Madarik-ut-Tanzil - Al-Ahzaab : 18
بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ فَیَدْمَغُهٗ فَاِذَا هُوَ زَاهِقٌ١ؕ وَ لَكُمُ الْوَیْلُ مِمَّا تَصِفُوْنَ
بَلْ : بلکہ نَقْذِفُ : ہم پھینک مارتے ہیں بِالْحَقِّ : حق کو عَلَي : پر الْبَاطِلِ : باطل فَيَدْمَغُهٗ : پس وہ اس کا بھیجا نکال دیتا ہے فَاِذَا : تو اس وقت هُوَ : وہ زَاهِقٌ : نابود ہوجاتا ہے وَلَكُمُ : اور تمہارے لیے الْوَيْلُ : خرابی مِمَّا : اس سے جو تَصِفُوْنَ : تم بناتے ہو
(نہیں) بلکہ ہم سچ کو جھوٹ پر کھینچ مارتے ہیں تو وہ اسکا سر توڑ دیتا ہے اور جھوٹ اسی وقت نابود ہوجاتا ہے اور جو باتیں تم بناتے ہو ان سے تمہاری خرابی ہے
18: بَلْ (بلکہ) اتخاذ لہو سے اعراض اور اس کی ذات کے اس سے منزہ ہونے کو بیان کیا گویا اس طرح فرمایا سبحاننا ان نتخذ اللھو (کھیل بنانے سے تو ہم پاک ہیں۔ ) بلکہ ہمارا طریقہ یہ چلا آرہا ہے کہ نَقْذِفُ (ہم پھینکتے ہیں) اور مسلط کرتے ہیں۔ بِالْحَقِّ (حق کو) قرآن کو عَلَی الْبَاطِلِ (باطل پر) شیطان پر نمبر 2۔ اسلام کو شرک پر نمبر 3۔ حقیقت کو کھیل پر فَیَدْ مَغُہٗ (پس وہ اس کا بھیجا نکال دیتا ہے) وہ اس کو توڑ دیتا۔ حق باطل کو کچل دیتا ہے۔ استعارہ لطیفہ : الدمغ اور القذف کا استعمال اصل میں اجسام کیلئے ہوتا ہے پھر استعارۃً قذفؔ کو حق کے باطل پر وار کرنے کے لئے لائے۔ اور الدمغ کو باطل کے دور اور ختم کرنے کے لیے استعمال کیا۔ پس مستعار منہ حسی ہے اور مستعار لہ عقلی ہے۔ گویا اس طرح فرمایا بلکہ ہم حق کو جو طاقتور جسم کے مشابہ ہے باطل پر وارد کرتے ہیں وہ باطل جو ایک کمزور و ضعیف جسم کی مانند ہے پس حق باطل کو اسی طرح بیکار کردیتا ہے جیسا طاقتور جسم کمزور کو۔ فَاِذَا ھُوَ (پس یکدم وہ) ھو کی ضمیر باطل کی طرف راجع ہے۔ زَاھِقٌ (ہلاک و تباہ ہونے والا ہے) وَ لَکُمُ الْوَیْلُ مِمَّا تَصِفُوْنَ (اور تمہاری اس بات سے بڑی خرابی ہوگی جو تم بیان کرتے ہو) اللہ تعالیٰ کے متعلق کہ اس نے بیٹا وغیرہ بنا لیا ہے۔
Top