Mutaliya-e-Quran - Maryam : 41
وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِبْرٰهِیْمَ١ؕ۬ اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا   ۧ
وَاذْكُرْ : اور یاد کرو فِي الْكِتٰبِ : کتاب میں اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم اِنَّهٗ كَانَ : بیشک وہ تھے صِدِّيْقًا : سچے نَّبِيًّا : نبی
اور کتاب میں ابراہیم کی سرگزشت کو یاد کرو۔ بیشک وہ راست باز اور نبی تھا
آگے کا مضمون۔ آیات 41 تا 63: آگے حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ ، حضرت اسماعیل اور حضرت ادریس (علیہم السلام) کی سیرت اور ان کی تعلیم و دعوت کا اجمالی حوالہ ہے اور مقصود اس حوالہ سے ایک طرف تو نصاری پر یہ حقیقت واضح کرنا ہے کہ حضرت عیسیٰ سے پہلے جو انبیاء عظام، آدم و نوح اور ابراہیم و اسرائییل (علیہم السلام) کی نسل سے گزرے ہیں ان سب کی تعلیم و دعوت یہی رہی ہے جو آج اللہ کا رسول تمہارے سامنے پیش کررہا ہے لیکن تم ایسے ناخلف نکلے کہ تم نے ان نبیوں کی تعلیم ضائع کدی اور اس کی جگہ بدعتوں اور ضلالتوں میں مبتلا ہوگئے۔ دوسری طرف قریش کو متنبہ کرنا ہے کہ ابراہیم و اسماعیل (علیہما السلام) کو جن کے ساتھ نسبت اور جن کے دین کے حامل و وارث ہونے کے تم مدعی ہو، ان خرافات سے کوئی تعلق نہیں تھا جن کو تم آج ملت ابراہیم کے نام سے پوج رہے ہو۔ اصل ملت ابراہیم یہ ہے جس کی دعوت تمہیں قرآن دے رہا ہے لیکن تم اس کی تکذیب کر رہے ہو۔ اس روشنی میں آگے کی آیات تلاوت فرمائیے۔ وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَبِيًّا۔ حضرت ابراہیم کے ذکر کی تقدیم کی وجہ : حضرت ابراہیم ؑ چونکہ نبوت و رسالت کے دونوں سلسلوں کے، جو حضرت اسحاق اور حضرت اسماعیل سے قائل ہوئے، مسلمہ امام ہیں اس وجہ سے سب سے پہلے انہی کی سرگزشت اور دعوت وتعلیم کا حوالہ دیا تاکہ بنی ارائیل اور بنی اسماعیل دونوں پر حجت قائم ہوسکے۔ " الکتاب " سے مراد : " الکتاب " سے مراد عام طور پر ہمارے مفسرین نے قرآن کو لیا ہے۔ اگرچہ اس کا بھی ایک محل ہے لیکن میں نے اس سے کتب سابقہ کو مراد لیا ہے۔ میرے نزدیک یہ لفظ یہاں بھی اور آگے جہاں جہاں بھی انبیاء کے ذکر کے سلسلہ میں آیا ہے بطریق حوالہ ہے۔ یعنی تورات و انجیل کے حوالہ سے یہ یاد دہانی کی گئی ہے کہ تمام جلیل القدر انبیاء کی دعوت اور تعلیم وہی رہی ہے جو قرآن پیش کررہا ہے۔ اس قرآن کو جھٹلانے والے درحقیقت اپنے انبیاء اور اپنے صحیفوں کی بھی تکذیب کررہے ہیں۔ اور اگر اس سے قرآن کو مراد لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس کتاب میں اس کے مخالفین کو ان کے انبیاء کی سرگزشت سناؤ کہ وہ اس سے سبق حاصل کریں۔ یہ ان کے لیے رحمت و برکت ہے۔ اگر اس سے انہوں نے فائدہ نہ اٹھایا تو خود اپنے کو اللہ کی نعمت سے محروم کریں گے، کسی دوسرے کا کچھ نہیں بگاڑیں گے۔ ان دونوں صوتوں میں لفظ کا محمل تو ضرور بدل جائے گا لیکن مدعائے کلام میں کچھ ایسا فرق واقع نہیں ہوگا۔ یہاں حضرت ابراہیم کی صدیقیت کے ذکر کا ایک خاص پہلو : یہاں حضرت ابراہیم کی صدیقیت کے پہلو کو خاص طور پر نمایاں کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں اہل کتاب اور مشرکین عرب دونوں کو اس بات پر ملامت کی جا رہی ہے کہ تم حضرت ابراہیم کی وراثت اور ان کی ذریت ہونے کے مدعی تو بنے بیٹھے ہو لیکن حال یہ ہے کہ تم نے ابراہیم کی دعوت اور ان کی تعلیم کو بالکل برباد کرکے، اس کی جگہ ایک نیا دین کھڑا کرلیا ہے۔ ابراہیم تمہاری طرح خدا سے بدعہدی اور بےوفائی کرنے والے نہیں تھے بلکہ صداقت شعار، راست باز اور کامل وفادار تھے۔ خدا نے ان کو جن آزمائشوں میں ڈالا ان میں وہ پورے اترے اور ان امتحانوں میں پورے اترنے ہی کہ صلہ میں اللہ نے ان کو امتوں کی امامت کے منصب پر سرفراز فرمایا۔ تم اگر ان کی وراثت اور ان امتحانوں میں پورے اترنے ہی کے صلہ میں اللہ نے ان کو امتوں کی امامت کے منصب پر سرفراز فرمایا۔ تم اگر ان کی وراثت اور ان کے ساتھ نسبت کے حق دار ہوسکتے ہو تو اس صورت میں ہوسکتے ہو جب کہ پوری راستبازی کے ساتھ اس عہد کو پورا کرو جو ابراہیم کے واسطہ سے تم نے خدا سے باندھا ہے۔ اس کے بغیر نہ تم ابراہیم کے ساتھ کسی نسبت کے حق دار ہو اور نہ اس امات ہی میں تمہاری کوئی حصہ ہے جس کا وعدہ اللہ نے ابراہیم اور ان کی ذریت کے لیے فرمایا۔ سورة بقرہ میں حضرت ابراہیم کی اس صدیقیت اور اس کے صلہ و انعام کا یوں ذکر ہوا ہے۔ " وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا قَالَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي قَالَ لا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ : اور یاد کرو جب کہ ابراہیم کو اس کے رب نے چند باتوں میں جانچا تو وہ اس نے پوری کردکھائیں۔ اس کے رب نے فرمایا کہ اب میں تمہیں قوموں کا امام بنانے والا ہوں۔ اس نے سوال کیا۔ اور میری ذریت کو بھی ؟ فرمایا کہ میرا یہ وعدہ ان سے متعلق نہیں ہے جو اپنی جانوں پر ظلم ڈھانے والے ہوں گے " (بقرہ :124) یہاں کلمات سے مراد ظاہر ہے کہ وہی امتحانات ہیں جن میں حضرت ابراہیم مبتلا کیے گئے اور وہ ان میں سو فیصدی کامیاب رہے۔ ان امتحانات کا ذکر قرآن میں تفصیل سے ہوا ہے اور ہم بقرہ کی تفسیر میں ان کا حوالہ دے چکے ہیں۔ انہی امتحانوں میں کامیابی کے صلہ میں اللہ تعالیٰ نے ان کو صدیق کے لقب سے نوازا اور قوموں کی امات کے منصب پر سرفراز فرمایا اور ساتھ ہی حضرت ابراہیم کے سوال کے جواب میں یہ حقیقت بھی واضح فرمادی کہ یہ منصب نام و نسب کے ساتھ وابستہ نہیں ہے بلکہ اعمال و کردار کے ساتھ وابستہ ہے۔ حضرت ابراہیم کی اولاد میں سے بھی وہی لوگ اس کے حقدار ٹھہریں گے جو اپنے باپ کی صدیقیت کی لاج رکھیں گے۔ جو اپنی جانوں پر ظلم ڈھانے والے اور شرک و کفر کے علمبردار بن جائیں گے ان کے لیے اس میں کوئی حصہ نہیں ہے، خواہ وہ بنی اسحاق میں سے ہوں یا بنی اسماعیل میں سے۔ سورة مریم کی زیر بحث آیت کے اصلی زور کو سمجھنے کے لیے لفظ " صدیق " کے ان تمام مضمرات کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے اس کے بغیر آگے کے کلام کا اصلی رخ معین نہ ہوسکے گا۔
Top