Tafseer-e-Jalalain - Az-Zukhruf : 63
وَ اَنْجَیْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ كَانُوْا یَتَّقُوْنَ
وَاَنْجَيْنَا : اور ہم نے نجات دی الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : وہ ایمان لائے وَكَانُوْا يَتَّقُوْنَ : اور وہ پرہیزگاری کرتے تھے
اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا ہم ان کو بتدریج اس طریق سے پکڑیں گے کہ ان کو معلوم ہی نہ ہوگا۔
وَالَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا سَنَسْـتَدْرِجُہُمْ مِّنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُوْنَ۝ 182 ۚ ۖ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ دَّرْجُ ( استدراج) والدَّرْجُ : طيّ الکتاب والثّوب، ويقال للمطويّ : دَرْجٌ. واستعیر الدَّرْج للموت، كما استعیر الطيّ له في قولهم : طوته المنيّة، وقولهم : من دبّ ودرج، أي : من کان حيّا فمشی، ومن مات فطوی أحواله، وقوله : سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِنْ حَيْثُ لا يَعْلَمُونَ [ الأعراف/ 182] ، قيل معناه : سنطويهم طيّ الکتاب، عبارة عن إغفالهم نحو : وَلا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنا قَلْبَهُ عَنْ ذِكْرِنا [ الكهف/ 28] ، والدَّرَجُ : سفط يجعل فيه الشیء، والدُّرْجَة : خرقة تلفّ فتدخل في حياء «1» الناقة، وقیل : سَنَسْتَدْرِجُهُمْ معناه : نأخذهم درجة فدرجة، وذلک إدناؤهم من الشیء شيئا فشيئا، کالمراقي والمنازل في ارتقائها ونزولها . والدُّرَّاج : طائر يدرج في مشیته . الدرج ۔ کتاب یا کپڑے کی تہ اور لپیٹے ہوئے مراسلہ یا کپڑے کو بھی درج کہا جاتا ہے اور بطور استعارہ درج بمعنی موت بھی آجاتا ہے ۔ جیسا کہ طوتہ المنیۃ میں طی کا لفظ موت کے لئے مستعا رہے اور محاورہ ہے ۔ من دب ودرج یعنی جو زندہ اور چل پھر رہا ہے اور جو مرچکا ہے اور اس نے اپنے دفتر زندگی کو لپیٹ لیا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِنْ حَيْثُ لا يَعْلَمُونَ [ الأعراف/ 182] ہم ان کو بتدریج اس طریقے پکڑیں گے کہ ان کو معلوم نہ ہوگا ۔ کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ ہم انہیں کتاب کی طرح لپیٹ لیں گے ۔ یہ ان کی بیخبر ی اور غفلت سے کنا یہ ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَلا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنا قَلْبَهُ عَنْ ذِكْرِنا [ الكهف/ 28] اور جو شخص کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے ۔۔۔۔۔ اس کا کہا نہ ماننا ۔ بعض نے کے معنی یہ کئے ہیں کہ ہم انہیں بتدریج پکڑیں گے بایں طور کہ انہیں آہستہ آہستہ کسی چیز ( جہنم ) کے قریب لارہے ہیں جیسا کہ سیڑھیوں اور منزلوں پر چڑھا یا ان سے نیچے اترا جاتا ہے ۔ درج چھوٹا یلا جس میں عورتیں خوشبو اور سنکا رگا دیگر سامان رکھتی ہیں ۔ الدرجۃ وہ لتہ جسے لپیٹ کرنا قہ کی کس میں رکھ دیا جاتا ہے الدراج تیتر کیونکہ وہ بھی آہستہ آہستہ چلتا ہے ۔ حيث حيث عبارة عن مکان مبهم يشرح بالجملة التي بعده، نحو قوله تعالی: وَحَيْثُ ما كُنْتُمْ [ البقرة/ 144] ، وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ [ البقرة/ 149] . ( ح ی ث ) حیث ( یہ ظرف مکان مبنی برضم ہے ) اور ) مکان مبہم کے لئے آتا ہے جس کی مابعد کے جملہ سے تشریح ہوتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَحَيْثُ ما كُنْتُمْ [ البقرة/ 144] اور تم جہاں ہوا کرو
Top