Mutaliya-e-Quran - Ash-Shu'araa : 59
كَذٰلِكَ١ؕ وَ اَوْرَثْنٰهَا بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَؕ
كَذٰلِكَ : اسی طرح وَاَوْرَثْنٰهَا : اور ہم نے وراث بنایا ان کا بَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل
یہ تو ہوا اُن کے ساتھ، اور (دوسری طرف) بنی اسرائیل کو ہم نے ان سب چیزوں کا وارث کر دیا
كَذٰلِكَ ۭ [ اسی طرح ہے ] وَاَوْرَثْنٰهَا [ اور ہم نے وارث بنایا ان (چیزوں) کا ] بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ [ نبی اسرائیل کو ] نوٹ۔ 2: واورثنھا میں ضمیر مفعولی ھا سے مراد بعینہ وہی نعمتیں نہیں ہیں جن سے فرعونیوں کو اللہ تعالیٰ نے نکالا بلکہ اسی نوع کی وہ نعمتیں ہیں جو بنی اسرائیل کو مصر سے نکلنے کے بعد فلسطین میں حاصل ہوئیں۔ چناچہ الاعراف کی آیت ۔ 137 ۔ میں اس کی تصریح بھی ہے۔ اس آیت میں ارض مبارک سے مراد فلسطین ہے۔ مصر سے نکلنے اور صحرا نور دی کا دور ختم ہونے کے بعد یہی زرخیز علاقہ بنی اسرائیل کے قبضے میں آیا ہے ۔ مصر کے کسی علاقے پر بنی اسرائیل کا قبضہ تاریخ سے ثابت نہیں ہے۔ واضح رہے کہ عربی میں ضمیروں کا اس طرح کا استعمال معروف ہے۔ قرآن مجید میں اس کی متعدد مثالیں ہیں۔ سورة مائدہ کی آیت۔ 102 ۔ اس کی نہایت واضح مثال ہے۔ اس آیت میں مسلمانوں کو بنی اسرائیل کے سوالات کی نوعیت کے سوالات کرنے سے روکا گیا ہے۔ اس میں الفاظ آئے ہیں قَدْ سَاَلَهَا قَوْمٌ مِّنْ قَبْلِكُمْ (پوچھ چکی ہے ان کو ایک قوم تم لوگوں سے پہلے) ۔ ظاہر ہے کہ یہاں مفعولی ضمیر ھا جن سوالات کے لئے ہے بعینہ وہی سوالات بنی اسرائیل نے نہیں کئے تھے۔ بلکہ اسی قبیل کے سوالات کئے تھے۔ اسی طرح آیت زیر بحث میں بھی بعینہ وہی باغ چشمے اور خزانے مراد نہیں ہیں جن کا سابق آیت میں ذکر ہے بلکہ اسی نوع کی وہ نعمتیں اور برکتیں مراد ہیں جو بنی اسرائیل کو مصر سے ہجرت کے بعد فلسطین میں حاصل ہوئیں۔ (تدبر قرآن)
Top