Madarik-ut-Tanzil - Al-Ahzaab : 67
وَ قَالُوْا رَبَّنَاۤ اِنَّاۤ اَطَعْنَا سَادَتَنَا وَ كُبَرَآءَنَا فَاَضَلُّوْنَا السَّبِیْلَا
وَقَالُوْا : اور وہ کہیں گے رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اِنَّآ : بیشک ہم اَطَعْنَا : ہم نے اطاعت کی سَادَتَنَا : اپنے سردار وَكُبَرَآءَنَا : اور اپنے بڑوں فَاَضَلُّوْنَا : تو انہوں نے بھٹکایا ہمیں السَّبِيْلَا : راستہ
اور کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہم نے اپنے سرداروں اور بڑے لوگوں کا کہا مانا تو انہوں نے ہم کو راستے سے گمراہ کردیا
کفار کی چیخ و پکار : 67: وَقَالُوْا رَبَّنَآ اِنَّا اَطَعْنَا سَادَتَنَا (اور وہ یوں کہیں گے اے ہمارے رب ہم نے اپنے سرداروں کا کہا مانا) قراءت : شامی، سہل و یعقوب نے ساداتنا پڑھا ہے۔ جو جمع الجمع ہے اور مراد اس سے کفار کے وہ سردار ہیں جنہوں نے دوسروں کو کفر کی تلقین کی اور ان کے لئے کفر کی تزیین کی وَکُبَرَآ ئَ نَا (اور اپنے بڑوں کی) زیادہ عمر والے یا اپنے علماء کی فاضلو نا السبیلا (پس انہوں نے ہمیں راستہ سے گمراہ کیا تھا) عرب کہتے ہیں ضل السبیل واضلہ ایاہ اور الف کا اضافہ تو آواز کی خاطر ہے۔ آیات کے فاصلے اس طرح ہیں جیسے کہ اشعار کے قافیے ہوتے ہیں۔ اور اس کا فائدہ وقف اور دلالت ہے کہ کلام میں انقطاع ہوگیا ہے اور بعد والا جملہ مستانفہ ہے۔
Top