Mutaliya-e-Quran - Al-Kahf : 83
وَ یَسْئَلُوْنَكَ عَنْ ذِی الْقَرْنَیْنِ١ؕ قُلْ سَاَتْلُوْا عَلَیْكُمْ مِّنْهُ ذِكْرًاؕ
وَيَسْئَلُوْنَكَ : اور آپ سے پوچھتے ہیں عَنْ : سے (بابت) ذِي الْقَرْنَيْنِ : ذوالقرنین قُلْ : فرمادیں سَاَتْلُوْا : ابھی پڑھتا ہوں عَلَيْكُمْ : تم پر۔ سامنے مِّنْهُ : اس سے۔ کا ذِكْرًا : کچھ حال
اور اے محمدؐ، یہ لوگ تم سے ذوالقرنین کے بارے میں پوچھتے ہیں ان سے کہو، میں اس کا کچھ حال تم کو سناتا ہوں
[وَيَسْـــَٔـلُوْنَكَ : یہ لوگ پوچھتے ہیں آپ ﷺ سے ] [عَنْ ذِي الْقَرْنَيْنِ : ذوالقرنین کے بارے میں ] [قُلْ : آپ ﷺ کہیے ] [سَاَتْلُوْا : میں پڑھ کر سنائوں گا ] [عَلَيْكُمْ : تم لوگوں کو ] [مِّنْهُ : اس میں سے ] [ذِكْرًا : بطور نصیحت کے ] نوٹ۔ 1: ذوالقرنین کا نام ذوالقرنین کیوں ہوا۔ اس کی وجہ میں بیشمار اقوال اور سخت اختلافات ہیں۔ مگر اتنی بات متعین ہے کہ قرآن نے خود ان کا نام ذوالقرنین نہیں رکھا، بلکہ یہ نام یہود نے بتلایا۔ ان کے یہاں اس نام سے ان کی شہرت ہوگئی۔ واقعۂ ذوالقرنین کا جتنا حصّہ قرآن کریم نے بتلایا ہے اس سے سوال کرنے والے یہود مطمئن ہوگئے۔ انھوں نے مزید یہ سوال نہیں کئے کہ ان کا نام ذوالقرنین کیوں تھا، یہ کس ملک اور کس زمانے میں تھے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان سوالات کو خود یہود نے بھی غیر ضروری اور فضول سمجھا۔ اور یہ ظاہر ہے جس سے کوئی فائدہ دین یا دنیا کا متعلق ہو یا جس پر کسی چیز کا سمجھنا موقوف ہو۔ اس لئے نہ قرآن کریم نے ان چیزوں کو بتلایا اور نہ کسی حدیث میں اس کی تفصیلات بیان کی گئیں۔ (معارف القرآن)
Top