Mutaliya-e-Quran - Aal-i-Imraan : 102
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِهٖ وَ لَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ اٰمَنُوا : ایمان لائے اتَّقُوا : تم ڈرو اللّٰهَ : اللہ حَقَّ : حق تُقٰتِھٖ : اس سے ڈرنا وَلَا تَمُوْتُنَّ : اور تم ہرگز نہ مرنا اِلَّا : مگر وَاَنْتُمْ : اور تم مُّسْلِمُوْنَ : مسلمان (جمع)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے تم کو موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو
[يٰٓاَيُّھَا الَّذِينَ : اے لوگو جو ] [اٰمَنُوا : ایمان لائے ] [اتَّقُوا : تم لوگ تقویٰ کرو ] [اللّٰہَ : اللہ کا ] [حَقَّ تُقٰتِہٖ : (جیسا کہ) اس کے تقویٰ کا حق ہے ] [وَلاَ تَمُوْتُنَّ : اور تم لوگ ہرگز مت مرنا ] [اِلاَّ : مگر ] [وَ : اس حال میں کہ اَنْتُمْ : تم لوگ ] [مُّسْلِمُوْنَ : فرماں برداری کرنے والے ہو ] ح ب ل حَبَلَ (ن) حَبْلاً : رسّی سے باندھنا۔ حَبْلٌ ج حِبَالٌ (اسم ذات) : رسّی ‘ معاہدہ۔ { فَاَلْـقَوْا حِبَالَھُمْ وَعِصِیَّھُمْ } (الشعرائ :44) ” تو انہوں نے ڈالیں اپنی رسّیاں اور اپنی لاٹھیاں۔ “ شو شَفَا (ن) شَفْوًا : چاند نکلنا ‘ کسی چیز کا کنارہ ظاہر ہونا۔ شَفَا : ہر چیز کا کنارا۔ آیت زیر مطالعہ۔ حر حَفَرَ (ض) حَفْرًا : مٹی کھودنا ‘ گڑھا بنانا۔ حَافِرَۃٌ (اسم الفاعل) : مٹی کھودنے والا ‘ پھر استعارۃً گھوڑے کے سُم اور دوسرے قدموں کے لیے آتا ہے جو چلتے وقت مٹی اڑاتے ہیں۔ { ئَ اِنَّا لَمَرْدُوْدُوْنَ فِی الْحَافِرَۃِ ۔ } (النّٰـزعٰت) ” کیا ہم لوگ ضرور لوٹائے جانے والے ہیں قدم میں یعنی الٹے پائوں۔ “ حُفْرَۃٌ (اسم ذات) : گڑھا۔ آیت زیر مطالعہ۔ ن ق ذ نَـقَذَ (ن) نَقْذًا : نجات دینا ‘ چھوڑنا۔ اَنْقَذَ (افعال) اِنْقَاذًا : کسی آنے والی مصیبت سے بچانا۔ آیت زیر مطالعہ۔ اِسْتَنْقَذَ (استفعال) اِسْتِنْقَاذًا : کسی مصیبت میں گرفتار کو چھڑانا ‘ نجات دلانا۔ { وَاِنْ یَّسْلُبْھُمُ الذُّبَابُ شَیْئًا لاَّ یَسْتَنْقِذُوْہُ مِنْہُط } (الحج :73) ” اور اگر چھین لے ان سے مکھی کوئی چیز تو وہ لوگ نہ چھڑا سکیں اس کو اس سے۔ “ ترکیب :” جَمِیْعًا “ تمیز ہے۔ ” تَفَرَّقُوْا “ کی ایک ” تا “ گری ہوئی ہے ‘ یعنی یہ فعل نہی ” لاَ تَتَفَرَّقُوْا “ ہے۔ ” کُنْتُمْ “ کی خبر ” اَعْدَائً “ ہے۔ ” اَصْبَحْتُمْ “ فعل ناقص ہے۔ اس کا اسم ” اَنْتُمْ “ کی ضمیر ہے اور ” اِخْوَانًا “ اس کی خبر ہے۔ ” وَکُنْتُمْ “ کی خبر محذوف ہے جو ” قَائِمِیْنَ “ ہوسکتی ہے۔” عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ “ قائم مقام خبر ہے۔ ” فَاَنْقَذَ “ کا فاعل اس میں ” ھُوَ “ کی ضمیر ہے جو اللہ کے لیے ہے۔ ” یُـبَــیِّنُ “ کا مفعول ہونے کی وجہ سے ” اٰیٰتِہٖ “ منصوب ہے۔
Top