَّبِیْلَا
وَقَالُوْا : اور وہ کہیں گے رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اِنَّآ : بیشک ہم اَطَعْنَا : ہم نے اطاعت کی سَادَتَنَا : اپنے سردار وَكُبَرَآءَنَا : اور اپنے بڑوں فَاَضَلُّوْنَا : تو انہوں نے بھٹکایا ہمیں السَّبِيْلَا : راستہ
اور کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہم نے اپنے سرداروں اور بڑے لوگوں کا کہا مانا تو انہوں نے ہم کو راستے سے گمراہ کردیا
وَقَالُوْا رَبَّنَآ اِنَّآ اَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاۗءَنَا فَاَضَلُّوْنَا السَّبِيْلَا۝ 67 رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ سَّيِّدُ : المتولّي للسّواد، أي : الجماعة الكثيرة، وينسب إلى ذلک فيقال : سيّد القوم، ولا يقال : سيّد الثّوب، وسيّد الفرس، ويقال : سَادَ القومَ يَسُودُهُمْ ، ولمّا کان من شرط المتولّي للجماعة أن يكون مهذّب النّفس قيل لكلّ من کان فاضلا في نفسه : سَيِّدٌ. وعلی ذلک قوله : وَسَيِّداً وَحَصُوراً [ آل عمران/ 39] ، وقوله : وَأَلْفَيا سَيِّدَها [يوسف/ 25] ، فسمّي الزّوج سَيِّداً لسیاسة زوجته، وقوله : رَبَّنا إِنَّا أَطَعْنا سادَتَنا [ الأحزاب/ 67] ، أي : ولاتنا وسَائِسِينَا . اور سید کے معنی بڑی جماعت کا سردار کے ہیں چناچہ اضافت کے وقت سیدالقوم تو کہا جاتا ہے ۔ مگر سید الثوب یا سیدالفرس نہیں بالو جاتا اور اسی سے سادا القوم یسودھم کا محاورہ ہے چونکہ قوم کے رئیس کا مہذب ہونا شرط ہے اس اعتبار ہر فاضل النفس آدمی سید کہا جاتا چناچہ آیت وَسَيِّداً وَحَصُوراً [ آل عمران/ 39] اور سردار ہوں گے اور عورت سے رغبت نہ رکھنے والے ۔ میں بھی سید کا لفظ اسی معنی پر محمول ہے ۔ اور آیت : وَأَلْفَيا سَيِّدَها [يوسف/ 25] اور دونوں کو عورت کا خاوند مل گیا ۔ میں خاوند کو سید کہا گیا ہے کیونکہ وہ بیوی کا نگران اور منتظم ہوتا ہے اور آیت : رَبَّنا إِنَّا أَطَعْنا سادَتَنا[ الأحزاب/ 67] اے ہمارے پروردگار ہم نے اپنے سرداروں اور بڑے لوگوں کا کہا مانا ۔ میں سادتنا سے دلاۃ اور حکام مراد ہیں ۔ ضل الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] ( ض ل ل ) الضلال ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔ سبل السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] ( س ب ل ) السبیل ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] دریا اور راستے ۔
Top