Mufradat-ul-Quran - Al-Haaqqa : 16
وَ انْشَقَّتِ السَّمَآءُ فَهِیَ یَوْمَئِذٍ وَّاهِیَةٌۙ
وَانْشَقَّتِ السَّمَآءُ : اور پھٹ جائے گا آسمان فَھِيَ : تو وہ يَوْمَئِذٍ : اس دن وَّاهِيَةٌ : سست ہوگا ۔ کمزور ہوگا
اور آسمان پھٹ جائے گا تو وہ اس دن کمزور ہوگا
وَانْشَقَّتِ السَّمَاۗءُ فَھِيَ يَوْمَىِٕذٍ وَّاہِيَۃٌ۝ 16 ۙ شق الشَّقُّ : الخرم الواقع في الشیء . يقال : شَقَقْتُهُ بنصفین . قال تعالی: ثُمَّ شَقَقْنَا الْأَرْضَ شَقًّا[ عبس/ 26] ، يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق/ 44] ، وَانْشَقَّتِ السَّماءُ [ الحاقة/ 16] ، إِذَا السَّماءُ انْشَقَّتْ [ الانشقاق/ 1] ، وَانْشَقَّ الْقَمَرُ [ القمر/ 1] ، وقیل : انْشِقَاقُهُ في زمن النّبيّ عليه الصلاة والسلام، وقیل : هو انْشِقَاقٌ يعرض فيه حين تقرب القیامة وقیل معناه : وضح الأمروالشِّقَّةُ : القطعة الْمُنْشَقَّةُ کالنّصف، ومنه قيل : طار فلان من الغضب شِقَاقًا، وطارت منهم شِقَّةٌ ، کقولک : قطع غضبا والشِّقُّ : الْمَشَقَّةُ والانکسار الذي يلحق النّفس والبدن، وذلک کاستعارة الانکسار لها . قال عزّ وجلّ : لَمْ تَكُونُوا بالِغِيهِ إِلَّا بِشِقِّ الْأَنْفُسِ [ النحل/ 7] ، والشُّقَّةُ : النّاحية التي تلحقک المشقّة في الوصول إليها، وقال : بَعُدَتْ عَلَيْهِمُ الشُّقَّةُ [ التوبة/ 42] ، ( ش ق ق ) الشق الشق ۔ شگاف کو کہتے ہیں ۔ شققتہ بنصفین میں نے اسے برابر دو ٹکڑوں میں کاٹ ڈالا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ شَقَقْنَا الْأَرْضَ شَقًّا[ عبس/ 26] پھر ہم نے زمین کو چیرا پھاڑا ۔ يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق/ 44] اس روز زمین ( ان سے ) پھٹ جائے گی ۔ وَانْشَقَّتِ السَّماءُ [ الحاقة/ 16] اور آسمان پھٹ جائے گا ۔ إِذَا السَّماءُ انْشَقَّتْ [ الانشقاق/ 1] جب آسمان پھٹ جائیگا ۔ اور آیت کریمہ : وَانْشَقَّ الْقَمَرُ [ القمر/ 1] اور چاند شق ہوگیا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ انشقاق قمر آنحضرت کے زمانہ میں ہوچکا ہے ۔ اور بعض کا قول ہے کہ یہ قیامت کے قریب ظاہر ہوگا اور بعض نے انشق القمر کے معنی وضح الاسر کئے ہیں یعنی معاملہ واضح ہوگیا ۔ الشقۃ پھاڑا ہوا ٹکڑا ۔ اسی سے محاورہ ہے ۔ طار فلان من الغضب شقاقا فلاں غصہ سے پھٹ گیا ۔ جیسا کہ قطع غضبا کا محاورہ ہے ۔ طارت منھم شقۃ ۔ ان کا ایک حصہ اڑ گیا ۔ یعنی غضب ناک ہوئے ۔ الشق اس مشقت کو کہتے ہیں جو تگ و دو سے بدن یا نفس کو ناحق ہوتی ہے جیسا کہ الانکسار کا لفظ بطور استعارہ نفس کی درماندگی کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : إِلَّا بِشِقِّ الْأَنْفُسِ [ النحل/ 7] زحمت شاقہ کے بغیر الشقۃ وہ منزل مقصود جس تک بہ مشقت پہنچا جائے ۔ قرآن میں ہے َبَعُدَتْ عَلَيْهِمُ الشُّقَّةُ [ التوبة/ 42] لیکن مسافت ان کو دور ( دراز ) نظر آئی ۔ وهى الوَهْيُ : شقّ في الأديم والثّوب ونحوهما، ومنه يقال : وَهَتْ عَزَالَيِ السّحابِ بمائها قال تعالی: وَانْشَقَّتِ السَّماءُ فَهِيَ يَوْمَئِذٍ واهِيَةٌ [ الحاقة/ 16] وكلُّ شيءٍ استرخی رباطه فقد وَهِيَ. ( و ھ ی ) الوھی کے معنی چمڑے کپڑے یا اس قسم کی دوسری چیزوں میں شگاف ہوجانا کے ہیں اسی سے محاورہ ہے : ۔ وھت عز الی لسحاب بما ئھا بادل کے دھانے پانی کے زور سے ڈھیلے ہوگئے یعنی خوب بارش ہوئی ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَانْشَقَّتِ السَّماءُ فَهِيَ يَوْمَئِذٍ واهِيَةٌ [ الحاقة/ 16] اور آسمان پھٹ جائیگا اور اسکی بندش ڈھیلی پڑجائے گی اور وھی الشئی کے معنی بندش کا ڈھیلا پڑجانا کے ہیں ۔
Top