Mutaliya-e-Quran - Al-Baqara : 110
وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ١ؕ وَ مَا تُقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِكُمْ مِّنْ خَیْرٍ تَجِدُوْهُ عِنْدَ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ
وَاَقِیْمُوْا الصَّلَاةَ : اور تم نماز قائم کرو وَاٰتُوْا الزَّکَاةَ : اور دیتے رہوتم زکوۃ وَمَا : اور جو تُقَدِّمُوْا : آگے بھیجو گے لِاَنْفُسِكُمْ : اپنے لیے مِنْ خَيْرٍ : بھلائی تَجِدُوْهُ : تم اسے پالو گے عِنْدَ اللہِ : اللہ کے پاس اِنَّ : بیشک اللہ : اللہ بِمَا : جو کچھ تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو بَصِیْرٌ : دیکھنے والا ہے
نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو تم اپنی عاقبت کے لیے جو بھلائی کما کر آگے بھیجو گے، اللہ کے ہاں اسے موجود پاؤ گے جو کچھ تم کرتے ہو، وہ سب اللہ کی نظر میں ہے
[ وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ : اور تم لوگ نماز کو قائم کرو ] [ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ ۭ : اور پہنچاؤ زکاۃ کو ] [ وَمَا تُقَدِّمُوْا : اور جو تم لوگ آگے بھیجو گے ] لِاَنْفُسِكُمْ : اپنے آپ کے لیے ] [ مِّنْ خَيْرٍ : کوئی بھی بھلائی ] [ تَجِدُوْهُ : تو تم لوگ پاؤ گے اس کو ] [ عِنْدَ اللّٰهِ ۭ : اللہ کے پاس ] [ اِنَّ اللّٰهَ : ب یقینا اللہ ] [ بِمَا تَعْمَلُوْنَ : اس کی جو تم لوگ کرتے ہو ] [ بَصِيْرٌ : ہر حال میں دیکھنے والا ہے۔ وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ… بعینہٖ یہی عبارت جو دو جملوں پر مشتمل ہے سب سے پہلے البقرہ : 43 میں گزری ہے۔ اس کی اعرابی بحث کے لیے دیکھیے [ 2: 29: 2] میں جملہ نمبر 2 ۔ اس کے بعد یہی عبارت البقرہ : 83 میں بھی آئی تھی ‘ جس کے اعراب پر بات [ 2: 51: 2] میں جملہ نمبر 5 میں ہوئی تھی۔ F وَمَا تُقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِکُمْ مِّنْ خَیْرٍ تَجِدُوْہُ عِنْدَ اللّٰہِ [ وَ ] مستانفہ ہے۔ یہاں سے ایک الگ مضمون شروع ہوتا ہے۔ اسی لیے اس سے پہلے عبارت کے آخر پر وقف مطلق (ط) ہے۔ [ مَا ] موصولہ شرطیہ ہے بمعنی ” جو کچھ بھی کہ “ جو یہاں اگلے فعل الشرط (تُقَدِموا) کا مفعول مقدم ہو کر محل نصب میں ہے۔ مبنی ہونے کی وجہ سے ” مَا “ میں ظاہراً کوئی علامت نصب نہیں ہے۔ [ تُقَدِّمُوْا ] فعل مضارع مجزوم (سیغہ جمع مذکر حاضر) ہے۔ جزم کی وجہ اس سے پہلے اسم الشرط جازم (مَا) کا آنا ہے اور اس (فعل الشرط) کی علامت جزم آخری نون (اعرابی) کا گر جانا ہے۔ اب اس کے واو الجمع میں ضمیر الفاعلین ” انتم “ شامل ہے۔ [ لِاَنْفُسِکم ] یہ مرکب جاری جو لام الجر (لِ ) + کم کا مرکب ہے اور جس میں انفسکم “ مرکب اضافی ہے اور ” انفس “ مجرور اور آگے مضاف ہونے کے باعث خفیف بھی ہے۔ علامت جر کسرہ (-ِ ) ہوگئی ہے۔ یہ پورا مرکب جاری (لِاَنفُسِکم) فعل ” تقدِّموا “ سے متعلق ہے اور [ مِن خَیْر ] جار (مِن)+ مجرور (خَیْرٍ ) مل کر اس فعل (تُقَدِّمُوا) کے مفعول مقدم (مَا) کی صفت یا تمیز ہے جس میں ” مِن “ تبعیضیہ بھی ہوسکتا ہے اور بیانیہ بھی۔ دیکھیے [ 2: 2: 1 (5)] یہاں تک کہ حصہ عبارت (وَ ما تقدِّموا لانفسِکم مِن خیرٍ ) کی سلیس و سادہ شکل (فعل فاعل مفعول کی عام ترتیب کے مطابق) ” وَ ما تقدِّموا من خیرٍ لانفُسِکم “ ہوتی۔ اب ” لِاَنفسُسِکم “ کی تقدیم سے اس میں ” اپنی ہی جانوں کے لیے : اپنے ہی لیے “ کا مفہوم ہے۔ [ تَجِدُوہُ ] کی آخری ” ہ “ تو ضمیر منصوب (مفعول) ہے اور ” تَجِدُوا “ (ضمیر مفعول کے بغیر واو الجمع کے بعد الف الوقایہ لکھنا ضروری ہوتا ہے) فعل مضارع مجزوم ہے۔ جزم کی وجہ جوابِ شرط میں آتا ہے اور علامت جزم آخری نون کا گرنا ہے (در اصل صیغہ مضارع ” تَجِدون “ تھا) اور واو الجمع میں ضمیر الفاعلین ” انتم “ موجود ہے۔ یہاں فعل ” وجَد یجِد “ صرف ایک مفعول کے ساتھ بمعنی ” پالینا : حاصل کرنا “ آیا ہے۔ [ عندَ اللّٰہِ ] میں ” عِنْدَ “ ظرف مکان مضاف (لہٰذا) منصوب ہے ‘ علامت نصب ” د “ کی فتحہ (-َ ) ہے اور اسم جلالت اس کا مضاف الیہ ہو کر مجرور ہے اور یہ مرکب ظرفی فعل ” تَجِدُوا “: سے متعلق ہے ‘ یعنی اس میں ” کہاں : کس جگہ پائو گے “ کا جواب ہے۔ G اِنَّ اللّٰہَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ … اس سے ملتا جلتا جملہ ” وَاللّٰہُ بصیرٌ بما یَعْمَلون “ : البقرہ : 96 میں گزرا ہے جس کے اعراب پر [ 2: 59: 2] کے جملہ نمبر 5 میں بات ہوچکی ہے۔ بہر حال یہاں جملہ [ اِنَّ ] حرف مشبہ بالفعل سے شروع ہوتا ہے اور اسم جلالت [ اللّٰہ ] اس ” اِنَّ “ کا اسم ہو کر منصوب ہے۔ [ بِمَا ] باء جارہ یہاں فعل (بصُر بِہ - کو دیکھنا) کے صلہ والی ہے اور ” مَا “ اسم موصول مجرور (بِالبَائ) ہے اور ” مَا “ مبنی ہے “ اس لیے اس میں ظاہراً کوئی علامت جر نہیں ہے۔ [ تعمَلُون ] فعل مضارع معروف صیغہ جمع مذکر حاضر ہے جس میں ضمیر فاعلین ” انتم “ شامل ہے اور یہ جملہ فعلیہ (فعل فاعل) ہو کر موصول ہے جس میں ضمیر عائد محذوف ہے ‘ یعنی در اصل ” تعمَلونَہٗ “ : تھا۔ اور یہ صلہ موصول (مَا تعمَلون) باء الجر کے ساتھ (بصورت ” بما تعمَلُون “ متعلق خبر مقدم ہے اور [ بَصِیرٌ] خبر ” اِنَّ “ (لہٰذا) مرفوع ہے جملے کی سادہ نثر ” اِن اللّٰہَ بصیرٌ بما تعملون “ بنتی ہے جس میں رعایت فاصلہ کی بناء پر متعلق خبر (بما تعملون) کو مقدم کردیا گیا ہے۔ خیال رہے فعل ” یبصُر بِ اور صفتِ مشبہ ” بصیرٌ بِ …“ دونوں کا مطلب تو ”… کو دیکھتا : دیکھنے والا “ بنتا ہے مگر صفت مشبہ میں دوام و استمرار کا مفہوم ہے جیسا کہ حصہ ” اللّغۃ “ میں بیان ہوا۔ 2: 66: 3 الرّسم بلحاظ رسم زیر مطالعہ قطعہ میں صرف چار لفظ قابل ذکر ہیں یعنی ” الکتٰب ‘ ایمَانُکم ‘ الصلٰوۃ اور الزکٰوۃ “ … ان میں سے ” ایمانکم “ کا رسم عثمانی مختلف فیہ ہے۔ باقی تین کا رسم متفق علیہ ہے۔ یہ چاروں الفاظ پہلے بھی گزر چکے ہیں … ” الکتٰب “ کے رسم کے لیے دیکھیے البقرہ : 2 [ 2: 1: 3] میں نمبر 2 ۔ ” ایمانکم “ کے لفظ ” ایمان “ کے رسم کے اختلاف کے لیے دیکھیے البقرہ : 93 [ 2: 57: 3] میں نمبر 6 ۔ ” الصلوۃ “ کے رسم پر بحث کے لیے دیکھیے البقرہ : 3 [ 2: 2: 3] میں نمبر 1 اور پھر ” الصلٰوۃ “ اور ” الزکٰوۃ “ دونوں کے رسم کے لیے دیکھیے البقرہ : 43 [ 2: 29: 3) میں نمبر 2 ۔ 2: 66: 4 الضبط اس قطعہ سے صرف بعض چیدہ الفاظ (مفرد و مرکب) کے ضبط بطور نمونہ درج ذیل ہیں۔ اکثر الفاظ پہلے متعدد بار گزر چکے ہیں یا ان کے ضبط میں صرف حرکات کی شکل کا اختلاف ہے۔
Top