Mufradat-ul-Quran - Al-A'raaf : 37
فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا اَوْ كَذَّبَ بِاٰیٰتِهٖ١ؕ اُولٰٓئِكَ یَنَالُهُمْ نَصِیْبُهُمْ مِّنَ الْكِتٰبِ١ؕ حَتّٰۤى اِذَا جَآءَتْهُمْ رُسُلُنَا یَتَوَفَّوْنَهُمْ١ۙ قَالُوْۤا اَیْنَ مَا كُنْتُمْ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ١ؕ قَالُوْا ضَلُّوْا عَنَّا وَ شَهِدُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ اَنَّهُمْ كَانُوْا كٰفِرِیْنَ
فَمَنْ : پس کون اَظْلَمُ : بڑا ظالم مِمَّنِ : اس سے جو افْتَرٰي : بہتان باندھا عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر كَذِبًا : جھوٹ اَوْ كَذَّبَ : یا جھٹلایا بِاٰيٰتِهٖ : اس کی آیتوں کو اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ يَنَالُهُمْ : انہیں پہنچے گا نَصِيْبُهُمْ : ان کا نصیب (حصہ) مِّنَ الْكِتٰبِ : سے کتاب (لکھا ہوا) حَتّٰى : یہانتک کہ اِذَا : جب جَآءَتْهُمْ : ان کے پاس آئیں گے رُسُلُنَا : ہمارے بھیجے ہوئے يَتَوَفَّوْنَهُمْ : ان کی جان نکالنے قَالُوْٓا : وہ کہیں گے اَيْنَ مَا : کہاں جو كُنْتُمْ : تم تھے تَدْعُوْنَ : پکارتے مِنْ : سے دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا قَالُوْا : وہ کہیں گے ضَلُّوْا : وہ گم ہوگئے عَنَّا : ہم سے وَ : اور شَهِدُوْا : گواہی دیں گے عَلٰٓي : پر اَنْفُسِهِمْ : اپنی جانیں اَنَّهُمْ : کہ وہ كَانُوْا كٰفِرِيْنَ : کافر تھے
تو خدا فرمائے گا کہ جنوں اور انسانوں کی جو جماعتیں تم سے پہلے ہو گزری ہیں ان کے ساتھ تم بھی جھنم میں داخل ہوجاؤ۔ جب ایک جماعت وہاں جا داخل ہوگی تو اپنی مذہبی بہن یعنی اپنے جیسی دوسری جماعت پر لعنت کریں گے یہاں تک کہ جب سب اس میں داخل ہوجائیں گیں تو پچھلی جماعت پہلی کی نسبت کہے گی کہ اے پروردگار ! ان ہی لوگوں نے ہم کو گمراہ کیا تھا تو انکو آتش جہنم کا دگنا عذاب دے۔ خدا فرمائے گا کہ تم سب کو دگنا عذاب دیا جائیگا مگر تم نہیں جانتے
قَالَ ادْخُلُوْا فِيْٓ اُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِكُمْ مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ فِي النَّارِ۝ 0 ۭ كُلَّمَا دَخَلَتْ اُمَّۃٌ لَّعَنَتْ اُخْتَہَا۝ 0 ۭ حَتّٰٓي اِذَا ادَّارَكُوْا فِيْہَا جَمِيْعًا۝ 0 ۙ قَالَتْ اُخْرٰىہُمْ لِاُوْلٰىہُمْ رَبَّنَا ہٰٓؤُلَاۗءِ اَضَلُّوْنَا فَاٰتِہِمْ عَذَابًا ضِعْفًا مِّنَ النَّارِ۝ 0ۥۭ قَالَ لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَّلٰكِنْ لَّا تَعْلَمُوْنَ۝ 38 دخل الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] ( دخ ل ) الدخول ( ن ) یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔ الأُمّة : كل جماعة يجمعهم أمر ما إمّا دين واحد، أو زمان واحد، أو مکان واحد سواء کان ذلک الأمر الجامع تسخیرا أو اختیارا، وجمعها : أمم، وقوله تعالی: وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثالُكُمْ [ الأنعام/ 38] أي : كل نوع منها علی طریقة قد سخرها اللہ عليها بالطبع، فهي من بين ناسجة کالعنکبوت، وبانية کالسّرفة «4» ، ومدّخرة کالنمل ومعتمدة علی قوت وقته کالعصفور والحمام، إلى غير ذلک من الطبائع التي تخصص بها كل نوع . وقوله تعالی: كانَ النَّاسُ أُمَّةً واحِدَةً [ البقرة/ 213] أي : صنفا واحدا وعلی طریقة واحدة في الضلال والکفر، وقوله : وَلَوْ شاءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّةً واحِدَةً [هود/ 118] أي : في الإيمان، وقوله : وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ [ آل عمران/ 104] أي : جماعة يتخيّرون العلم والعمل الصالح يکونون أسوة لغیرهم، وقوله : إِنَّا وَجَدْنا آباءَنا عَلى أُمَّةٍ [ الزخرف/ 22] أي : علی دين مجتمع . قال : وهل يأثمن ذو أمّة وهو طائع وقوله تعالی: وَادَّكَرَ بَعْدَ أُمَّةٍ [يوسف/ 45] أي : حين، وقرئ ( بعد أمه) أي : بعد نسیان . وحقیقة ذلك : بعد انقضاء أهل عصر أو أهل دين . وقوله : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً قانِتاً لِلَّهِ [ النحل/ 120] أي : قائما مقام جماعة في عبادة الله، نحو قولهم : فلان في نفسه قبیلة . وروي :«أنه يحشر زيد بن عمرو بن نفیل أمّة وحده» وقوله تعالی: لَيْسُوا سَواءً مِنْ أَهْلِ الْكِتابِ أُمَّةٌ قائِمَةٌ [ آل عمران/ 113] أي : جماعة، وجعلها الزجاج هاهنا للاستقامة، وقال : تقدیره : ذو طریقة واحدة فترک الإضمار أولی. الامۃ ہر وہ جماعت جن کے مابین رشتہ دینی ہو یا وہ جغرافیائی اور عصری وحدت میں منسلک ہوں پھر وہ رشتہ اور تعلق اختیاری اس کی جمع امم آتی ہے اور آیت کریمہ :۔ { وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ } ( سورة الأَنعام 38) اور زمین پر جو چلنے پھر نے والے ( حیوان ) دو پروں سے اڑنے والے پرند ہیں وہ بھی تمہاری طرح جماعتیں ہیں ۔ میں امم سے ہر وہ نوع حیوان مراد ہے جو فطری اور ت سخیری طور پر خاص قسم کی زندگی بسر کر رہی ہو ۔ مثلا مکڑی جالا بنتی ہے اور سرفۃ ( مور سپید تنکوں سے ) اپنا گھر بناتی ہے اور چیونٹی ذخیرہ اندوزی میں لگی رہتی ہے اور چڑیا کبوتر وغیرہ وقتی غذا پر بھروسہ کرتے ہیں الغرض ہر نوع حیوان اپنی طبیعت اور فطرت کے مطابق ایک خاص قسم کی زندگی بسر کر رہی ہے اور آیت کریمہ :۔ { كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً } ( سورة البقرة 213) ( پہلے تو سب ) لوگ ایک امت تھے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تما لوگ صنف واحد اور ضلالت و کفر کے ہی کے مسلک گامزن تھے اور آیت کریمہ :۔ { وَلَوْ شَاءَ اللهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً } ( سورة المائدة 48) اور اگر خدا چاہتا تو تم سب کو ہی شریعت پر کردیتا ۔ میں امۃ واحدۃ سے وحدۃ بحاظ ایمان مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ { وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ } ( سورة آل عمران 104) کے معنی یہ ہیں کہ تم میں سے ایک جماعت ایسی بھی ہونی چاہیے جو علم اور عمل صالح کا راستہ اختیار کرے اور دوسروں کے لئے اسوۃ بنے اور آیت کریمہ ؛۔ { إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَى أُمَّةٍ } ( سورة الزخرف 22 - 23) ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک متفقہ دین پر پایا ہے ۔ میں امۃ کے معنی دین کے ہیں ۔ چناچہ شاعر نے کہا ہی ع (25) وھل یاثمن ذوامۃ وھوطائع ( طویل ) بھلا کوئی متدین آدمی رضا اور رغبت سے گناہ کرسکتا ہے اور آیت کریمہ :۔ { وَادَّكَرَ بَعْدَ أُمَّةٍ } ( سورة يوسف 45) میں امۃ کے معنی حین یعنی عرصہ دارز کے ہیں اور ایک قرات میں بعد امہ ( ربالھاء ) ہے یعنی نسیان کے بعد جب اسے یاد آیا ۔ اصل میں بعد امۃ کے معنی ہیں ایک دور یا کسی ایک مذہب کے متبعین کا دورگزر جانے کے بعد اور آیت کریمہ :۔ { إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتًا } ( سورة النحل 120) کے معنی یہ ہیں کہ حضرت ابراہیم عبادت الہی میں ایک جماعت اور قوم بمنزلہ تھے ۔ جس طرح کہ محاورہ ہے ۔ فلان فی نفسہ قبیلۃ کہ فلاں بذات خود ایک قبیلہ ہے یعنی ایک قبیلہ کے قائم مقام ہے (13) وروی انہ یحشر زیدبن عمرابن نفیل امۃ وحدہ اورا یک روایت میں ہے کہ حشر کے دن زید بن عمر و بن نفیل اکیلا ہی امت ہوگا ۔ اور آیت کریمہ :۔ { لَيْسُوا سَوَاءً مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ أُمَّةٌ قَائِمَةٌ } ( سورة آل عمران 113) وہ سب ایک جیسے نہیں ہیں ان اہل کتاب میں کچھ لوگ ( حکم خدا پر ) قائم بھی ہیں ۔ میں امۃ بمعنی جماعت ہے زجاج کے نزدیک یہاں قائمۃ بمعنی استقامت ہے یعنی ذو و طریقہ واحدۃ تو یہاں مضمر متردک ہے جِنّ ( شیطان) والجِنّ يقال علی وجهين : أحدهما للروحانيين المستترة عن الحواس کلها بإزاء الإنس، فعلی هذا تدخل فيه الملائكة والشیاطین، فكلّ ملائكة جنّ ، ولیس کلّ جنّ ملائكة، وعلی هذا قال أبو صالح : الملائكة كلها جنّ ، وقیل : بل الجن بعض الروحانيين، وذلک أنّ الروحانيين ثلاثة : - أخيار : وهم الملائكة . - وأشرار : وهم الشیاطین . - وأوساط فيهم أخيار وأشرار : وهم الجن، ويدلّ علی ذلک قوله تعالی: قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ إلى قوله : وَأَنَّا مِنَّا الْمُسْلِمُونَ وَمِنَّا الْقاسِطُونَ [ الجن/ 1- 14] . والجِنَّة : جماعة الجن . قال تعالی: مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [ الناس/ 6] ، وقال تعالی: وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [ الصافات/ 158 الجن جن ( اس کی جمع جنتہ آتی ہے اور ) اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے ۔ (1) انسان کے مقابلہ میں ان تمام روحانیوں کو جن کہا جاتا ہے جو حواس سے مستور ہیں ۔ اس صورت میں جن کا لفظ ملائکہ اور شیاطین دونوں کو شامل ہوتا ہے لھذا تمام فرشتے جن ہیں لیکن تمام جن فرشتے نہیں ہیں ۔ اسی بناء پر ابو صالح نے کہا ہے کہ سب فرشتے جن ہیں ۔ ( 2) بعض نے کہا ہے کہ نہیں بلکہ جن روحانیوں کی ایک قسم ہیں کیونکہ وحانیات تین قسم ہیں ۔ (1) اخیار ( نیک ) اور یہ فرشتے ہیں ( 2) اشرا ( بد ) اور یہ شیاطین ہیں ۔ ( 3) اوساط جن میں بعض نیک اور بعض بد ہیں اور یہ جن ہیں چناچہ صورت جن کی ابتدائی آیات ۔ قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ إلى قوله : وَأَنَّا مِنَّا الْمُسْلِمُونَ وَمِنَّا الْقاسِطُونَ [ الجن/ 1- 14] اور یہ کہ ہم بعض فرمانبردار ہیں بعض ( نافرماں ) گنہگار ہیں ۔ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ جنوں میں بعض نیک اور بعض بد ہیں ۔ الجنۃ جنوں کی جماعت ۔ قرآن میں ہے ۔ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [ الناس/ 6] جنات سے ( ہو ) یا انسانوں میں سے وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [ الصافات/ 158] اور انہوں نے خدا میں اور جنوں میں رشتہ مقرر کیا ۔ إنس الإنس : خلاف الجن، والأنس : خلاف النفور، والإنسيّ منسوب إلى الإنس يقال ذلک لمن کثر أنسه، ولكلّ ما يؤنس به، ولهذا قيل :إنسيّ الدابة للجانب الذي يلي الراکب وإنسيّ القوس : للجانب الذي يقبل علی الرامي . والإنسيّ من کل شيء : ما يلي الإنسان، والوحشيّ : ما يلي الجانب الآخر له . وجمع الإنس أَناسيُّ ، قال اللہ تعالی: وَأَناسِيَّ كَثِيراً [ الفرقان/ 49] . وقیل ابن إنسک للنفس وقوله عزّ وجل : فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْداً [ النساء/ 6] أي : أبصرتم أنسا بهم، وآنَسْتُ ناراً [ طه/ 10] ، وقوله : حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا[ النور/ 27] أي : تجدوا إيناسا . والإِنسان قيل : سمّي بذلک لأنه خلق خلقة لا قوام له إلا بإنس بعضهم ببعض، ولهذا قيل : الإنسان مدنيّ بالطبع، من حيث لا قوام لبعضهم إلا ببعض، ولا يمكنه أن يقوم بجمیع أسبابه، وقیل : سمّي بذلک لأنه يأنس بكلّ ما يألفه وقیل : هو إفعلان، وأصله : إنسیان، سمّي بذلک لأنه عهد اللہ إليه فنسي . ( ان س ) الانس یہ جن کی ضد ہے اور انس ( بضمہ الہمزہ ) نفور کی ضد ہے اور انسی ۔ انس کی طرف منسوب ہے اور انسی اسے کہا جاتا ہے ۔ جو بہت زیادہ مانوس ہو اور ہر وہ چیز جس سے انس کیا جائے اسے بھی انسی کہدیتے ہیں اور جانور یا کمان کی وہ جانب جو سوار یا کمانچی کی طرف ہو اسے انسی کہا جاتا ہے اور اس کے بالمقابل دوسری جانب کو وحشی کہتے ہیں انس کی جمع اناسی ہے قرآن میں ہے :۔ { وَأَنَاسِيَّ كَثِيرًا } ( سورة الفرقان 49) بہت سے ( چوریاں ) اور آدمیوں کو ۔ اور نفس انسانی کو ابن انسک کہا جاتا ہے ۔ انس ( افعال ) کے معنی کسی چیز سے انس پانا یا دیکھتا ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ { فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا } ( سورة النساء 6) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو ۔ انست نارا (27 ۔ 7) میں نے آگ دیکھی ۔ اور آیت کریمہ :۔ { حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا } ( سورة النور 27) کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تم ان سے اجازت لے کر انس پیدا نہ کرلو ۔ الانسان ۔ انسان چونکہ فطرۃ ہی کچھ اس قسم کا واقع ہوا ہے کہ اس کی زندگی کا مزاج باہم انس اور میل جول کے بغیر نہیں بن سکتا اس لئے اسے انسان کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اسی بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ انسان طبعی طور پر متمدن واقع ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ آپس میں بیل جوں کے بغیر نہیں رہ سکتا اور نہ ہی اکیلا ضروریات زندگی کا انتظام کرسکتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اسے جس چیز سے محبت ہوتی ہے اسی سے مانوس ہوجاتا ہے ۔ اس لئے اسے انسان کہا جاتا ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ انسان اصل میں انسیان پر وزن افعلان ہے اور ( انسان ) چونکہ اپنے عہد کو بھول گیا تھا اس لئے اسے انسان کہا گیا ہے ۔ لعن اللَّعْنُ : الطّرد والإبعاد علی سبیل السّخط، وذلک من اللہ تعالیٰ في الآخرة عقوبة، وفي الدّنيا انقطاع من قبول رحمته وتوفیقه، ومن الإنسان دعاء علی غيره . قال تعالی: أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ [هود/ 18] ( ل ع ن ) اللعن ۔ کسی کو ناراضگی کی بنا پر اپنے سے دور کردینا اور دھتکار دینا ۔ خدا کی طرف سے کسی شخص پر لعنت سے مراد ہوتی ہے کہ وہ دنیا میں تو اللہ کی رحمت اور توفیق سے اثر پذیر ہونے محروم ہوجائے اور آخرت عقوبت کا مستحق قرار پائے اور انسان کی طرف سے کسی پر لعنت بھیجنے کے معنی بد دعا کے ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ [هود/ 18] سن رکھو کہ ظالموں پر خدا کی لعنت ہے ۔ درك الدَّرْكُ کالدّرج، لکن الدّرج يقال اعتبارا بالصّعود، والدّرک اعتبارا بالحدور، ولهذا قيل : درجات الجنّة، ودَرَكَات النار، ولتصوّر الحدور في النار سمّيت هاوية، وقال تعالی: إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ [ النساء/ 145] ، والدّرك أقصی قعر البحر . ويقال للحبل الذي يوصل به حبل آخر ليدرک الماء دَرَكٌ ، ولما يلحق الإنسان من تبعة دَرَكٌ کالدّرک في البیع قال تعالی: لا تخافُ دَرَكاً وَلا تَخْشى [ طه/ 77] ، أي : تبعة . وأَدْرَكَ : بلغ أقصی الشیء، وأَدْرَكَ الصّبيّ : بلغ غاية الصّبا، وذلک حين البلوغ، قال : حَتَّى إِذا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ [يونس/ 90] ، وقوله : لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، فمنهم من حمل ذلک علی البصر الذي هو الجارحة، ومنهم من حمله علی البصیرة، وذکر أنه قد نبّه به علی ما روي عن أبي بکر رضي اللہ عنه في قوله : (يا من غاية معرفته القصور عن معرفته) إذ کان غاية معرفته تعالیٰ أن تعرف الأشياء فتعلم أنه ليس بشیء منها، ولا بمثلها بل هو موجد کلّ ما أدركته . والتَّدَارُكُ في الإغاثة والنّعمة أكثر، نحو قوله تعالی: لَوْلا أَنْ تَدارَكَهُ نِعْمَةٌ مِنْ رَبِّهِ [ القلم/ 49] ، وقوله : حَتَّى إِذَا ادَّارَكُوا فِيها جَمِيعاً [ الأعراف/ 38] ، أي : لحق کلّ بالآخر . وقال : بَلِ ادَّارَكَ عِلْمُهُمْ فِي الْآخِرَةِ [ النمل/ 66] ، أي : تدارک، فأدغمت التاء في الدال، وتوصّل إلى السکون بألف الوصل، وعلی ذلک قوله تعالی: حَتَّى إِذَا ادَّارَكُوا فِيها [ الأعراف/ 38] ، ونحوه : اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ [ التوبة/ 38] ، واطَّيَّرْنا بِكَ [ النمل/ 47] ، وقرئ : بل أدرک علمهم في الآخرة وقال الحسن : معناه جهلوا أمر الآخرة وحقیقته انتهى علمهم في لحوق الآخرة فجهلوها . وقیل معناه : بل يدرک علمهم ذلک في الآخرة، أي : إذا حصلوا في الآخرة، لأنّ ما يكون ظنونا في الدّنيا، فهو في الآخرة يقين . ( درک ) الدرک اور درج کا لفظ اوپر چڑھنے کے اعتبار سے بولا جاتا ہے اور الدرک کا لفظ نیچے اترنے کے لحاظ سے اس لئے درجات الجنۃ اور درکات النار کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جیسا کہ پستی کے اعتبار سے دوذخ کو ھاویۃ کہا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ [ النساء/ 145] کچھ شک نہیں کہ منافق لوگ دوزخ کے سب سے نیچے کے طبقہ میں ہوں گے ۔ اور سمندر کی گہرائی کی تہہ اور اس رسی کو جس کے ساتھ پانی تک پہنچنے کے لئے دوسری رسی ملائی جاتی ہے بھی درک کہا جاتا ہے اور درک بمعنی تاوان بھی آتا ہے مثلا خرید وفروخت میں بیضانہ کو درک کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ لا تخافُ دَرَكاً وَلا تَخْشى [ طه/ 77] پھر تم کو نہ تو ( فرعون کے ) آپکڑے نے کا خوف ہوگا اور نہ غرق ہونے کا ( ڈر ۔ ادرک ۔ کسی چیز کی غایت کو پہچنا ، پالنا جیسے ادرک الصبی لڑکا بچپن کی آخری حد کو پہنچ گیا یعنی بالغ ہوگیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى إِذا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ [يونس/ 90] یہاں تک کہ اس کو غرق ( کے عذاب ) نے آپکڑا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] وہ ایسا ہے کہ ( نگا ہیں اس کا اور اک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا اور اک کرسکتا ہے ۔ کو بعض نے ادارک بصری کی نفی پر حمل کیا ہے اور بعض نے ادارک کی نفی ملحاظ بصیرت مراد دلی ہے اور کہا ہے کہ اس آیت سے اس معنی پر تنبیہ کی ہے جو کہ حضرت ابوبکر کے قول اے وہ ذات جس کی غایت معرفت بھی اس کی معرفت سے کوتاہی کا نام ہے ) میں پایا جاتا ہے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی معرفت کی غایت یہ ہے کہ انسان کو تمام اشیاء کا کماحقہ علم حاصل ہونے کے بعد یہ یقین ہوجائے کہ ذات باری تعالیٰ نہ کسی کی جنس ہے اور نہ ہی کسی چیز کی مثل ہے بلکہ وہ ان تمام چیزو ن کی موجد ہی ۔ التدارک ۔ ( پالینا ) یہ زیادہ تر نعمت اور رسی کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَوْلا أَنْ تَدارَكَهُ نِعْمَةٌ مِنْ رَبِّهِ [ القلم/ 49] اگر تمہارے پروردگار کی مہر بانی ان کی یاوری نہ کرتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ حَتَّى إِذَا ادَّارَكُوا فِيها جَمِيعاً [ الأعراف/ 38] یہاں تک کہ جب سب اس میں داخل ہوجائیں گے کے معنی یہ ہیں کہ جب سب کے سب اس میں ایک دوسرے کو آملیں گے ۔ پس اصل میں تدارکوا ہے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ۔ بَلِ ادَّارَكَ عِلْمُهُمْ فِي الْآخِرَةِ [ النمل/ 66] بلکہ آخرت کے بارے میں انکا علم منتہی ہوچکا ہے ۔ میں ادراک اصل میں تدارک ہے تاء کو دال میں ادغام کرنے کے بعد ابتدائے سکون کی وجہ سے ہمزہ وصلی لایا گیا ہے جس طرح کہ آیات : ۔ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ [ التوبة/ 38] میں ہے ایک قراءت میں ہے ۔ حسن (رح) نے اس کے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ امور آخرت سے سراسر فاعل ہیں مگر اس کے اصل معنی یہ ہیں کہ آخرت کو پالینے سے انکا علم بنتی ہوچکا ہے اس بنا پر وہ اس سے جاہل اور بیخبر ہیں ۔ بعض نے اس کے یہ معنی کئے کہ انہیں آخرت میں ان چیزوں کی حقیقت معلوم ہو جائیگی کیونکہ دنیا میں جو چیزوں معلوم ہو جائیگی کیونکہ دنیا میں جو چیزیں محض ظنون نظر آتی ہیں آخرت میں ان کے متعلق یقین حاصل ہوجائے گا ۔ ها هَا للتنبيه في قولهم : هذا وهذه، وقد ركّب مع ذا وذه وأولاء حتی صار معها بمنزلة حرف منها، و (ها) في قوله تعالی: ها أَنْتُمْ [ آل عمران/ 66] استفهام، قال تعالی: ها أَنْتُمْ هؤُلاءِ حاجَجْتُمْ [ آل عمران/ 66] ، ها أَنْتُمْ أُولاءِ تُحِبُّونَهُمْ [ آل عمران/ 119] ، هؤُلاءِ جادَلْتُمْ [ النساء/ 109] ، ثُمَّ أَنْتُمْ هؤُلاءِ تَقْتُلُونَ أَنْفُسَكُمْ [ البقرة/ 85] ، لا إِلى هؤُلاءِ وَلا إِلى هؤُلاءِ [ النساء/ 143] . و «هَا» كلمة في معنی الأخذ، وهو نقیض : هات . أي : أعط، يقال : هَاؤُمُ ، وهَاؤُمَا، وهَاؤُمُوا، وفيه لغة أخری: هَاءِ ، وهَاءَا، وهَاءُوا، وهَائِي، وهَأْنَ ، نحو : خَفْنَ وقیل : هَاكَ ، ثمّ يثنّى الکاف ويجمع ويؤنّث قال تعالی: هاؤُمُ اقْرَؤُا كِتابِيَهْ [ الحاقة/ 19] وقیل : هذه أسماء الأفعال، يقال : هَاءَ يَهَاءُ نحو : خاف يخاف، وقیل : هَاءَى يُهَائِي، مثل : نادی ينادي، وقیل : إِهَاءُ نحو : إخالُ. هُوَ : كناية عن اسم مذكّر، والأصل : الهاء، والواو زائدة صلة للضمیر، وتقوية له، لأنها الهاء التي في : ضربته، ومنهم من يقول : هُوَّ مثقّل، ومن العرب من يخفّف ويسكّن، فيقال : هُو . ( ھا ) ھا ۔ یہ حرف تنبیہ ہے اور ذا ذہ اولاٰ اسم اشارہ کے شروع میں آتا ہے اور اس کے لئے بمنزلہ جز سمجھنا جاتا ہے مگر ھا انتم میں حرف ھا استہفام کے لئے ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ ها أَنْتُمْ هؤُلاءِ حاجَجْتُمْ [ آل عمران/ 66] دیکھو ایسی بات میں تو تم نے جھگڑا کیا ہی تھا ۔ ها أَنْتُمْ أُولاءِ تُحِبُّونَهُمْ [ آل عمران/ 119] دیکھو تم ایسے صاف دل لوگ ہو کہ ان لوگوں سے ودستی رکھتے ہو ۔ هؤُلاءِ جادَلْتُمْ [ النساء/ 109] بھلا تم لوگ ان کی طرف سے بحث کرلیتے ہو ۔ ثُمَّ أَنْتُمْ هؤُلاءِ تَقْتُلُونَ أَنْفُسَكُمْ [ البقرة/ 85] پھر تم وہی ہو کہ اپنوں کو قتل بھی کردیتے ہو ۔ لا إِلى هؤُلاءِ وَلا إِلى هؤُلاءِ [ النساء/ 143] نہ ان کی طرف ( ہوتے ہو ) نہ ان کی طرف ۔ ھاءم ـ اسم فعل بمعنی خذ بھی آتا ہے اور ھات ( لام ) کی ضد ہے اور اس کی گردان یون ہے ۔ ھاؤم ھاؤم ۔ ھاؤموا ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ هاؤُمُ اقْرَؤُا كِتابِيَهْ [ الحاقة/ 19] لیجئے اعمالنامہ پڑھئے اور اس میں ایک لغت بغیر میم کے بھی ہے ۔ جیسے : ۔ ھا ، ھا ، ھاؤا ھائی ھان کے بروزن خفن اور بعض اس کے آخر میں ک ضمیر کا اضافہ کر کے تنبیہ جمع اور تذکرو تانیث کے لئے ضمیر میں تبدیل کرتے ہیں جیسے ھاک ھاکما الخ اور بعض اسم فعل بنا کر اسے کھاؤ یھاء بروزن خاف یخاف کہتے ہیں اور بعض کے نزدیک ھائی یھائی مثل نادٰی ینادی ہے اور بقول بعض متکلم مضارع کا صیغہ اھاء بروزن اخال آتا ہے ۔ ( ضل)إِضْلَالُ والإِضْلَالُ ضربان : أحدهما : أن يكون سببه الضَّلَالُ ، وذلک علی وجهين : إمّا بأن يَضِلَّ عنک الشیءُ کقولک : أَضْلَلْتُ البعیرَ ، أي : ضَلَّ عنّي، وإمّا أن تحکم بِضَلَالِهِ ، والضَّلَالُ في هذين سبب الإِضْلَالِ. والضّرب الثاني : أن يكون الإِضْلَالُ سببا لِلضَّلَالِ ، وهو أن يزيّن للإنسان الباطل ليضلّ کقوله : لَهَمَّتْ طائِفَةٌ مِنْهُمْ أَنْ يُضِلُّوكَ وَما يُضِلُّونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ [ النساء/ 113] ، أي يتحرّون أفعالا يقصدون بها أن تَضِلَّ ، فلا يحصل من فعلهم ذلك إلّا ما فيه ضَلَالُ أنفسِهِم، وقال عن الشیطان : وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ [ النساء/ 119] ، وقال في الشّيطان : وَلَقَدْ أَضَلَّ مِنْكُمْ جِبِلًّا كَثِيراً [يس/ 62] ، وَيُرِيدُ الشَّيْطانُ أَنْ يُضِلَّهُمْ ضَلالًا بَعِيداً [ النساء/ 60] ، وَلا تَتَّبِعِ الْهَوى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ [ ص/ 26] ، وإِضْلَالُ اللهِ تعالیٰ للإنسان علی أحد وجهين : أحدهما أن يكون سببُهُ الضَّلَالَ ، وهو أن يَضِلَّ الإنسانُ فيحكم اللہ عليه بذلک في الدّنيا، ويعدل به عن طریق الجنّة إلى النار في الآخرة، وذلک إِضْلَالٌ هو حقٌّ وعدلٌ ، فالحکم علی الضَّالِّ بضَلَالِهِ والعدول به عن طریق الجنّة إلى النار عدل وحقّ. والثاني من إِضْلَالِ اللهِ : هو أنّ اللہ تعالیٰ وضع جبلّة الإنسان علی هيئة إذا راعی طریقا، محمودا کان أو مذموما، ألفه واستطابه ولزمه، وتعذّر صرفه وانصرافه عنه، ويصير ذلک کالطّبع الذي يأبى علی الناقل، ولذلک قيل : العادة طبع ثان «2» . وهذه القوّة في الإنسان فعل إلهيّ ، وإذا کان کذلک۔ وقد ذکر في غير هذا الموضع أنّ كلّ شيء يكون سببا في وقوع فعل۔ صحّ نسبة ذلک الفعل إليه، فصحّ أن ينسب ضلال العبد إلى اللہ من هذا الوجه، فيقال : أَضَلَّهُ اللهُ لا علی الوجه الذي يتصوّره الجهلة، ولما قلناه جعل الإِضْلَالَ المنسوب إلى نفسه للکافر والفاسق دون المؤمن، بل نفی عن نفسه إِضْلَالَ المؤمنِ فقال : وَما کانَ اللَّهُ لِيُضِلَّ قَوْماً بَعْدَ إِذْ هَداهُمْ [ التوبة/ 115] ، فَلَنْ يُضِلَّ أَعْمالَهُمْ سَيَهْدِيهِمْ [ محمد/ 4- 5] ، وقال في الکافروالفاسق : فَتَعْساً لَهُمْ وَأَضَلَّ أَعْمالَهُمْ [ محمد/ 8] ، وما يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفاسِقِينَ [ البقرة/ 26] ، كَذلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ الْكافِرِينَ [ غافر/ 74] ، وَيُضِلُّ اللَّهُ الظَّالِمِينَ [إبراهيم/ 27] ، وعلی هذا النّحو تقلیب الأفئدة في قوله : وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ [ الأنعام/ 110] ، والختم علی القلب في قوله : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ [ البقرة/ 7] ، وزیادة المرض في قوله : فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَهُمُ اللَّهُ مَرَضاً [ البقرة/ 10] . الاضلال ( یعنی دوسرے کو گمراہ کرنے ) کی دوصورتیں ہوسکتی ہیں ۔ ایک یہ کہ اس کا سبب خود اپنی ضلالت ہو یہ دو قسم پر ہے ۔ (1) ایک یہ کہ کوئی چیز ضائع ہوجائے مثلا کہاجاتا ہے اضللت البعیر ۔ میرا اونٹ کھو گیا ۔ (2) دوم کہ دوسرے پر ضلالت کا حکم لگانا ان دونوں صورتوں میں اضلال کا سبب ضلالۃ ہی ہوتی ہے ۔ دوسری صورت اضلال کا سبب ضلالۃ ہی ہوتی ہے ۔ دوسری صورت اضلال کی پہلی کے برعکس ہے یعنی اضلال بذاتہ ضلالۃ کا سبب بنے اسی طرح پر کہ کسی انسان کو گمراہ کرنے کے لئے باطل اس کے سامنے پر فریب اور جاذب انداز میں پیش کیا جائے جیسے فرمایا : لَهَمَّتْ طائِفَةٌ مِنْهُمْ أَنْ يُضِلُّوكَ وَما يُضِلُّونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ [ النساء/ 113] ، ان میں سے ایک جماعت تم کو بہکانے کا قصد کرچکی تھی اور یہ اپنے سوا کسی کو بہکا نہیں سکتے۔ یعنی وہ اپنے اعمال سے تجھے گمراہ کرنے کی کوشش میں ہیں مگر وہ اپنے اس کردار سے خود ہی گمراہ ہو رہے ہیں ۔ اور شیطان کا قول نقل کرتے ہوئے فرمایا : وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ [ النساء/ 119] اور ان کو گمراہ کرتا اور امیدیں دلاتا رہوں گا ۔ اور شیطان کے بارے میں فرمایا : ۔ وَلَقَدْ أَضَلَّ مِنْكُمْ جِبِلًّا كَثِيراً [يس/ 62] اور اس نے تم میں سے بہت سی خلقت کو گمراہ کردیا تھا ۔ وَيُرِيدُ الشَّيْطانُ أَنْ يُضِلَّهُمْ ضَلالًا بَعِيداً [ النساء/ 60] اور شیطان تو چاہتا ہے کہ ان کو بہکا کر رستے سے دور ڈال دے ۔ وَلا تَتَّبِعِ الْهَوى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ [ ص/ 26] اور خواہش کی پیروی نہ کرنا کہ وہ تمہیں خدا کے رستے سے بھٹکادے گی ۔ اللہ تعالیٰ کے انسان کو گمراہ کرنے کی دو صورتیں ہی ہوسکتی ہیں ( 1 ) ایک یہ کہ اس کا سبب انسان کی خود اپنی ضلالت ہو اس صورت میں اللہ تعالیٰ کی طرف اضلال کی نسبت کے یہ معنی ہوں گے کہ جب انسان از خود گمرہ ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں اس پر گمراہی کا حکم ثبت ہوجاتا ہے ۔ جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آخرت کے دن اسے جنت کے راستہ سے ہٹا کر دوزخ کے راستہ پر ڈال دیا جائے گا ۔ ( 2 ) اور اللہ تعالٰ کی طرف اضلال کی نسببت کے دوسرے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ باری تعالیٰ نے انسان کی جبلت ہی کچھ اس قسم کی بنائی ہے کہ جب انسان کسی اچھے یا برے راستہ کو اختیار کرلیتا ہے تو اس سے مانوس ہوجاتا ہے اور اسے اچھا سمجھنے لگتا ہے اور آخر کا اس پر اتنی مضبوطی سے جم جاتا ہے کہ اس راہ سے ہٹا نایا اس کا خود اسے چھوڑ دینا دشوار ہوجاتا ہے اور وہ اعمال اس کی طبیعت ثانیہ بن جاتے ہیں اسی اعتبار سے کہا گیا ہے کہ عادت طبعہ ثانیہ ہے ۔ پھر جب انسان کی اس قسم کی فطرت اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی ہے اور دوسرے مقام پر ہم بیان کرچکے ہیں کہ فعل کی نسبت اس کے سبب کی طرف بھی ہوسکتی ہے لہذا اضلال کی نسبت اللہ تعالیٰ کیطرف بھی ہوسکتی ہے اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اسے گمراہکر دیا ور نہ باری تعالیٰ کے گمراہ کر نیکے وہ معنی نہیں ہیں جو عوام جہلاء سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن نے اللہ تعالیٰ کی طرف گمراہ کرنے کینسبت اسی جگہ کی ہے جہاں کافر اور فاسق لوگ مراد ہیں نہ کہ مومن بلکہ حق تعالیٰ نے مومنین کو گمراہ کرنے کی اپنی ذات سے نفی فرمائی ہے چناچہ ارشاد ہے ۔ وَما کانَ اللَّهُ لِيُضِلَّ قَوْماً بَعْدَ إِذْ هَداهُمْ [ التوبة/ 115] اور خدا ایسا نہیں ہے کہ کسی قومکو ہدایت دینے کے بعد گمراہ کردے ۔ فَلَنْ يُضِلَّ أَعْمالَهُمْ سَيَهْدِيهِمْ [ محمد/ 4- 5] ان کے عملوں کر ہر گز ضائع نہ کریگا بلکہ ان کو سیدھے رستے پر چلائے گا ۔ اور کافر اور فاسق لوگوں کے متعلق فرمایا : فَتَعْساً لَهُمْ وَأَضَلَّ أَعْمالَهُمْ [ محمد/ 8] ان کے لئے ہلاکت ہے اور وہ ان کے اعمال کو برباد کردیگا : وما يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفاسِقِينَ [ البقرة/ 26] اور گمراہ بھی کرتا ہے تو نافرمانوں ہی کو ۔ كَذلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ الْكافِرِينَ [ غافر/ 74] اسی طرح خدا کافررں کو گمراہ کرتا ہے ۔ وَيُضِلُّ اللَّهُ الظَّالِمِينَ [إبراهيم/ 27] اور خدا بےانصافوں کو گمراہ کردیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ [ الأنعام/ 110] اور ہم ان کے دلوں کو الٹ دیں گے ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ [ البقرة/ 7] خدا نے انکے دلوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَهُمُ اللَّهُ مَرَضاً [ البقرة/ 10] ان کے دلوں میں ( کفر کا ) مرض تھا خدا نے ان کا مرض اور زیادہ کردیا ۔ میں دلوں کے پھیر دینے اور ان پر مہر لگا دینے اور ان کی مرض میں اضافہ کردینے سے بھی یہی معنی مراد ہیں ۔ إِيتاء : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة/ 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء/ 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة/ 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة/ 247] الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ { وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ } [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں { وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ } [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا { وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ } ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو { وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ } [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی ضعف ( دوگنا) ضِّعْفُ هو من الألفاظ المتضایفة التي يقتضي وجود أحدهما وجود الآخر، کالنّصف والزّوج، وهو تركّب قدرین متساويين، ويختصّ بالعدد، فإذا قيل : أَضْعَفْتُ الشیءَ ، وضَعَّفْتُهُ ، وضَاعَفْتُهُ : ضممت إليه مثله فصاعدا . قال بعضهم : ضَاعَفْتُ أبلغ من ضَعَّفْتُ ولهذا قرأ أكثرهم : يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ [ الأحزاب/ 30] ، وَإِنْ تَكُ حَسَنَةً يُضاعِفْها[ النساء/ 40] ( ض ع) الضعف الضعف ۔ یہ اسمائے متضایقہ سے ہے یعنی وہ الفاظ جو اپنے مفہوم ومعنی کے تحقیق میں ایک دوسرے پر موقوف ہوتے ہیں جیسے نصف وزوج اور ضعف ( دوگنا) کے معنی ہیں ایک چیز کے ساتھ اس کے مثل کامل جانا اور یہ اسم عدد کے ساتھ مخصوص ہے ۔ اور اضعفت الشئی وضعتہ وضاعفتہ کے معنی ہیں کسی چیز کو دو چند کردینا بعض نے کہا ہے کہ ضاعفت ( مفاعلۃ ) میں ضعفت ( تفعیل ) سے زیادہ مبالغہ پایا جاتا ہے آیت کریمہ : ۔ يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ [ الأحزاب/ 30] ان کو دگنی سزادی جائے گی ۔ اور آیت : ۔ وَإِنْ تَكُ حَسَنَةً يُضاعِفْها[ النساء/ 40] اور اگر نیکی ( رکی ) ہوگی تو اس کو دو چند کر دیگا ۔ میں یضاعف ( مفاعلۃ پڑھا ہے اور کہا ہے کہ اس سے نیکیوں کے دس گناہ ہونے کی طرف اشارہ ہے علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا
Top